Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا دو رکعت یا ایک تشہد والی نماز میں تورّک کیا جائے گا؟

    محترم قارئین!
    یوپی کے ایک شہر میں دو رکعت والی نماز میں تورک کے تعلق سے ایک مسئلہ رونما ہوا۔وہاں ایک طالب علم نے جمعہ کے دن یہ بات کہی کہ دو رکعت والی نماز میں تورک نہیں کیا جائے گا۔ پھر ایک عالم نے بھی یہ بات کہہ دی کہ راجح یہ ہے کہ دو رکعت والی نماز میں تورک نہیں کیا جائے گا۔ پھر وہیں پر موجود میرے ایک دوست نے مجھے فون کیا اور درخواست کی کہ اِس مسئلے کے تعلق سے راجح کیا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
    راقم جواباً عرض کرتا ہے کہ اِس مسئلے میں راجح یہ ہے کہ دو رکعت والی نماز یا ایک تشہد والی نماز میں بھی تورک کیاجائے گا کیونکہ یہ سنت ِ نبوی ﷺہے۔
    دلیل پیش خدمت ہے:
    امام ابو الفداء اسماعيل بن عمر الدمشقي ،المعروف بابن كثير رحمه الله (المتوفي:۷۷۴ه) رقمطراز هيں:
    قال عبد اللّٰه بن وهب (في موطئه):عن حَيوة، عن ابي عيسي سليمان بن كيسان، عن عبد الله بن القاسم قال: بينما الناسُ يصلُّون على انحا شيء ٍ فى القيام والركوع والسجود، إذ خَرَج عمرُ بن الخطاب، فلما راي ذلك غضب، وهيَّت بهم ، حتي تجوَّزوا فى الصلاة، فانصرَفوا، فقال عمرُ:اَقبِلُوا عليَّ بوجوهكم، وانظروا إليَّ كيف اصلَّي بكم صلاةَ رسولِ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم التى كان يصلِّي ويامر بها۔
    فقام مستقبِلَ القِبْلةِ، فرفع يديه حتي حاذي بهما مَنكبيه، فكَبَّر، ثم غَضَّ بصرَهُ، وخَفَضَ جناحَهُ۔ثم قام قدرَ ما يقراُ بامِّ القرآن، وسورةٍ من المفصَّل، ثم رفع يديه حتي حاذي بهما مَنكبيه، فكَبَّرَ، ثم ركع، فوَضَع راحتيه على ركبتيه، وبَسَط يديه عليهما، ومدَّ عُنُقَه، وخَفَضَ عَجُزَه، غيرَ مُصوِّبٍ ولا مُقنعٍ، حتي انْ لو انَّ قطرةَ ماء ٍ وَقَعت فى نَقرة قفاه لم تنته ان تقعَ، فيَمكثُ قدرَ ثلاثِ تسبيحاتٍ غيرَ عَجِلٍ، ثم كَبَّرَ (فرفع)
    وذَكَر الحديث إلى ان قال:ثم كَبَّرَ، فرفع، واستوي على عقبيه، حتي وَقَع كلُّ عظمٍ منه موقعَهُ، ثم كَبَّرَ، فسَجَد قدرَ ذلك، ورفع راسَه، فاستوي قائمًا، ثم صلَّي ركعةً اخري مثلَها، ثم استوي جالسًا، فنَحَّي رجليه عن مَقعدتِهِ والزم مَقعدتَهُ الارضَ، ثم جَلَس قدرَ ان يتشهدَ بتسعِ كلماتٍ، ثم سلَّم، وانصرف، فقال للقوم: هكذا كان رسولُ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يُصلِّي بنا۔
    (ترجمہ) حضرت عبد اللہ بن القاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    لوگ نماز پڑھتے ہوئے قیام، رکوع اور سجدوں میں کچھ غلطی کر رہے تھے ، اِسی دوران عمر فاروق رضی اللہ عنہ آگئے اور جب آپ نے یہ کیفیت دیکھی تو غصہ ہو گئے اور انہیں زور سے پکارایہاں تک کہ اُن لوگوں نے نماز مختصر کی اور پلٹے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے (اُن سے) فرمایا:تم سب میری طرف متوجہ ہو جاؤ اور مجھے دیکھو! میں کیسے تمہیں رسول اللہ ﷺ کی وہ نماز پڑھاتا ہوں جو آپ پڑھتے تھے اور اسی طرح پڑھنے کا حکم دیتے تھے ۔
    پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے، پھر ہاتھ اٹھایا یہاں تک کہ انہوں اپنے دونوں کندھوں کے برابر لے گئے پھر اللہ اکبر کہا، اُس کے بعد نگاہ جھکا لی اور کندھوں کو جھکا لیا پھر اتنی دیر کھڑے رہے جس میں سورہ فاتحہ اور مفصل کی ایک سورت پڑھی جا سکے، پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھایا اور اللہ اکبر کہا ، پھر رکوع کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اُن پر پھیلا دیا ، پھر اپنی گردن لمبی کی اور پشت جھکا کر ایسی کیفیت اختیار کی کہ اُس میں نہ تو آپ اٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے اور نہ ہی جھکے ہوئے حتیٰ کہ اِس حالت میں اگر پانی کا ایک قطرہ دماغ کے آخر اور گدی سے اوپر کے گڑھے میں ہوتا تو وہ نہ گرتا، پھر آپ اِس حالت میں تین تسبیح پڑھنے کے بقدر ٹھہرے رہے ، جلدی نہیں کی۔پھر اللہ اکبر کہا اور رکوع سے اٹھ گئے۔
    اور راوی نے اِس کے بعد پوری حدیث بیان کی جس میں آگے ہے کہ عبد اللہ بن القاسم رحمہ اللہ نے فرمایا:پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا اور اٹھے ،پھر اپنی ایڑیوں پر برابر ہو کر بیٹھ گئے یہاں تک کہ اُن کی ہر ہڈی اپنی جگہ پر واپس آگئی، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا اور اسی مقدار کے برابر سجدہ کیا ، اِس کے بعد اپنا سر اٹھایا اور سیدھے کھڑے ہو گئے۔ اِس کے بعد آپ نے دوسری رکعت بھی اِسی طرح پڑھی اور پھر بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کو اپنی سرین سے ہٹایا اور سرین کو زمین سے چپکا دیا یعنی زمین پر رکھ دیا پھر نو کلمات کے برابر تشہد میں بیٹھے، پھر سلام پھیر دیا اور پلٹ گئے پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا:اللہ کے نبی ﷺہمیں اسی طرح نماز پڑھاتے تھے۔
    (حوالہ) [مسند الفاروق لابن کثیر بتحقیق امام بن علی بن امام:۱؍۲۰۷۔۲۰۸، ح:۹۴،و الاحکام الکبیر لہ بتحقیق نور الدین طالب:۳؍۲۸۸۔۲۸۹والزیادۃ الاولی والثانیۃ لہ]
    (حکم حدیث) اِس کی سند صحیح ہے۔
    (مختصر تحقیق سند) مذکورہ روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
    (۱) ابو زرعہ حیوہ بن شریح المصری رحمہ اللہ :
    آپ رحمہ اللہ کتب ستہ وغیرہ کے راوی ہیںاور ثقہ ثبت ہیں۔
    ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
    اما م ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی ،المعروف بابن سعد رحمہ اللہ(المتوفی:۲۳۰ھ)
    ’’وکان ثقۃ ‘‘’’آپ ثقہ تھے‘‘[الطبقات الکبریٰ بتحقیق محمد عبد القادر:۷؍۳۵۷، ت:۴۰۶۵]
    امام ابو زکریا یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۳ھ)
    ’’حیوۃ بن شریح ثقۃ‘‘’’حیوہ بن شریح ثقہ ہیں‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳؍۳۰۷، ت:۱۳۶۷]
    اما م ابو الحسن احمد بن عبد اللہ العجلی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۶۱ھ)
    ’’مصری ثِقَۃ رجل صَالح‘‘’’آپ مصری، ثقہ ہیں اور نیک آدمی ہیں‘‘[معرفۃ الثقات بتحقیق عبد العلیم البستوی : ص:۳۲۸، ت:۳۸۳]
    امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴ھ)
    ’’من عباد المصریین والصالحین من المتقنین‘‘’’آپ مصر کے عبادت گزار، نیک اور متقن لوگوں میں سے ہیں‘‘[مشاہیر علماء الامصار واعلام فقہاء الاقطار بتحقیق مرزوق علی ابراہیم :ص:۲۹۸، ت: ۱۴۹۹]
    امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)
    ’’ثقۃ، ثبت، فقیہ، زاہد‘‘’’آپ ثقہ، ثبت، فقیہ اور زاہد ہیں‘‘[تقریب التہذیب بتحقیق محمد عوامۃ :ص:۱۸۵، ت:۱۶۰۰]
    مزید اقوال کے لیے دیکھیں :[تہذیب الکمال للمزی بتحقیق بشار عواد:۷؍۴۷۸،ت:۱۵۸۰]
    (۲) ابو عیسیٰ سلیمان بن کیسان الخراسانی رحمہ اللہ :
    آپ رحمہ اللہ سنن ابی داؤد وغیرہ کے راوی ہیںاور ثقہ ہیں۔
    (۳) عبد اللہ بن القاسم القرشی مولیٰ ابی بکر الصدیق رحمہ اللہ :
    آپ رحمہ اللہ بھی سنن ابی داؤد وغیرہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
    (نتیجہ) امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث امام ابن وہب المصری رحمہ اللہ کی کتاب مؤطا سے نقل کی ہے اور اِس کی سند صحیح ہے۔
    زیر بحث حدیث کو صحیح قرار دینے والے علماء :
    (۱) امام الائمہ ابو بکر محمد بن اسحاق السلمی ، المعروف بابن خزیمہ رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۱ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے زیر بحث روایت کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ زیر بحث حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    ’’لم ارہ فی شیء من الکتب الستۃ ولا من المسند وانما رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ من حدیث ابن وہب بہ‘‘
    اِس حدیث کو میں نے کتب ستہ اور مسند احمد میں نہیں دیکھا ۔ اِس حدیث کی امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں امام ابن وہب رحمہ اللہ کے طریق سے تخریج کی ہے۔[الاحکام الکبیر بتحقیق نور الدین طالب :۳؍۲۸۹]
    مذکورہ قول کو نقل کرنے کے بعد شیخ مطر احمد حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’لم اقف علیہ فی صحیح ابن خزیمۃ فلعلہ من القسم الناقص‘‘
    ’’میں صحیح ابن خزیمہ میں اِس حدیث کو نہیں پا سکا، شاید یہ حدیث ناقص حصے (یعنی صحیح ابن خزیمہ کا جو حصہ دستیاب نہیں ہے، اُس)میں ہے ‘‘[مسند القاروق بتحقیق مطر احمد:۱؍۱۴۰، تحت الحدیث: ۱۰۵]
    راقم کہتا ہے کہ جی! زیر بحث روایت کسی بھی مطبوعہ نسخے میں نہیں ہے لیکن امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی صحیح کے حوالے سے نقل کیا ہے اور کس طریق سے نقل کیا ہے، اُس کی بھی وضاحت کی ہے لہٰذا اُن پر اعتماد کیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔
    (۲) شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ :
    راقم نے شیخ حفظہ اللہ سے اِس سند کی بابت استفسار کیا تو آپ نے کہا:اِس کی سند صحیح ہے۔(تاریخ:۲؍۳؍۲۰۲۱، بعد نماز عشاء )
    (۳) شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ :
    یہ سند حسن ہے۔[نور العینین فی اثبات رفع الیدین :ص:۲۰۱]
    (۴) شیخ خبیب احمد اثری حفظہ اللہ :
    اِس کی سند صحیح ہے۔(الاعتصام لاہور، اکتوبر:۲۰۱۶، ص:۱۰۔۱۴)
    (۵) شیخ محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ :
    اِس کی سند صحیح ہے۔(شیخ کے بلاک پر ، عنوان:دو رکعت والی نماز میں تورک)
    زیر بحث حدیث کی تین اہم باتیں :
    (پہلی بات) زیر بحث حدیث میںہے کہ :
    ’’ ثم صلَّی رکعۃً اخری مثلَہا…ثم سلَّم، وانصرف‘‘
    ’’پھر آپ نے دوسری رکعت پہلی رکعت کی طرح پڑھی… پھر سلام پھیر دیا اور پلٹے‘‘
    مذکورہ ٹکڑے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی تھی۔
    (دوسری بات) زیر بحث حدیث میںہے کہ :
    ’’فنَحَّی رجلیہ عن مَقعدتِہِ، والزم مَقعدتَہُ الارضَ‘‘
    ’’اپنے دونوں پاؤں کو اپنی سرین سے ہٹایا اور سرین کو زمین سے چپکا دیا یعنی کہ زمین پر رکھ دیا‘‘
    مسلمان یہ بات جانتے ہیں کہ جب دو رکعت میں لوگ بیٹھتے ہیں تو اُن کی سرین اُن کے پیر پر ہوتی ہے نا کہ زمین پر لیکن جب بائیں پیر کو سرین سے ہٹا دیا جائے اور سرین کو زمین پر رکھ دیا جائے تو یہ تورّک ہے جیساکہ علماء کرام اور اہل حدیث مسلمان جانتے ہیں۔
    (تیسری بات) زیر بحث حدیث میںہے کہ :
    فقال للقوم: ’’ہکذا کان رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُصلِّی بنا‘‘
    پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا کہ:’’ رسول اللہ ﷺہمیں اسی طرح نماز پڑھاتے تھے‘‘
    مذکورہ ٹکڑے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دو رکعت یا ایک تشہد والی نماز میں تورک کرنا سنت نبوی ﷺہے۔ والحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔
    کیا زیر بحث حدیث منقطع ہے؟
    مسند القاروق کے محقق امام بن علی حفظہ اللہ عبد اللہ بن قاسم کے نام کے بعد ایک نمبر لگا کر حاشیہ میں فرماتے ہیں:
    ’’ضبَّب عليه المولِّف لإنقطاعه بين عبد اللّٰه بن القاسم وعمر‘‘
    ’’مؤلف رحمہ اللہ نے اِس پر تضبیب کے ذریعہ عبد اللہ بن قاسم اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع کا اشارہ کیا ہے‘‘ [مسند القاروق بتحقیق امام بن علی:۱؍۲۰۸]
    راقم کہتا ہے کہ :
    میری ناقص معلومات کی حد تک امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اِس طرح کا کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
    اِسی کتاب کی ایک دوسرے طالب علم مطر احمد حفظہ اللہ نے بھی دکتور احمد محمد نور سیف حفظہ اللہ کے زیر اشراف میں تحقیق کی ہے لیکن انہوں نے اِس طرح کی کوئی بات نہیں کہی ۔دیکھیں:[مسند القاروق بتحقیق مطر احمد :۱؍ ۱۳۹۔۱۴۰، ح:۱۰۵]
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیر بحث روایت کو اپنی ایک دوسری کتاب’’ الاحکام الکبیر ‘‘میں بھی نقل کیا اور وہاں بھی ہو بہو یہی سند ہے لیکن انقطاع کا کوئی اشارہ آپ نے نہیں کیا ہے اور اِس کتاب کی دو لوگوں نے تحقیق کی ہے اور انہوں نے بھی انقطاع کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔دیکھیں:[الاحکام الکبری بتحقیق نور الدین طالب :۳؍۲۸۸۔۲۸۹و بتحقیق طرفہ :ص:۳۲۲۔۳۲۴]
    اگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے نزدیک زیر بحث روایت منقطع ہوتی تو آپ نے جب اپنی کتاب’’ الاحکام الکبیر‘‘ میں اِسے نقل کیا اور اُس کے بعد امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا اسے اپنی صحیح میں نقل کرنے کا ذکر کیا تو آپ وہاں یہ کہتے کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اِس روایت کو اپنی صحیح میں جگہ دی ہے جبکہ یہ روایت منقطع ہے لیکن آپ نے اُن کا تعاقب نہیں کیا۔
    یہاں انقطاع کا کوئی شبہ ہی نہیں ہے کیونکہ عبد اللہ بن القاسم رحمہ اللہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے۔
    امام عبد الغنی عبد الواحد المقدسی رحمہ اللہ (المتوفی۶۰۰ھ) فرماتے ہیں:
    ’’راي عمر بن الخطاب و عبد اللّٰه بن عباس و عبد اللّٰه بن الزبير‘‘
    ’’عبد اللہ بن القاسم رحمہ اللہ نے عمر فاروق، عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیکھا ہے‘‘ [الکمال فی اسماء الرجال بتحقیق شادی بن محمد:۶؍۲۶۳، ت:۳۷۰۱]
    اور امام یوسف بن عبد الرحمن المزی رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے۔ دیکھیں :[تہذیب الکمال بتحقیق بشار عواد:۱۵؍۴۳۸، ت:۳۴۸۶]
    نیز امام ذہبی اور امام ابن حجر رحمہما اللہ نے اِن کی موافقت کی ہے۔ دیکھیں :[تذہیب تہذیب الکمال بتحقیق غنیم عباس وغیرہ :۵؍۲۵۶، ت:۳۵۴۵،وتہذیب التہذیب بتحقیق ابراہیم و غیرہ:۲؍۴۰۴]
    اور امام مغلطائی بن قلیج المصری رحمہ اللہ (المتوفی۷۶۲ھ) نے یہ بھی کہا ہے کہ :
    ’’روي عن عمر بن الخطاب وغيره من الصحابة‘‘
    ’’عبد اللہ بن القاسم رحمہ اللہ نے عمر بن خطاب اور اِن کے علاوہ دیگر صحابہ سے روایت کیا ہے‘‘[إکمال تہذیب الکمال بتحقیق عادل و اسامۃ :۸؍۱۲۴، ت:۳۱۲۹]
    کیا زیر بحث حدیث کی سند ضعیف ہے؟
    (۱) شیخ مطر احمد حفظہ اللہ زیر بحث حدیث پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’اسناده ضعيف، فيه ابو عيسيٰ الخراساني و عبد اللّٰه بن القاسم لم يتضح حالهما‘‘
    ’’اِس کی سند ضعیف ہے، اِس میں ابو عیسیٰ الخراسانی اور عبد اللہ بن القاسم ہیں جن کے حالات واضح نہیں ہیں‘‘ [مسند القاروق بتحقیق مطر احمد:۱؍۱۴۰، ح:۱۰۵]
    (۲) طرفہ بنت صالح الغامدی حفظہا اللہ زیر بحث حدیث پر حکم لگاتے ہوئے فرماتی ہیں:
    ’’اسناده ضعيف، فيه سليمان بن كيسان ، قال عنه الحافظ :مقبول وقال عنه ابن القطان : حاله مجهول وفيه عبد اللّٰه بن القاسم ، قال عنه الحافظ: مقبول‘‘
    ’’اِس کی سند ضعیف ہے، اِس میں سلیمان بن کیسان ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقبول اور امام ابن القطان رحمہ اللہ نے مجہول الحال قرار دیا ہے اور اِس سند میں عبد اللہ بن القاسم بھی ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقبول کہا ہے‘‘[الاحکام الکبریٰ بتحقیق طرفہ :ص:۳۲۲۔۳۲۴]
    راقم کہتا ہے کہ زیر بحث روایت کی سند ضعیف نہیں ہے بلکہ صحیح ہے کیونکہ ابو عیسیٰـ الخراسانی اور عبد اللہ بن القاسم دونوں ثقہ راوی ہیں جیساکہ مفصل طور پر راقم نے دو الگ الگ مضمون میں ثابت کیا ہے۔والحمد للّٰہ علٰی ذٰلک ۔
    (خلاصۃ التحقیق) عمر فاروق رضی اللہ عنہ والی روایت صحیح ہے اور اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دو رکعت والی نماز یا ایک تشہد والی نماز میں تورک کرنا چاہیے کیونکہ یہ سنت ِنبوی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings