-
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا عجیب بات ہے کہ زندگی آسان ہورہی ہے مگر لوگ مایوس ہورہے ہیں ، انسان کی فطرت بھی بہت عجیب ہوتی ہے ، اسے زندگی میں سب کچھ اپنے من کے مطابق چاہیے ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ ناامید اور مایوس ہوجاتا ہے، زندگی بھی عجیب ہے، کبھی کبھی اتنی خوبصورت لگتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا رشتہ زندگی سے ہمیشہ جڑا رہے لیکن کبھی کبھی یہ زندگی ہماری امید وتو توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور تب دل کرتا ہے کہ اب زندگی ختم ہی ہوجائے اس میں دکھ درد کے سوا کچھ نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دکھ اور درد میں وقت طویل سے طویل ہوجاتا ہے اور اس سفر میں انسان تھکان ،ہار، مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دل کا موسم اچھا ہوتو باہر کا منظر بھی حسین لگتا ہے اور اگر اندر ہی ویرانی ہو تو باہر کی رونقیں بھی بے کار معلوم ہوتی ہیں ۔ اس ناامیدی مایوسی میں انسان اپنا وجو د بھی کھو بیٹھتا ہے ، انسان کی امید اس کا یقین پست ہوجاتا ہے اور زندگی بے رنگ لگنے لگتی ہے ۔
مگر یاد رکھیے!! کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا ہے ،وقت کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ وہ ایک جیسا نہیں ہوتا ہے ، اگر مشکل ہوتو آسانی بھی ملتی ہے ، مشکلات کے بادل چاہے کتنے ہی کالے کیوں نہ ہوں آسانی کی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوتا ہے ۔ اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے بلکہ مشکل وقت آنے پر ہمت سے اس کا سامنا کرنا چاہئے ۔ انسان اگر اپنے امید ویقین کے چراغ کو ہمیشہ جلائے رکھے تو اس کی روشنی سے باطنی وظاہری طریقے سے مزید مضبوط ہوجاتا ہے ،اور وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتا ہے کہ یہ زوال اور مشکلات سب انسان کی ہمت اور کوشش کو دیکھنے کے قدرت کے بنائے ہوئے پیمانے ہیں ۔ پس وہ خیر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آزمائش کو فتح کرے اور کامیاب ہو ۔
کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنی کامیابی سے اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا وہ اپنے ناکامی وزوال سے مضبوط ہوتا ہے ۔ منفی خیالات انسان کوکمزور کر دیتے ہیں اور انسان کی سورج کو الجھا دیتے ہیں۔ اس لیے اگر مشکل حالات آئے تو انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے خیالات مثبت رکھے اور دکھ ، پریشانی ،ما یوسی کا ہمت سے سامنا کرے ۔ ساتھ ہی یہ سوچ رکھے کہ ہر طوفان آپ کی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے نہیں ہوتا ہے ۔ کچھ طوفان آپ کے راستے صاف کرنے لیے بھی ہوتے ہیں ۔
ہم بہت ہی انوکھے دَور میں جی رہے ہیں ، مادی اعتبار سے سب کچھ بہترین ہے ، ترقی یافتہ مالدار دنیا میں ایک نا معقول سی ’’مایوسی ، اداسی ‘‘ کی وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ مایوسی، پریشانی اور دماغی مرض کی جڑ ہے ، یہی ناکام مستقبل کے خوف کی وجہ ہے،ذہنی تنائو اور ناامیدی کا حاصل ہے انسان کو امید کے ساتھ یہ یقین بھی رکھنا چاہئے کہ جس رب نے انہیں اس دنیا میں بھیجا ہے وہ کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے ۔ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ،پھر یہ انسان نا امید کیوں ہو جاتا ہے؟ کیوں کہ وہ اپنے اس رب کو بھول جاتا ہے جس نے یہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب کو بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ}
’’گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون نا امید ہو سکتا ہے‘‘[ الحجر : ۵۶ ]
اور ہاں! دوسروں سے زیادہ توقعات وابستہ نہ رکھیں، اور یہ مان لیں کہ دوسرا کوئی آپ کی مدد نہیں کرے گا لیکن اگر کوئی آپ کی تھوڑی سی بھی مدد کر دیتا ہے تو آپ کو فرحت و سرور کا احساس ہوگا اور آپ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے خود کو دور رکھ سکیں گے وگرنہ دوسروں سے بڑی بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھنے پھر ان کے پورا نہ ہونے پر انسان کو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لئے اس بات کو مان لینا چاہئے کہ مایوسی صرف انسان کو توڑنے اور غم میں مبتلا کرنے کا کام کرتی ہے، امید زندہ رکھیں اور کسی بھی صورت حال میں مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیں۔
مایوسی سے کیسے بچاجائے؟ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر امید کو تعمیر کرے ، زندگی کے معنی کو سمجھے، اس دنیا میں اس کا کیا مقام ہے اس کوجانے اور بلند ہمتی سے اس کا سامنا کرے ،مایوس نہ ہو،کوشش جاری رکھے، کامیابی اسی سے وابستہ ہے ،پھر دیکھئے آنے والا کل کس قدر خوشیوں کی نوید لاتاہے ۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے ہار نہ مانے ، ہمت سے کام لے ، جس طرح ہیرے کی چمک اندھیرے میں واضح ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح انسان کی صحیح پہچان بھی مشکلوں اور غموں میں ہوتی ہے ، ناکام نہیں ہوں گے تو کامیابی کے زینے پر کس طرح چڑھے گی ؟
ہر مشکل کا سامنا ہمت سے کریں اور جب امیدیں پست ہونے لگیں تو ضرور سوچ لیں ۔
ڈوبنا ہی پڑتا ہے ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا