Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دعوت دین میں علماء کا کردار اور ہمارا طرز عمل

    دین ِحنیف کی دعوت، شریعت ِالہٰی کی تبلیغ اور تعلیماتِ نبوی کی نشر واشاعت ایک اہم دینی وملی فریضہ ہے۔جس کی اہمیت وافادیت، رفعتِ مقام اورعظمتِ شان روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
    یہ انبیاء ورسل کا مشن ہے۔ ہمارے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کا خلاصہ اور آپ کی سیرت طیبہ کا نچوڑ ہے۔ آپ ﷺنے فاراں کی چوٹیوں سے اس دعوت کی آواز بلند کی، جو ثقلین کی سماعتوں سے ٹکرائی اور انس وجن کا آویزہ گوش بن گئی۔
    نبی کریم ﷺ کی اس دعوت کی بدولت کفر والحاد اور شرک وفساد کی تیرگی ختم ہوئی۔ شک وارتیاب کے پردے چاک ہوئے۔ دہریت ولا ادریت کی شبِ دیجور میں ایمان وایقان کی شمعِ عالم تاب روشن وفروزاں ہوئی۔ رب کائنات کی وحدانیت کا آوازہ بلند ہوا۔ گلشنِ توحید کی شمیم آرائیوں سے مشام جاں معطر، اور آفتاب حق کی تجلیوں سے قلوب واذہان روشن ومنور ہوئے۔ جاہلیت ووحشیت کی خارزار وادیوں میں بھٹکتی اورظلم وبربریت کی بوجھل بیڑیوں میں سسکتی اور کراہتی انسانیت کو راہِ ہدایت اور کیمیاء سعادت ملی۔ عزت وافتخار اور تہذیب ووقارسے سرفرازی نصیب ہوئی۔ دلوں کی کجی دور اور دماغوں کی الجھن کافور ہوئی۔معبودان باطلہ کا زور ٹوٹا۔ خود ساختہ بت منہ کے بل گر پڑے۔ شجر وحجر، شمس وقمر اور لات ومنات کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے والے اللہ ِواحد کے پرستار بن گئے۔ اوہام وخرافات کے اسیر اور آباء واجداد کی جاہلی روش پر چلنے والے حق کے علمبردار ہو گئے۔
    پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
    اسی دعوتِ حقہ ہی کا نتیجہ تھا کہ قیصر وکسریٰ اور روم وایران کے ایوان ہل گئے اور ان کے مکینوں کے دل دہل گئے۔ اپنے وقت کی جابر وظالم سلطنتیں ذلت وادبار سے دوچار ہوئیں، شکست وریخت کا شکار ہوئیں، اور بالآخر نیست ونابود ہو کر نشانِ عبرت بن گئیں۔
    اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولانی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ وبالا
    اسی دعوت کے ذریعہ نبی محمد ﷺ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے اپنے فتح وظفر اور اقبال ونصر کا پرچم لہرایا، ربانی تعلیمات کو فروغ دیا، صداقت وامانت کا سبق عام کیا، عدل وانصاف کا بول بولا کیا، لوگوں کو بندوں کی بندگی اور غلامی سے نکال کر ربِ کائنات اور خالقِ ارض وسماوات کے دائرہ عبودیت میں داخل کیا، اسلامی تہذیب کی تخم ریزی کی اور ایک صالح معاشرہ اور مثالی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔
    اور تاریخ شاہد ہے کہ دعوت کا یہ سلسلہ بحیثیت مجموعی کبھی رکا نہ اس کا زور کبھی تھما، اور تا قیامت یہ سلسلہ قائم ودائم رہے گا۔ ارشاد نبوی ہے:
    ’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَي الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّي يَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰهِ وَهُمْ كَذَلِكَ‘‘
    ’’ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے‘‘ [صحیح مسلم:۱۹۲۰]
    قارئین کرام! یوں تو دعوت کا یہ فریضہ فرمانِ رسول ﷺ:
    ’’بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً‘‘اور’’فلِيُبَلِّغِ الشَّاهِد الغَائِبَ‘‘[بخاری:۱۷۴۱]کے بموجب، اپنی طاقت ووسعت اور اہلیت وصلاحیت کے بقدر ہر مسلمان پر فرض ہے۔ البتہ اس عظیم فرضِ منصبی کے جملہ تقاضوں سے سبکدوش ہونے اور اس کی قیادت وریادت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے بڑی حکمت وبصیرت، علم وفہم، فراست وفِطانت، سوجھ بوجھ، صالحیت وصلاحیت، استقلال واستقامت، اخلاص وللہیت، اور دعوت کے متعلق کتاب وسنت کی تصریحات وتشریحات سے آشنائی، سیرت محمدی اور انبیاء کے اسلوبِ دعوت کا ٹھیک ٹھیک تتبع، منہجِ صحابہ سے واقفیت، فہمِ سلف کی اصابت اور دعوتی کاز سے حد درجہ شیفتگی ومحبت انتہائی ضروری ہے۔
    چنانچہ اگراس حوالے سے دیکھا جائے تو اس بات میں ذرا بھی تامل نہیں کہ میدان ِدعوت کی قیادت اور مرجعیت علماء کا حق ہے، اور وہی اس کے حقیقی اہل ہیں۔کیونکہ بحیثیت مجموعی علماء ہی کی جماعت کم وبیش مذکورہ اوصاف کی حامل ہے۔ نیز شرعی نصوص اوراسلاف کے طرزعمل کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ جیسا کہ درج ذیل نقاط سے واضح ہوتا ہے:
    ۱۔ ارشادِ نبوی ہے:’’إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَائِ، لَمْ يُوَرِّثُوا،دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَإِنَّمَا وَرِثُوا الْعِلْمَ‘‘[ابو داؤد، مسند احمد:۲۱۷۱۵]
    علماء انبیاء کے جانشین اور وارث ہیں، اور انبیاء کی میراث سیم وزر اور درہم ودینار نہیں، بلکہ علم ہے، اور ان کا مشن دعوت ہے، اور دعوت علم وبصیرت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔لہٰذا علماء ہی حقیقی معنوں میں داعی إلی اللہ ہیں اور یہ مشن ان کا موروثی حق ہے۔ لہٰذا وہی اس کی قیادت کے زیادہ حقدار ہیں۔
    ۲۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ}
    ’’فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ)کی اور تم میں سے اختیار والوں کی‘‘[النساء:۵۹]
    اس آیت میں اولو الأمر کی تفسیر میں ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد رشید حضرت امام مجاہد بن جبر مکی رحمہ اللہ سمیت کئی علماء سلف کا کہنا ہے کہ اس سے اہل علم وفقہ مراد ہیں۔ (تفسیر طبری)
    لہٰذا علماء ہی حقیقی معنوں میں امت کے اہل حل وعقد ہیں۔بنابریں وہی دعوتی قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے کے اہل ہیں۔
    ۳۔ علماء کرام امت کے مصالح ومفادات کے امین، ملی مسائل کے نقیب، لوگوں کے دینی رہنما اور امت کی فکری سلامتی اور امن وآشتی کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا وہی میدانِ دعوت کی قیادت کے بھی زیادہ حقدار ہیں۔
    ۴۔ علماء کرام دین کے امام ہیں، اور دین کی امامت کا لازمی تقاضہ ہے کہ دعوت کی امامت وقیادت انہی کے ہاتھ میں ہو کیونکہ بغیر دعوت کے دین کا کوئی تصور نہیں، اور نہ بغیر دین کے دعوت کا کوئی تصور ہے، دونوں لازم وملزوم ہیں۔ بنابریں علماء کرام امامتِ شرعِ متین اور قیادتِ دعوتِ دین کے حقیقی امین ہیں۔
    ۵۔ اللہ تعالیٰ نے جہالت ولا علمی کی حالت میں لوگوں کو اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}’’پس ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم نہیں جانتے ہو‘‘[الانبیاء:۷]
    اہل ذکر سے مراد اہل علم ہیں۔
    علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ:اس آیت میں اہل علم کی مدح ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نہ جاننے والوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو ان کی ثقاہت اور قابل اعتبار ہونے کی دلیل ہے، اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے وحی منزل قرآن مجید کا امین بنایا ہے۔
    ۶۔ علماء کا رتبہ اور مقام دیگر لوگوں کے بالمقابل بلند اور اونچا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کی شانِ رفیع کی آئینہ داری کرتے ہوئے فرما رہاہے: {يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ}’’اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا ‘‘[المجادلۃ:۱۱]
    یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
    ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
    ۷۔ اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو اپنی وحدانیت کی حقانیت پر گواہ بنایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
    {شَهِدَ اللّٰهُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ}
    ’’ اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق )نہیں‘‘[آل عمران:۱۸]
    اس آیت کریمہ سے اہل علم کی فضیلت اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے خصوصی طور پر صرف علماء ہی کو اپنی توحید پر گواہ بنایا، اور ان کی گواہی کو خود اپنی گواہی اور اپنے فرشتوں کی گواہی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نیز توحید جیسی عظیم شی ٔپر گواہ بنانے سے علماء کی عدالت وثقاہت کا پتہ چلتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کی امانت جو ان کے سینوں میں ودیعت کر رکھی ہے، اور دین کی نشر واشاعت اور لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینے کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی ہے وہی اس کے حقیقی اہل ہیں، اور زمین پر اللہ کے بندوں کے لیے حجت اور مرجعیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
    ۸۔ نبی ﷺکا راستہ بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینا ہے، اور یہی ان کے متبعین کابھی راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَي اللّٰهِ عَلَي بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي}
    ’’کہہ دیجیے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے‘‘[یوسف:۱۰۸]
    اور بصیرت نام ہے علم ویقین اور فقہ فی الدین کا،اور یہ صفت علماء کے یہاں دیگر لوگوں کے بالمقابل بدرجۂ اتم موجودہے۔
    مذکورہ تفصیل سے یہ حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ در اصل علماء ہی داعی الی اللہ ہیں، اور دعوت کی زمام ِقیادت عملاً انہی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ کیونکہ وہی امت کے رہنما اور اہل حل وعقد ہیں، اور امت کے دیگر افراد ان کے تابع ہیں۔
    تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ علماء کے علاوہ کوئی اور دعوتی کاز میں حصہ لینے کا مجاز نہیں۔ بلکہ (جیسا کہ اس سے پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ گزر چکا ہے) ہر مسلمان کو اپنی وسعت وطاقت کے مطابق، اپنے اپنے دائرہ میں، بصیرت اور علماء کی تبعیت کی شرط کے ساتھ دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینے کا شرعی حق ہے۔
    یہاں مقصود اس بات کی وضاحت ہے کہ دعوت کی قیادت کا ہراول دستہ علماء کی جماعت کی شکل میں ہو، اورلازمی طور پر ہم علماء ہی کو اپنا رہنما بنائیں، وہی ہمارے دعوتی کاز کے سرخیل ہوں، وہی اس میدان میں مرجع خلائق ہوں۔ اور انہی کے زیر اہتمام دعوتی ایجنڈے اور پروگرام طے کیے جائیں۔
    علماء کی تبعیت اور قیادت کی شرط از بس ضروری ہے۔ کیونکہ آج عوام الناس اور بعض طلبہ ومثقّف حضرات کے یہاں علماء اور دعاۃ کو دو الگ الگ دھڑوں میں تقسیم کرنے کا ایک غلط رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں علماء کی مرجعیت کا تصور ختم ہوتاجارہا ہے، ان کی قائدانہ حیثیت ذہن ودماغ سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے۔ جاہل اور نا اہل دین کے ٹھیکے دار بنتے جا رہے ہیں۔ دعوت وافتاء بازیچہ ٔاطفال بنتا جارہا ہے۔ فرزندانِ امت کے یہاں علماء ربانیین کے بجائے اصاغر سے علم حاصل کرنا اور ان کو اپنا مرجع بنانا،(جسے نبی کریم ﷺ نے قیامت کی ایک نشانی بتایاہے) عام ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے فکری وجماعتی وحدت کا شیرازہ منتشر ہوتا جا رہا ہے، سطحیت اور انتہاء پسندی شتر بے مہار کی طرح دماغوں میں گھر کرتی جارہی ہے، عقیدہ ومنہج سلف سے متصادم افکار وخیالات میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پر احداث الاسنان اور سفہاء الاحلام داعیوں کا گروپ امت کے معرکۃ الآراء مسائل میں رائے زنی کرتے وقت خلط مبحث کا شکار، قلتِ سوجھ بوجھ، تنگ نظری، اور عجلت پسندی پر مبنی احکام صادر کرنے میں بڑا تیز وطرار نظر آ رہا ہے۔
    اسی طرح علماء سے علیحدگی کے نتیجے میں بعض دعوتی جماعتوں سے منسلک افراد کے یہاں علم اور تفقہ فی الدین جو کہ دعوت کے لئے لازمی شرط ہے،مفقود ہے۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض اس طرح کی جماعتیں اپنے منتسبین کو علماء ومشائخ سے دور رکھنے کی تمام تر کوششیں روا رکھتی ہیں۔ الامان والحفیظ۔
    علماء ربانیین سے علیٰحدگی اور چند مخصوص رنگ کی فکری وثقافتی کتابوں اور سطحی لٹریچر کو مرجع بنا لینے کے نتیجے میں کچھ ایسے دعوتی افکار ونظریات ابھر کر سامنے آئے جن میں عقیدہ ومنہج سلف اور پیغمبرانہ اسلوبِ دعوت کو ذرا بھی در خور اعتناء نہ سمجھا گیا۔ اور بظاہر چند خوشنما نعروں کی آڑ میں ان افکار ونظریات کا صور ایسی بلند آہنگی کے ساتھ پھونکا گیا اور لوگوں کے دلوں میں ان کی تخم ریزی ایسی خوش اسلوبی کے ساتھ کی گئی کہ کم علم اور محدود مطالعہ کے حامل لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جس کے نتیجے میں خارجیت زدہ ایسی زہر آلود فصل اورمنہجی افلاس وفکری دیوالیہ پن کا شکار ایسی انتہاء پسند نسل تیار ہوئی جس نے امت کو ایک لا متناہی سلسلہء مسائل کے مہیب غار میں ڈھکیل دیا۔
    اگر ہم بعض گمراہ فرقوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی ان کے سرغنہ اور دعاۃ کوئی بڑے عالم نہ تھے، بلکہ علم اور تفقہ فی الدین میں بڑے کوتاہ دست تھے۔ جس کے نتیجے میں وہ بھیانک شبہات کے شکار ہوئے اور جادۂ حق سے منحرف ہو گئے۔
    بطور مثال خوارج کو لے لیجیے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں انہوں نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کی صفوں سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا ایک مسلح جتھا بنا لیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے پاس بھیجا۔ حضرت ابن عباس نے کتاب وسنت کے نصوص کی روشنی میں ان کے شبہات کا ازالہ کیا، چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں سے دو ہزار لوگوں نے (جو ان کی مجموعی تعداد کا ایک تہائی حصہ تھے)اس گمراہ فکر سے تائب ہو کر حق کو گلے لگا لیا۔
    اسی طرح روافض کو دیکھ لیجیے کہ ان کے دعاۃ علم وفقہ سے کتنے کورے اور عقل وخرد سے کس قدر عاری ہوتے ہیں۔ اسی طرح معتزلہ،قدریہ، اہل کلام اور بقیہ گمراہ فرقوں کا کم وبیش یہی حال ہے۔
    ان گمراہ فرقوں کے دعاۃ اور زعماء جنہوں نے پرانے وقتوں میں ان باطل افکار ونظریات کی تبلیغ وترویج کا بیڑا اٹھایا۔ وہ اکثر وبیشتر عوام، جاہل اور شرعی علوم سے نابلد لوگ تھے، یا پھر وہ تھے جن کے کچھ ذاتی اغراض ومقاصد تھے، یا وہ گروہی عصبیتوں کے حصار میں مقید تھے اور جہالت ان پر پوری طرح مسلط تھی۔
    لہٰذا دعوتی کازسے منسلک حضرات، بالخصوص وہ لوگ جوامت کی بہی خواہی کے جذبہ کے تحت دعوتی قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے کا شوق رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ لازمی طور پر شرعی علوم میں دستگاہ حاصل کریں، تفقہ فی الدین کو اپنا شیوہ بنائیں، اور دعوت کے اصول وضوابط سے آگاہی وآشنائی حاصل کریں، علماء ربانیین کے زیر تربیت اور زیر قیادت دعوتی برامج اور ایجنڈے تیار کریں، علماء سے قربت کو اپنا شعار بنائیں، امت کے معرکۃ الآراء مسائل کا حل علماء سے طلب کریں۔
    اور علماء کرام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر احساس ِذمہ داری پیدا کریں۔ اپنے فرضِ منصبی کے تقاضوں سے تغافل، اپنے موروثی مشن کے اہداف ومقاصد سے تجاہل اور اپنی قائدانہ حیثیت کو بروئے کار لانے میں تساہل نہ کریں۔ نیز ذاتی منافع ومصالح اور زمینی مفادات سے بالاتر ہو کر، اسباب وذرائعِ شہرت سے دور رہ کر، ریاء ونمائش اورمدح وستائش کی خواہش سے دل کو مبرا وصاف رکھ کر محض رضائے الہٰی اور رب کی خوشنودی کے لیے کام کریں۔ جذب دروں، سوز فزوں، قلب دردمند، فکر ارجمنداور یقیں محکم وعمل پیہم کے ساتھ دینی اقدار وروایات اور ملی شعائر کے تحفظ کے لئے اٹھیں اور پیغامِ الہٰی کو عام کریں۔ توحید وسنت کی نشر واشاعت اور امت کی اصلاح وبناء کے لیے کمر بستہ ہوں۔ گم گشتان راہِ حق کی ہدایت وسعادت کے لیے جگر سوزی اور تڑپ کا مظاہرہ کریں۔ دعوتی کاز میں انتہا پسندی، سطحیت اور انقلابیت زدہ ذہنیت کے بجائے اعتدال ووسطیت اور انبیائی اسلوبِ دعوت کو اپنا نقطہء ارتکاز اور مبدأ آغاز بنائیں۔
    وفق اللّٰہ الجمیع لکل خیر

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings