-
قرآن کی ایک آیت کے رسم الخط پر اشکال اور اس کا حل : شیخ محمد عبد المحسن محمد عبد الجبار
قال اللہ عزوجل: {لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ} [ العلق:۱۵]
متعاون دعاۃ کے گروپ میں مفتی طارق مسعود حفظہ اللہ کی کلپ جو آپ نے ارسال کی ہے خاکسار نے پوری کلپ سن لی ہے، سب سے اہم بات اس کلپ میں یہ ہے کہ وہ سورۃ العلق کی آیت نمبر۱۵میںاعرابی غلطی ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس تعلق سے درج ذیل باتیں ملاحظہ ہوں :
اولاً: ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کا محافظ خود اللہ ہے رسول ﷺ اُمی (ان پڑھ)ضرور تھے لیکن اللہ اُمی (ان پڑھ) نہ تھا ، اور اگر یہ غلط تھا تو اللہ نے اس غلطی سے آگاہ کیوں نہیں فرمایا ، خطا کا وجود اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ خطا کا ادراک نہیں کر سکا ، اس سے اللہ پر تہمت تراشی لازم آتی ہے۔
ثانیا ً: یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کے اندر کی یہ خامی دور صدیقی میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی کمیٹی کو بھی نظر نہ آئی ، پھر دور عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں جب اس کے متعدد نسخے تیار کئے گئے تب بھی کسی کو نظر نہ آ ئی پھر چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ خامی صرف مفتی صاحب کو نظر آئی۔
ثالثاً: اللہ کے کلام سے فصیح اور بلیغ کسی کا کلام نہیں ہے ، اگر اس کے کلام میں مذکورہ قرأ ت جائز ہے تو وہ عربی گرامر کے خلاف نہیں ہو سکتا، ممکن ہے ہم اس سے واقف نہ ہوں اور عربی قواعد کی کتابوں میں اس کا کوئی حل موجود ہو اور اس باب میں کو ئی قاعدہ و ضابطہ محفوظ ہو ۔
چنانچہ جب ہم عربی قواعد کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسے عربی قواعد کے موافق پاتے ہیں ،ملاحظہ ہو :
نحو کی مشہور کتاب جو مبرد متوفی ۲۸۵ھ کی طرف منسو ب ہے اس میں محقق نے ایک ذیلی عنوان قائم کیا ہے:
هٰذَا بَابُ الْوُقُوْفِ عَلَي النُّوْنَيْنِ: الْخَفِيفَة والثقيلة ۔
ترجمہ: ’’یہ باب نون ثقیلہ اور نون خفیفہ دونوں پر وقف کرنے کے بیان میں ہے ‘‘۔
قاعدہ ہے کہ: نون تاکید خفیفہ جب کلمہ میں فتحہ کے بعد واقع ہو تو وقف کے وقت تنوین کو الف سے بدل دیا جاتا ہے ۔جیسے:’’’إٍضرِبَنْ زَيْداً ‘‘ ہے یہاں فعل سے نون خفیفہ ملحق ہے اور اس سے پہلے حرف(الباء )مفتوح ہے اسے بوقت وقف الف سے بدل دیا جائے گا اور پڑھا جائے گا إٍضرِباً زَيْداً ۔بعینہٖ ’’لنسفعا بالناصية‘‘میں اور’’وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِيْنَ‘‘میں ہوا ہے کہ اصل میں تھا ’’لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ‘‘اور’’وَلَیَکُونَن مِنَ الصَّاغِرِیْنَ ‘‘نون خفیفہ کلمہ سے ملحق ہوا جس کا ماقبل مفتوح ہے اسی وجہ سے نون خفیفہ کو وقف کے وقت الف سے بدل دیا گیا جس سے ’’لنسفعا‘‘ ہوگیااور یہاں تنوین کی بقا کا راز یہ ہے کہ تلفظ باقی رہے ، اسی طرح’’وَلَیَکُونًا‘‘بھی ہے کہ یہاں واو ٔحرف عطف ہے اعراب میں بے محل ہے، لام جواب قسم میں واقع ہے ،فتحہ پر مبنی ہے، اعراب میں بے محل ہے ، یکونن فعل مضارح فتحہ پر مبنی ہے کیونکہ نون تاکید خفیفہ اس سے ملحق ہے اور کان کا اسم خود اسی میں ہو کی ضمیر پوشیدہ ہے ، اور الف وقف کے لیے ہے ، ورنہ اصل کتابت اس کی لیکوننہے ۔
ملاحظہ : نون تاکید خفیفہ صرف وہیں الف سے بدلا جانا زیادہ مناسب ہے جہاں التباس کا خوف نہ ہو لیکن اگر التباس کا خوف ہو تو وہاں نون تاکید خفیفہ کو الف سے نہ بدلا جانا افضل ہے، جیسے:اضربن زیدًا ۔اگر آپ نے یہاں نون خفیفہ کو الف سے بدلا اور کہا: اضربا زیدًا تو (واحد )ایک کا حکم دو (تثنیہ )کے حکم سے ملتبس ہوجائے گا اس وجہ سے اس طرح کے مقامات پر نون کو الف سے بدلنے کو بعض نحویوں نے غیر مناسب سمجھا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگو ں نے مذکورہ قاعدہ پر عمل کرتے ہوئے بدل دیا ہے ، واللہ اعلم بالصواب !
نون تاکید خفیفہ کے تعلق سے مندرجہ بالا قاعدہ ملاحظہ ہو :
(۱) مبرد متوفی ۲۸۵ھ کے بقول: فَأَما الْخَفِيفَة فَإِنَّهَا فى الْفِعْل بِمَنْزِلَة التَّنْوِين فِي الِاسْم فَإِذا كَانَ مَا قبلهَا مَفْتُوحًا أبدلت مِنْهَا الْألف ۔ رہی بات نون خفیفہ کی تو یہ فعل کے اندر اسم میں تنوین کے مقام پر ہوتا ہے چنانچہ جس نون خفیفہ کا ماقبل مفتوح ہو گا تو نون خفیفہ الف سے بدل دی جائے گی ، اور یہ قاعدہ عرب کے یہاں جانا جاتا ہے چنانچہ ایک شاعر نے کہا : ولا تعبد الشیطان واللہ فاعبدایہاں اسی قاعدہ کے رو سے نون تاکید خفیفہ پر وقف کی خاطر الف سے بدل دیا گیا ہے اس کی اصل ہے فاعبدن ۔
==============================================
۱۔ سورۃ العلق:۱۵ ۲۔سورۃ ق :۲۴
۳۔ المقتضب:۳؍۱۷ ۴۔الکشف والبیان:۵؍۲۲۰، از: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی النیسابوری
یہی قاعدہ دیگر نحاۃ کے یہاں بھی ملاحظہ ہو:
(۲) بقول محمد بن عبد اللہ ، طائی ابن مالک متوفی ۶۷۲ھ: وأبدلنها بعد فتح ألفا…وقفا كما تقول في’’قفن‘‘ ’’قفا‘‘۔(۱)
ترجمہ : اور نون خفیفہ کو فتحہ کے بعد وقف کی خاطر الف سے بدل دو جیسا کہ تو وقف ش کی خاطر قفن سے قفا کہتا ہے۔
(۳) بدر الدین محمود بن احمد بن موسیٰ العینی متوفی۸۵۵ھ کہتے ہیں:
فى قوله:’’أثأراأصله: لأثأرن، فلما وقف عليها أبدلها ألفًا كما يقال: لنسفعًا فى قوله تعالٰي: لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَة۔
ترجمہ :کہتے ہیں لأثأرا اصل میں لأثأرن تھا لیکن جب نون پر وقف کیا گیا تو اسے الف سے بدل دیا گیا جیسے اللہ کے قول میں ’’لنسفعًا‘‘پڑھا جاتا ہے ۔
(۴) علی بن محمد بن عیسیٰ، نور الدین أُشْمُونی شافعی متوفی ۹۰۰ھ کے بقول: وأبدلنہا بعد فتح ألفا ۔۔۔ وقفًا: (۳)
ترجمہ: اور نون خفیفہ کو فتحہ کے بعد وقف کی خاطر الف سے بدل دو ۔
قرآن کے اعراب پر گفتگو کرنے والے علماء کے نزدیک بھی تقریبا ًیہی توضیح ہے ،ملاحظہ ہو :
(۱) بعض نے کہا ہے کہ یہی قاعدہ اللہ کے قول’’ أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ‘‘[سورۃ: ق:۲۴]، کے لفظ (أَلْقِيَا)سے لیا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ألقین پڑھا گیا ہے لیکن نون پر وقف کی خاطر الف سے بدل کر ألقیا ہو گیا ہے نہ کہ یہ أَلْقِ أَلْقِکا مخفف ہے ۔(۴)
اور یہی قاعدہ کے مطابق مرؤ القیس کے شعر :’’قِفَا نبكِ من ذِكري حبيبٍ ومنزِلِ‘‘۔(۵)میں لفظ : قِفَاہے کہ یہ قفن سے ہے نہ کہ یہ قِفْ قِفْ کا مخفف ہے ۔
(۲) بقول ابو محمد مکی بن ابی طالب قرطبی مالکی متوفی۴۳۷ھ : وَالْوَقْف عَلَيْهَا اذا انْفَتح مَا قبلهَا بِالْألف۔(۶) ترجمہ : اور نون خفیفہ پر وقف اگر اس کا ماقبل مفتوح ہو تو پھر الف پر ہوگا ۔
=============================================
۱۔ شرح الکافیۃ الشافیۃ:۳؍۱۴۱۴، ۲۔ ملاحظہ ہو: المقاصد النحویۃ فی شرح شواہد شروح الألفیۃ المشہور بـ شرح الشواہد الکبری:۴؍۱۸۱۲، ۳۔ ملاحظہ ہو: شرح الأشمونی بحاشیۃ الصبان:۳؍۲۲۶
۴۔ روح البیان:۹؍۱۲۳، ۵۔ الأغانی:۳؍۱۴۰،اصبہانی، إعراب القرآن وبیانہ:۹؍۲۹۱، کتاب إعراب ثلاثین سورۃ من القرآن الکریم:ص:۱۴۰،از :ابن خالو یہ ،متوفی:۳۷۰ھ
۶۔ مشکل إعراب القرآن :۲؍۸۲۸، از :أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش بن محمد بن مختار القیسی القیروانی ثم الأندلسی القرطبی المالکی (المتوفی:۴۳۷ھ)
(۳) بقول نحاس: الوقف عليه بالألف فرقا بينه وبين النون الثقيلة ولأنه بمنزلة قولك: رأيت زيدا۔(۱)
ترجمہ : نون خفیفہ پر الف کے ساتھ وقف کرنا فقط اس نون اور نون ثقیلہ کے مابین فرق کی وجہ سے کیونکہ یہ تمہارے قول رأیت زیدا کی طرح ہے ۔
(۴) بقول ابو البقاء عكبري: إذا وقف على هذه النون ابدل منها ألف لسكونها وانفتاح ما قبلها۔۔(۲)ترجمہ :جب اس نون پر وقف کیا جائے گا تو اسے الف سے بدل دیا جائے گا اس نون کے سکون اور اس کے ماقبل کے مفتوح ہونے سے ۔
(۵) بقول محی الدین درویش متوفی:۱۴۰۳ھ ـ: وکتبت بالألف فی المصحف علی حکم الوقف(۳) ترجمہ: یہاں مصحف میں الف کے ساتھ صرف وقف کے حکم کی بنیاد پر لکھا گیا ہے ۔
(۶) بقول سمین: الوقفُ علی ہذہ النونِ بالألفِ، تشبیہاً لہا بالتنوی۔(۴)اس نون پر الف کے ذریعہ وقف کرنا تنوین کے مشابہ قرار دیتے ہوئے ۔
اس لفظ کی قرأت میں بعض اقوال:
۱۔ ابو عمرو سے نون ثقیلہ کے اثبات کے ساتھ مروی ہے، جیسا کہ ہارون نے ان سے روایت کی ہے ،یعنی: لَنَسْفَعَنَّ (۵)
۲۔ رازی نے کہا ہے لَنَسْفَعَنَّ نون مشدد کے ساتھ پڑھا گیا ہے یعنی اس فعل کا فاعل اللہ اور فرشتے ہیں ۔(۶)
۳۔ عبد اللہ بن مسعود نے اسےلأَسفَعاً۔ ولأَسفَعَنَّ پڑھا ہے اور اسی طرح ان کے مصحف میں تھا ۔(۷)
ملاحظہ : ہم اگر موجودہ قرأ ت’ لنسفعا بالناصية‘‘کوثابت شدہ عربی قواعد کی مدد سے صحیح نہ بھی تسلیم کریں پھر بھی اسے غلط کہنے اور اس بنیاد پر قرآن کو مشکوک کرنے سے بہتر ہے کہ مذکورہ قرأ ت : لأَسفَعَنَّ اور لَنَسْفَعَنَّ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ذہن میں موجود اعتراض کا جواب دے سکتے ہیں اورموجودہ قرأ ت پرپیدا ہونے والے اشکال کا جواب اسے بنا سکتے ہیں ۔
=============================================
۱۔ إعراب القرآن:۵؍۱۶۳، ۲ ۔ التبیان فی إعراب القرآن:۲؍۲۹۰،
۳۔ إعراب القرآن وبیانہ:۱۰؍۵۲۸، ۴۔معانی القرآن وإعرابہ:۵؍۳۴۵،ازإبراہیم الزجاج متوفی: ۳۱۱ھـ ،
۵۔ اللباب فی علوم الکتاب:۲۰؍۴۲۱، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز :۵،ظ۵۰۳، الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون:۱۱؍۱۰،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی:۲۳؍۵۰،
۶۔مفاتیح الغیب:۳۲؍۲۲۴،
۷۔ الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل:۴؍۷۷۸، مراح لبید لکشف معنی القرآن المجید :۲؍۶۴۹،روح المعانی فی تفسیر القرآن:۲۳؍۵۰، الکشاف :۷؍۳۱۳، المحرر الوجیز: ۷؍۴۷از ابن عطیہ محاربی ، متوفی:۵۴۲ھ ،
میزان: یہاں اس باریکی کو سمجھنا چاہئے کہ قرآن کو میزان بنا کر نحو کے قواعد پڑ ھے اور پڑھائے جائیں نہ کہ قرآن کو ان پر تولا جائے ، نحو کے ان اساتذہ کو اللہ مزید علم سے نوازے جو عربی قواعد پڑھاتے وقت اپنے طلبہ کوقرآن سے دلائل فراہم کرتے ہیں اس سے طلبہ کی ذہن سازی ہوتی ہے کہ قرآن میں یہ قاعدہ پہلے سے موجود ہے اور جب ایسا نہیں ہوتاہے بلکہ طلبہ کو ہمیشہ خود ساختہ مثالوں سے قواعد نحو کی تعلیم دی جاتی ہے تو طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ صاحب کتاب اور استاذ نے مل کر یہ ضابطہ وضع کی ہے اب ہمیں قرآن کو اس ترازو پر تولنا ہوگا اگر اس کے موافق قرآن کی عبارت ہے تو صحیح ورنہ کہہ دیں گے کہ کاتبان وحی سے بھول ہوگئی اور رسول ﷺچونکہ ان پڑھ تھے وہ اس کا استدراک نہیں کر سکے، یہاں بھی کچھ ایسے ہی ہوا ہے نحوی عالم غلط نہیں ٹھہرا ہم نے جس استاذ سے نحو سیکھا وہ غلط نہیں ٹھہرا بلکہ آسانی سے ہم نے قرآن کو غلط کہہ دیا۔
قرآن کے رسم الخط کا امتیاز: اسی طرح قرآن سے متعلق ایک بات واضح رہے کہ قرآن کا رسم الخط متواتر ہے ،لہٰذا جو قاعدہ قرآن کے رسم الخط سے ٹکرائے وہاں قرآن کو غلط نہ کہہ کر اس کے خلاف وضع کئے گئے گرامر کو غلط کہا جا سکتا ہے، یا یہ سمجھا جائے کہ قرآن کے رسم الحظ کو موجودہ عام عربی رسم الخط کے گرامر پرنہ تولا جائے بلکہ قرآن کا رسم الخط اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اس کے خلاف وضع کئے گئے قواعد کا اعتبار نہ کیاجائے کیونکہ قرآن کا ثبوت متواتر ہے اور اس کا خط بھی متواتر ہے، اس متواتر کو کسی غیر متواتر سے غلط نہیں کیا جاسکتا ہے، رسم مصحف عثمانی کی چند مثالیں عام عربی خط جس کے خلاف ہے :
۱۔ بسم اللّٰه۔[الفاتحة:۱] اقْرَأْ بِاسْمِ۔[ العلق:۱]
۲ ۔ قَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ۔[ الحجر :۱۳] فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ۔[الأنفال:۳۸]
۳۔ مَنْ يَّتَّبِعُ الرَّسُولَ۔[ البقرة:۱۴۳] وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا۔[ الاحزاب:۶۶]
۴۔ أَنْ تَضِلُّوا السَّبِيلَ۔ [النساء:۴۴] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا۔[ الاحزاب:۶۷]
۵۔ لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ۔ [النساء:۱۶۶] لٰكِنَّا هُوَ اللّٰهُ رَبِّي۔ [الكهف:۳۸]
۶۔ قُلْ إِنِّي عَلَي بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي۔[الأنعام :۵۷]، فَهُمْ عَلَي بَيِّنَتٍ مِنْهُ۔[الفاطر:۴۰]
مقابل میں وہی کلمہ موجودہ عام رسم الخط کے خلاف ہے لیکن وہ چونکہ متواتر ہے اس وجہ سے اسے غلط کہنا قطعاً درست نہیں ہے ۔
ابو عمر فرماتے ہیں: مصاحف کے تمام کتاب(لکھنے والوں )کا اس پر اتفاق ہے کہ نون خفیفہ الف کے رسم میں لکھا جائے گا ، اور اس کی صرف دو جگہیں ہیں ایک سورۃ یوسف :۲۳، اللہ تعالیٰ کا قول :
وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ ۔دوسری جگہ سورۃ العلق :۱۵،اللہ تعالیٰ کا قول: لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ ۔
اور یہ گنجائش وقف کی بنیاد پر ہے۔(۱)
=============================================
۱۔ رسم المصحف العثمانی وأوہام المستشرقین فی قراء ات القرآن الکریم:ص:۲۲
کہا جاتا ہے کہ ابو حیان غرناطی متوفی ۷۴۵ھ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۷۲۸ھ کے پاس آئے اور دونوں کے مابین کسی مسئلہ میں گفتگو کے دوران سیبویہ کا ذکر ہوا، ابو حیان رحمہ اللہ نے سیبویہ متوفی ۸۰ھ کی امامت کی بات کی ،ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: خاموش رہو سیبویہ نے اپنی کتاب (الکتاب )میں اَسی(۸۰)جگہ بھول کی ہے جس کا علم تمہیں نہیں ہے،پھر اس کے بعد ابوحیان رحمہ اللہ نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تعریف کبھی نہیں کی جبکہ اس سے پہلے ان کے بڑے مداح تھے – رحم اللہ علی الجمیع۔
{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّكَ رَئُ وْفٌ رَحِيْمٌ }
فرزدق نے کہا تھا: أولئك آبائي فجئني بمثلهم……إذا جمعتنا يا جرير المجامع (۲)
یہاں اس اقتباس کا نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ:…ابن حیان رحمہ اللہ شیخ الإسلام کے بڑے مداح تھے اور ان کی تعریف میں بہت سارے اشعار بھی انہوں نے کہا تھا ۔جیسے :
۱۔ لما أَتَانَا تَقِيّ الدّين لَاحَ لنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دَاع إِلَي الله فَرد مَا لَهُ وزر
۲۔ على محياه من سِيمَا الأولي صحبوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خير الْبَريَّة نور دونه الْقَمَر
۳۔ حبر تسربل مِنْهُ دهره حبرًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بَحر تقاذف من أمواجه الدُّرَر
۴۔ قَامَ ابْن تَيْمِية فِي نصر شرعتنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقَام سيد تيم إِذْ عَصَتْ مُضر
۵۔ وَأظْهر الْحق إِذْ آثاره اندرست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وأخمد الشَّرّ إِذْ طارت لَهُ شرر
۶۔ كُنَّا نُحدث عَن حبر يَجِيء بهَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنْت الإِمَام الَّذِي قد كَانَ ينْتَظر (۳)
لیکن جب دوران گفتوسیبویہ کی بات آئی اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: مَا كَانَ سِيبَوَيْهٍ نَبِي النَّحْو وَلَا كَانَ مَعْصُوما بل أَخطَأ فِي الْكتاب فِي ثَمَانِينَ موضعا مَا تفهمها أَنْت (۴) پھر وہیں سے دوری بڑھنے لگی یہاں تک کہ اپنی تفسیر’’ البحر‘‘ اور اس کی مختصر ’’النَّہ‘‘میں ابو حیان رحمہ اللہ نے ایسی باتیں رقم کر دی ہیں جو ناقابل معافی ہیں ، اللہم اغفر لہم جمیعا ، ابن حجررحمہ اللہ۸۵۲ھ نے لکھا ہے کہ ابن المحب نے۷۳۴ھ میں حج کے دوران کچھ اشعار ان کے ابن تیمیہ کے سلسلے میں سنے ۔تھے تو کہا کہ میں نے مدح ابن تیمیہ کے کچھ اشعار کی طرف اشارہ کیا تو اس پر ابو حیان نے کہا :قد کشطتہا من دیوانی وَلَا أذکرہُ بِخَیر حرف غلط کی طرح میں نے اپنے دیوان سے اسے مٹا دیا اور اب میں ان (یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ)کا ادنیٰ ذکر خیر بھی نہیں کر سکتا ، ورنہ شیح الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کیا ان کے شاگرد حافظ جمال الدین مزی صاحب (تہذیب الکمال فی أسماء الرجال)کے بھی ابوحیان مداح تھے ، جنکے بارے میں ابن حجر نے حا فظ الدنیا لکھا ہے اللہم اغفر لہم وارحمہم ، اس موقع پر میری عاجزانہ گزارش تمام اہل علم سے یہ ہے کہ ایسی بحثیں آپس میں مت چھیڑا کریں جس سے اپنا بازو ہی کاٹ بیٹھیں جو ا کثر ہوتا رہتا ہے اور ہم دیکھتے رہتے ہیں ، واضح رہے کہ نبی آخر الزماںﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ اس امت کے دیگر شخصیات پر لوگوں کے ایمان کا امتحان نہیں لیا جائے گاساتھ ہی کسی شخصیت کی محبت میں اس قدر غلو بھی نہ ہو کہ اس کے سلسلے میں ایک حرف بھی سننا پسند نہ کریں جیسا کہ اہل بدعت اور غیر منہجی لوگوں کا رویہ ہر سو ظاہر ہے کہ ان کے واعظین خواہ حدیث پر کیچڑ ا چھالیں یا قرآن پر زہر اگلیں اورایسی بیان بازی کی ہمت کر بیٹھیں جس سے ایک امتی کے ذہن میں کتاب وسنت کی صحت میں شک و شبہ پیدا ہوجائے۔ پھر بھی وہ واعظین ان کے یہاں پار سا اورحرف آخر تسلیم کئے جاتے ہیں اور انہیں کے علم پر کلی طور پر اعتمادکرتے ہیں اسی کو مذموم تقلید کہا گیا ہے جس کی علمائے حق نے بڑی مذمت کی ہے اور اس تقلید کو کتاب و سنت کے خلاف قرار دیا ہے۔فاللّٰہ المستعان وعلیہ التکلان! (حاشیہ شرح اصول ستہ بزبان ارود از خاکسار )
=============================================
۱۔ سورۃ الحشر :۱۰، ۲۔ ملاحظہ ہو: خزانۃ الأدب ولب لباب لسان العرب :۹؍۱۱۶
۳۔ الدرر الکامنۃ:۱؍۱۷۸، ۴۔ الدرر الکامنۃ:۱؍۱۷۸