Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) کا بلند مقام اور ان کی کتابوں کی اہمیت

    علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہمہ گیر شخصیت پر گزشتہ چند صدیوں سے کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے ،مخالفین نے بھی لکھا ہے اور موافقین نے بھی داد تحقیق دی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب پر بے شمار کتابیں عرب و عجم میں دستیاب ہیں جن سے ان کی زندگی کے ظاہری ومخفی گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ مخالفین نے بھی باوجود یہ کہ نقطۂ نظر کے اختلاف کی وجہ سے بہت کچھ غیر صحت مندانہ باتیں امام موصوف رحمہ اللہ کی نسبت لکھ دی ہیں جس میں تحقیق کا عنصر کم تقلید کا عنصر نمایاں ہے، پھر بھی وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فکر رسا ، اخاذ ذہن، علمی و عملی ہمہ گیر شخصیت اور بے باکی جرأت و عزیمت اور سیال قلم کی تعریف کرنے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔سردست ہم خود کو اس پوزیشن میں نہیں پا تے  کہ مناقب سے مضمون کو طول دیں یا مثالب کی تردید کریں اس سلسلے میں ہمارے اسلاف نے فرض کفایہ ادا کردیا ہے۔فجزاھم اللہ خیر الجزاء۔

    تاہم عرض یہ کرنا ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی محبت ہر اہل حدیث کے دل میں ہونی چاہیے (رسمی اور نام نہاد محبت و عقیدت نہیں جو موسمی ہو یا اختلافی حالات کی ضرورت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے بلکہ وہ محبت جو زبانی دعویٰ اور رسم کی بجائے دل اور اتباع کے ساتھ ہو)کیونکہ بلامبالغہ غیر جانبدار ی سے دیکھنے والے ہر صحیح العقیدہ بندۂ مسلم کے لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ خالص العقیدہ منہج کتاب و سنت کے دعویدار اور ترجمانی کرنے والے تمام سالکان راہ کے لئے ایک بہترین و مثالی شخصیت ہیں۔ انہوں نے جس نا گفتہ بہ اور نامساعد حالات میں علمی و عملی ، قلمی و زبانی و جانی جہاد کیا اسے سوچ کر انسانی ذہن و دل حیرت کا شکار ہوجاتا ہے، آپ نے اکیلے معتزلہ، جبریہ ، قدریہ، رفاعیہ کے ردود اور ان سے مناظرے کئے اور اکیلے اپنی تصنیفات و تحریرات سے بدعات و تقلید کی شکست کے جس میدان میں علم نصب کیا ہے ان کی طرح بعد کے ادوار میں اسے کوئی پہنچ نہ سکا۔

    امام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصانیف کے متعلق غلط فہمیاں اور اس  کے اسباب:

    علمی حلقوں میں یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ تمام ہی مکاتب فکر کے معتدل اور غیر جانب دار حضرات اپنے اختلافات کے باوجود ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کی علمی شخصیت اور ان کی تصانیف کا بلند مقام تسلیم کرتے ہیں اور علمی تقریر و تحریر میں ان کے تصنیفات کے اقتباسات کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ تحریر و تقریر کا وزن بڑھ سکے۔تاہم چند لوگوں کے استثناء کے ساتھ عمومی رجحان اور غلط انداز فکر یہ ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصنیفات بے حد خشک اور سمجھنے کے لحاظ سے عام انسانی دماغ کی سطح سے بلند ہوا کرتی ہیں۔اسے غلط فہمی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔

     پھر بعض کوتاہ نظروں نے ایک طرف جہاں امام موصوف کی تصانیف کی تعریف کی مگر ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ وہ بڑی تیز طبیعت کے مالک تھے حکم و فتویٰ نافذ کرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔

    جب کہ بعض لوگوں نے اس افواہ کی وجہ سے تصانیف ابن تیمیہ کو ہاتھ نہ لگایا کہ وہ جمہور اہل سنت مسلک کے اعتقاد سے الگ اعتقاد رکھتے ہیں اور کئی مسائل میں بغیر کسی دلیل کے جمہور امت سے شذ و ذوانفرادیت کو ترجیح دی ہے۔

     جب کہ کچھ لوگوں نے ان کی گمراہی و تکفیر کا ہوّا کھڑا کرکے بھی ان کی تصانیف کی طرف طالبان علوم نبوت اورعوام  الناس کی رغبت کی راہیں بند کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

     یہی چند اسباب ہیں جن کے باعث موافقین و مخالفین دونوں کی نگاہوں میں تصنیفات ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو وہ مقام نہ حاصل ہوسکا جس کی وہ واقعی معنوں میں مستحق تھیں۔

    علاّمہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اپنے مقالہ میں امام ابن تیمیہ کو حقیقی معنوں میں مجدّد وریفارمرثابت کرتے ہوئے  ان کی زندگی پرسیر حاصل مضمون لکھا ہے، مولانا آزاد رحمہ اللہ نے ’’تذکرہ‘‘کے صفحات میں ان کی زندگی کے چند گوشوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ غلام رسول مہر کی تصنیف ’’علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ‘‘غلام برق کی ’’سیرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ‘‘اور علی میاں ندوی کی ’’تاریخ دعوت و عزیمت جلد ۲، اور صلاح الدین مقبول احمد المدنی کی ’’دعوۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ و اثرہ علی الحرکات المعاصرۃ‘‘میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پوری زندگی کھنگال کر رکھ دیا گیاہے۔ عربی و انگلش اور اردو ہر زندہ زبان میں فکر ابن تیمیہ کی دھوم مچی ہے۔

    تصنیفات ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کی عصر حاضر میں اہمیت:

     ان سارے غبار کے باوجود جو امام موصوف کی بے داغ سیرت پر اڑائے گئے ہیں گزرے دور میں ان کی تصانیف سے زیادہ کوئی علمی تحفہ سامان غنیمت نظر نہیں آتا جو عام و خاص سب کے علمی ارتقاء کے لئے یکساں طور پر مفید مطلب ہو جوباذوق لوگ ابن تیمیہ کی تصنیفات کو محبوب رکھتے ہیں اور لوگوں کو ان کی تصانیف کی طرف رجوع کی دعوت ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اسلام کی خالص دعوت توحید اور سنت کے احیاء ، تقلید و بدعت کا جمود ختم کرنے کے لئے اور مستشرقین و دشمنان اسلام کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے مصنفات ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بہتر اور مجرب اور تیر بہدف ہتھیار شاید کہیں نہیں۔تصنیفات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مطالعہ فکر و عمل اور قول و فعل میں توازن و اعتدال اور خالص اسلامی ذہن پیدا کرتا ہے ۔لہٰذا آج کے دور میں فکر و عمل اور قول و فعل میں توازن و اعتدال، احیائے سنت و غلبۂ توحید اور صحیح اسلامی ذہن و معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کے لئے طلب و جستجو اس بات کی ہونی چاہئے کہ دامے درمے قدمے سخنے مصنفات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اشاعت اور ان کے افکار کو عام کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ ان سارے دعوؤں کی تائید کے لئے سردست اپنی بات کو ادھوری چھوڑ کر ہم اپنے قارئین کو مولانا آزاد کی تحریر دکھانا چاہتے ہیں ۔نصف صدی پہلے جب مولانا آزاد نے ’’تذکرہ‘‘ لکھی تو علمی و ادبی نگارشات کی دنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوگیا، ہندوستان میں چونکہ مصنفات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی قدر نہ تھی لہٰذا ’’تذکرہ‘‘میں بہت ہی زور و شور سے مولانا موصوف نے امت کو ان کی کتب کی طرف مراجعت کی دعوت دی۔یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ کی یہ آواز و پکاررنگ لائی اس کے بعد کئی قابل قدر و گرامی علمائے کرام و دانشوران قوم و ملت ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصانیف کا صحیح مقام و مرتبہ پہچان پائے اور غلام رسول مہر جیسے لوگوں نے مذکورہ بات کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ (دیکھئے :سوانح امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ از غلام رسول مہر)

    مولانا آزاد کا قوم سے خطاب:

    ۱۔  مولانا آزاد نے قوم کو خطاب کرکے لکھا تھا کہ: ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصانیف دل و روح کی جملہ بیماریوں کے لئے ایک ہی نسخہ شفاء ہے اور یہ نسخہ شک و ریب کے سہارے دکھوں کا ایک ہی علاج ہے، مصنفات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مطالعہ یقین کی حلاوت بخشتا ہے اور ایمان کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے ۔علی الخصوص آج کل مسلمانوں میں جس فتنہ عقائد نے سر اُٹھایا ہے اس کے لحاظ سے تو معارف ابن تیمیہ سے بڑھ کر کوئی اور چیز مطلوب و مقصود نہیں۔ البتہ ضرورت بہت کچھ اضافہ مطالب و تفصیل اجمال و توضیح اشارات و ضبط و تالیف و اشاعت و انتشار کی ہے اور اس کا بہترین محل و موقع امام بن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب و تلامذہ کی سیرت و سوانح عمری میں مل سکتاہے‘‘ (ص:۲۲۲)

    ان سطروں کے بعد مولانا نے لکھا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اس ضمن میں کُچھ کام کروں گا لیکن تقدیر نے مہلت نہ دی یہ مہتم بالشان کام بھی مولانا کے دوسرے پروگراموں کی طرح ادھورا اور نامکمل خواب ہی رہ گیا۔’’وما تشاء ون الا ان یشاء اللّٰہ‘‘

    ۲۔ ’’تذکرہ‘‘ہی میں مولانا آزاد نے دوسری جگہ لکھا ہے کہ’’سچ تو یہ ہے کہ متأخرین میں یہ فضیلت صرف اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے ارشد تلامذہ میں ابن القیم کے لئے مخصوص کردی تھی کہ حقائق و معارف کتاب و سنت کے جمال حقیقی کو بے نقاب کردیں موجودہ زمانے میں سب سے بڑا خوش نصیب وہ ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے ان حقیق مصلحین کے فہم و درس کے لئے کھول دے کیونکہ کہ ان کا نور علم مشکوٰۃ نبوت سے براہ راست مستنیر تھا‘‘

    ۳۔  اسی طرح سے مولانا آزاد نے’’تذکرہ‘‘میں متعدد علمائے سلف و افاصل متقدمین کا قول خود ان کی زبانی نقل کیا ہے کہ ’’جب اللہ نے ان پر احسان کیا اور امام ابن تیمیہ کی مؤلفات کے مطالعے کی توفیق بخشی تو ان کی ہر بات عقل سلیم کے مطابق پائی اور شک و ریب کے وہ تمام پردے اُٹھ گئے جو متکلمین کی قیل و قال نے ان کی بصیرت پر ڈال دیئے تھے‘‘ (ص:۲۲۲)

    ۴۔  اس کے آگے مولانا مزید لکھتے ہیں کہ:’’اگر کسی شخص کو اس بات کی صحت میں شک ہو تو امام موصوف کی مؤلفات آج بھی موجود ہیں حسد و تعصب سے خالی ہوکر ان کا مطالعہ کرے ہم کہتے ہیں کہ واللہ و ہ حق و یقین اور طمانیت قلب کو پالے گا اور دلائل واضحہ و براہین قاطعہ کا عروۃ الوثقیٰ اس کے ہاتھوں میں ہوگا‘‘(ص:۲۲۳)

    مؤلفات ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کی امتیازی خصوصیات:

    بقول شخصے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مجددانہ طرز تحریر کا اندازہ عربی داں اور اہل بصیرت حضرات ہی کرسکتے ہیں جس انداز سے کسی بھی موضوع پر وہ قلم اُٹھاتے ہیں وہ انہی کا خاص حصّہ ہے۔امام صاحب کا منہج یہ ہے کہ آپ ہر موضوع کے تعلق سے قرآنی آیات بعدہ احادیث نبویہ پھر اقوال صحابہ و تابعین کا متواتر ذکر کرتے ہیں پھر جمہور امت کے فقہی مسائل کا تذکرہ فرماتے ہیں،کبھی کبھی محل استشہاد و استدلال کو ثابت کرتے کرتے آپ کے نوک قلم پر عربی اشعار بھی آجاتے ہیں، نحوی مباحث بھی چھڑ جاتے ہیں، کبھی کبھی علم طب کی طرف عنان بحث مڑ جاتی ہے۔آپ کا قلم چونکہ کافی سیّال واقع ہوا ہے۔آپ کافی زود نویس تھے بہت ہی تھوڑی نشست میں مختصر سے مختصر اور عمدہ سے عمدہ کتاب لکھ دیتے تھے۔ کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو مباحث کا سیل بے کراں آجاتا ہے اور ایسی وارفتگی و شگفتگی میں لکھتے ہیں کہ بسااوقات مضامین کی ترتیب برقرار نہیں رہ پاتی ،عنان قلم ڈھیلا چھوڑدیتے ہیں کئی مباحث پر کلام کرکے پھر اصل موضوع پر لوٹتے ہیں، درمیان بحث اپنے تجربات و مشاہدات کا تذکرہ بھی فرماتے ہیں، مخالفین کا ذکر بھی حدادب میں کرتے ہیں اور اس کے لئے بدظنی کے بجائے دعائے ہدایت کرتے ہیں، مسائل کے استفسار کا جواب عموماً تفصیلی انداز میں دیتے ہیں اور یوں ایک کتاب تیار ہوجاتی ہے۔ مجموع الفتاویٰ، عقیدہ ٔواسطیہ، عقیدۂ حمویہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اس وقت جو کتب ابن تیمیہ رحمۃ اللہ اردو تراجم بازار میں دستیاب ہیں اردو سطور کا عربی متن سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ترجمانی تو ہوگئی مگر اصل متن کی حلاوت سے انصاف نہیں ہوسکا کہاں ان کی دلکش تحریر کہاں ہماری شکستہ و بے ربط و ضبط تحریر، کبھی کبھی اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کے کلام کی تحقیر نہ ہوجائے اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی روح شرمسار نہ ہو کیونکہ ان کی تحریر محض دماغی افکار کی آمدو بہاؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ انشراح صدر سے تعلق رکھتی ہیں۔

    کرنے کا کام:

    کسی زمانے میں امام ذہبی رحم اللہ نے لکھا تھا کہ ’’ابن تیمیہ نے خالص سنت اور راہ سلفیت کی حمایت کی اور اس کے لئے ایسی دلیلوں و مقدموں سے احتجاج کیا جو ان سے پہلے کسی سے بھی بن نہ آئے تھے تو یہ محض مدّاحی نہیں بلکہ یہ تعریفی تزکیہ تمام محبان ابن تیمیہ اور سالکین راہ سلفیت کے لئے اس اعتبار سے ایک جاوداں نمونہ اور دعوت حرکت و عمل ہے کہ آج بھی ہمارے لئے کرنے کا کام یہی ہے کہ خالص سنت و ٹھوس منہج کتاب و سنت کی حمایت کی جائے مضبوط دلائل و مقدمات کے پر زور اسلحوں کے ساتھ جرأت دعوت و عزیمت کے جذبات سے سرشار ہوکر اندرونی سطح پر مبتدعین زمانہ و مقلدین سے اور خارجی سطح پر اعدائے اسلام سے نبرد آزمائی کی جائے اور ان کے افکار و نظریات و دلائل کے تار پود بکھیر دئے جائیں۔ وقت کی پکار ہے کہ موجودہ زمانے میں تصنیفات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اشاعت پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ درد مند ان ملت میں کچھ حضرات اس آواز پر لبیک کہہ کر اس کے لیے قربانی دیں تاکہ کار دعوت کا علم و دلائل کا نشاط نو ہواور حیات تازہ مل سکے۔

    ۵۔  مولانا آزاد نے بھی قوم کو یہی دعوت دی تھی۔ بقول مولانا آزاد بالخصوص موجودہ زمانے میں جبکہ ’’لعن آخرہ ھذہ الا مہ اولھا ‘‘کا معاملہ اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے اور غرور بالعلم و العقل (کہ فی الاصل بدترین جہل و بے عقلی وزیع نظر ہے )اور اہانت و تحقیر و تحمیق و استہزاء بالسلف کے جنون سے ہر تنگ ظرف، سفیہہ اور تہی دست مادّہ فروش سرگراں اور خیرہ دماغ ہے حد یہ ہے کہ احداث و غلمان وقت صحابہ رسول اور ائمہ و تابعین کے عقائد کو ایک طرح کی ابلہانہ نیکی و بیوقوفانہ و نافہمانہ اطاعت کیشی کہہ دینے تک میں باک نہیں رکھتے۔ (صفحہ نمبر:۲۲۰)

    ۶۔  مزید آگے لکھتے ہیں’’آج بھی جب کہ دانش فروشی کے نشہ باطل سے ہر نوخیز تکلم و کتاب سرگراں اور بضاعت مزجات عقل و رائے کی نمود نمائش سے ہر نو دولت تنگ ظرف، مخمور بالا خوانی ہائے لاف و گزاف اور ’’فتنہ ادّعاء علم مع الجھل اور افتاء بغیر علم حتی ضلوا فاضلوا‘‘اور’’ظھور و بلوغ راس الشرور و آخر الفتن کہ اذاوسّدا لأ مرالی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ‘‘سے عالم آشوبی ہائے وقت و ہم عنان تسخیر قیامت کبریٰ وہم دوش اشراط ساعت عظمیٰ ہے اور ’’ضلالت و سفاہت لم و کم نسلم‘‘اور’’اعجاب کل ذی رائی برایۃ‘‘ٹھیک ٹھیک اپنی اس آخری حد تک پہنچ چکی ہے جس کی خبر اول روز ہی دے دی گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دور فتن و فساد پھر اسی نقطے پر واپس آگیا ہے جہاں سے ہمیشہ جاکر واپس آتا رہتا ہے اور اس لئے تلبیسات و تشکیکات و تحریفات کے سارے فتنے بیک زماں و ظرف جاگ اٹھے ہیں۔

    جس طالب حق و یقین کو ہر طرف سے یاس و قنوط کا جواب مل چکا ہو اور جس کسی نے قطع طریق میں اپنے ہر رہنما کو خود گم کردہ راہ و عقل باختہ تلصص تشکیلات و توسوس شبہات پایا ہو وہ آئے اور ائمہ حدیث واثر (بشمول ابن تیمیہ ضمناً ) کے معارف و براہین خالصہ کتاب و سنت کا مطالعہ کرے اور دیکھ لے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ سر چشمہ یقین و حکمت حاملین علوم نبویہ ہیں یا مقلدین و عبدۃ الطواغبت یونان و فرنگ ہیں۔ (ص:۲۲۷)

    ’’ یہی نہیں بلکہ تاویل الجاہلین، تحریف الغالین و انتحال  المبطلین، شحاً مطاعاوھوی متبعا کے اس نا گفتہ بہ دور میں زندگی گزارنے کے لئے قول و فعل اور فکر و عمل میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لئے معارف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی متعدد زندہ زبانوں میں ترجمہ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دنیا معتدل راہ دین پر گامزن ہوسکے۔بقول کسے ’’کہ ابن تیمیہؒ کی یہاں فکری و عملی توازن و اعتدال ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے شدید مخالفین کی قابل تعریف باتوں کو سراہتے ہیں، آئندہ صدیوں میں جو تحریکات اسلام و اسلامی شخصیات عالمی سطح پر نمایا ں ہوئیں ہیں۔ تقریباً ہر کسی کو ابن تیمیہ سے کم و بیش استفادہ کا موقع ملا اور وہ تحریکیں و شخصیات امام صاحب سے متأثر ہوئی ہیں، چونکہ ابن تیمیہ باوجود تمام کمال علمی و عملی معصوم نہ تھے لہٰذا ان کے بعض انفرادی آراء سے اختلاف ناگزیر ہے‘‘(ماہنامہ الصفا۔ ستمبر، اکتوبر:۲۰۰۴)

    اس دور پر فتن میں جب کہ شریعت سے لا علمی کا مزاج عام ہوچکا ہے ،مذاہب متفرق ہیں جماعتیں بکھری پڑی ہیں، بدعات پھیل رہی ہیں، تقلید کا زور بڑھ رہا ہے ،نظر و اجتہاد بند کیا جارہا ہے ،خلافت اسلامیہ دم توڑ چکی ہے، مرکزیت و اتحاد رو بہ زوال ہے ،اس عہد کے تاتاری پوری دنیا میں دندناتے پھررہے ہیں ۔مؤلفات ابن تیمیہ کے قارئین و محبین کا یہ فرض ہے کہ وہ غور کریں کہ تقریباً ایسے ہی ظروف و حالات میں مجدد امت امام ابن تیمیہ نے کام کیا تھا اور آج ہم کو بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دعوت و اصلاح کا یہ بیڑا اٹھانا ہے، یہ کام کرنا ہے، جب تک موجودہ دور میں مؤلفات ابن تیمیہ کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور ان کی کتابوں سے استفادہ و تراجم کا ماحول نہیں بنایا جاتا اس وقت تک یہ خیال کرنا کہ’’بدعتوں کا کلی خاتمہ ہوجائے،الحاد و تشکیک کا طوفان راہ سے ہٹ جائے، حقیقی توحید و رسالت کی اشاعت ہو، کفر ذلیل ہو ا،مت مسلمہ کو خلافت و امارت ملے ،علم حدیث و فقہ و تفسیر کو ان کا جائز و مناسب مقام حاصل ہو‘‘ محض خیال خام ہی رہے گا،آج کے علمی و تحقیقی دور میں جب علوم کو تحقیقی زاویہ نگاہ سے پڑھا و لکھا جارہا ہے اہل حدیث حضرات کی نسل نو ابن تیمیہ کی حیات کی ہمہ گیریت و کتب ابن تیمیہ کی قیمت سے ناآشنا ہے، صرف علمی حلقوں میں ان کا نام محدود ہے، گویا علم ابن تیمیہ بحث و نظر کی مجالس میں اچھالنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ صورت حال قابل صد ہزار ماتم و حست ہے اس قدر طویل کلام و تحریر اچھی عادت نہیں لیکن غفلت کوشی و مطالعہ سے فرار کی فضاء میں یہ جو کچھ آگیا اگر سود مند ہو تو از بس غنیمت ہے۔

    امید کی کرن:

    آج جو کچھ بھی ابن تیمیہ کے مصنفات عربی اور اردو میں ہندوپاک میں مطبوع ہیں وہ ہمارے شاہ صاحب، نواب صاحب اور مولانا آزاد جیسے بزرگوں کی تمناؤں کی تکمیل اور ان کے خوابوں کی تعبیر ہے، اس ضمن میں یہ بڑی خوش آئندہ امر بلکہ نیک فال ہے کہ ہندوستان میں الدار السلفیہ ممبئی، مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن، مکتبہ نوائے اسلام دہلی ،الکتاب انٹرنیشنل دہلی ، فردوس پبلی کیشن دہلی اور مکتبہ ترجمان دہلی وغیرہ سلفی اداروں سے بتدریج اور حسب توفیق مؤلفات ابن تیمیہ کے اردو تراجم، ان کے فتاوے کے تراجم اور مختلف موضوعات پر مسطور تحریریں منظر عام پر آرہی ہیں اور پاکستان میں ہماری علم کی حد تک مکتبہ الدار السلفیہ شیش محل روڈ لاہور اور الہلال بک ایجنسی وغیرہ نے بھی کتب ابن تیمیہ کی اشاعت عامہ کی خاطر کافی سرگرمی و دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور عبدالرزاق ملیح آبادی کی تقریباً تمام ترجمہ کردہ کتب معمولی قیمت پر بازار علم میں دیدہ زیب طباعت کے ساتھ پھیلایا ہے۔ فجزاھم اللہ خیر الجزاء ۔ حقیقت عبودیت، اصحاب صفہ، و جدو سماع، مجذوب، دلوں کی بیماریاں اور ان کا علاج، زیارۃ القبور، روضہ مقدس کی زیارت، الجواب الباہر فی زوار المقابر، راہ حق کے تقاضے، اولیاء حق و باطل، مسئلہ خیر وشر، تفسیر آیت کریمہ، ائمہ سلف اور اتباع سنت، جمعہ کی سنتیں، سیاست الٰہیہ وغیرہ معرکۃ الآراء و ممتاز زمانہ کتب عربی زبان سے اردو کے قالب میں آکر ابن تیمیہ کی کتابوں کے قدر دانوں کی نگاہوں کا سرمہ اور سکون دل کا باعث بن رہی ہیں اور تحریک اہل حدیث کے ممتاز اکابرین متقدمین و متأخرین ہر ایک نے ان کی کتابوں سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کیا ہے اور استفادہ کررہے ہیں اور ہم سب کو کرنا چاہئے۔ناسپاسی ہوگی کہ اگر ہم اس حقیقت کا اعتراف و اظہار نہ کریں کہ دیگر مسالک کے چند نمایاں اہل علم کو چھوڑدیا جائے تو محض حضرات علمائے اہلحدیث کی وجہ سے ہندوپاک میں ابن تیمیہ کے تصانیف کے جال بچھے اور اردو تراجم  عام ہوئے، مملکت توحید سعودی عرب نے بھی امام ابن تیمیہ کی تصنیفات کی سرگرم اشاعت میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی دکھائی اور اس پر زر خطیر صرف کیا ہے۔ اس معاملے کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ علمائے دیوبند،علمائے ندوۃ اور بریلوی علماء بھی اس تیز رفتار ابن تیمیہ کی علمی تصانیف کی اشاعتوں کی گرمی دیکھ کر (گو مفید مطل و مسلک ہی سہی )ان کے اقتباسات کا بطور حوالہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے اسلاف و نسل نو کی محنتوں کی دلیل بین ہے، بریلوی طبقے مصنفات ابن تیمیہ کی اسی قدر تیزی سے نشر و اشاعت سے جہاں بوکھلا گئے ہیں، قدرے مرعوب بھی ہیں، پروپیگنڈے کا غبار کافی حد تک بیٹھ چکا ہے اور آج مرعوبیت کی فضاء کوبرہنہ آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔

     لہٰذا جو لوگ اب تک امام ابن تیمیہ کی کتابوں کے عربی نسخے یا اردو تراجم کا مطالعہ نہ کرسکے ہوں جہاں بھی انہیں جس قیمت پر کتب ابن تیمیہ کی موجودگی کی اطلاع ملے دوڑ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں، ان کے علمی ذخائر سے یکساں طور پر خوشہ چینی و اکتساب علمی کرکے میدان مناظرہ و تردید ادیان باطلہ و ضالہ کی سوجھ بوجھ حاصل کریں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings