-
’’التمھید لابن عبدالبر‘‘ کی ایک روایت میں احناف کی تحریف نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق بہت ساری مرفوع و موقوف احادیث مروی ہیں ان کی تفصیل میری کتاب ”انوار البدرفی وضع الیدین علی الصدر“ میں موجود ہے ۔
انہیں میں ایک موقوف روایت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو سورۃ الکوثر کی آیت «فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ» کی تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
یہی روایت امام ابن عبدالبر (المتوفی:۴۶۳) کی کتاب ”التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد“ میں بھی امام اثرم کے حوالے سے نقل ہوئی ہے اور اس میں ”عَلَي الصَّدْرِ“(سینے پر) کے بجائے ”تَحْتَ الثَّنْدُوَةِ“ (چھاتی کے نیچے ) کے الفاظ ہیں ، اور معنوی طور پر اس کا معنی بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ہی ہے اس کی تفصیل اگلے شمارہ (۸۶)میں ہم پیش کریں گے۔سب سے پہلے یہ روایت ملاحظہ ہو:
امام ابن عبد البر رحمہ الله (المتوفی:۴۶۳) نے کہا:
’’ذكر الأثرم قال حدثنا أبو الوليد الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان سمع عليا يقول فى قول اللّٰه عز وجل ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ قال وضع اليمنى على اليسرى تحت الثندوة‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر:۲؍۱۰۸)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھ کر چھاتی کے نیچے (یعنی سینے پر) رکھنا مراد ہے‘‘
]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقیق دکتور بشار عواد:۱۲؍۴۲۳[
یہ روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔
لیکن عصر حاضر کے بعض حضرات اسے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
دراصل’’ التمہید‘‘ پہلی بار طبع ہوئی تو مطبوعہ نسخے میں اس روایت کے آخری حصہ کو تبدیل کردیا گیا اور ”تحت الثندوة“ (چھاتی کے نیچے ) کے الفاظ کو ”تحت السرة“ (ناف کے نیچے ) کے الفاظ سے بدل دیا گیا ۔
اس مطبوعہ نسخہ کی بیسویں جلد میں یہ روایت ہے جس کی تحقیق سعید اعراب صاحب نے کی ہے ، اسی محقق نے ان الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔
اور اس محقق نے یہ تبدیلی خفیہ طور پر نہیں کی ہے بلکہ حاشیہ میں اپنے تصرف کی وضاحت کردی ہے ، محقق کا کہنا ہے کہ اصل روایت میں ”التندوة“ (تاء دو نقطوںکے ساتھ ) کا لفظ ہے اورچونکہ تاء کے ساتھ اس لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوتا ہے اس لئے محقق نے اندازے سے اسے ”السرة“ بناديا اور یہ تبدیلی کرنے کے بعد بھی محقق نے کوئی قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ شک کے ساتھ کہا کہ شاید یہی صحیح ہوگا جیساکہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق علی رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت منقول ہے ۔ (یہ روایت سنن ابوداؤد وغیرہ میں ہے اور ضعیف ہے)
عرض ہے کہ:
ہم نے اپنی کتاب ’’انوار البدر ‘‘میں محقق کے اس تصرف پر تعاقب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ محقق کی یہ تبدیلی قطعا ًدرست نہیں ہے کیونکہ محقق صاحب اصل لفظ کو صحیح طرح سے پڑھ نہیں سکے ، انہوں نے جس لفظ کو ”التندوة“ (تاء کے ساتھ ) پڑھا ہے ، وہ دراصل ”الثندوة“ (ثاء تین نقطوںکے ساتھ ) ہے اور یہ بے معنی لفظ نہیں ہے بلکہ اس کا معنی چھاتی ہوتا ہے۔ اور ”تحت الثندوة“ کا مطلب ہوگا چھاتی کے نیچے یعنی سینے پر ۔
ہم نے مزید تائید کے لئے یہ بھی کہا تھا کہ اسی کتاب ’’التمہید‘‘ کی ایک دوسرے محقق نے بھی تحقیق کی ہے اور انہوں نے اپنے محقق نسخے میں اس روایت کو ”تحت الثندوة“ کے الفاظ کے ساتھ ہی درج کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ہم نے بہت سے دلائل پیش کئے تھے جن کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
اس وضاحت کے بعد ہر انصاف پسند شخص کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ’’ التمہید‘‘ میں منقول اس روایت میں ”تحت السرة“ (نا ف کے نیچے )کے الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ یہ کتاب کے ایک محقق کی غلطی ہے ۔
لیکن افسوس کہ احناف نے اس حق بات کو قبول کرنے کے بجائے نہ صرف یہ کہ باطل پر اصرار کیا بلکہ تحریف جیسی گھناؤنی حرکت بھی کرڈالی چنانچہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کا ایک مخطوطہ (قلمی نسخہ) لیا جس میں اس روایت کے اندر ”الثندوة“ ہی کالفظ تھا لیکن ان لوگوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسے ایڈٹ کرکے ”السرة“ بنادیا پھر اس صفحہ کا زیراکس لے کر اپنے مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میںشائع کردیا ، اور اپنے سادہ لوح قارئین کو بے وقوف بنادیا ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میں اس تحریف بردار مضمون کے لکھنے والے کا نام درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ مضمون نگار کے نام کے بغیر ہی اسے شائع کردیا گیا ہے ۔
تحریف کی یہ گھناؤنی حرکت کرنے والے صاحب کوبھی معلوم تھا کہ راز کھل سکتا ہے ، اس لئے محرف موصوف نے اپنی شخصیت کو پردے میں ہی رکھا تاکہ پول کھل جانے پر ان کی رسوائی نہ ہو ، اور ان کے مقلدین کی نظر میں موصوف کی شخصیت مجروح نہ ہو۔
اب اگلی سطور میں ہم اللہ کے فضل وکرم سے اصل حقیقت قارئین کے سامنے رکھتے ہیں اورسچائی پر چڑھائی گئی تحریف کی چادر کو ہٹا تے ہیں ۔
سب سےپہلے یہ واضح کردیا جائے کہ مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)والوں نے جس مخطوطہ کا زیراکس پیش کیا ہے وہ دراصل دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا مخطوطہ ہے جو تقریباً آٹھویں صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔
لیکن ان حضرات نے اس مخطوطہ کی اصلیت پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے ’’نسخہ شیخ محمد علی الموصلی عراق‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مخطوطہ اس نام سے کہیں بھی نہیںجانا جاتا ۔احناف نے ایسا شاید اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی اس مخطوطہ کی اصلیت تک بآسانی پہنچ نہ سکے ، مزید وضاحت آگے آرہی ہے ۔
سب سےپہلے مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)کا وہ صفحہ ملاحظہ کریں جس میں احناف نے’’ التمہید‘‘ کے ایک مخطوطہ سے ایک صفحہ کا زیراکس (xerox) پیش کیا ہے اور یہ دکھا یاہے کہ اس میں ”تحت السرة“ کے الفاظ ہیں ۔
اس کے بعد اس کے سامنے اگلے ہی صفحہ پر ہم اس مخطوطہ سے اس اصل صفحہ (original page) کا اسکین (scan) پیش کریں گے جس میں صاف طور سے ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے۔جسے احناف نے ایڈٹ کرکے”السرة“ بنادیا ہے ۔
یاد رہے احناف نے اس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا اسکین (scan) یعنی اصل صفحہ کا ہو بہو فوٹو پیش نہیں کیا ہے بلکہ زیراکس (xerox) یعنی ڈبلی کیٹ کاپی پیش کیا ہے جو بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
لیکن ہم اس صفحہ کا زیراکس پیش نہیں کریں گے بلکہ الحمدللہ ہم اصل مخطوطہ سے اصل صفحہ کا اسکین (scan) پیش کریں گے ۔
التمہید کے دارالکتب المصریہ والے مخطوطہ سے کاپی شدہ اور تحریف کردہ وہ صفحہ جسے ”الاجماع“ والوںنے نسخہ شیخ’’ محمدعلی الموصلی عراق‘‘ کا نام دیا ہے۔
اس صفحہ میں نیچے سے اوپر ساتویں سطر میں دائیں طرف ”السرة“ کا لفظ ہے جو ایڈٹ کردہ ہے ، یہاں اصل لفظ ”الثندوة“ ہےجیساکہ آگے اس اصل صفحہ کا اسکین پیش کیا گیا ہے۔دارالکتب المصریہ والے اصل مخطوطہ سے اصل صفحہ کا اسکین
اس صفحہ میں نیچے سے اوپر ساتویں سطر میں دائیں طرف دیکھیں ، بہت واضح طورپر ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے۔قارئین کرام !
دیکھ لیا آپ نے ! حق آپ کے سامنے ہے اور اس پرچڑھا ہوا جھوٹ کا نقاب بھی اترچکا ہے ۔اب کچھ مزید وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں !
”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ نقلی صفحہ کی نوعیت:
قارئین نوٹ فرمائیں کہ اجماع والوں نے اصل صفحہ (original page) کا اسکین (scan) یعنی اصل صفحہ کا ہو بہو عکس (photo)فوٹو پیش نہیں کیا ہے ، بلکہ زیراکس (xerox) یعنی نقلی صفحہ (duplicate copy) پیش کیاہے جو بلیک اینڈ وائٹ (black and white) ہے ، دراصل ان لوگوں نے اصل صفحہ کا فوٹو لیکر پہلے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اورزیر بحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“ کو ”السرة“ بنایا ، یہ تحریف کرنے کے بعد اس کا زیراکس لے لیا تاکہ ایڈٹ کے نشانات ظاہر نہ ہوسکیں ، پھر اس زیراکس کو مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میں پیش کرکے ساد ہ لوح قارئین کو بے وقوف بنادیا ۔
واضح رہے کہ آج کل کوئی بھی صفحہ لیکر کسی بھی سافٹ ویئر وغیرہ کی مدد سے اس طرح کی حرکت کرنا کوئی مشکل چیز نہیں ہے بلکہ بہت ہی آسان ہے ۔
بلکہ احناف نے جس صفحہ میں اپنی من پسند تحریفی کارروائی انجام دی ہے ، اور صفحہ کے نیچے ”الثندوة“ کو غائب کرکے وہاں ”السرة“ رکھ دیا ہے ، اسی صفحہ پر اوپر تیسری سطر میں ”فوق السرة“ کے الفاظ موجود ہیں ، اب کسی سافٹ ویر(software) میں یہ صفحہ کھولا جائے اور یہاں اوپر موجود ”السرة“ کو کاپی (copy) کیا جائے اورصفحہ کے نیچے ”الثندوة“ والی جگہ پر جاکر ”الثندوة“ کو ڈلیٹ (delete) کرکے اس کی جگہ ”السرة“ پیسٹ (paste) کردیا جائے ، پھر اس کا زیراکس نکالاجائے تو زیراکس دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہاں کوئی چھیڑ خانی ہوئی ہے ۔
”الاجماع“ والوں کا پیش کردہ صفحہ ، ملاحظہ فرمائیں کہ اوپر تیسری سطر میں ”سرة“ کا لفظ جس طرح لکھا ہے ٹھیک اسی طرح نیچے بھی اتار دیا گیا ہے ، جبکہ اسی صفحہ پر ایک ہی لفظ کئی جگہ لکھا ہواہے مگر الگ الگ جگہ کچھ کچھ فرق نظر آتاہے مثلاً (تحت) ، (قال) وغیرہنیز اس بات پر غور کریں کہ تحریر کے بعد یہاں جب ’’ السرۃ ‘‘ لکھاگیا تو اس لفظ سے پہلے اور بعد میں کافی جگہ خالی ہوگئی جبکہ ایسا اس پورے صفحہ میں کہیں بھی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہلے لفظ’’الثندوۃ‘‘ تھاجو طویل جگہ لیتا ہے لیکن جب اسے حذف کرکے اس کی جگہ دوسرا لفظ ’’ السرۃ ‘‘ لایا گیا تو اسے اتنی طویل جگہ کی ضرورت نہ تھی اس لئے یہاں اس نئے لفظ ’’السرۃ‘‘سے پہلے اور بعد میں خالی جگہ زیادہ ہوگئی ۔
”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ مخطوطہ کی اصلیت:
”الاجماع“ والوں نے جس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا زیراکس پیش کیا ہے وہ دراصل دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا مخطوطہ ہے ، جس سے اس اصل صفحہ کی تصویر ہم پیش کرچکے ہیں ، کوئی بھی شخص دونوں صفحات کا موازنہ کرکے دیکھ لے دونوں ایک ہی صفحہ ہے ، ہرسطر اور ہر لفظ بلکہ نقطے اور علامات سب دونوں صفحات میں بالکل یکساں ہیں ، فرق ہے تو صرف اس لفظ کا جسے احناف نے تحریف کرکے بدل دیا ہے ، باقی دونوں صفحات بالکل یکساں ہیں ۔
’’التمہید‘‘ کی جتنے لوگوں نے بھی قلمی نسخوں کو لیکر تحقیق کی ہے سب نے اس مخطوطہ کو دارالکتب المصریہ ہی کا مخطوطہ کہا ہے اور اسی نام سے اس کا تعارف کرایا ہے ۔
لیکن ہم سخت حیران ہیں کہ ”الاجماع“ والوں نے اس مخطوطہ کو شیخ ’’محمدعلی الموصلی عراق‘‘کا مخطوطہ بتلایا ہے۔ حالانکہ قلمی نسخوں سے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کرنے والے کسی بھی محقق نے مخطوطات کے تعارف میں اس مخطوطہ کے لئے اس نام( شیخ محمدعلی الموصلی عراق) کا حوالہ نہیں دیا ہے۔
بلکہ دکتور بشار عوادعراقی کے یہاں بھی اس نام کا کوئی سراغ نہیں ملتا جو کہ عراق ہی میں پلے بڑھے ہیں اور’’ التمہید‘‘ کی سب سے جدید (latest) تحقیق انہیں کی ہے ، نیز ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ :
’’ما تركت مخطوطة فى العالم من هذا الكتاب إلا و لاحقتها‘‘
’’اس کتاب (التمهيد) کا دنیا میں کوئی ایسا مخطوطہ نہیں ہے جسے میں نے حاصل نہیں کیا‘‘
(محاضرة ابن عبد البر وكتابه “التمهيد‘‘، يوٹیوب)
غور کریں دکتور بشار جو نہ صرف یہ کہ مشہور محقق ہیں بلکہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کی سب سے آخر میں تحقیق کی ہے اور دنیا بھر سے’’التمہید ‘‘کے مخطوطے جمع کئے اور خود بھی عراقی ہیں ، لیکن ان کے یہاں بھی کسی شیخ ’’محمدعلی الموصلی عراق‘‘ کا سراغ نہیں ملتا ، اب اللہ ہی جانے یہ کس سیارے کی مخلوق ہیں ۔
دراصل یہ دارالکتب المصریہ کا مخطوطہ ہے جیساکہ ہم اصل تصویر پیش کرچکے ہیں لیکن ”الاجماع“ والوں نے ایک مجہول نام کی طرف اس مخطوطہ کی نسبت کردی تاکہ اس مخطوطہ کا سراغ نہ لگایاجاسکے ، اور ان کی تحریف پر پردہ پڑا رہے لیکن ظاہرہے کہ جھوٹ کے بادل کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، سچائی کی ایک کرن ہی انہیں ہوا میں اڑا نے کے لئے کافی ہے۔لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا !
”الاجماع“ والوں نے اصل مخطوطے میں تحریف کرنے کے بعد اس مخطوطہ کا جو گن گایا ہے وہ بھی سنئے! لکھتے ہیں:
’’زبیر علی زئی صاحب، حافظ ابن کثیر کی عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ابن الصلاح نے کہا: ہر ۲ حدیثوں کے درمیان گول دائرہ ہوناچاہئے ۔یہ بات ہمیں ابو زناد ، احمد بن حنبل ، ابراہیم الحربی اور ابن جریر الطبری سے پہنچی ہے ۔میں (ابن کثیر) نے کہا: میں نے یہ بات (گول دائرہ والی ) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے خط میں دیکھی ہے ،خطیب بغدادی نے کہا : دائرہ کو خالی چھوڑ دینا چاہئے، پھر جب اس کی مراجعت کرے، تو اس میں نقطہ لگادے۔اس اصول سے استدلال کرتے ہوئے ، زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ میرے پاس مسند حمیدی کے جس قلمی نسخہ کی فوٹو اسٹیٹ ہے ، اس میں ہر حدیث کےاخیر میں دائرہ بنا ہوا ہے اور ان دائروں میں نقطے لگے ہوئے ہیں ، یعنی یہ صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے ۔ والحمد للہ ( اختصار علوم الحدیث : صفحہ ۸۶)ثابت ہوا ،جس مخطوطہ میں گول دائرہ کے ساتھ نقطے بھی موجود ہیں ، وہ محدثین اور بالخصوص غیر مقلدین کے نزدیک صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے۔اور الحمد للہ ہم نے جو’’ التمہید‘‘ کا شیخ ’’محمد علی الموصلی‘‘ کا مخطوطہ پیش کیا ہے ، اس میں گول دائرہ اور نقطہ موجود ہے۔ یعنی خود غیر مقلدین کے اصول سے یہ صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے ،الحمد للہ حمداً کثیراً‘‘دیکھئے : ]’’الاجماع‘‘:شمارہ:۸،ص: ۲۷تا۲۹ [
اس نسخہ کو صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ثابت کرنے کے بعد ”الاجماع“ کے مضمون نگار کا پرجوش چیلنج بھی سنئے !فرماتے ہیں:
’’موصوف سے گزارش ہے کہ التمہید کا کوئی ایسا قلمی نسخہ پیش کریں ، جس میں گول دائرہ اور نقطہ موجود ہو ، تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ وہ نسخہ محدثین بلکہ خود اہل حدیثوں کے اصول کے مطابق صحیح ترین اور مراجعت شدہ نسخہ ہے‘‘دیکھئے:]’’الاجماع‘‘:شمارہ:۸،ص:۳۳ [
عرض ہے کہ :
”الاجماع“ والوں کی یہ ساری تقریر انہیں پر پلٹ گئی ہے کیونکہ گزشتہ سطور میں ہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس مخطوطہ میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔والحمدللہ
’’التمہید ‘‘کا ایک دوسرا مخطوطہ
قارئین کرام ! گزشتہ سطور میں آپ نے پڑھ لیا کہ ”الاجماع“ والوں ہی کے پیش کردہ مخطوطہ میں اس روایت کے اندر ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے جس کا مفہوم سینے پر ہاتھ باندھنا ہے ۔
”الاجماع“ والوں نے اس مخطوطہ کو محض اس لئے سب سے بہتر مخطوطہ ظاہر کیا کیونکہ اس میں مقابلہ کی علامت موجود تھی ، لیکن ہم قارئین کو بتلادیں کہ صرف یہ علامت ہی مقابلہ کا ثبوت نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑھ کر مقابلہ کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ مخطوطہ میں صراحت کے ساتھ لکھ دیا جائے کہ اس کا مقابلہ کیا گیا ہے ، یا صفحات پر مقابلہ کے آثار موجود ہوں مثلاً متعدد مقامات پر اصلاح کی گئی ہو اور بعد میں درست کلمات درج کئے گئے ہوں وغیرہ وغیرہ ، اور یہ چیزیں مذکورہ علامت سے بڑھ کر مقابلہ کا ثبوت ہوتی ہیں ۔
بہر حال ”الاجماع“ والوں نے جس مخطوطہ کا حوالہ دیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے وہ بھی ان کے خلاف ہی دلیل ہے جیساکہ ثبوت پیش کیا جاچکا ہے ۔
اب ہم اس کتاب’’ التمہید‘‘ کا ایک دوسرا مخطوطہ پیش کرتے ہیں جو ”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ مخطوطہ سے بھی زیادہ مستند ہے ۔
سب سے پہلے ہم یہ واضح کردیں کہ دکتور بشار عواد کی تحقیق کے مطابق امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب ’’التمہید‘‘ کے دو وَرژن تھے ایک قدیم اور رف وَرژن تھا اور دوسرا آخری اور فائنل ورژن تھا ، لیکن جب ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے پہلا ورژن تیار کیا جو کہ رف تھا اور اس میں حذف واضافہ کا کام جاری تھا ، اسی پہلے ورژن ہی سے زیادہ تر نسخے نقل کردئے گئے اور یہی عام ہوگئے ۔اور بعد میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو فائنل اور آخری ورژن تیار کیا وہ بہت کم لوگوں تک پہنچ سکا ،در اصل بہت سے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہوسکا کہ اس کتاب کا پہلا ورژن رف تھا اور اس کا آخری اور فائنل ورژن آنا باقی تھا ، اس لئے بہت سے لوگوں نے غلط فہمی میں پہلا ورژن پاکر یہ سمجھ لیا کہ وہ اصل کتاب پاچکے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے زیادہ تر نسخے پرانے ورژن سے ہی نقل کئے گئے ہیں ۔
دکتور بشار عواد لکھتے ہیں:
’’وتبين لنا من غير شك بعد دراسة النسخ المذكورة أنها تمثل نشرتين للكتاب ، الإبرازة الأولي ، وهى المسودة ، وأكثر النسخ منسوخة عنها . كما سياتي بيانها. والإبرازة الثانية وهى الأخيرة ‘‘
’’تمہید کے مذکورۃ نسخوں کو پڑھنے کے بعد بغیر کسی شک کےہمارے لئے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ کتاب (التمہید) دوبار نشر کی گئی ہے ، اس کا پہلا ورژن مسودہ اور رف تھا اور اکثر نسخے اسی سے منقول ہیں ، جیساکہ آگے وضاحت ہوگی ، اس کے بعد اس کا دوسرا وَرژن تیار ہوا اور یہی آخری اور فائنل نسخہ ہے‘‘ ّ
]التمهيد (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۱۹[
دکتو بشار عواد معروف آگے لکھتے ہیں:
’’والإبرازة الأولي لا تمثل الكتاب الذى ارتضاه مؤلفه فيما بعد فى إبرازته الأخيرة فهي كثير النقص والإختلافات فى صياغة العبارات‘‘
’’اس کتاب کا پہلا اور قدیم ورژن وہ کتاب نہیں ہے جسے مؤلف ابن عبدالبر نے آخر میں دوسرے ورژن کے طور پر فائنل کیا ہے اور اسے ہی اپنی یہ کتاب مانا ہے ، کیونکہ پرانے ورژن میں بہت زیادہ نقص اور عبارات میں بکثرت اختلافات ہیں‘‘
]التمهيد (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۱۹[
اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ:
”الاجماع“ والوں نے اس کتاب کا جو مخطوطہ پیش کیا ہے وہ پرانے ورژن سے کاپی کیا گیا ہے ، ایسی صورت میں اس کا مقابلہ بھی پرانے ورژن سے ہی ہے ، اسی لئے دکتور بشار عواد نے اس نسخہ کو قلیل الفائدہ یعنی بہت کم فائدہ مند بتلایا ہے ۔
لیکن یادرہے زیر تحقیق روایت کے جس لفظ پر ہم بحث کررہے ہیں وہ قدیم اور جدید دونوں ورژن میں ”الثندوة“ ہی ہے ۔
بہرحال اب ہم آگے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس کتاب التمہید کا ایک دوسرا مخطوطہ پیش کررہے ہیں جو نہ صرف مقابلہ شدہ ہے بلکہ یہ آخری ورژن سے کاپی کیا گیا ہے ،ملاحظہ ہو آگے اس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا اسکین جس میں زیر بحث روایت کے اندر صاف طور سے ”الثندوة“ لفظ موجود ہے ۔یہ مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) کا ہے ، یہ سلطان الملک المؤید کی طرف سے وقف کردہ ہے ، یہ مخطوطہ بہت خوبصورت اور واضح خط میں لکھا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ یہ دو اہم خصوصیات کا مالک ہے ۔
اس مخطوطہ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مخطوطہ مقابلہ شدہ ہے ، جیساکہ ہر روایت کے اخیر میں موجود علامت سے ظاہر ہے ، چنانچہ اس میں ہر روایت کے اخیر میں تین نقطے اس طرح ( ) لکھے گئے ہیں ، اور ہر روایت کے اخیر میں یا ایک پیرا گراف کے بعد اس طرح تین نقطے لکھنا بھی اُن علامات میں سے ایک ہے جو بتلاتی ہیں کہ نسخہ کا مقابلہ کیا گیا ہے ، دیکھئے : ]توثيق النصوص وضبطها عند المحدثين : ص:۲۰۲[
اس مخطوطہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ابن عبدالبر کی کتاب ’’التمہید‘‘ کے آخری ورژن سے نسخ کیا گیا ہے ، جیساکہ دکتور بشار عواد نے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کے مقدمہ میں وضاحت کی ہے ، چنانچہ دکتور بشار عواد اس مخطوطہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”وهو من الإبرازة الأخيرة للكتاب“
یعنی ’’یہ مخطوطہ ابن عبدالبر کی کتاب التمہيد کا آخری ورژن ہے‘‘
]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف :ج:۱ص:۳۴[
قارئین کرام !
آپ نے دو مخطوطے دیکھ لئے جن میں دوسرا مخطوطہ پہلے سے کہیں زیادہ مستند ہے اور دونوں میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔
اب آگے ہم ایک تیسرا مخطوطہ پیش کرتے ہیں جو ان دونوں سابقہ نسخوں سےبھی زیادہ مستند ہے ، ملاحظہ ہو:’’التمہید ‘‘کا تیسرا مخطوطہ
پوری دنیا میں ’’التمہید‘‘ کا سب سے بہترین اور مستند ترین مخطوطہ ، نسخہ کوبریلی ،استنبول رقم (۳۴۹)
اس میں بھی واضح طور پر ”الثندوة“ ہی کا لفظ موجود ہے۔یہ’’ التمہید‘‘ کا سب سے بہترین مخطوطہ ہے ، اور کافی قدیم بھی ہے کیونکہ یہ چھٹی صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے، پوری دنیا میں اس کتاب کا اس سے بہتر مخطوطہ موجود نہیں ہے ۔
مشہور محقق دکتور بشار عواد کا یہ قول گزر چکا ہے کہ انہوں نے دنیا بھر سے ’’ التمہید‘‘ کے تمام مخطوطات حاصل کئے اور اس کا کوئی ایسا مخطوطہ نہیں بچا جسے دکتور بشار عواد نے حاصل نہ کیا ہو ، یہی دکتور بشار عواد اس کتاب کے ان تمام مخطوطات میں ماقبل میں پیش کردہ کوبریلی کے مخطوطہ کو سب سے بہترین اور مستند مخطوطہ بتلاتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«’’هذه النسخة من أفضل النسخ التى وصلت إلينا من التمهيد ، لذالك اتخذنا ها أصلا‘‘»
’’ہمیں ’’ التمہید‘‘ کے جتنے بھی نسخے ملے ان تمام میں یہ نسخہ سب سے افضل وبہتر ہے ، اسی لئے ہم نے اس نسخہ کو اصل بنایا ہے‘‘
]التمهيد ، جلد:۱، (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۲۰[
ملاحظہ فرمائیں دکتور بشار اس مخطوطہ کو سب سے افضل و بہترین بتلا رہے ہیں اور موصوف نے اسی نسخہ کو اصل بناکر اس کتاب کی تحقیق کی ہے ۔
اس نسخہ کی ایک زبردست خاصیت یہ ہے کہ اس کا تین نسخوں سے مقابلہ کیا گیا ہے ، اور نسخہ میں نہ صرف یہ کہ ہر بحث یا پیرا گراف کے بعدسہ نقطی شکل میں مقابلہ کے رموز موجود ہیں بلکہ صفحات پر مقابلہ کے آثار بھی پائے جاتے ہیں یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ نسخہ جس اصل سے نقل کیا گیا اس سے اس کا مقابلہ بھی کیا جاچکاہے۔
اور صرف اس اصل سے ہی نہیں بلکہ مزید دو اور صحیح نسخوں سے بھی اس کا مقابلہ کیا گیا ہے جیساکہ پہلی جلد کے مخطوطہ پر پوری صراحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ:
’’ابتدئ بمقابلته على بركة اللّٰه عز وجل يوم الأحد السابع والعشرين من جمادي الأولي سنة ثلاث وسبعين وخمس مئة على نسختين صحيحتين بمدينة شاطبة‘‘
’’اللہ کے فضل سے بروز اتوار۲۷؍ جمادی الاولیٰ سن ۵۷۳ھ شہر شاطبہ میں دو صحیح نسخوں سے اس کتاب کا مقابلہ شروع کیا گیا ہے ‘‘
دیکھئے :]نسخہ کوبریلی ، جلد:۱، ابتدائی صفحہ[
یاد رہے کہ یہ صراحت رموز سے بڑھ کردلیل ہے کہ مقابلہ کیا گیا ہے ، اب آگے اس مخطوطہ کا وہ صفحہ ملاحظہ کریں جس پر مذکورہ عبارت لکھی ہے جس میں مقابلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔دکتور بشار عواد نے بھی اس نسخہ کی خوبی بتلاتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا تین نسخوں سے مقابلہ کیا گیا ہے ، لکھتے ہیں:
’’وقوبلت المجلدات الأول والسابع والثامن والتاسع والحادي عشر على الأصل المنتسخ منه وعلي نسختين أخريين فقد جاء فى طرة المجلد الأول منها : ابتدئ بمقابلته علٰي بركة اللّٰه عز وجل يوم الأحد السابع والعشرين من جمادي الأولي سنة ثلاث وسبعين وخمس مئة علٰي نسختين صحيحتين بمدينة شاطبة‘‘
’’اس نسخہ کی پہلی ساتویں ، آٹھویں ، نویں اور گیارہویں جلد کا اس اصل نسخہ سے مقابلہ کیا گیا ہے جس سے یہ نقل کیا گیا ہے ، نیز دو دیگر نسخوں سے بھی اس کا مقابلہ کیا گیاہے جیساکہ پہلی جلد کے شروع میں لکھا ہے کہ : اللہ کے فضل سے بروز اتوار ۲۷؍ جمادی الاولیٰ سن ۵۷۳ ھ شہر شاطبہ میں دو صحیح نسخوں سے اس کتاب کا مقابلہ شروع کیا گیا ہے‘‘
]التمهيد ، جلد:۱، (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص :۲۰[
ان سب کے ساتھ زبردست بات یہ بھی ہے کہ یہ نسخہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب کا آخری ورژن ہے ، دکتور بشار عواد لکھتے ہیں:
’’نسخة كو بريلي وهى نسخة من الإبرازة الأخيرة للكتاب‘‘
’’نسخہ کوبریلی یہ اس کتاب کا آخری ورژن ہے‘‘
]التمهيد ، جلد:۱، (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۲۰[
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ اس قدر قدیم اور حددرجہ مستند ترین اور تین تین نسخوں سے مقابلہ شدہ نسخہ میں بھی ”الثندوة“ کا لفظ ہے ۔صرف اسی ایک مخطوطہ سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی دو اور مخطوطات ماقبل میں پیش کیے جاچکے ہیں ۔اس طرح کل تین مخطوطات میں ”الثندوة“ کا لفظ واضح طور پر موجود ہے ۔
بلکہ مؤخر الذکر مخطوطہ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کا مقابلہ اصل کے علاوہ دو دیگر صحیح نسخوں سے بھی کیا گیا ہے،اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان دونوں صحیح نسخوں میں بھی یہی لفظ موجود ہے اس طرح کل پانچ مخطوطات میں ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے ۔
اس کے برعکس دنیا کے کسی بھی مخطوطہ میں یہاں ”الثندوة“ کی جگہ ”السرۃ“ کا لفظ قطعاً موجود نہیں ہے ۔قارئین کرام !
گزشتہ صفحات میں مخطوطات کے حوالے گزرچکے ہیں ، الحمدللہ ہم نے تین مخطوطات کا اسکین پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ زیر بحث روایت میں ”الثندوة“ کا لفظ ہی صحیح اوردرست ہے ۔اس طرح ہماری بات پر تین زبردست دلیلیں قارئین کے سامنے آچکی ہیں اب اسی بات کے مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں ’’الثندوہ‘‘ کا لفظ ہی صحیح ہے ۔
چوتھی دلیل: ابوالولید اور ان کے شاگرد اثرم ہی کے طریق سے خطیب بغدادی کی روایت:
التمہید میں ابن عبدالبر نے اس روایت کو ابوالولید کے شاگرد الاثرم کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور الاثرم ہی سے اسی سند کے ساتھ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی صحیح سند سے بیان کرتے ہوئے کہا:
’’أخبرنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقويه حدثنا عثمان بن أحمد بن عبد الله الدقاق حدثنا عبد الله بن عبد الحميد القطان حدثنا أبو بكر الأثرم حدثنا أبو الوليد حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن أبيه عن عقبة بن ظبيان سمع عليا رضى الله عنه يقول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} قال وضع اليمني على اليسري تحت الثندوة‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنی چھاتی کے نیچے (یعنی سینے پر) رکھنا مراد ہے‘‘
]موضح أوہام الجمع والتفریق:۲؍۳۴۰،ح:۳۷۹واسنادہ صحیح[ نیز دیکھیں:]موضح أوہام الجمع والتفریق :۲؍۳۰۵بتحقیق المعلمی[
خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی یہ صحیح روایت ابوالولید کے شاگرد اثرم ہی کے طریق سے ہے اور اس میں روایت کے اخیر میں پوری صراحت اوروضاحت کے ساتھ الثندوۃ کا لفظ موجود ہے۔
اس روایت نے قطعی فیصلہ کردیا ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول روایت کے اخیر میں ’’الثندوۃ‘‘ ہی ہونا چاہئے۔ والحمدللہ۔
پانچویں دلیل: حماد کے شاگرد’’ موسیٰ بن اسماعیل‘‘ کی روایت:
تمہید میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد موسیٰ بن اسماعیل نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶)نے کہا:
’’قال موسي: حدثنا حماد بن سلمة، سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي، رضي الله عنه:{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} وضع يده اليمني علٰي وسط ساعده علٰي صدره‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے‘‘
]التاریخ الکبیر للبخاری:۶؍۴۳۷، السنن الکبری للبیہقی:۲؍۴۵واسنادہ صحیح[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
چھٹی دلیل: حماد کے شاگرد’’ موسیٰ بن اسماعیل‘‘ کی روایت کا ایک اور طریق:
’’تمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے شاگرد ’’موسیٰ بن اسماعیل ‘‘ کی روایت، بخاری ہی کی سند سے امام بیہقی نے بھی نقل کی ہے اور اس میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے۔ چنانچہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸)نے کہا:
’’أخبرنا أبو بكر الفارسي أنبأ أبو إسحاق الأصبهاني أنبأ أبو أحمد بن فارس، ثنا محمد بن إسماعيل البخاري رحمه الله قال: أنبانا موسي، ثنا حماد بن سلمة سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} وضع يده اليمني علٰي وسط ساعده علٰي صدره ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے‘‘
]السنن الکبریٰ للبیہقی:۲؍۴۵واسنادہ صحیح[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
تنبیہ بلیغ:
اسی روایت کو شیبان کے شاگرد ابوالحریش الکلابی سے ’’احمد بن جناح المحاربی‘‘ نے روایت کیا تو متن میں تبدیلی کردی۔ امام بیہقی رحمہ اللہ ( المتوفی:۴۵۸) نے کہا:
’’اخبرنا جناح بن نذير بالكوفة ، ثناعمي احمد بن جناح، ثنا ابو الحريش ، ثنا شيبان، ثنا حماد بن سلمة، ثنا عاصم الجحدري، عن ابيه ،عن عقبة بن صهبان ان عليا رضى الله عنه قال فى هذه الآية:{ فصل لربك وانحر}قال : وضع يده اليمني علٰي وسط يده اليسريٰ ،ثم وضعهما علٰي سرته‘‘
] الخلافیات للبیھقی ط: الروضۃ (۲؍۲۵۳،ح:۱۴۸۱[
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت { فصل لربک وانحر}(الکوثر:۲) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے(نماز میں ) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصے) کے درمیان رکھ کر پھر انہیں اپنے ناف پر رکھنا مراد ہے‘‘
عرض ہے کہ یہ روایت باطل و منکر ہے ، کیوں کہ اس روایت کو ابوالحریش سے نقل کرنے والا’’احمد بن جناح‘‘ یہ’’ احمد بن جناح المحاربی ‘‘ہے ۔دیکھیں:(الزھد الکبیر للبیھقی:ص:۲۹۵،رقم:۷۸۱)یہ مجہول ہے ۔ اس مجہول نے ابوالحریش کے ثقہ ، ثبت، متقن اور حافظ شاگرد اور متعدد کتابوں کے مصنف امام ابومحمد بن حیان کے خلاف روایت کیا ہے ۔ اسی لئے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس مجہول کی روایت کے بعد فوراً تنبیہ کرتے ہوئے کہا :
’’وقال غیرہ عن ابی الحریش :علی صدرہ‘‘]الخلافیات للبیھقی ،ط:الروضۃ(۲؍۲۵۳،ح:۱۴۸۱[
’’احمد بن جناح المحاربی ‘‘ کے علاوہ ( حافظ ابو محمد بن حیان) نے ابو الحریش سے ’’علیٰ صدرہ‘‘ کے الفاظ بیان کئے ہیں‘‘
لہٰذا اس مجہول کی یہ روایت باطل و منکر ہے ، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اجماع والوں نے اس نام کے ایک دوسرے راوی کی توثیق اس مجہول راوی پر فٹ کرکے اسے ثقہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اس کی تردید اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ساتویں دلیل:حماد کے شاگر د’’حجاج بن المنہال الأنماطی‘‘ کی روایت:
تمہید میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد ’’حجاج بن المنہال الأنماطی ‘‘ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام ابن المنذر رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۹)نے کہا:
’’حدثنا على بن عبد العزيز، قال: ثنا حجاج، قال: ثنا حماد، عن عاصم الجحدري، عن أبيه عن عقبة بن ظبيان، عن على بن أبي طالب رضوان الله عليه:’’ أنه قال فى الآية {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} فوضع يده اليمني علٰي ساعده اليسري ثم وضعها علٰي صدره ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر}(۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس سے (نمازمیں)دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘
]الأوسط لابن المنذر: ۳؍ ۹۱، رقم:۱۲۸۴واسنادہ صحیح[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ التمہید میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر۔
آٹھویںدلیل: حماد کے شاگر د’’حجاج بن المنہال الأنماطی‘‘ کی روایت کا ایک اور طریق:
’’التمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے شاگرد ’’ حجاج بن المنہال الأنماطی ‘‘ کی روایت امام أبو إسحاق الثعلبی، نے بھی نقل کی ہے اور اس میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (المتوفی:۴۲۷) نے کہا:
’’أخبرنا عبد الله بن حامد قال: أخبرنا محمد بن الحسين قال: حدّثنا أحمد بن يوسف قال: حدّثنا حجاج قال: حدّثنا حماد عن عاصم الجحدري عن أبيه عن عقبة بن ظبيان عن على ابن أبي طالب رضى الله عنه أنه قال فى هذه الآية {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} قال: وضع اليد اليمني على ساعده اليسري ثم وضعها علٰي صدره‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر}(۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘
]تفسیر الثعلبی: ۱۰؍ ۳۱۰ ،واسنادہ صحیح[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ’’ التمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
نویں دلیل: حماد کے شاگرد ’’شیبان بن فروخ‘‘ کی روایت:
’’تمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد شیبان بن فروخ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸)نے کہا:
’’أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن الحارث الفقيه، أنبأ ناأبو محمد بن حيان أبو الشيخ، ثنا أبو الحريش الكلابي، ثنا شيبان، ثنا حماد بن سلمة، ثنا عاصم الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن صهبان كذا قال: إن عليا رضى الله عنه قال فى هٰذه الآية {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} قال:’’ وضع يده اليمني علٰي وسط يده اليسريٰ، ثم وضعها علٰي صدره ‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:’’اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘
]السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲؍۴۶ ،ح : ۲۳۳۷ ، واسنادہ حسن[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
دسویں دلیل: حماد کے شاگرد’’أبو عمرو الضریر‘‘کی روایت:
’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد’’أبو عمرو الضریر‘‘ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
طحاوی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۱)نے کہا:
حدثنا أبو بكرة، قال: حدثنا أبو عمرو الضرير، قال: أخبرنا حماد بن سلمة، أن عاصما الجحدري أخبرهم، عن أبيه، عن على بن أبي طالب، كرم الله وجهه، فى قوله:{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} قال:’’ وضع يده اليمنيٰ على الساعد الأيسر، ثم وضعهما علٰي صدره ‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍ الکوثر: ۲) کی تفسیرمیں فرمایاکہ:’’ اس سے (نمازمیں)دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ )کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘
]أحکام القرآن للطحاوی :۱؍۱۸۴ ،ح: ۳۲۳،صحیح المتن رجالہ ثقات لکن سقط عقبۃ بن ظبیان من السند[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
گیارہویں دلیل: حماد کے شاگرد’’أبو صالح الخراسانی‘‘کی روایت:
’’التمھید‘‘میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد’’أبو صالح الخراسانی‘‘نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۰)نے کہا:
’’حدثنا ابن حميد، قال: ثنا أبو صالح الخراساني، قال: ثنا حماد، عن عاصم الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، أن على بن أبي طالب رضى الله عنه قال فى قول الله: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} قال: ’’وضع يده اليمنيٰ علٰي وسط ساعده الأيسر، ثم وضعهما علٰي صدره‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان:{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ: ’’اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘
]تفسیر الطبری ت شاکر:۲۴؍۶۵۲، صحیح المتن بالمتابعات لاجل ابن حمید[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
بارہویں دلیل: حماد کے شاگر د’’مہران بن أبی عمر العطار‘‘کی روایت:
’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد’’مہران بن أبی عمر العطار‘‘ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۰)نے کہا:
«حدثنا ابن حميد، قال: ثنا مهران، عن حماد بن سلمة، عن عاصم الجحدري، عن عقبة بن ظهير، عن أبيه،عن على رضي الله عنه{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} قال: وضع يده اليمنيٰ عليٰ وسط ساعده اليسريٰ، ثم وضعهما عليٰ صدره» صحابی
رسول علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر} (۱۰۸؍ الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:’’اس سے (نمازمیں)دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ )کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘
]تفسیر الطبری ت شاکر: ۲۴ ؍ ۶۵۲، صحیح المتن بالمتابعات لاجل ابن حمید[
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
ان تمام دلائل کے ساتھ اس بات پربھی غورکریںکہ متقدمین احناف میں سے کسی نے بھی اس روایت کو زیرناف ہاتھ باندھنے کے دلائل میں پیش نہیں کیاہے۔حتیٰ کہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متن کو مضطرب کہا مگرانہوں نے بھی اس لفظ کو اضطراب کی دلیل نہیں بنایا ہے بلکہ بعض طرق میں ہاتھ باندھنے کاذکر نہیں اوربعض میں ذکر ہے ۔ اوربعض میں ’’کرسوع‘‘ کالفظ ہے ۔بس اسی کو متن کا اضطراب کہاہے۔کیونکہ انہوں نے کہیں بھی اس روایت میں یہ الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔
مزید یہ کہ امام بیہقی نے جب ابومجلز سے ’’فوق السرۃ‘‘ والی روایت پیش کی تو ابن الترکمانی نے ’’التمھید‘‘ ہی کے حوالہ سے فوراًکہہ دیا کہ ان سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بھی منقول ہے ۔لیکن علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت کے خلاف ’’تحت السرۃ‘‘کی روایت ’’التمھید‘‘سے بالکل نقل نہ کی۔ اس سے معلوم ہواکہ تمہید میں ایسی کوئی روایت تھی ہی نہیں ۔”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ مطبوعہ نسخوں کا جائزہ
ہم نے اپنی کتاب ’’انوار البدر‘‘ میں پوری تفصیل سے وضاحت کردی ہے اور اس مضمون کے شروع میں بھی بتاچکے ہیں کہ ’’التمہید‘‘ جب پہلی بار طبع ہوئی تو اس کے محقق نے زیربحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“کو ”السرة“ بنادیا کیونکہ وہ اس لفظ کو صحیح طرح سے پڑھ ہی نہیں سکے، دراصل محقق نے ”الثندوة“ (ثاء) کے ساتھ کو ”التندوة“ (تاء کے ساتھ ) پڑھا اورچونکہ تاء کے ساتھ اس لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوتا ہے اس لئےمحقق نے اندازے سے اسے ”السرة“ بناديا اور یہ تبدیلی کرنے کے بعد بھی محقق نے کوئی قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ شک کے ساتھ کہا کہ شاید یہی صحیح ہوگا۔مزید تفصیل کے لئے قارئین ’’انوار البدر ‘‘دیکھیں۔
’’التمہید ‘‘کا سب سے پہلا مطبوعہ نسخہ( مغربی نسخہ)
آگے بڑھنے سے پہلے چند وضاحتیں ضروری ہیں ، ہم نے ’’انوار البدر‘‘ میں بتایا تھا کہ مغربی طباعت کے محقق یعنی سعید اعراب صاحب سے مخطوطہ پڑھنے میں چوک ہوئی ہے انہوں نے استنبول والے مخطوطہ میں ”الثندوة“ (ثاء تین نقطوں کے ساتھ) کو ”التندوة“ (تاءدو نقطوں کے ساتھ ) پڑھ لیا ہے ۔لیکن ”الاجماع“ والے اب بھی یہی رٹ لگارہے ہیں کہ استنبول والے مخطوطہ میں”التندوة“( دونقطے والی تاء کے ساتھ ) ہے۔ دیکھیں : ]الاجماع شمارہ:۸، ص:۵ [
مغربی طباعت اور استنبول کا نسخہ
عرض ہے کہ استنبول والا نسخہ یہ وہی کوبریلی ، استبول والا نسخہ ہی ہے جو اس کتاب کا سب سے بہترین نسخہ ہے ، جیساکہ ہم گزشتہ صفحات (۲۰تا۲۳) میں واضح کرچکے ہیں ۔ مغربی طباعت کے مقدمہ میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیں :]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۱، مقدمہ ص’’ ھ‘‘ [
انوار البدر لکھتے وقت اس مخطوطہ کو ہم نہیں دیکھ سکے تھے ، لیکن اسی کتاب کے دوسرے محقق دکتور عبداللہ الترکی نے چونکہ ”الثندوة“ (ثاء تین نقطے کے ساتھ) لکھا تھا نیز خطیب بغدادی کی کتاب میں اثرم کی روایت میں بھی ”الثندوة“ کا لفظ تھا ، اس لئے ہم نے کہا کہ مغربی طباعت کے محقق سے مخطوطہ پڑھنے میں غلطی ہوئی ۔
بعد میں ہم نے یہ مخطوطہ دیکھا تو یہ بات بالکل سچ نکلی کیونکہ مخطوطہ میں صاف طور سے”الثندوة“ موجود ہے اور ثاء پر تین نقطے بھی موجود ہیں۔مغربی طباعت کے محقق کے پاس اس مخطوطہ کی تصویر تھی جیساکہ انہوں نے خود و ضاحت کی ہے ۔دیکھئے :]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱۱، مقدمہ ص :۴ [
اور اس لفظ کی تصویر ان کے پاس صاف نہیں آئی ہوگی اسی لئے انہوں نے دو نقطہ پڑھ لیا یا ان کی نظر کو دھوکہ لگا ہوگا ۔لیکن الحمد للہ ہمارے پاس اس مخطوطہ کے اس صفحہ کا بالکل صاف اسکین موجود ہے جس میں ”الثندوة“ کے ثاء پر تین نقطے صاف طور پر موجود ہیں ۔
اور مغربی طباعت کے محقق نے جو یہ لکھا ہے کہ اس مخطوطہ میں کئی جگہ حروف کے نشانات مٹے ہوئے ہیں اور پڑھے جانے کے قابل نہیں ہیں ، تو یہ ان کے پاس موجود تصویر کا نقص ہے یا صرف بعض حصوں کایہ معاملہ ہے ورنہ مخطوطہ دیکھنے کے بعد حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہ مخطوطہ بہت صاف لکھا ہے اور صاف پڑھا جارہا ہے ۔ بلکہ دیگر محققین مثلاً دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، شیخ اسامہ بن ابراہیم اور دکتور بشار عواد وغیرہم نے بھی اپنے محقق نسخہ کے مقدمہ میں اس مخطوطہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صاف پڑھا جارہاہے ۔
بلکہ خود مغربی طباعت کے محقق نے بھی عمومی طور پر اس مخطوطہ کے بارے میں یہی کہا ہے کہ یہ بہت صاف پڑھا جاتا ہے۔ مثلاً :
پہلی جلد کے مقدمہ میں ہے:
’’هي نسخة مكتبوبة بخط مغربي واضح‘‘
’’یہ نسخہ واضح مغربی رسم الخط میں لکھا ہوا ہے‘‘
]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱، مقدمہ ص: د [
اورگیارہویں جلد کے مقدمہ میں ہے :
«’’وقد اعتمدنا على هاته النسخة لأنها سالمة ومكتوبة بخط واضح‘‘»
’’میں نے اسی نسخہ پر اعتماد کیا ہے کیونکہ یہ سالم اور واضح خط میں لکھا ہواہے‘‘
]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱۱، مقدمہ ص ’’و‘‘ [
اور اس بات پر تمام محققین کا اتفاق ہے کہ یہ سب سے مستند اور صحیح ترین نسخہ ہے ، بلکہ مغربی طباعت کے محقق نے بھی اس مخطوطہ کو ”اصح النسخ“ ’’سب سے زیادہ صحیح اور مستند قراردیا ہے‘‘ دیکھیں :]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۱، مقدمہ ص ’’ھ‘‘ [
لیکن اجماع والوں نے نہ جانے کس عقل ومنطق سے مغربی طباعت کے محقق کے قول ”أصح النسخ“ کا مطلب بریکٹ میں یہ بتایا کہ یہ لکھت کے اعتبار سے ہے،چنانچہ محقق کی عبارت یہ تھی :
«’’انحمت بعض معالم حروفه و فى بعض الأجزاء لا يكاد يقرا وهى أصح النسخ قليلة التصحيف والتحريف‘‘»
]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۴،مقدمہ ص ’’د‘‘ [
اجماع والوں نے بریکٹ میں خود ساختہ اضافہ کے ساتھ اس کا ترجمہ اس طرح کیا:
’’اس مخطوطہ میں حروف کے بعض نشانات مٹ گئے ہیں ، اور بعض اجزاء میں یہ پورے طور پر پڑھے جانے کے قابل بھی نہیں ہیں ، اور یہ (لکھت کے اعتبارسے ) سب سے صحیح نسخہ ہےاس میں تصحیف اور تحریف کم ہے‘‘ ]الاجماع شمارہ:۸، ص:۴ [
قارئین غور کریں کہ محقق نے پہلے یہ کہا کہ اس نسخہ میں کئی مقامات پڑھے جانے کے قابل نہیں اس کے فوراً بعد محقق کہہ رہے ہیں کہ یہ ”أصح النسخ“ ہے ، یہ ماقبل کا سیاق واضح دلیل ہے کہ یہاں ”أصح النسخ“ سے مراد استناد کے لحاظ سے یہ سب سے صحیح ترین نسخہ ہے ۔
بلکہ ”أصح النسخ“ کے فوراً بعدمحقق نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تصحیف اور تحریف کم ہے ، یہ بعد والا سیاق بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ محقق ”أصح النسخ“ کہہ کراستناد ہی کے لحاظ سے اس نسخہ کو سب سے صحیح بتلارہے ہیں ۔
بلکہ خود ”الاجماع“ والوںنے بھی یہ حوالہ یہ بتانے کے لئے دیا ہے کہ یہ نسخہ کئی جگہ سے پڑھے جانے کے قابل نہیں ہے ،اب کوئی ہمیں سمجھائے کہ یہ کس مٹی کے بنے لوگ ہیں جو ”اصح النسخ“ کا ترجمہ لکھت کے اعتبار سے سب صحیح کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہی عبارت لیکر یہ شوربھی مچاتے ہیں کہ یہ نسخہ پڑھنے کے قابل نہیں ہے ، سبحان اللہ !
بہرحال دیگر محققین کی طرح مغربی طباعت کے محقق نے بھی اس نسخہ کوسب سے صحیح ترین نسخہ، یعنی استناد کے لحاظ سے سب سے صحیح ترین نسخہ کہاہے ۔
بلکہ مغربی طباعت کے محقق نے ایک دوسری جگہ اور واضح انداز میں اس نسخہ کو استناد کے لحاظ سے ہی سب سے صحیح نسخہ بتلایا ہے چنانچہ ، اس نسخہ کی ایک جلد کے کئی مقامات کو محقق نہیں پڑھ پارہے تھے تو انہوں نے یہاں الگ نسخے سے مدد لی لیکن اس الگ نسخہ کو بکثرت تصحیف اور نقص والا قراردیا اس کے بعد استنبول والے نسخے کے بارے میں کہا:
«’’فهي صحيحة نسبيا ولكنها فى معظمها لا تقرأ‘‘»
’’یہ (استنبول والا نسخہ ) پہلے نسخہ سے زیادہ صحیح ہے لیکن اس کا اکثر حصہ پڑھے جانے کے قابل نہیں‘‘
]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۸،مقدمہ ص:۳ [
ایک اور مقام پر اسی محقق نے لکھا:
«’’وهي أحسن النسخ و أوفاها‘‘»
’’اور یہ (استنبول والا نسخہ) سب سے بہترین اور مکمل نسخہ ہے‘‘
]التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج: ۹،مقدمہ ص:۳[
معلوم ہوا کہ یہ نسخہ سب سے بہترین نسخہ ہے۔
مغربی طباعت کے محقق نے اس نسخہ کے بارے میں جو یہ کہا کہ اس میں تصحیف اور تحریف کم ہے اس کو لیکر اجماع والوں کی یہ بے تکی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
’’اسی استنبول کے نسخہ میں کچھ تحریف اور تصحیف بھی واقع ہوئی ہے جس کو کفایت اللہ صاحب نے چھپا لیا ہے اور صرف اپنے مطلب کی عبارت نقل کی‘‘ ]الاجماع شمارہ:۸، ص:۴ [
عرض ہے کہ یہ اس نسخہ کے صحیح ترین اور سب سے بہتر ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں تصحیف اور تحریف بہت کم ہے ، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مخطوطہ ایسا نہیں ہوتا جس میں ناسخ سے نادانستہ طور پر تصحیف اور تحریف نہ ہوتی ہو، اور یہی وجہ ہے کہ نسخہ نقل کرنے کے بعد اس کا اصل سے مقابلہ کیا جاتا ہے اور تصحیف اور تحریف کو درست کیا جاتا ہے ۔لیکن ناسخ اور مقابلہ کرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں اس لئے ہزار کوشش کے بعد بھی بتقاضائے بشریت ہر نسخہ میں کچھ تصحیف و تحریف رہ جاتی ہے ۔
بنابریں کوئی بھی نسخہ تصحیف و تحریف سے مکمل پاک نہیں ہوتا البتہ جس نسخہ میں تصحیف و تحریف سب سے کم ہو وہی نسخہ سب سے زیادہ معتبرہوتا ہے ، اور محقق بھی یہ بات کہہ کر یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ نسخہ سب سے بہترین ہے۔
رہی بات یہ کہ ہم نے یہ بات نقل نہیں کی تو عرض ہے کہ ہم نے اس سے پہلے موجود ’’اصح النسخ‘‘ والی بات بھی تو نقل نہیں کی تھی ، ہم تو صرف یہ دکھا رہے تھے کہ محقق کے بقول اس نسخہ کے بعض حروف پڑھنے کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے صرف اتنے الفاظ نقل کئے جن میں یہ بات تھی ، باقی اگلے جملے کا اس سے تعلق نہیں تھا اس لئے اسے نقل نہ کیا ۔اور یہ اگلا جملہ ہمارےخلاف بھی تو نہیں ہے کہ یہ شک کیا جائے کہ اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیاگیا بلکہ یہ تو الحمدللہ ہمارے حق میں ہی ہے ۔ لیکن متعلقہ مقام پر اسے نقل کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مغربی طباعت کے محقق سعید اعراب زیربحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“ ٹھیک سے پڑھ نہیں سکے جس کو انہوں نے اندازے سے ”السرۃ“ بنادیا جو کہ غلط ہے۔
مغربی طباعت اور اوقاف کا نسخہ
واضح رہے کہ اس روایت کی تحقیق میں ان کے سامنے صرف یہی ایک مخطوطہ تھا ، اور اس جلد کی تحقیق میں ان کے سامنے جو دوسرا مخطوطہ تھا اس میں یہ حصہ تھا ہی نہیں جیساکہ خود محقق نے شہادت دے دی ہے جس کی تفصیل ہم’’ انوار البدر ‘‘میں پیش کرچکے ہیں ۔
لیکن اجماع والوں کی ہٹ دھرمی اور ضد دیکھئے کہ مدعی سست گواہ چست کے اصول پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اوقاف کے نسخہ میں ’’التندوۃ‘‘ نہیں ہے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اوقاف کے نسخہ میں ’’السرۃ ‘‘موجود نہ ہو کیونکہ یہ بات محال ہے کہ ایک لفظ مخطوطات میں نہ ہو مگر ایک محقق اس کو اپنی طرف سے بڑھا دے ، لہٰذا اہمارے نزدیک ’’التمہید‘‘کے محقق شیخ سعید اعراب صاحب کو اوقاف کے نسخہ سے کچھ نہ کچھ اشارہ ضرور ملا ہوگا کہ یہاں پر ’’السرۃ‘‘ ہونا چاہے نہ کہ ’’التندوۃ‘‘ ‘‘]الاجماع شمارہ:۸، ص:۵ [
عرض ہے کہ:
یہاں محقق نے اپنی طرف سے کوئی لفظ بڑھا یا نہیں ہے بلکہ استنبول والے مخطوطہ میں موجود ایک لفظ کو غلط پڑھ کر اسی کو تبدیل کیا ہے ،اور محقق نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے کہ اوقاف کے نسخہ میں ’’التندوۃ‘‘ نہیں ہے ، بلکہ محقق نے یہ کہا ہے کہ ’’التندوۃ‘‘ استنبول کے نسخہ میں ہے اور اوقاف کے نسخہ کے بارے میں محقق نے یہ کہا کہ اوقاف کے نسخہ میں یہ لفظ اور یہ حصہ موجود ہی نہیں ہے ۔
اس لئے ”الاجماع“ والے اجماع کے نام پر زور زبردستی قیاس آرائی نہ کریں ، جب محقق نے پوری صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ اوقاف والے نسخہ میں یہ لفظ موجود ہی نہیں تو زور زبردستی اس میں اس کے وجود کا گمان کرنا اور یہ کہنا کہ محقق کو اس سے اشارہ ملا ہوگا ، انتہائی لایعنی اور بالکل خلاف حقیقت بات ہے ، اگر ایسا ہی تھا تو محقق اس لفظ کے لئے استنبول کے بجائے اوقاف والے نسخہ ہی کا حوالہ دیتے ، اور یہ کہتے کہ اوقاف والے نسخہ میں ’’السرۃ‘‘ ہے اور استنبول والے نسخہ میں ’’التندوۃ‘‘ ہے ، لیکن محقق نے ایسا بالکل نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے اس لفظ کے لئے صرف اور صرف استنبول والے نسخہ کا حوالہ دیا ہے اور اوقاف والے نسخہ میں اس کے وجود ہی سے انکار کیا ہے۔
واضح رہے کہ’’ اوقاف‘‘، یہ نسخہ کہ اصل نسبت نہیں ہے ، ’’التہمید‘‘ کے کسی بھی محقق نے ’’التہمید‘‘ کے کسی بھی مخطوطہ کو اوقاف کی طرف منسوب نہیں کیا ہے ، دراصل ’’التہمید‘‘ کو سب سے پہلے اوقاف والوں نے چھپوایا اور انہیںحضرات نے شروع میں مختلف لائبریوں سے جو مخطوطات فراہم کئے تھے ان مخطوطات کو محقق نے اوقاف کی طرف منسوب کیا ہے، اور اس ضمن میں ہر نسخہ کا واضح تعارف نہیں کرایا ہے ، لیکن جب ہم دیگر محققین کے مطبوعہ نسخوں اور ان کے مقدمہ میں نسخوں کا تعارف دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ نقص والا نسخہ مکتبہ تیموریہ کا ہے ، اوراس میں اس روایت سے پہلے اور بعد کا حصہ موجود ہے، مگر یہ روایت موجود ہی نہیں ہے ۔
ملاحظہ ہو آگے اس نسخہ کا اسکین جس میں یہ پوری روایت ہی ساقط ہے :اجماع والوں نے میڈیکل ڈاکٹر دکتور عبدالمعطی قلعجی کے مطبوعہ نسخہ کا اسکین پیش کیا ہے ، انہوں نے بھی اپنے نسخہ میں لکھا ہے کہ تیمویہ کے نسخہ سے یہ روایت ساقط ہے ۔ دیکھئے:( التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ج:۲۴، ص:۱۱۰، حاشیہ:۱ )
الغرض کہ مغربی طباعت کے محقق کے سامنے زیر بحث روایت کے لئے صرف اور صرف ایک ہی مخطوطہ تھا،اوراس میں لفظ ”الثندوة“ کو ٹھیک طرح سے وہ پڑھ نہیں سکے اس لئے اندازے سے اسے ”السرة“ بنادیا ۔
’’الاجماع‘‘ والو ںکے پیش کردہ مطبوعہ نسخوں کی حیثیت
بہرحال جب پہلی بار ’’التمہید‘‘ چھپی اور اس میں اس روایت کے اندر محقق نے غلطی سے ”الثندوة“ کو ”السرة“ بنا دیا تو اس کے بعد کئی ایک لوگوں نے اسی پہلے ایڈیشن ہی کو دوبارہ چھاپا کیونکہ پہلا ایڈیشن آج کی طرح خوبصورت کمپوزنگ کے ساتھ نہیں چھپا تھا ، اس لئے بعض نے اسے دوبارہ کمپوز کرکے چھاپا ، اور بعض نے عربی عبارات پر تشکیل کے لئے بھی اسے دوبارہ چھاپا ، اور بعض نے روایات کی تخریج کے لئے اسے دوبارہ چھاپا اور بعض نے فقہی اعتبار سے اسے الگ سے مرتب کرتے ہوئے اسے دوبارہ چھاپا ، ان حضرات نے اس کتاب کی نئے سرے سے تحقیق نہیں کی ہے جیساکہ ”الاجماع“ والوں نے قارئین کو مغالطہ دیا ہے ، بلکہ انہوں نے محض پہلے ایڈیشن ہی سے نقل کرکے دوسرا نسخہ تیار کیا ہے ، ”الاجماع“ والوں کی طرف سے پیش کردہ درج ذیل نسخوں کا یہی حال ہے :
۱۔ نسخہ محمد عبدالقادر عطاء
۲۔ نسخہ محمدبن ریاض الاحمد
۳۔ نسخہ عبدالرزاق المہدی
۴۔ نسخہ شہاب الدین ابو عمر
۵۔ ھدایۃ المستفید من کتاب التمہید
۶۔ فتح البر فی الترتیب الفقہی لتمہید ابن عبدالبر
مذکورہ بالا سبھی مطبوعہ نسخوں میں سے کوئی بھی نسخہ قلمی مخطوطات کو سامنے رکھ کر تیار نہیں کیا گیاہے ، بلکہ پہلے سے طبع شدہ مغربی نسخے ہی سے تیار کیا گیا ہے ، قارئین ان نسخوں کو اٹھا اٹھا کر دیکھ لیں ان میں سے کسی بھی نسخہ کے مرتب یا محقق نے یہ دعویٰ کیا ہی نہیں ہے کہ اس نے قلمی مخطوطات کو سامنے رکھ کر اسے تیار کیا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی بھی نسخہ میں کسی قلمی نسخہ کا کوئی تعارف ہے ۔
جبکہ یہ معروف بات ہے کہ جب کسی کتاب کی حقیقی تحقیق کی جاتی ہے تو محقق شروع میں ان قلمی نسخوں کا تعارف پیش کرتا ہے بلکہ بعض صفحات کے اسکین بھی دیتا ہے جن کو سامنے رکھ کر وہ کتاب کی تحقیق کرتا ہے ، لیکن قارئین آپ یہ سارے نسخے اٹھا کر دیکھ لیں ان میں سے کسی بھی نسخہ میں یہ بات قطعاً نہیں ہے ۔
دراصل یہ سارے نسخے حقیقی معنوں میں الگ الگ تحقیق شدہ نسخے نہیں ہیں بلکہ سب ایک ہی نسخے یعنی ’’التمہید‘‘ کی پہلی طباعت سے تیار کیے گیے ہیں، اس کی زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ ان تمام نسخوں کا مواد پوری طرح سے مغربی طباعت والے نسخے کے مواد سے میچ ہوتا ہے ، کوئی بھی موازنہ کرکے دیکھ لے۔
لہٰذا جب حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سارے نسخے اصلی معنوں میںتحقیقی نسخے ہیں ہی نہیں ، بلکہ ایک ہی نسخوں سے نقل کئے گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب پہلے نسخہ میں جو غلطی ہوگی وہ ان سارے نسخوں میں بھی نقل ہوگی ، اس طرح ان سارے نسخوں کی حیثیت دراصل ایک ہی نسخے کی ہے ۔
اس وضاحت سے ”الاجماع“ والوں کی یہ بے چینی دور ہوجانی چاہئے کہ ہم نے ’’انوار البدر‘‘ میں ان مطبوعہ نسخوں کے حوالے کیوں نہیں دئے ۔
محترم !ہم نے ’’انوار البدر‘‘ میں مغربی طباعت کا حوالہ اور اسکین دیا ہے ، وہ ایک حوالہ ہی مذکورہ تمام نسخوں کے حوالےکے برابر ہے کیونکہ یہ سارے نسخے اسی مغربی مطبوعہ نسخے ہی سے تیار کئے گئے ہیں ۔
نوٹ:
ہم یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ ”الاجماع“ والوں کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ نسخوں میں سےکسی بھی مطبوعہ نسخے میں قلمی نسخے لیکر تحقیق کا دعویٰ بھی نہیں ہے ،لیکن ان میں شہاب الدین ابو عمر کا جو نسخہ ہے اس کے ٹائٹل پیج پر لکھا ہے:
«’’طبعة محققة ومقابلة علٰي أصول خطية‘‘»
اور نیچے لکھا ہے :
«’’حققه وضبطه ، شهاب الدين ابوعمر‘‘»
یہاں نیچے کی سطر میں تحقیق و ضبط کا جو کام ہے ، محض یہ کام اس نسخے میں شہاب الدین ابوعمر صاحب کا ہے، وہ بھی اس معنی میں کہ انہوں نے مغربی طباعت والے نسخے سے اسے نقل کرکے اس کی پروف ریڈنگ کی ہے ، لیکن اوپر کا جو جملہ ہے جس میں اصل تحقیق اور خطی نسخوں سے تقابل کی بات ہے اس سے مراد شہاب الدین ابوعمر کا کام نہیں ہے بلکہ اس سے مراد مغربی طباعت والوں ہی کا کام ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اس نسخہ میں شہاب الدین ابوعمر صاحب نے کسی بھی قلمی نسخے سے تحقیق یا مقابلہ کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی قلمی نسخے کا اسکین پیش کیا ہے ، جیساکہ اصل تحقیق کا دستور ہے ، مزید یہ کہ اس نسخہ کا مواد پوری طرح مغربی طباعت والے نسخہ سے میچ کرتا ہے۔
دراصل یہ ایک طرح کی تدلیس ہے ، صرف کتاب کی مارکیٹنگ کے لئے یہ جملہ اس طرح لکھ دیا گیا ہے کہ محض ٹائٹل دیکھنے والے کو لگے کہ یہ کوئی نئی تحقیق ہے ، لیکن کتاب کھولتے ہی اس کی پول کھل جاتی ہے ۔
الغرض یہ کہ ”الاجماع“ والوں کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ چھ (۶) نسخوں کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں بلکہ یہ سب ایک ہی نسخے سے یعنی مغربی طباعت والے نسخے سے نقل کئے گئے ہیں اور ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس مغربی طباعت کے اس محقق نے کس طرح غلطی کی ہے۔
باقی دو نسخوں کی حقیقت
البتہ ”الاجماع“ والوں نے مذکورہ نسخوں کے علاوہ دو اور نسخہ پیش کیا ہے ان دونوں نسخوں کے محقق نے بے شک اصل تحقیق کادعویٰ کیا ہے ،اور مقدمہ میں قلمی نسخوں کا تعارف بھی کرایا ہے ، لیکن اس کے باوجود بھی یہ دونوں نسخے ناقابل اعتبار ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
میڈیکل ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی کا نسخہ
جس طرح ہندوستان میں بہت سارے بردرز عصری علوم حاصل کرتے ہیں پھر اپنا میدان چھوڑ کر اسلامی اسکالر بنتے جاتے ہیں ایسے ہی عالم عرب میں بھی بہت سارے بردرز ہیں ، انہیں میں سے ایک عبدالمعطی قلعجی ہیں جو میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور تدلیس سے کام لیتے ہوئے خود کو دکتور لکھتے ہیں جس سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ شاید شرعی علوم میں دکتور ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی لئے ان صاحب کو خبیث تدلیس والا کہا ہے۔ دیکھئے :]سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة:۱۲؍۴۸۱[
بہرحال یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں لیکن موصوف نے علوم حدیث وغیرہ سے متعلق کتابوں کی تحقیق کا شوق پال رکھاہے اور اپنی ہر تحقیق میں عجیب گل کھلاتے ہیں ، اسی لئے باذوق باحثین کے یہاں سب سے بد ترین تحقیق انہیں کی ہوتی ہے ۔
اس کتاب یعنی ’’التمہید‘‘ میں بھی انہوں نے عجیب وغریب گل کھلائے ہیں ، مثلاً سب سے بڑا لطیفہ یہی دیکھئے کہ حضرت نے یہ دعویٰ کردیا کہ انہوں نے بیس سے زائد قلمی نسخوں سے تحقیق کی ہے ، حالانکہ موصوف نے صرف سات(۷) ہی مخطوطات سے تحقیق کی ہے جیساکہ مقدمہ میں انہوں نے سات (۷)مخطوطات کا ذکر کیا ہے ۔دیکھئے :] التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی: ص:۷۳۹ تا۷۴۶[
لیکن چونکہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کی پہلی مغربی طباعت کو بھی سامنے رکھا ہے اس لئے مغربی طباعت والوں نے جن مخطوطات سے تحقیق کی تھی ان مخطوطات کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور یوں لکھا :
«’’ومعلوم أن الإبرازة المغربية اعتمدت على حوالي (۱۵) نسخة خطية متفرقة اعمدتها كلها وقابلت عليها مدققا ومصححا إلى الصواب من كلام أبي عمر ابن عبدالبر فصار المجموع (۲۲) نسخة خطية‘‘»
’’یہ بات معلوم ہے کہ مغربی طباعت نے تقریباً (۱۵) متفرق مخطوطات پر اعتماد کیا ہے ، میں نے بھی ان سب پر (یعنی مطبوعہ نسخہ کے ذریعہ ) اعتماد کیا ہے ، اور اس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ابن عبدالبر کی عبارات کی اصلاح کی ہے تو اس طرح کل (۲۲) مخطوطات ہوگئے‘‘
دیکھئے :]التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ص :۷۳۹[
قارئین دیکھئے اس میڈیکل ڈاکٹر کی دھاندھلی بازی !
کس طرح زور زبردستی موصوف نے محض مغربی طباعت کے مطبوعہ نسخہ کو سامنے رکھ کر مغربی طباعت والوں کے مخطوطات کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور مجموعی تعداد (۲۲) تک پہنچادی ، سبحان اللہ !
حالانکہ انہوں نے جن سات(۷) مخطوطات کو سامنے رکھا ہے ان میں سے بھی بعض مخطوطات مغربی طباعت والوں کے مخطوطات میں شامل ہیں ۔ پھر بھی یہ صاحب پتہ نہیں کس طرح حساب لگا کر مخطوطات کی مجموعی تعداد (۲۲) بتلارہےہیں ۔ اس اعتبار سے تو یہ میڈیکل ڈاکٹر بھی کہلانے کے لائق نہیں چہ جائے کہ علمی طور پر انہیں دکتور کہا جائے ۔
قارئین کرام !
یہیں سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ عبدالمعطی صاحب کے نسخہ میں ”الثندوة“ کی جگہ ”السرة“ کیوں ہے ؟
دراصل موصوف کی کل کائنات ’’التمہید‘‘ کا پہلا مطبوعہ نسخہ ہی ہے ، یہ صاحب نہ صرف یہ کہ اس مطبوعہ نسخہ پر اعتماد کررہے ہیں بلکہ اس کے سہارے دوسرے قلمی نسخوں میں موجود ابن عبدالبر کی عبارات بھی درست کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں ، اب ظاہر ہے کہ جب اس مطبوعہ نسخہ میں بھی ”السرة“ ہی ہے تو ان کے نسخے میں بھی یہی لفظ رہے گا۔
مزید تسلی کے لئے ہم یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ ان کے پیش نظر سات (۷) مخطوطات میں سے صر ف اور صرف دو مخطوطات ہی میں زیر بحث روایت والا حصہ ہے ۔
ے ایک مخطوطہ دارا الکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا ہے ۔ دیکھئے 🙁 التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ص:۷۳۹ )
ے اور دوسرا مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) کا ہے۔دیکھئے 🙁 التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ص :۷۴۶)
ان دونوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے جیساکہ ہم ان دونوں کا اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے یہی مجلہ صفحہ (۱۱) اور صفحہ (۱۸)
ان دونوں کے علاوہ ایک مخطوطہ مکتبہ تیموریہ کا بھی ہے لیکن اس میں گرچہ اس روایت سے آگے پیچھے کا حصہ ہے لیکن عین یہ روایت جس مقام پر تھی اس مقام سے یہ روایت والا حصہ غائب ہے۔اس کا اسکین دیا جا چکا ہے دیکھیں: ص:(۳۶)
خود عبدالمعطی صاحب نے بھی اپنے نسخہ میں اس مقام پر زیر بحث روایت اور اس سے ماقبل کی سطرکو بریکٹ [ ] میںرکھ کر حاشیہ میں لکھا ہے کہ :
’’ما بين الحاصرتين سقط في (ت)‘‘
’’یعنی بریکٹ کی عبارت ت (یعنی نسخہ تیموریہ ) سے ساقط ہے‘‘دیکھئے :] التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ج:۲۴، ص:۱۱۰، حاشیہ :۱ [
یعنی عبدالمعطی صاحب کے پاس صرف اور صرف دو ہی مخطوطات تھے جن میں یہ روایت تھی اور ان دونوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ عبدالمعطی صاحب نے مغرب کے مطبوعہ نسخہ ہی پر اعتماد کیا ہے اورجس طرح مغرب کے مطبوعہ نسخہ میں اس روایت میں ”السرة“ تھا ویسے انہوں نے بھی نقل کردیا ۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف نے اپنی تحقیق میں ہر ہر لفظ کا دقت کے ساتھ مقابلہ کیا ہی نہیں ہے بلکہ سرسری نظر ڈال کر تحقیق کا دعویٰ کرلیا ، چنانچہ موصوف نے اس لفظ کا مقابلہ اپنے پاس موجود مخطوطات سے کیا ہی نہیں، بلکہ سرسری طور پر صرف پوری روایت دیکھ کر آگے بڑھ گئے ۔
کیونکہ ایک مخطوطہ میں پوری روایت موجود نہیں تھی تو اس کی وضاحت کردی ،مگر ایک لفظ دو نوں مخطوطات میں ”الثندوة“ تھا اور صرف مطبوعہ نسخہ میں ”السرة“ تھا اس کی کوئی بھی وضاحت نہیں کی ہے ۔
اس تفصیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں عبدالمعطی صاحب کے نسخہ کی بھی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہے بلکہ انہوں نے مغرب کے مطبوعہ نسخہ ہی سے یہ روایت نقل کرکے اسی غلطی کو دہرا دیا ہے ۔
شیخ اسامہ بن ابراہیم کا نسخہ
رہی بات شیخ اسامہ بن ابراہیم کے نسخہ کی تو اس مسئلہ میں اس نسخہ کا حوالہ بھی بے سود ہے ، کیونکہ شیخ اسامہ بن ابراہیم بھی مغربی مطبوعہ نسخہ سے دھوکہ کھا گئے ہیں ، کیونکہ انہوں نے اپنی تحقیق میں اصل مغربی مطبوعہ نسخہ ہی کو بنایا ہے۔ چنانچہ موصوف خود لکھتے ہیں:
«’’قمت بمقابلة الطبعة الأولي للكتاب التى طبعت بمعرفة وزارة الأوقاف المغربية علٰي عدد من النسخ الخطية التى ياتي الحديث عن وصفها بالتفصيل‘‘»
’’ التمہید‘‘ کی جو پہلی طباعت ہے جسے وزارۃ الاوقاف المغربیہ نے چھاپا ہے ، میں نے اسی نسخے کو لیکر اس کا مقابلہ چند مخطوطات سے کیا ہے جن کاتعارف آگے تفصیل سے آرہا ہے‘‘
]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم ، ج:۱، ص:۷۰[
شیخ اسامہ بن ابراہیم کے اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے اس کتاب کی تحقیق میں مغربی طباعت ہی کو اصل بنایا ہے پھر ان کو اس کتاب کے جو مخطوطات ملے ان سے اس مطبوعہ نسخہ کا مقابلہ بھی کیا ہے ، اور اس کتاب کے جس حصہ سے متعلق ان کو کوئی مخطوطہ نہیں ملا اسے پہلی طباعت ہی پر اعتماد کرتے ہوئے درج کیا ہے۔جیساکہ موصوف لکھتے ہیں:
«’’وهنالك مواضع لم أستطع فيها الوقوف علٰي أصول لمقابلتها على المطبوع فاعتمدت فيها على المطبوع‘‘»
’’اور اس کتاب کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کے اصل مخطوطات مجھے نہیں مل سکے ایسے مقامات پر میں نے مطبوعہ نسخہ (یعنی مغربی مطبوعہ نسخہ ) پر ہی اعتماد کیا ہے‘‘
]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم ، ج:۱، ص:۸۳[
شیخ اسامہ بن ابراہیم کی ان توضیحات سے واضح ہے انہوں نے ’’التمہید‘‘ کے پہلے مغربی مطبوعہ نسخہ ہی کو اصل بنایاہے اور اس نسخہ کے جن جن حصوں کے مخطوطات ان کو ملے ان حصوں کا ان مخطوطات سے مقابلہ بھی کیا ہے۔
ایسے حالات میں اگر مقابلہ میں کہیں بھی چوک ہوگی تو ظاہر ہے کہ ان کے نسخہ میں بھی وہاں وہی الفاظ ہوں گے جو پہلے مطبوعہ نسخہ میں تھے ۔
اور زیر بحث مسئلہ میں ایسا ہی ہوا ہے ، چنانچہ زیر بحث روایت جس مقام پر ہے اس مقام سے متعلق شیخ اسامہ بن ابراہیم کو تین مخطوطات ملے ہیں ۔
ےپہلا مخطوطہ مخطوطہ دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا ہے ۔]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم، ج:۱، ص:۷۷[
ے دوسرا مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) کا ہے۔]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم ، ج:۱، ص:۷۸[
ےتیسرا مخطوطہ کوبریلی ، الجزء التاسع رقم (۳۴۹) کا ہے ۔]التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم، ج:۱، ص :۸۲[
ان تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے جیساکہ ہم ان تینوں کا اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے یہی مجلہ صفحہ (۱۱) ،صفحہ (۱۸)اور صفحہ(۲۰)
ان تینوں کے علاوہ ایک مخطوطہ مکتبہ تیموریہ کا بھی ان کے پاس تھا لیکن اس میں گرچہ اس روایت سے آگے پیچھے کا حصہ ہے لیکن عین یہ روایت جس مقام پر تھی اس مقام سے یہ روایت والا حصہ غائب ہے اس کی وضاحت ماقبل میںہم کرچکے ہیں دیکھئے یہی مجلہ ص (۳۵تا۳۶ )
قارئین کرام !
اب غور فرمائیں کہ شیخ اسامہ بن ابراہیم کے پاس موجود تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ تھا تو پھر آخر انہوں نے ’’السرۃ ‘‘کا لفظ کیسے درج کردیا ؟
اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اس مقام پر موصوف اس مغربی مطبوعہ نسخہ ہی سے دھوکہ کھاگئے ہیں جس کو اصل بنا کر وہ اپنا نسخہ تیار کررہے تھے اور خاص اس لفظ کا مقابلہ نہیں کرسکے ورنہ جب تین کے تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ تھا تو انہیں کم ازکم نسخوں کا اختلاف تو بتلانا چاہئے تھا جیساکہ تحقیق کا اصول ہے ۔
لیکن شیخ اسامہ بن ابراہیم کا یہاں پر نسخوں کا اختلاف نہ بتلانا صاف دلیل ہے کہ آں جناب خاص اس لفظ کا مقابلہ اپنے پاس موجود مخطوطات کے الفاظ سے نہیں کرسکے ہیں ۔
میں نے بذات خود شیخ اسامہ بن ابراہیم سے اس سلسلے میں گفتگو کی اوران کے سامنے یہی بات رکھی کہ آپ نے جن مخطوطات کے سہارے کتاب کے اس حصہ کی تحقیق کی ہے ان تمام مخطوطات میں یہاں ”الثندوة“ ہی ہے پھر آپ نے اپنی تحقیق میں یہاں ”السرة“ کیسے درج کردیا تو موصوف نے جواب دینے کے لئے تین دن کا وقت مانگا لیکن پھر میں نے تقریبا ًایک ہفتہ بعد ان سے یہ سوال دہرایا تو آں جناب نے کہا کہ میں ابھی تک مراجعہ نہیں کرسکا ، پھر دس پندرہ دن کے بعد میں نے رابطہ کیا تو موصوف نے کہا کہ مجھے اور وقت دیں میرے پاس ابھی وہ مخطوطات نہیں ہیں جنہیں لیکر میں نے تحقیق کی تھی ۔
بہر حال شیخ اسامہ بن ابراہیم نے جواب دینے کے لئے مزید وقت مانگا ہے لیکن تاحال وہ ہماری بات کو غلط نہیں کہہ سکے ہیں اور ہماری پیش کردہ تفصیلات کی روشنی میں ہر شخص یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ بلا شبہ شیخ اسامہ بن ابراہیم صاحب سے بھی چوک ہوئی ہے اور چونکہ انہوں نے بھی اپنی تحقیق میں ’’التمہید‘‘ کی پہلی طباعت ہی کو اصل بنایا ہے اس لئے اس روایت کے معاملے میں ان کے نسخہ کا حوالہ بھی مفید نہیں ۔
قارئین کرام !
مذکورہ بالا تفصیلات سے آپ یہ جان چکے ہیں کہ”الاجماع“ والوں نے جتنے بھی مطبوعہ نسخوں کا حوالہ دیا جن میں ”السرة“ کا لفظ ہے ان سب کا ماخذ ایک ہی مطبوعہ نسخہ ہے جو سب سے پہلے چھپا تھا جس کے محقق نے غلط فہمی میں ”الثندوة“ کو ”السرة“ بنادیا تھا ۔اس اعتبار سے ان سارے نسخوں کی حیثیت ایک ہی نسخے کی ہے ۔
اب آئیے ہم آپ کے سامنے ’’التمہید‘‘ کے ان مطبوعہ نسخوں کا حوالہ دیتے ہیں جن کے محققین نے باقاعدہ قلمی نسخوں سے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کی ہے اور اپنے نسخہ میں صحیح لفظ ”الثندوة“ ہی درج کیا ہے ۔
دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تحقیق والا نسخہ
’’التمہید‘‘کی مغربی طباعت کے بعد دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اسی کتاب کی تحقیق کی ہے اور ان کی تحقیق میں زیربحث روایت کو شامل جتنے بھی مخطوطات تھے سب میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔
یہ کل تین مخطوطات تھے جن کی تفصیل یہ ہے:
پہلا مخطوطہ :
دار الکتب المصریہ رقم (۷۱۶) سے مصور معہد المخطوطات کا مخطوطہ رقم (۱۶۴) دیکھئے :]موسوعة شروح الموطأ ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج:۱، ص:۱۷۴[
ے دوسرا مخطوطہ:
دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) سے مصور معہد المخطوطات کا مخطوطہ رقم (۱۶۶) ۔دیکھئے :]موسوعة شروح الموطأ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج:۱، ص:۱۷۵[
تیسرا مخطوطہ:
نسخہ کوبریلی ، الجزء التاسع رقم (۳۴۹) کا مخطوطہ ۔دیکھئے :]موسوعة شروح الموطأ ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج :۱، ص:۱۶۶،۱۶۵[
ان تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ہم ان تینوں مخطوطات کے اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے اسی مجلہ کے صفحات (۱۱،۱۸،۲۰)
اب آگے اس مطبوعہ نسخے کے اسکین ملاحظہ ہوں:قارئین کرام !
آپ نے دیکھ لیا دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے مخطوطات یعنی قلمی نسخوں سے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کی ہے اور اس روایت میں ”الثندوة“ کا لفظ ہی درج کیا، بلکہ ساتھ ہی حاشیہ میں انہوں نے میم (م) کا رمز دے کر یہ تنبیہ بھی کردی ہے کہ مغربی مطبوعہ نسخے میں یہاں ”السرة“ لکھا گیا ہے یعنی یہ قلمی نسخوں میں نہیں ہے لہٰذا غلط ہے ۔یادرہے کہ دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی اپنےنسخہ کے حواشی میں میم (م) کے رمز سے مغربی مطبوعہ نسخہ ہی کو مراد لیتے ہیں جیساکہ انہوں نے خود مقدمہ میں اس کی وضاحت کردی ہے ۔دیکھئے :]موسوعة شروح الموطأ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج:۱، ص:۱۹۹[
ہم نے اس مطبوعہ نسخہ کا اسکین اپنی کتاب ’’انوار البدر ‘‘میں بھی پیش کیا تھا ، جسے ”الاجماع“ والے غلط تو ثابت نہیں کرسکے البتہ سادہ لوح قارئین کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ یہ نسخہ ان کے پیش کردہ نسخوں کے خلاف ہے اس لئے مرجوح ہے ۔
عرض ہے کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں ”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ نسخوں کی پول کھول دی ہے کہ یہ سب مغربی طباعت ہی سے نقل کئے گئے ہیں ۔اس کے برعکس دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے بذات خود متعدد قلمی نسخوں سے اس کتاب کی تحقیق کی ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ ان سے پہلے مطبوعہ نسخہ میں ”السرة“ کا لفظ لکھا گیا ہے ، اس کی قطعاً پیروی نہ کی بلکہ اس غلطی پر تنبیہ بھی کردی ، والحمدللہ ۔
”الاجماع“ والے دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تحقیق کو غلط ثابت نہیں کرسکے تو ایک بے تکی بات یہ کہہ ڈالی کہ یہ سلفی اور غیر مقلد ہیں ، یہ منطق ان حضرات نے اپنے رضاعی بھائی بریلویوں سے مستعار لی ہے کہ جس کی بات کاجواب نہ بن پڑے اسے وہابی کہہ کر جان چھڑا لو اور اپنے عوام کو مطمئن کردو ۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ اول تو کسی کے سلفی اورغیر مقلد ہونے سے اس کی بات کو ناقابل اعتماد بتلانا ہی مضحکہ خیز اور بریلوی علم کلام ہے ، ورنہ پھر احناف کو چاہئے کہ وہ اعلان کردیں کہ ان کی بات صرف احناف کے نزدیک ہی معتبرہوگی ، اور غیر حنفی ان کی بات پر بالکل اعتماد نہ کریں ۔
دوسرے یہ کہ احناف سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگ عقیدے میں امام ابوحنیفہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ عقیدہ میں تقلید نہیں کی جاتی ، تو عرض ہے کہ دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی عقیدہ میں سلفی ہیں یعنی عقیدہ میں کسی کی تقلید نہیں کرتے ، جیساکہ خود احناف کا بھی یہی کہنا ہے ، لیکن فقہ میں دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حنبلی ہیں یعنی احناف کے تقلیدی بھائی ہی ہیں، اس لئے ”الاجماع“ والوں کو ان پر ہم سے بھی زیادہ اعتماد کرنا چاہے۔
”الاجماع“ والوں نے ان کی کتاب اسباب اختلاف الفقہاء (۶۳،۶۴) سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ یہ غیرمقلد ہیں حالانکہ ان دونوں صفحات میں کہیں بھی ان کی طرف سے تقلید کا انکار نہیں ہے ، بلکہ صفحہ (۶۴) کے اخیر میں تو ایک مسلک کے مقلد کو یہ ادب سکھلایا گیا ہے کہ وہ اپنے مسلک کے علاوہ دیگر مسالک کی باتیں بھی پڑھے ورنہ اس کے دل میں دوسرے مسلک کے خلاف اوران کے ائمہ کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے گی ۔دیکھئے :]اسباب اختلاف الفقہاء:ص:۶۴، آخری چارسطریں[
اس کے علاوہ دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے جو کتابیں لکھیں یا تحقیق کی ہیں ان میں چندکتابیں درج ذیل ہیں:
’’(۱)اصول مذهب الإمام أحمد بن حنبل ،(۲) مناقب الإمام أحمد بن حنبل لابن الجوزي ، (۳)محنة الإمام أحمد ،(۴) الجوهر المحصل في مناقب الإمام أحمد بن حنبل،(۵) المدخل إلى مذهب الإمام أحمد بن حنبل ،(۶) الكافي في فقه الإمام أحمد ،(۷)الإقناع لطالب الانتفاع في فقه الإمام أحمد،(۸) المقنع والشرح الكبير والانصاف ، (۹) المغني لابن قدامة ،(۱۰) الفروع لابن مفلح ،(۱۱) الواضح في أصول الفقه ،(۱۲) شرح مختصر الروضة ، (۱۳)منتهى الإرادات (۱۴)هداية الراغب ‘‘۔
یہ تمام کی تمام کتابیں یا تو امام احمد رحمہ اللہ کے مناقب میں ہیں یا فقہ حنبلی میں ہیں ، کیا اب بھی کسی کو شک ہوسکتاہے کہ یہ حنبلی نہیں ہیں ؟
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد ”الاجماع“ والے اپنے مذہبی عالم کی تحقیق پر ضرور اعتماد کریں گے ۔
اور اب بھی کچھ کسر رہ جائے تو آگے ہم ایک حنفی محقق کی تحقیق سےمطبوع ’’التمہید ‘‘کا نسخہ بھی پیش کرتے ہیں ، ملاحظہ ہو:دکتور بشار عواد حنفی محقق ہیں اور انہوں نے سب سے آخر میں ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کی ہے ، ان کی تحقیق سب سے جدید (Latest) تحقیق ہے ، انہوں نے بھی زیر بحث روایت میں ”الثندوة“ کا لفظ ہی درج کیا ہے دکتور بشار عوادکے سامنے بھی زیربحث روایت کو شامل جتنے بھی مخطوطات تھے سب میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ موجود ہے ۔یہ کل تین مخطوطات تھے جن کی تفصیل یہ ہے:
ےپہلا مخطوطہ : دار الکتب المصریہ رقم (۷۱۶) دیکھئے :]التمھید لابن عبدالبر ، تحقيق دکتور بشار عواد ، ج:۱، ص:۳۴[
دوسرا مخطوطہ: دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) دیکھئے :]التمھید لابن عبدالبر ، تحقيق دکتور بشار عواد ، ج:۱، ص:۳۴[
تیسرا مخطوطہ: نسخہ کوبریلی ، الجزء التاسع رقم (۳۴۹) کا مخطوطہ ۔دیکھئے :]التمھید لابن عبدالبر ، تحقيق دکتور بشار عواد ، ج :۱، ص :۲۴[
ان تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ہم ان تینوں مخطوطات کے اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے اسی مجلہ کے صفحات (۱۱،۱۸،۲۰)
قارئین کرام! اب ایک حنفی عالم کا حوالہ بھی پیش کردیا گیا ہے امید ہے کہ احناف کم از کم اس حنفی محقق پر ضرور ایمان لائیں گے ۔
حیرت ہے کہ ”الاجماع“ والوں نے غیر متعلق نسخے تو کئی پیش کئے لیکن دکتور بشار عواد والے نسخے کا پورے مضمون میں کہیں نام تک نہیں لیا ہے، بہرحال ہم نے یہ نسخہ بھی ہدیۂ قارئین کردیاہے والحمدللہ۔
قارئین کرام ! اب تک کی تحقیق سے آپ بخوبی جان چکے ہیں کہ’’ التمہید‘‘ کی اس روایت میں’’ السرۃ‘‘ کا لفظ قطعاً نہیں ہے بلکہ اس میں تو ”الثندوة“ کا لفظ ہے جو نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرتا ہے۔
یہاں تک ہم اس روایت کے متن میں اس لفظ کی تحقیق پیش کرچکے ہیں اب ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں اس لفظ کے مفہوم اور اس کی سند پر مکمل بحث ہوگی اور ان حقائق کو سامنے لایا جائے گا جو تقلید اور اہل تقلید کی کرشمہ سازیوں سے اوجھل ہوچکے ہیں ۔
البتہ سردست یہ وضاحت دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ”الاجماع“ والوں نے اس روایت کی اسی سند کو صحیح قرار دیا ہے جو ’’ التمہید‘‘ میں درج ہے ، اور متن کے اعتبار سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، لہٰذا خود احناف کے اصول سے ہی صحیح سند سے سینہ پر ہاتھ باندھنا ثابت ہوگیا ۔ والحمد للہ۔