Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا کلّی میں انگلیاں مسواک کے برابر ہیں؟

    آج ایک روایت دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ وضو میں کلی کرتے ہوئے منہ میں انگلی پھیرنا مسواک کرنے کے برابر ہے۔ بعض احباب نے اسے’’حسن‘‘کہتے ہوئے نشر کیا ہے حالانکہ یہ روایت ضعیف و منکر ہے۔
    اس حدیث کو امام ابن عدی(الکامل:۱؍۱۹۷۱)، امام بیہقی(سنن کبریٰ:۱؍۱۳۴)اور حافظ ابن حجر(التلخیص الحبیر:۱؍۱۰۴)وغیرہ نے ضعیف قراردیاہے۔ذیل میں اس روایت کی تفصیل پیش خدمت ہے:
    یہ حدیث دو سندوں کے ساتھ مختلف کتب احادیث میں مروی ہے:
    ٭سند اول:
    امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    اخبرنا ابوسعد الماليني:اخبرنا ابو احمد بن عدي، حدثنا الساجي، قال:حدثني محمد بن موسي، ثنا عيسي بن شعيب، عن عبد الحكم القسملي عن أنس عن النبى – صلَّي اللّٰه عليه وسلَّم:قال: تجزء من السواك الأصابع‘‘ [السنن الکبریٰ :۱؍۱۳۴]
    اس روایت میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے عبد الحکم القسملی شدید مجروح اور ضعیف ہیں۔
    ۱۔ امام بخاری اس کے متعلق فرماتے ہیں:
    ’’منکر الحدیث‘‘[التاریخ الکبیر،الضعفاء الصغیر) (السنن الکبری:۱؍۱۳۴]
    ۲۔ امام أبو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
    ’’ہو منکر الحدیث، ضعیف الحدیث۔قلت:یکتب حدیثہ؟ قال:زحفًا۔[الجرح والتعدیل :۶؍۳۵،رقم:۱۸۹]
    ۳۔ امام أبو نعیم الأصبہانی فرماتے ہیں:’’روی عن أنس نسخۃ منکرۃ؛ لا شیء‘‘[الضعفاء :۱۳۴]
    ۴۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں:
    ’’ كان ممن يروي عن أنس ما ليس من حديثه، ولا أعلم له معه مشافهة، لا يحل كتابة حديثه إلا على جهة التعجب‘‘ [المجروحین :۲؍۱۴۳،رقم:۷۵۰]
    ۵۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں:
    ’’
    عامة أحاديثه مما لا يتابع عليه، وبعض متون ما يرويه مشاهير إلا أنه بالإسناد الذى يذكره عبدالحكم لعله لا يروي ذاك‘‘ [الکامل:۵؍۱۹۷۱]
    دیکھیں! ائمہ کی اس راوی پر کس قدر سخت جرحیں وارد ہیں کہ اس کی حدیث کسی کام کی نہیں رہتی، امام ابونعیم نے تو باقاعدہ نشان زد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی انس رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ احادیث مناکیر ہیں،نیز امام بخاری نے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ ان الفاظ سے امام بخاری کی جرح شدید تر ہوتی ہے کہ ان الفاظ سے متصف راوی کسی کام کا نہیں رہتا، مگر حافظ ابن حجر نے (التقریب :ص:۵۶۳)میں اسے صرف ضعیف کہنے پر اکتفا کیا ہے۔جبکہ یہ راوی سخت ضعیف ہے، یعنی اس کی روایت قابل احتجاج تو درکنار، قابل متابعت واستشہاد بھی نہیں،مگر ابن حجر کے حکم کے مطابق یہ راوی قابل متابعت ضرور ہے، جو درست نہیں ہے۔
    (تنبیہ) ایک عربی اہل علم نے مجلس الالوکہ میں عیسیٰ بن شعیب راوی کے شاگرد محمد بن موسیٰ کے بارے میں بھی صراحت کی ہے کہ ابن حجر نے التقریب میں اسے ’’لین‘‘یعنی کمزور قرار دیا ہے۔لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں،یعنی یہ راوی کمزور یا ضعیف نہیں، بلکہ کم از کم صدوق درجہ کا راوی ہے، اس راوی کی امام نسائی اور حافظ ذہبی نے توثیق کی ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق سوائے امام ابو داؤد کے اس پر کسی نے جرح نہیں کی، لیکن ان کی جرح غیر مفسر ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے، اور بعید نہیں کہ امام صاحب نے عبد الحکم کے طریق سے مروی روایات کی وجہ سے انہیں ضعیف کہا ہو، جب کہ ان کا الزام عبد الحکم القسملی پر ہے، محمد بن موسیٰ اس سے بری ہے، لہٰذا اسے اس روایت کے ضعف میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
    ٭سند دوئم :
    اس روایت کا مرکزی راوی عبداللہ بن المثنی ہے، جس سے تین رواۃ روایت کرتے ہیں:
    (۱) عیسیٰ بن شعیب (۲)خالد بن خداش (۳)عبداللہ بن عمر الحمال۔
    یہ تینوں رواۃ عبداللہ بن المثنی سے روایت کرنے میں اختلاف کا شکار ہو گئے ہیں۔
    عيسيٰ بن شعيب، ابن المثني عن النضربن انس عن ابيه سے روايت كرتے هيں، خالد بن خداش، عبدالله بن المثني الأنصاري،عن بعض أهل بيتي، عن أنس بن مالك۔۔۔الخ سے روايت كرتے هيں، جبکہ عبد الله بن عمر الحمال، عبدالله بن المثني، عن ثمامة، عن أنس۔۔۔الخ۔ سے روایت کرتے ہیں:
    (۱) طریق عیسیٰ بن شعیب
    امام بیہقی فرماتے ہیں :
    اخبرنا على بن احمد بن عبدان:اخبرنا احمد بن عبيد حدثني ابو الضحاك بن ابي عاصم النبيل، حدثنا محمد بن موسٰي ، عن عيسٰي بن شعيب، ثنا ابن المثني، عن النضر بن أنس، عن أبيه، قال :قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم ،الخ۔
    (۲) طریق خالد بن خداش
    امام بیہقی فرماتے ہیں:
    أخبرنا أبو الحسين بن بشران، حدثنا أبو جعفر الرزاز، حدثنا أحمد بن إسحاق بن صالح، ثنا خالد بن خداش، ثنا عبداللّٰه بن المثني الأنصاري، قال حدثني بعض أهل بيتي، عن أنس بن مالك أن رجلاً من الأنصار من بني عمرو بن عوف، قال:يا رسول اللّٰه، إنك رغبتنا فى السواك، فهل دون ذالك من شيء ؟ قال:أصبعاك سواك عند وضوئك، تمرهما علٰي أسنانك، إنه لا عمل لمن لا نية له، ولا أجر لمن لا حسبة له‘‘
    (۳) طریق عبداللہ بن عمر الحمال
    امام بیہقی فرماتے ہیں:
    حدثنا الاستاذ إسماعيل بن أبي نصر الصابوني، حدثنا أبو محمد الحسن بن محمد المخلدي، ثنا محمد بن حمدون بن خالد، ثنا أبو أمية الطرسوسي، ثنا عبداللّٰه بن عمر الحمال، ثنا عبداللّٰه بن المثني، عن ثمامة، عن أنس قال:قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: ’’الأصبع تجزي من السواك‘‘ امام بیہقی نے ان تینوں طرق میں سے خالد بن خداش کے طریق کو محفوظ باقی دونوں طرق (طریق عیسیٰ بن شعیب اور طریق عبداللہ بن عمر الحمال)کوغیر محفوظ بتلایا ہے۔[۱؍۱۳۵]
    امام بیہقی نے خالد بن خداش کے طریق کو اس لئے محفوظ قرار دیا اور اسے ترجیح دی کہ ان کے مقابلے میں وہ ثقاہت کے درجے میں اوپر ہیں، عیسیٰ بن شعیب اغلاط کا شکار ہوتے ہیں، اور یہاں ان کا وہم واضح ہو رہا ہے کہ سطور بالا میں اس نے سند اول میں یہی روایت عبد الحکم القسملی سے بیان کی اور یہاں اس نے ابن المثنی سے بیان کی ہے، امام بیہقی اسی تناظر میں فرماتے ہیں:’’تفرد بہ عیسٰی بالاسنادین جمیعا‘‘’’کہ وہ ان دونوں (عبد الحکم القسملی عن انس اور ابن المثنی عن النضر بن انس) ‘‘میں منفرد ہو گئے ہیں، رہے عبداللہ عمرالحمال،تو اس کا ترجمہ تاحال مجھے نہیں مل سکا اور نہ اس کی توثیق نظر آئی ہے، تاہم علامہ البانی رحمہ اللہ اسے (بطور شک)عبداللہ بن عمرو الجمال قرار دیتے ہیں جس کا ترجمہ بغیر جرح وتعدیل کے تاریخ بغداد:(۱۰؍۲۳)میں مذکور ہے، بہرحال ان میں سے جو بھی ہو، دونوں ہی غیر معروف ہیں، ایسے میں خالد بن خداش کا طریق محفوظ ہوجاتا ہے، اور وہ طریق خود عبداللہ بن المثنی کے ضعف (کہ وہ صدوق ہونے کے ساتھ ساتھ کثیرالغلط بھی ہے ۔التقریب)اور جس سے وہ روایت کر رہاہے یعنی ’’بعض اہل البیت‘‘اس کے مبہم ہونے کی وجہ سے ضعیف ڈکلیئر ہو جاتا ہے۔
    اور ان تینوں طرق میں سے کسی ایک طریق کو ترجیح نہ دینے پر اصرار ہو تو پھر یہ حدیث اضطراب کی وجہ سے ضعیف ٹھہرتی ہے۔
    خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ یہ حدیث دونوں اسانید کے ساتھ منکر وضعیف ہے، لہٰذا اسے حسن قرار دینا درست نہیں۔واللہ اعلم

مصنفین

Website Design By: Decode Wings