-
جرائم کا انسداد اسلامی نقطۂ نظر سے اسلام ایک جامع نظام حیات ہے ، جس میں جامعیت کے ساتھ اعتدال اور توازن بھی ہے ۔ یہی اعتدال اور توازن اسلام کے ان مقاصد میں دکھائی دیتا ہے جو ایک جرائم سے پاک معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں ۔
جرائم کہتے ہیں ان تمام کاموں کے ارتکاب کرنے کو جن کی وجہ سے معاشرے پر مضر اثرات رونما ہوتے ہوں اور جو مذہبی و سماجی نقطۂ نظر سے برے تصور کیے جاتے ہوں ،حالیہ جرائم و زیادتی کے واقعات اسلامی نظام حدود و تعذیرات سے انحراف کا نتیجہ ہیں ۔ اسلام کے نظام عدل کو اپنائے بغیر معاشرے میں امن و سکون اورسلامتی نا ممکن ہے۔ جرائم کے انسداد کے بارے میں قرآن وسنت میں بے شمار آیات و احادیث ہیں جن میں اگر ہم باریک بینی سے جائز ہ لیں اور اچھی طرح سمجھیں تو ہم کوئی بھی جرم کرنے سے پرہیز کریں گے خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔
اسلام کے عظیم مقاصد میں سے ایک اہم مقصد معاشرے کی اصلاح اور معاشرے سے جرائم و مفاسد کا خاتمہ کرنا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب معاشرہ ہر طرح کی بے حیائی فحاشی اور جرائم کا ایک مرکز تھا مگر جب اسلام آیا تو اس نے ان تمام خرابیوں اور جرائم کا سد باب کرکے اس معاشرے کو ایک مہذب اور پرامن معاشرے میں تبدیل کردیا ۔ لیکن موجود معاشرے میں ( جو کہ مہذب اور شائستہ کہلاتا ہے )برائیوں اور جرائم کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے ،محض جرائم کے انسداد کا ایک مکمل حل صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں ہے کیونکہ یہ نظام اس خالق کے احکامات پر مشتمل ہے جس نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے ۔ اور قیامت تک ساری انسانیت کے لیے قرآن و سنت کی صورت میں مکمل نظام حیات اور دستورزندگی عطا کی ہے ، انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اپنے بنائے قوانین سے پوری دنیا میں امن و سلامتی قائم کرسکے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللّٰهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘
’’اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی ایک حد کا نافذ کرنا ، اللہ تعالیٰ کی زمین پر چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے ‘‘ [سنن ابن ماجہ:۲۵۳۷،حسن]
اب آئیے ! ان حدود و تعزیرات کا سرسری جائز لیتے ہیں جو اسلام نے جرائم کی روک تھام کے لیے بطور شریعت اہل ایمان کو عطا فرمایا ہے تاکہ ان کا معاشرہ کسی بھی قسم کے جرم اور فساد سے محفوظ رہے ۔
حدود اور تعزیر کی تعریف:
حد: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جن کاموں کو حرام قراردیا ہے ان سے لوگوں کو ضرب (مار) یا قتل کے ذریعے باز رکھنا حد کہلاتا ہے اور حدود اللہ سے مراد وہ محارم(حرام کردہ چیزیں) ہیں جن سے اجتناب کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔
تعزیر : ضرب (یعنی مار پیٹ) طعن و تشنیع ، بائیکاٹ یا جلاوطنی کے انداز کی سزائیں تعزیر میں شامل ہیں ۔
حدود اور تعزیر میں فرق: حد اور تعزیر میں فرق یہ ہے کہ ’’حد ‘‘ ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جن کو شریعت نے متعین کیا ہے جبکہ تعزیر اس سزاکو کہتے ہیں جس میں شریعت نے کوئی حد متعین نہ کی ہو اور نہ اس میں کفارہ ہو۔
اب ہم ان حدودوتعزیرات کا اجمالی تعارف پیش کرتے ہیں :
(۱) انسانی جان پر جنایت: جنایت کا مطلب یہ کہ کسی انسان پر اس انداز کی ظلم وزیادتی کہ اس کے جسم سے جان نکل جائے یا بعض اعضاء تلف ہوجائیں ۔ یا جسم پر زخم لگ جائے ، اسلام کی نظروں میں نا حق قتل کرنا یا کسی عضو کو بیکار کرنا حرام ہے بلکہ کفر کے بعد مومن کے قتل سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا}’’اور جو عمداً کسی مومن کو قتل کردیتا ہے اس کی سزا جہنم ہے وہ ہمیشہ اس میں رہے گا اور اللہ کا اس پر غضب ہے اور اس پر لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے‘‘[النساء:۹۳]
اگر کسی انسان کو ناحق جان بوجھ کر قتل کردیا گیا ہے تو بدلہ میں اس کو بھی قتل کردیا جائے گا جس کو اسلام نے ’’قصا ص‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اگر مقتول کے ورثاء قصاص کے بدلے کچھ مال لے کر قاتل کو معاف کردیں تو یہ بھی جائز ہے اور اس کو اسلام نے ’’دیت ‘‘سے تعبیر کیا ہے ۔
اسی طرح کوئی انسان دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتا ہے اور اس کی آنکھ نکال دیتا ہے ، ٹانگ توڑ دیتا ہے یا ہاتھ کاٹ دیتا ہے تو قصاصاً قصوروار کے ساتھ بھی ویسا ہی سلو ک کیا جائے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ}
’’زخموں میں بھی قصاص ہے‘‘[المائدہ:۴۵]الا یہ کہ صاحب حق دیت قبول کرلے یا معاف کردے۔
(۲) خمر (یعنی شراب) کی حد: خمر جملہ نشہ آور چیزوں کو کہتے ہیں ، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :’’كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ‘‘’’ہرنشہ آورچیز خمر ہے اور ہرخمر حرام ہے ‘‘[صحیح مسلم :۲۰۰۳]
شراب پینا اور نشہ کرنا اسلام میں حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ }’’کیا تم اس سے باز آتے ہو؟‘‘[المائدہ:۹۱]اور فرمایا :{فَاجْتَنِبُوهُ}’’اس سے اجتناب کرو‘‘[المائدہ:۹۵]
اور اس حرمت کی حکمت یہ ہے کہ مسلمان کے دین ، عقل بدن اور مال کی حفاظت کی جائے ۔
اسلام نے حد خمر یہ متعین کی ہے کہ اگر مسلمان ،عاقل ، بالغ اور بااختیار شخص جس کو شراب کی حرمت کا علم ہواور وہ تندرست ہو تو خود اس کے اعتراف سے یا دو عادل گواہوں کی شہادت سے آزاد کی پیٹھ پر ۸۰ کوڑے اور غلام کی پشت پر ۴۰ کوڑے مارے جائیں گے ۔ البتہ اگر شرابی بیمار ہو تو اس پر حد ساقط ہوگی ۔ اسی طرح سخت سردی اور سخت گرمی میں بھی حد نافذ نہ کی جائے گی بلکہ معتدل فضا اور ماحول میں حد جاری کی جائے گی ۔
(۳) حد قذف: قذف: کسی کو زنا ، فحش کاری یا لواطت کا الزام دینا قذف ہے ، قذف کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹی الزام تراشی کرنے والوں کو فاسق کہا ہے ۔ ان کا عادل ہونا ساقط کردیا اور ان پر حداً ۸۰ کوڑے مارنا واجب قراردیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً} ان کو ۸۰ کوڑے مارو‘‘[النور:۴]
(۴) حد زنا : عورت کی قبل یا دبر میں حرام وطی کرنا زنا کہلا تاہے۔کفر و شرک اور قتل نفس کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہے ۔ اورعلی الاطلاق بہت بڑی بے حیائی ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء َ سَبِيلًا}’’اورزنا کے قریب مت جاؤ یہ بے حیائی اور براراستہ ہے ‘‘[بنی اسرائیل:۳۲]
زنا کی حد شریعت اسلامیہ نے یہ مقرر کی ہے کہ اگر زانی غیر شادی شدہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت تو اس کی سزا ایک سو کوڑے ہے۔اور ایک سال کے لئے جلا وطنی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : {الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ}’’ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو‘‘[النور:۲] وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:…الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ…‘‘’’‘جب بکر(غیر شادی شدہ ) زنا کرے بکر(غیر شادی شدہ ) سے تو سو کوڑے لگاؤ اور ایک سال کے لئے ملک سے باہر کر دو‘‘ [صحیح مسلم: ۱۶۹۰]
اور اگر زانی مرد یا عورت شادی شدہ ہوں تو انہیں موت تک سنگسار کیا جائے گا۔دلیل:[صحیح بخاری:۶۸۱۲]
حد زنا کی شرط: اس کی شرط یہ ہے کہ زانی مسلمان ، عاقل اور بالغ ہو اور جرم اپنے اختیار سے کیا ہو، جرم قطعی طور پر ثابت ہو، چار عادل گواہوں سے یا خود زانی زنا کااعتراف کرے ۔
لو اطت کی حد بھی سنگسار کرنا ہے ۔ اس میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ کا فرق نہیں ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ‘‘ ’’جس کو تم قوم لوط والا عمل کرتے دیکھو تو فاعل و مفعول کو قتل کردو‘‘۔[سنن ابن ماجہ:ح:۲۵۶۱،صحیح]
(۵) چوری کی حد: کسی کا محفوظ مال مخفی طریقے سے ہتھیا لینا ،مثلاً دکان یا مکان میں داخل ہوکر سونا چاندی یا کپڑے وغیرہ لیا جائے ’’سرقہ‘‘ کہلاتا ہے ، یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس کو اسلام نے حرام قراردیا ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے چور پر لعنت کی ہے نیز آپ ﷺ نے چوری کرتے وقت چورکے ایمان کی نفی کی ہے ۔
قطع ید کی شرطیں: چور مکلف اور عاقل و بالغ ہو ، چوری کرنے والا مسروقہ مال کے مالک کا والد بیٹا، خاوند اور بیو ی نہ ہو ، مسروقہ مال میں چور کی ملکیت کا شبہ نہ ہو، مسروقہ مال حرام نہ ہو، مال مسروقہ محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو۔
حد سرقہ : ان شرطوں کے پائے جانے کے وقت چور اگر اپنی مرضی اور اختیار کرے یا دو عادل گواہ گواہی دے دیں تو اس پر حد جاری کردی جائے البتہ اگر چور اپنے اعتراف سے انحراف کرجائے تو حد جاری نہ کی جائے گی ۔
اسلام نے حد سرقہ ’’ ہاتھ کا کاٹنا ‘‘ مقر ر کی ہے ۔ ارشاد باری ہے : {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا} ’’چور مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو ‘‘[المائدۃ:۳۸]
(۶) اہل محاربت کی حد: مسلمانوں میں سے ایک ٹولی طاقت اور قوت حاصل کرکے عام لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں ،ان کے راستے مسدود کردیں، لوگوں کو قتل کریں اور ان کے اموال لوٹ لیں تو وہ مُحاربین ہیں ۔
محارب کی حد: محارَبین کو پہلے سمجھا یا جائے گا ،ان سے توبہ کی اپیل کی جائے گی اور اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے گی ، اگر انکار کریں تو ان سے اعلان جنگ کیا جائے گا اور ان کے ساتھ لڑنا جہاد فی سبیل اللہ ہے اور جب وہ گرفتار کرلئے جائیں تو ان پر حد نافذ کی جائے گی یعنی ان کو قتل یا پھانسی یا دونوں ہاتھ کاٹنا یا دونوں پاؤں (یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مخالف سمت کا ) یا جلاوطنی۔{إِنَّمَا جَزَاء ُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ} ’’ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں‘‘[المائدہ:۳۳]
(۷) زندیق کی حد: جوشخص ظاہر میں کلمہ گو ہو مگر اس کے دل میں کفر ہو مثلاً : موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو نہیں مانتا ہو تو وہ زندیق ہے ۔ پورے وثوق کے ساتھ جب اس کا علم ہو جائے تو اسے بطور حدقتل کردیا جائے گا۔
(۸) جادو کی حد : جادو سیکھنا کفر یہ عمل ہے اور جو ایسا کرے اس کی سزا قتل ہے ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ‘‘’’جادوگر کی حد اسے تلوار سے قتل کرناہے‘‘[سنن الترمذی:۱۴۶۰،ضعیف]
معزز قارئین! یہ انسداد جرائم کے لئے اسلامی سزاؤں کا سرسری جائز ہ ہے، ان سزاؤں کی حکمت علامہ جابر جزائری نے یہ بیان کی ہے :’’اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی کی حفاظت ،عام مسلمانوں کی عزتوں اور نفوس وارواح کی طہارت و کرامت کا باقی رکھنا اور شرف و نسب کو اختلاط کی غلاظت سے بچانا اور محفوظ کرنا ، مسلمانوں کی عزت و ناموس کا تحفظ اور اس کی کرامت و سلامتی کی حفاظت ، اسلامی معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلاؤ کی روک تھام اور مسلمانوںمیں رذیل کاموں کی شہرت کو ختم کرنا ، انسان کے دین ،عقل ، بدن اور مال کی حفاظت یہ تمام حکمتیں ہے۔
مخالفین کا رویہ : لیکن اسلام دشمن عناصر جن کا مقصد معاشرہ کی تباہی و بربادی ہے اور خود جدت پسند مغربی ذہن کے مسلمان بھی ان سزاؤں پر اعتراض کرتے ہوئے ان سزاؤں کو ظلم پر مبنی قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ اگر ان میںکہیں تشدد نظر آتا ہے تو وہ صرف جرم کی سنگینی اور شدت کی وجہ سے جیسا کہ قتل اور زنا کی حد ، لیکن ان سزاؤں کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: {وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ }’’کہ قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے ‘‘[البقرۃ: ۱۷۹]
یعنی تمہارے لئے امن و امان اور خوشحال زندگی کے مواقع ہیں اورہاتھ کاٹنے کے بارے میں فرمایا :{نَكَالًا مِنَ اللَّهِ} :’’یہ اللہ کی طرف سے بدلہ ہے سزا ئے عبرت ہے‘‘[المائدہ:۳۸]
خاتمہ: خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام کا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جرم پر وہی سزا دی جو عدل کے تقاضے پورے کرے ۔ جرم کے اثبات اور سزا نافذکرنے کے طریقے میں اسلام نے مجرم کے ساتھ بھی احسان کا سلوک کیا ۔ اسلام کے نظام حدود و تعزیرات میں ایک طرف مظلوم کی دادرسی اور دوسری طرف ظلم سے عدل بلکہ احسان کا تصور نمایاں نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے:
{إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ}’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘[النحل:۹۰]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین