Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • وقف بل (New Waqf Bill)2024 ایک تقابلی جائزہ

    حکومت ہند نے وقف ایکٹ 1995 ترمیم شدہ 2013
    The Waqf Act ,1995 as, amended by The Wakf
    (Amendment) Act,2013
    میں مزید ترمیم کرنے کیے لیے نیا وقف بل پارلیمینٹ میں پیش کر دیا ہے ۔ اس بل کابغور مطالعہ اور موجودہ وقف ایکٹ سے مقارنہ و موازنہ آپ کو انتہائی حیرت زدہ کر سکتا ہے ۔ کنفیوز ہوں کہ اس کو ترمیمی بل کہا جائے یا مکمل ایک نیا قانون یعنی Repeal Act۔
    موجودہ وقف ایکٹ 1995 ترمیم شدہ 2013 کے ساتھ دردناک اور غیر منطقی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے ۔ ترمیم کے نام پر وقف ایکٹ کے تمام طاقتور دفعات(sections)کو حذف کردینے کی سفارش کی گئی ہے ۔ انتہائی دانشمندی کے ساتھ وقف اور وقف سے متعلق مضبوط دفعات کو حذف کرکے یا ترمیم اور نامعقول اضافہ کرکے وقف ایکٹ کو بودا کرنے کے لیے مختلف سفارشات کی گئی ہیں ۔ وقف اداروں مثلاً وقف بورڈ Waqf boards یا سینٹرل وقف کونسلCWC کی تشکیل میں مسلم افراد کی شرط کو محذوفomitted کرکے مسلم ادارے کو ایک نام نہاد سیکولر بورڈ بنانے کی ناروا کوشش ہے ۔ دلچسپ بات یہ کہ ایک طرف چیئرمین سے لے کر بورڈ کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر CEO اور ممبران میں کسی بھی کمیونٹی اور مذہب کے ممبر بلکہ دو غیر مسلم ممبران کا ممبر بورڈ بننا ضروری قرار دینے کی تجویز ہے ۔وہیں دوسری طرف بل کے اندر وقف کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہونا ضروری شرط جوڑنے کی تجویز ہے ۔ واضح رہے کہ موجودہ ایکٹ میں اب تک کوئی بھی شخص وقف کر سکتا ہے ، یہ اضافہ2013 کی ترمیم میں کیا گیا تھا ۔ وہیں موجودہ وقت میں وقف بورڈ کا ممبر ، چیئرمین اور CEO بننے کے لیے مسلم کی شرط ہے ۔ بعینہٖ سینٹرل وقف کونسل CWC کا حال ہے ۔ مگر تجویز شدہ نئے وقف بل میں ایک مسلم ادارے کو سیکولر بورڈ بنانے بلکہ تمام صوباجات میں اب11ممبران بورڈ کی تشکیل میں کم سے کم 7 ممبران غیر مسلم ہو سکتے ہیں جبکہ 2 غیر مسلم ممبران کا تعین ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ افسوس کہ یہ تجویز خوش آئند تبھی کہی جا سکتی ہے جب گردوارا پربندھک کمیٹی Gurdwara parbandhak Committee اور ہندو انڈومینٹ ایکٹ Hindu Endorsement Act اور دیگر مذہبی اداروں میں بھی دیگر ادیان کے ممبران منتخب کئے جائیں ۔ اقلیتی امور کے وزیر محترم کا پارلیمینٹ میں بار بار یہ کہنا کہ اس ترمیم کے ذریعہ ہم خواتینwomenکو بھی مضبوطی empowerment دے رہے ہیں اور کم از کم وقف بورڈ کے اندر دو خاتون ممبران کا انتخاب بھی ناگزیر ہوگا۔ مجھے یہ کوئی نئی تبدیلی نہیں لگتی کیونکہ موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ section 14 میں بھی دو خاتون ممبران کا انتخاب ضروری قرار دیا ہوا ہے ۔ اور عملی طور پر زیر عمل بھی ہے ۔
    ایک بڑے پیمانے پر وقف قانون اور وقف بورڈ کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی کہ بورڈ جس زمین کو چاہے وقف بتا سکتا ہے ۔ بار بار وقف ایکٹ کی مختلف دفعات (sections)کا حوالہ دے کر شکوک پیدا کئے گئے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ (1)32 (3) (2) دفعہ 40، دفعہ54A(4)(2)52 کو مکمل طور پر حذف کرنے کی تجویز رکھ دی ہے ۔ اگر دفعات کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ وقف بورڈ کسی بھی حال میں صوبہ میں موجود سرکار کے کسی بھی قانون اور اختیارات سے مکمل بندھا ہوا ہے ۔ خود مختار نہیں ہے بلکہ سرکاری نگرانی میں ریکارڈ کے بعد وقف جائیداد کا دعوہ کر سکتا ہے ۔ اس دعویٰ کو بھی سرکار اور courts کے آرڈر کی بنا پروقف بورڈ فائنل آرڈر پاس کرتا ہے ۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے جیسا وہم پیدا کرنے کی ناروا کوشش کی جارہی ہے ۔ موجودہ قانون ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ناجائز قبضہ میں کسی بھی وقف جائیداد waqf property کو اس کے تمام تر ریوینیو ریکارڈزrevenue records کے جائزہ کے بعد ہی گورنمنٹ کے مختلف اعلیٰ آفیسران اور سرکار کی منظوری کے بعد وقف جائیداد کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ وقف سروےwaqf survey میں سروے کمشنرsurvey commissioner کوئی وقف کا عہدیدار نہیں ہوتا بلکہ ایک سرکاری اعلیٰ عہدیدار ہوتا ہے۔جس کو سرکار منتخب کرتی ہے ۔ بڑی عجیب بات ہے کہ اب ساری پاورز ضلع کلکٹر DC/DMکو سونپنے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے ۔اب اس میں نیا کیا ہے تب بھی سرکاری آفیسر ہوتا تھا اب بھی بلکہ پہلے بالخصوص ہریانہ میں DC سے اعلیٰ عہدیدار ڈویژنل کمشنرز Divisional commissioner کو سروے کمشنر متعین کر رکھا ہے ۔وقف ایکٹ کی دفعہ 3میں وقف کے نام کو تبدیل کرکے وقف کی تعریف کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی کوشش ہے ۔ مزید یہ کہ وقف علی الاولاد اور وقف by User کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مطلب اس قانون کی منظوری کے بعد کوئی بھی شخص اپنی اولاد کے لیے وقف نہیں کر سکتا ہے ۔ بلکہ اگر وقف علی الاولاد ہے بھی تو اس میں متوفیٰ کے وارثین مرد و عورت کا ترکہ بھی تقسیم کیا جائے گا۔ جبکہ وقف اس کی ملکیت سے خارج ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی جائیداد مسجد ، عیدگاہ ،قبرستان ،تکیہ وغیرہ کے استعمال میں صدیوں سے بھی ہے تو اس کے مذہبی استعمال کی وجہ سے اب وہ وقف جائیداد نہیں کہلائی گی۔ مطلب ایک لمبی فہرست جو آج تک وقف کہلاتی تھی اب وہ وقف جائیداد نہیں ہوگی۔یہ سمجھ سے پرے ہے ۔ سرکار یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہم وقف کو مزید تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ بل لے کر آئے ہیں ۔ مگر دوسری طرف بل کی مجوزہ تجاویز کا مطالعہ بالکل الگ منظر پیش کرتا ہے ۔ موجودہ وقف قانون The Waqf Act ,1995 as, amended by The Wakf(Amendment) Act,2013 دیگر کسی بھی متصادم قوانین پر بالا تر رہے گا جیسا کہ موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ 108Aمیں درج ہے اور یہ اضافہ 2013کی ترمیم میں جوڑا گیا تھا تاکہ وقف جائیداد کو دیگر قوانین کے پس پردہ ضائع ہونے سے بچایا جا سکے ۔مزید وقف جائیداد پر ناجائز قبضہ اور غیر قانونی قابضین یعنی انکروچر encroacher پر غیر ضمانتی وارنٹ non cognizable Warranty اور قید بامشقت کی تعزیرات کا ذکردفعہ52A کی اندر موجود ہے۔جس کو اب حذف کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ تجویز شدہ بل میں ان تمام دفعات sections کو ختم کرکے نا جانے کون سا تحفظ فراہم کرنے کی کاوش ہے ۔ سیکشن 104اور108کی دفعات کو بھی حذف کرنے کی سفارشات کی گئی ہیں ۔ وقف ایکٹ کی دفعہ 107کو بھی ختم کرنے کی صلاح دی گئی ہے ۔ اب تک اس دفعہ کے ذریعہ وقف جائیدادوں کو Limitation Act سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی اگر کسی وقف جائیداد پر 20سال سے بھی زیادہ اگر کسی کا قبضہ ہے تب بھی وہ شخص اس زمین پر مالکانہ حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔ مگر اب اس دفعہ کو ختم کردینے کی سفارش کی گئی ہے ۔ دفعہ 61 اور دیگر دفعات کو حذف کرنے کی سفارش ایک خوش آئند قدم نہیں کہا جا سکتا ۔ ہر وہ دفعہ جس میں بورڈ یا سرکار کو وقف جائیداد کے حق میں طاقتور فیصلہ کی پاور دی گئی ہے ان کو حذف و اضافہ کے ذریعہ مکمل کمزور کرنے کی سفارشات ہیں ۔ اور جہاں وقف جائیداد کے خلاف فیصلہ کیا جا سکتا ہے ان دفعات کو برقرار رکھنے بلکہ مزید کمزور کرنے والے اضافے کئے گئے ہیں ۔ موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ 9,اور 14 کی ترمیم میں مسلم ممبران کی شرط کو محذوف کرکے مستقل طور پر کسی بھی مذہب کے چیئرمین کا انتخاب کی اجازت ساتھ میں سیکشن 23 سے مسلم شرط کا حذف کسی بھی مذہب کے سرکاری Ceo کا تعین کی اجازت مزید مستقبل کے خطرناک نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ قانون کے ماہرین جانتے ہیں کہ ایکزیکٹیو executive body کے آرڈر کو جیوڈیشل بوڈی judicial body میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ مگر وقف کے متعلق جیوڈیشل بوڈی وقف ٹریبونل Waqf Tribunal میں کلکٹر کے بعض آرڈرز کے خلاف وقف بورڈ کی اپیل کو نہیں سن سکتا ہے ۔ جبکہ وقف بورڈ کے کسی بھی آرڈر کو وہاں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ مجوزہ بل بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ waqf tribunal کا فیصلہ آخری فیصلہ نہیں ہوگا ۔ یعنی tribunal بنانے کا پھر مقصد ہی کیا رہ جائے گا ۔ اب کیا یہ ترمیم ہندوستان کے دیگر 70سے زائد ٹریبونل کورٹس Tribunal Courts میں بھی کی جائے گی ؟؟
    اس بل کو پڑھنے کے بعد ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ رب العالمین ہماری خطاؤں کی سزا بھی ہمیں ظالم و جابر بادشاہ متعین کرکے بھی دیتا ہے ۔ شاید ہم بیدار ہوں اور اصلاح کی کوشش کریں ۔ وقف بورڈ پر آج تک متعدد چیلنجوں کے باوجود مسلم کمیونٹی کی نمائندوں کا ہی تسلط رہا ہے ۔ ہماری دوہری پالیسیاں اور قوم و ملت اور وقف کی تئیں ہماری لاپرواہی اور حکومت وقت کے ساتھ مفاد پرستی جگ ظاہر رہی ہے ۔ بدعنوانیوں کے الزام ہمیشہ سے لگتے رہیں ہیں ۔ ساتھ میں ایسے لوگ بھی آئے جنہوں نے وقف میں تعمیری کام کئے اور ایک باعزت ادارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ مگر حکومت وقت کو طلاق سے لے کر وقف جیسے اسلامی مسائل میں دخل دینے کا موقع بھی شاید ہمیں نے فراہم کیا ہے ۔ نئے وقف بل کا مطالعہ ایک واضح اشارہٍ اس بات کی طرف کرتا ہے کہ بار بار پورے بل کے اندر آغاخانی اور بہرہ کمیونٹی کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ ممبران سے لے کر مستقل علیحدہ آغاخانی اور بوہرہ بورڈ بھی مختلف صوبوں میں تشکیل دینے کی سفارش کی گئی ہے جو بالکل نئی بات ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کمیونٹی کی کوئی خاص طاقت یا حکومت سے کسی بات کا اتفاق طے شدہ ہے ۔ ممکن ہے کہ کوئی سیاسی مفاد پس پردہ مخفی ہو کیونکہ گاہے بگاہے پسماندہ مسلمان backwards muslims کا ذکر سنتے رہے ہیں اور اس بات کی گونج نئے مجوزہ بل میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ پتہ نہیں یہ کون سے مسلمان ہیں یا کوئی نئی تفریق ۔مطلب یہ کہ آ پ کی حمایت یا مسلم کمیونٹی سے بعض منتخب لوگ اس بل کی حمایت کے لیے پہلے سے تیار مل جائیں گے ۔ سنی اور شیعہ وقف کا تصور اور زمرہ بندی پہلے ہی سے موجودہ وقف ایکٹ کے اندر درج ہے ۔ واضح رہے کہ بوہرہ کمیونٹی اور آغاخانی کمیونٹی بھی شیعہ مسلک ہی کی ایک الگ زمرہ بندی ہے ۔
    دلچسپ بات دیکھئے کہ تعمیر و ترقی کا نیا پیمانہ ناموں کی تبدیلی ہے ۔ لفظ وقف کو بھی وقف ایکٹ Waqf Act کی جگہ Unified Waqf Management، Empowerment, Efficiency & Devlopment Act,1995.t کرنے کی تجویز ہے ۔مزید تجویز دیکھئے کہ موجودہ ایکٹ میں پہلے 8 سے 11 مسلم ممبران کا مختلف طے شدہ زمروں میں دو خاتون کے ساتھ انتخاب ہوتا ہے ۔ وہ بھی حکومت کی ایماء پر سرکاری نگرانی میں منتخب بورڈ ممبران کی پہلی میٹنگ منعقد ہوتی ہے ۔ اس میٹنگ میں خود ممبران اپنے ہی موجودہ بوڈی سے ایک شخص کو چیئرمین منتخب کرتے ہیں ۔ ایک سال کے بعد بورڈ ممبران ایک تہائی اکثریت سے اس کو بدل بھی سکتے ہیں ۔ مگر تجویز شدہ نئے بل میں سرکار کسی بھی شخص کو ڈائرکٹ چیئرمین منتخب کردے گی ۔ اور ممبران بورڈ کو عدم اعتماد ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا ۔ کیونکہ مجوزہ بل میں دفعہ section 20A کو حذف omitted کرنے کی سفارش کر چکی ہے۔
    ہندوستان میں وقف جائیدادوں کو زیادہ تر صوبوں میں متولی ہی مینیجر اور ناظم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں ۔ وقف بورڈ انہی متولیوں پر ایک سپروائزری بوڈی کی حیثیت سے کام کرتے ہیں ۔ وقف ایکٹ کی دفعات متولیوں کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ ان کے ماتحت وقف جائیداد کی آمدنی کا سالانہ سات فیصد حصہ وقف بورڈ کو دیں گے۔ چنانچہ وقف بورڈ کی یہی کل جمع آمدنی ہوتی ہے ۔ مزید وقف بورڈ اس آمدنی کا ایک فیصد حصہ سالانہ سینٹرل وقف بورڈ CWC کو دیتے ہیں ۔ اب دلچسپ بات دیکھئے کہ اب تک کے قوانین وقف متولیوں کی من مانی پر شکنجہ کسنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ وقف جائیدادوں کو متولیوں کے ذریعہ خرد برد نہ کیا جا سکے ۔ مگر اب اس نئے بل کے اندر متولیوں کے ذریعہ وقف بورڈ کو دی جانے والی سات فیصد آمدنی کو گھٹا کر پانچ فیصد کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ ایسے میں نہایت ہی کسمپرسی کی حالت سے گزر رہے وقف بورڈ اپنے اخراجات اور ملازمین کی تنخواہ کہاں سے دے پائیں گے ۔ پہلے بھی زیادہ تر وقف بورڈ اپنی صوبائی سرکاروں سے امداد grant کی شکل میں حاصل کرتے ہیں۔تب جاکر چند متعین ملازمین کی تنخواہ کا انتظام کر پاتے ہیں ۔ اس طرح سے وقف بورڈ کی اقتصادی حالت مزید کمزور ہوگی ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ملازمین کم سے کم متعین کئے جائیں گے ۔ تین سال پہلے تک سینٹرل وقف کونسل کے توسط سے وقف ترقیاتی اسکیم QWBTS کے تحت مرکزی سرکار ٹیکنیکل اسٹاف رکھنے اور ان کی تنخواہ کا انتظام کرتی تھی۔تاکہ وقف جائیدادوں کو ٹھیک سے مینیج کیا جا سکے ۔ افسوس کہ مولانا ابو الکلام آزاد فاؤنڈیشن وغیرہ کی طرح اس کو بھی ختم کردیا گیا۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ وقف بورڈ پھر کمزوری کی طرف گامزن ہو گئے اور بے شمار افراد بے روزگار ہو کر گھر بیٹھ گئے ۔
    ہندوستان میں متولی سسٹم کے علاوہ وقف کا دوسرا نظام متحدہ پنجاب یعنی حالیہ پنجاب ، ہریانہ ،ہماچل، اور union territory چنڈی گڑھ کا ہے ۔ یہاں پر تمام واقفین 1947کے فسادات کے شکار ہوئے اور مکمل ہجرت کر گئے ۔ اب کوئی متولی اس خطہ میں موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا وقف بورڈ اور اس کا مکمل عملہ بذات خود متولی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس لیے آپ ان وقف بورڈ کو ایک خود مختار اور آسودہ بورڈ کی شکل میں پائیں گے ۔ ان کی اپنی وقف جائیداد سے حاصل شدہ آمدنی ہے ۔ سرکار سے کوئی recurring grant نہیں ملتی ہے اور ناہی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔
    ہاں ویلفیئر سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے اگر کوئی تعاون مل جائے تو رفاہی کاموں کا دائرہ مزید بڑھایا جا سکتا ہے ۔ بل کے اندر موجود نئی تجاویز ان اوقاف کو زیادہ نقصان پہونچا سکتی ہیں ۔ کیونکہ یہاں خود بورڈ ہی متولی ہوتا ہے۔ مگر امید ہر حال میں خیر کی کرنی چاہئے۔ اوقاف کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ان کی حفاظت کے انتظامات کے راستے ہموار کرتا ہے ۔
    عمومی طور پر ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی قانون جس کو مرکزی سرکار بناتی ہے ۔ اس کو تنفیذ کرنے کے طور طریقے rules مختلف صوبوں کی سرکاریں بناتی ہیں ۔ تاکہ ہر صوبہ کی سیاسی ،سماجی اور اقتصادی وغیرہ ظروف و احوال کو مد نظر رکھا جا سکے ۔ مگر افسوس کہ پچھی مرکزی سرکار نے زیادہ تر اہم مسائل میں rules بنانے کے اختیارات بھی مرکزی سرکار کو سونپ رکھے ہیں ۔
    اہل دانش اور ذمہ داران قوم ملت کو وقف ایکٹ 1995کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہئے اور نئے پیش کردہ وقف بل کو ضرور اپنی علمی گفتگو کا محور بنانا چاہئے ۔ وقف کے موضوع پر میں پہلے بھی قسط وار مضامین لکھ چکا ہوں۔ جو ہندوستان کے معیاری میگزین مثلاً مرکز ابو الکلام آزاد کے زیر اشراف’’التبیان‘‘اور اس کے علاوہ اسلامک انفارمیشن سینٹر ممبئی کے ماہانہ مجلہ’’اہل السنہ‘‘ ، نیوز پیپرز اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی زینت بن چکے ہیں ۔ ’’وقف ،معنیٰ و مفہوم ایک تجزیاتی مطالعہ ‘‘
    Waqf Terminology, Meaning & Defination An Analytical Study ”
    کے نام سے جو مضامین چھپے ہیں ان میں بھی میں نے یہ تجویز رکھی تھی۔ بلکہ اہل حل و عقد بالخصوص قومی و ملی اسلامی مراکز سے اپیل کی تھی کہ وقف ایک اسلامی تصور اور ہندوستانی وقف قانون پر علمی کانفرنس اور سیمینار منعقد کئے جائیں۔
    چند معروضات دل و دماغ کے اسکرین پر گردش کر رہے تھے شکریہ اور نیک خواہشات کے ساتھ بعینہٖ پیش خدمت ہیں
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings