Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نصیحت کے لئے حسنِ عمل درکار ہے ناصح!

    حترم قارئین ! اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو ہر اعتبار سے انسانیت کے لیے درس نصیحت اور راہ ِ نجات کا سامان ہے ۔اس لیے اگر اللہ عزوجل نے ہمیں مشرف بہ اسلام ہونے کا شرف عطا کیا ہے تو ہمیں اس کی مکمل طور پر پاسداری کرتے ہوئے اس کے ہر فریضے واحکام کو بروئے کار لانا ہوگا ،اس کے محاسن کو دوسروں تک پہنچانا ہوگا ، ہمیں اصل ارکان کی مکمل ادائیگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں رہ کر ایک دوسرے کو کار خیر کی طرف رہنمائی کریں اور کار شر سے بچنے کی ترغیب دیں ۔ اب اگر کوئی خود تو کرتا نہیں ہے لیکن دوسروں کو اس کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے فرمایا:
    {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ } ’’ اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے ‘‘[الصف : ۲]
    اور نبی محترم ﷺ نے فرمایا : ’’ کہ معراج کی رات میں کچھ یسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچی سے کاٹے جارہے تھے ، میں نے کہا جبریل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے کہا یہ آپ کی امت کے وہ واعظین ہیں جو کہتے کچھ تھے اور کرتے کچھ تھے ‘‘ [مسند احمد:۱۳۴۲۱،صحیح]
    اور ایک دوسری حدیث کے اندر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اس کی انتڑیاں نکل پڑیں گی اور وہ اسی طرح چکر لگائے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے ساتھ چکر لگاتا ہے تو اہل جہنم اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور وہ کہیں گے : اے فلاں تیرا کیا مسئلہ ہے ؟ کیا تو بھلائی کاحکم نہیں دیتا تھا اور برائی ،سے روکتا تھا ؟ وہ کہے گا میں بھلائی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور میں برائی سے منع تو کرتا تھا لیکن اس سے خود نہیں رکتا تھا ۔[صحیح بخاری:۳۲۶۷]
    ان دلائل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر ہم خود کوئی کام کرتے نہیں ہیں تو دوسروں کو اس کے کرنے کا حکم نہ دیں کیونکہ ایسا شخص اللہ کے نزدیک ناراضگی وغضب کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ فرمان باری ہے:
    {كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ }
    ’’اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے‘‘[الصف :۳]
    اس حکم میں عوام و خواص سب شامل ہیں بالخصوص وہ علماء جو لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کرو وہ کرو ، ایسا کروگے تو ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ لیکن عمل کے میدان میں صحراء کی طرح بالکل صاف وشفاف ہوتے ہیں ،ان کے نزدیک عمل کے نام پر بس چند چیزیں اور اعمال ہوتے ہیں ۔
    لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ سارے علماء ایسے نہیں ہوتے ہیں ، سارے خطباء ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو وہ کہتے ہیں وہ کرتے ہیں یا کہنے کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں لیکن جو اس کے برخلاف ہیں ان کا سماج ومعاشرے میں کوئی وقار نہیں اور ایسے ہی لوگوں نے ،ایسے ہی خطباء وواعظین نے اچھے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ بدنام کررکھا ہے اور نا سمجھ عوام بھی یہ کہتی پھرتی ہے کہ ’’ سارے علماء ایک جیسے ہوتے ہیں کرتے خود ہیں نہیں بس دوسروں پر فتوے لگاتے رہتے ہیں۔
    غور کرنے کا مقام ہے کہ اس میں صرف مرد حضرات ہی نہیں ملوث ہیں بلکہ عورتیں تو مردوں سے دوچار قدم اور آگے نظر آتی ہیں ،وہ دوسروں پر طنز تو بہت کرتی ہیں ، کہیں گی بہن جی ایسا نہ کرو ، قرآن وحدیث میں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن جب ہم انہیں عمل کے میدان میں دیکھتے ہیں تو یہ مردوں سے کافی دور نظرآتی ہیں، اس لیے میری اسلامی بہنو! اگر اپنے آپ کوکامیابی وکامرانی سے ہمکنار کرنا ہے تو اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اور دوسروں کو بھی اس راستے پرلے کر آنا ہوگا ، کیونکہ اگر ہم خود نہ کرتے ہوئے دوسروں کو حکم دیں گے تو ہماری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا اس پر مستزاد یہ کہ سماج و معاشرے میں بدنامی ہوگی اور اللہ کے حضور تو ہونی ہی ہے ۔لہٰذا ہم ایسا کچھ نہ کریں جس سے شریعت کی مخالفت ہو رہی ہو اور ہم اس بات کو ہلکا سمجھ کر اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیں کیونکہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بڑی وعید سنائی ہے اور اس امت کے خطباء وواعظین خواہ مرد ہوں یا عورتیں ہر ایک کو خصوصیت کے ساتھ آگاہ کیا ہے کیونکہ یہی لوگ امر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔
    وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی بدلتے رہتے ہیں جیسے پہلے ہمیں کہیں وعظ و نصیحت کے لئے سفر کرنا لازم تھا ملاقات لازم تھا کبھی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا اگر سفر طویل ہو تو، لیکن اس کے برعکس ان تمام ذرائع کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت ہی آسان ذریعہ سے بھی نوازا ہے جسے انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے انسان کو پند و نصیحت سے نوازتے رہتے ہیں کبھی واٹس اپ کے ذریعہ ایڈمن بنے تو کبھی فیس بک پر تو کبھی ٹوئیٹر پر غرضیکہ کئی راستے رب نے ہماری لے لئے نیکی کرنے کے آسان کردئے ہیں ۔
    لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ اگر ان نصیحتوں کو ہم اپنے اوپر لازم نا کریں اور انہیں بس فارورڈ کرنا ہی اپنی ذمہ داری سمجھیں تو ہمیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟؟؟
    اوپر بیان کی گئی احادیث یہاں بھی ہم پر لاگو ہوتی ہیں !
    اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے:
    {اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْن}
    ’’تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو ، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے ؟‘‘[البقرۃ:۴۴]
    اس لئے جب بھی کوئی فضائل اعمال دوسروں کو بتانا چاہیں تو عمل کرنے کی مکمل کوشش کریں ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ آسانیاں کریں گے یہ رب کا وعدہ ہے۔
    {وَ نُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰي}
    ’’اور ہم تمہیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں ‘‘[الاعلیٰ:۸]
    اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں:
    { كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ}
    ’’اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے‘‘[الصف :۳]
    یہ فقط شرعی احکام ومسائل کے متعلق نہیں ہے بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم دنیاوی مسائل میں بھی ان اصول و ضوابط کی مکمل پاسداری کریں ورنہ اہل دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اور لوگوں کے درمیان تماشائی بن کر رہ جائیں گے تو ایسا ہونے سے پہلے ہی اگر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو ان شاء اللہ ہمیں ایک عظیم مقام ومرتبہ ملے گا جو ہمیں دنیا وآخرت دونوں جگہ فائز المرام کرے گا ۔
    لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں ، اپنی اصلاح کریں ، اپنی خامیوں کو دور کریں پھر دوسروں کی اصلاح کریں کیونکہ جو اپنی اصلاح نہیں کرتا وہ دوسروں کی اصلاح میں ناکام ہوتا ہے۔
    اللہ رب العزت سے دعا ہے ہمیں ہر اچھی بات کو کہنے کے ساتھ کرنے کی بھی توفیق دے ۔آمین یا رب العالمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings