Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات (پانچویں قسط)

    علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات:

    ایک نظر مصطلح اہل حدیث پر:  

    أولاً:حدیث کی تعریف:

    أ۔  حدیث کی لغوی تعریف: لغت کے اعتبار سے’’حدیث‘‘قدیم کا ضد ہے۔[القاموس المحیط للفیروز آبادی : ص:۲۱۴]

    ب۔  حدیث کی اصطلاحی تعریف:

      ہر وہ قول ، یا فعل، یا تقریر، یا صفت جو نبی ﷺ سے منقول ہے وہ’’حدیث‘‘ہے ۔[الحدیث النبوی للدکتور محمد الصباغ: ص:۱۴۰]

    لفظ ’’حدیث‘‘کا اطلاق قرآن و سنت دونوں پر ہوتا ہے، اور اس پر {فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ}[سورۃ الطور:۳۴]، اور {أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ}[سورۃ النجم:۵۹]، اور {فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ}[سورۃ المرسلات:۵۰] جیسی آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں۔

     اور نبی کریم ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات در اصل اللہ کی طرف سے ہوا کرتی تھیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

    {وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَيٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحٰي}[سورۃ النجم:۳۔۴]، اور فرمایا:{هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ}[سورۃ الجمعۃ:۲]

    لہٰذا جس طرح قرآن کریم کے احکامات ایک مسلمان پر فرض ہیں، ویسے ہی احادیث نبویہ کے مطابق عمل کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سنت مطہرہ یا حدیث نبوی کا تشریعِ احکام ہونا دین کا ضروری مسئلہ ہے، اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں‘‘[ارشاد الفحول: ص:۲۹]

      اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود کو اہل حدیث کہا کرتے تھے، اور یہ حضرت ابو ہریرہ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے ۔ دیکھیں:[الإصابۃ:۴/۲۰۴، تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹، تاریخ بغداد:ص:۲۲۷]

      امام شعبی رحمہ اللہ نے تقریبا ًپانچ سو سے زائد صحابہ کرام سے ملاقات کی، اور سب کو لفظ’’اہل حدیث‘‘سے یاد کیا ہے۔[تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۲]

    امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ:

    ’’مجھے عام لوگ بھی ملتے تھے، اور اصحاب حدیث بھی، جن میں سے بعض یہ ہیں: امام احمد بن حنبل، سفیان بن عیینہ، اور اوزاعی۔[رحلۃ الشافعی:ص:۱۴]

    ثانیاً:  أہل الحدیث سے مراد کون ہیں؟

      أہل الحدیث سے مراد وہ لوگ ہیں جو اتباع حدیث کی وجہ سے اس کی طرف منسوب ہیں، لہٰذا اس ضمن میں وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو کلام رسول ﷺکو مصادر تلقی میں سے ایک مصدر قرار دیتے ہیں، اس سے اسلام کے صحیح عقائد استفادہ کرتے ہیں، اس پر احکام کی بنا کر تے ہیں، چاہے وہ علماء حدیث ہوں ، یا علماء فقہ ، یا علماء اصول فقہ ، یا ان کے علاوہ کوئی اور ہوں(سب اس میں داخل ہیں)۔

      امام صابونی رحمہ اللہ(ت ۴۴۹ھ) فرما تے ہیں :

    ’’دراصل ’’أصحاب الحدیث‘‘ہی متمسک بالکتاب والسنہ ہیں، ان میں سے جو باحیات ہیں اللہ ان کی حفاظت کرے ، اور ان میں سے جو گزر گئے ہیں ان پر رحم فرمائے۔[عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابونی :ص:۳۔۴]

      شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

    ’’اور اہل حدیث اہل السنہ والجماعہ اصول و فروع میں صرف کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی اتباع کرتے ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کے منہج کی پیروی کرتے ہیں‘‘[منہاج السنہ:۲/۱۰۳]

    شیخ الاسلام کے اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ مصطلح اہل حدیث کا اطلاق دو گروہ پر ہوتا ہے:

    أ۔  محدثین کرام

    ب۔  حدیث نبوی پر عمل کرنے والے عام طبقہ کے لوگ

    اسی ضمن میں ایک جگہ اور فرماتے ہیں:

    ’’أہل الحدیث سے ہماری مرادوہ لوگ نہیں ہیں جو صرف حدیث کے سماع، یا اس کی کتابت، یا اس کی روایت پر اکتفا کرتے ہیں، بلکہ ان سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے حفظ حدیث اور اسکی معرفت حاصل کرنے کا اہتمام کیا، اسے ظاہری و باطنی طور پر سمجھا، اور باطنی و ظاہری طور پر اس کی اتباع(بھی ) کی…‘‘[مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیۃ:۴/۹۵]

      بنا بریں ’’أہل الحدیث‘‘سے مراد:وہ لوگ ہیں جنہوں نے منہج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کی پیروی کی، اور احادیث رسول اللہ ﷺکو جمع، حفظ، اور روایت کرنے میں خاص اہتمام کیا، اور ساتھ ہی ساتھ ظاہری و باطنی طور پر سمجھا اور عمل بھی کیا۔

    اہل حدیث کے بارے میں ائمہ کرام کے چند اقوال:

    نبی علیہ الصلاۃ و السلام نے طائفہ منصورہ کے بارے میں فرمایا:

    ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے، اور وہ(اس وقت بھی)غالب ہی رہیں گے‘‘[صحیح البخاری:۶۸۸۱و۲۶۶۷]

    اس حدیث میں مذکورہ گروہ سے مراد اہل حدیث ہیں، جیسا کہ اس پر ائمہ سلف کے اقوال دلالت کرتے ہیں:

    ۱۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میرے نزدیک وہ اہل حدیث ہیں‘‘[شرف أصحاب الحدیث، ص:۶۱]

    ۲۔ یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کون ہیں‘‘[شرف اہل الحدیث: ص:۵۹]

    ۳۔  علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حدیث میں مذکورہ گروہ جو حق پر غالب رہے گا، وہ میرے نزدیک اہل حدیث ہیں‘‘[فتح البخاری شرح صحیح البخاری:۱۳/۲۹۴]

    ۴۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس طائفہ منصورہ کے بارے میں فرماتے ہیں:’’یعنی اہل حدیث ہیں‘‘[الحجۃ فی بیان المحجۃ:۱/۲۴۶]

    ۵۔ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون ہیں‘‘ [شرف اہل الحدیث: ص:۱۴]

    ۶۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اہل حدیث وہ لوگ ہیںجو قرون ثلاثہ میں سے سلف ہیں، اور خلف میں سے جو ان کی راہ پر چلیں‘‘[مجموع الفتاویٰ:۶/۳۵۵]

    ۷۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو‘‘[الکافیۃ الشفافیۃ: ص:۱۹۹]

    ۸۔  امام ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اصحاب حدیث کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ان کے امام نبی ﷺ ہیں‘‘[تفسیر ابن کثیر:۴/۱۶۴]

    مذکورہ ائمہ سلف کے تمام اقوال سے واضح ہے کہ جماعت حقہ، طائفہ منصورہ ہی اہل حدیث ہیں۔

    جماعت اہل حدیث کا منہج استدلال:

    ۱۔  کسی بھی مسئلہ میں استدلال کرنے میں کتاب وسنت پر اعتماد کرتے ہیں، چنانچہ ’’وہ اللہ کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں‘‘اور’’نبی ﷺکی رہنمائی کو دیگر لوگوں کی رہنمائی پر مقدم رکھتے ہیں‘‘[العقیدۃ الواسطیۃ: ص:۱۲۸]، کیونکہ اسی سے مکمل دین کی وضاحت ہوتی ہے، راہ راست کی رہنمائی ملتی ہے، اور یقینایہی متبعین کے لئے کافی ہے۔دیکھیں:[در تعارض العقل والنقل:۱۰/۳۰۴]

    ۲۔ اجماع پر بھی اعتماد کرتے ہیں،کیونکہ وہ ’’اجماع کو علم و دین کی تیسری اصل شمار کرتے ہیں‘‘[العقیدۃ الواسطیۃ: ص:۱۲۸] کیونکہ ’’جس مسئلہ پر اجماع دلالت کرتا ہے، در اصل اس پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہے‘‘[مجموع الفتاوی:۱۹/۱۹۵]

    ۳۔ کتاب وسنت کے تمام نصوص پر ایمان رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ متشابہ و محکم ، مجمل و مبین، اور وعد و وعید کے نصوص کے درمیان طریقہ جمع کا التزام کرتے ہیں۔دیکھیں:[اعلام الموقعین لابن القیم:۲/۲۰۹۔۲۱۰]

    ۴۔  اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے دین کے تمام اصول وفروع کو مکمل طور پر اپنی امت تک پہونچا دیا ہے، اور’’یہی علم و ایمان کی اصل الأصول ہے، جسے جو بھی مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ اتنا ہی علم وعمل کا حقدار ہوگا‘‘دیکھیں:[موافقۃ صحیح المنقول لصریح المعقول:۱/۱۳]

    ۵۔  تفسیر قرآن کریم کے باب میں قرآن سے قرآن، پھر سنت سے قرآن، پھر اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، پھر اجماع تابعین سے تفسیر پر اعتماد کرتے ہیں۔دیکھیں:[مجموع الفتاویٰ:۱۳/۳۶۳۔۳۶۵]

    ۶۔  نصوص شرعیہ کو سمجھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فہم، اعمال، اور اقوال پر اعتماد کرتے ہیں، کیونکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد یہی سب سے افضل ہیں، اور ساتھ ہی انہوں نے نبی کریم  ﷺ سے بنفس نفیس دین کی باتوں کو سیکھا، سمجھا، اور دوسروں تک پہنچایا۔دیکھیں:[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۱/۷]

    ۷۔  ان تمام باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے ثابت ہیں، کیونکہ کتاب و سنت میں جو کچھ ثابت ہے، اس پر ایمان رکھنا ہر مومن کے لئے واجب ہے، گرچہ وہ اس کا معنی نہ سمجھے۔دیکھیں:[التدمریۃ: ص:۶۵۔۶۶]

    ۸۔  حقائق ایمان کو بیان کرنے میں الفاظ شرعیہ کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ منزّل من اللہ ہیں، اور انہی سے ایمان کے حقائق بہتر طریقے سے اجاگر ہو سکتے ہیں۔دیکھیں:[النبوت لابن تیمیۃ:۲/۸۷۶]

    ۹۔  کسی بھی مسئلہ میں اختلاف کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں، کیونکہ اس بات پر سلف وخلف کا اتفاق رہا ہے کہ جب بھی دین سے متعلق کسی بھی مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلاف ہو جائے تو ایسے میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔دیکھیں:[شرح الصدور بتحریم رفع القبور:ص:۳]

    جماعت اہل حدیث کی چند خصوصیات:

    ۱۔  کتاب و سنت اور اجماع سلف پر اعتماد کرتے ہیں۔

    ۲۔  کتاب وسنت سے ثابت اللہ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر سے متعلق تمام باتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

    ۳۔  بغیر تقصیر و غلو کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

    ۴۔ جس طرح امت محمدیہ دیگر تمام امتوں کے درمیان وسطیت پر قائم ہے، اسی طرح اہل حدیث(اہل السنہ والجماعہ)تمام فرقوں کے مقابلے میں وسطیت و اعتدال پر گامزن ہے۔

    ۵۔  یہ پوری جماعت کے ساتھ چلنے، اور وحدت و الفت کو فروغ دینے کا اہمتام کرتے ہیں۔

    ۶۔  یہ تمام مخالف گروہ کے ساتھ عدل وانصاف کا برتاؤ رکھتے ہیں۔

    خلاصہ یہ ہے کہ:

    جماعت اہل حدیث اصول و فروع، اور اخلاق ومعاملات میں وسطیت پر گامزن ہے، یہ وجہ ہے کہ ان کے ائمہ متقدمین اور متأخرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ جو چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل حدیث ہی حق پر ہیں، وہ یہ کہ ان کے اول تا آخر سب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے، گرچہ زمانہ مختلف ہے، علاقہ مختلف ہے، مگر قلب ایک، قالب ایک، اور زبان بھی ایک ہی ہے، تو اس سے بڑھ کر حقانیت کی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟!دیکھیں:[کتاب الانتصار لأصحاب الحدیث،ص:۴۵]

    ٭ ٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings