Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سیدنا علی اور حسن و حسین (رضی اللہ عنہم) کے ناموں کے ساتھ’’علیہ السلام‘‘کا استعمال

    شیعہ کی طرح اہلِ سنت کے بعض حلقے بھی مخصوص صحابہ کرام یعنی سیدنا علی، حسن و حسین اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ’’علیہ السلام‘‘کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ شیعی نظریات سے شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہونا اور اہلِ بیت کی محبت میں غلو و افراط ہے۔
    شیعہ کے یہاں اہل بیت، انبیاء کی طرح معصوم ہیں، پھر ان کے یہاں عقیدہ امامت بھی موجود ہے جو صریح غیر اسلامی عقائد پر مشتمل ہے۔
    اہلِ سنت نے ان شیعی علامات کو کبھی قبول نہیں کیا ۔ لیکن شیعی لٹریچر، ذاکروں کے بیانات اور ان کی تقاریرمیں اپنے ان مخصوص نظریات کی ترجمانی سے جہاں عوام متاثر ہوئی، وہیں کچھ خواص بھی اس کا شکار ہو گئے اور تساہل یا لا علمی سے اہل سنت خطباء اور واعظین بھی سیدنا علی ، حسن و حسین اور فاطمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے ’’امام‘‘اور ’’علیہ السلام‘‘کے الفاظ استعمال کرنے لگے جو کبھی اہل سنت کے حلقوں میں شیعہ کی پہچان سمجھے جاتے تھے۔
    اہل سنت صحابۂ کرام میں فرقِ مراتب کے باوجود خلفائے راشدین ، مہاجر و انصار، بدری صحابہ ، شرکائے بیعتِ رضوان اور عشرۂ مبشرہ سمیت تمام صحابۂ کرام کے لیے ’’رضی اللہ عنہ‘‘کا استعمال کرتے ہیں اور یہی درست ہے۔
    مفسرِ قرآن اور مایہ ناز اہل حدیث عالم شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچے سمجھے ’’امام حسین علیہ السلام ‘‘بولتی ہے ، حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ’’امام‘‘کا لفظ بولنا اور اسی طرح’’رضی اللہ عنہ ‘‘کے بجائے ’’علیہ السلام‘‘ کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے ’’حضرت ‘‘کا لفظ استعمال کرتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ،کوہم کبھی ’’امام ابوبکر صدیق،امام عمر ‘‘ نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی کے بعد ’’رضی اللہ عنہ ‘‘لکھتے اور بولتے ہیں اور کبھی ’’ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضرت عمر علیہ السلام‘‘نہیں بولتے ، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘کے بجائے ’’علیہ السلام ‘‘بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟
    دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے ، اس لیے یاد رکھیے کہ چوں کہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ ’’امامت ‘‘کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں ، اس لیے ان کے لیے ’’امام‘‘کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے ’’علیہ السلام‘‘لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابیِٔ رسول ہیں ، امامِ معصوم نہیں ، نہ ہم شیعوں کی امامت ِ معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ کرام کی طرح’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ‘‘لکھنا اور بولنا چاہیے، ’’امام حسین علیہ السلام ‘‘نہیں، کیوں کہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔‘‘(رسومات محرم الحرام: ص:۳۰)
    بعض لوگ بہ طور دلیل کتب حدیث میں مرقوم مخصوص صحابہ کرام کے لیے لکھے گئے علیہ السلام کے الفاظ پیش کرتے ہیں تو واضح رہے کہ بعض کتبِ حدیث وغیرہ میں عام طور پر ایسے الفاظ اور علامات مؤلفین کی طرف سے نہیں لکھے گئے بلکہ بعد میں ان کتب کو نقل کر کے لکھنے والے دکانداروں یا ناسخین کی طرف سے رضی اللہ عنہ کی جگہ شامل کیے گئے ہیں جس کی ایک دلیل اس مضمون کے نیچے تصویر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
    محقق اہل حدیث مولانا عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’بہت سے علماء اور اہلِ سنت بھی تساہلاً یا ماحول سے تاثر کی بنا پر حضرت علی اور ان کے بیٹوں کے ناموں پر ’’علیہ السلام‘‘کا لفظ تحریر کر دیتے ہیں جس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ہمارے نزدیک ایسا لکھنا درست نہیں۔ نیز اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناقلین نے ایسا لکھ دیا ہو،مصنف کا اس میں کوئی دخل نہ ہو۔ ‘‘(مقالات مولانا عبدالخالق قدوسی :ص:۱۲۶)
    نیز سنن نسائی کے شارح محدث العصر مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ایک مغالطہ لوگوں کو یہ دیا جاتا ہے کہ فلاں عالم نے فلاں صحابی کے لیے ’’علیہ السلام‘‘لکھا اور فلاں غیر صحابی کے لیے’’رضی اللہ عنہ‘‘استعمال کیا ہے ، ہم عرض کریں گے کہ واقعی بعض علماء نے اسی طرح لکھا ہے، لیکن اس کی وجہ محض سہل نگاری ہے یا عقیدت میں افراط۔ ان کی نظر شاید لغت ہی پر رہی لیکن جمہور علمائے سلف و خلف نے ایسا نہیں کیا ہے اور دلائل کے لحاظ سے یہی مسلک صحیح اور برحق ہے۔‘‘(آثار حنیف بھوجیانی:۱؍۲۳۶)
    نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وقد غلب هذا فى عبارة كثير من النساخ للكتب، أن يفرد على رضي اللّٰه عنه، بأن يقال: ’’عليه السلام‘‘، من دون سائر الصحابة، أو’’كرم اللّٰه وجهه‘‘وهذا وإن كان معناه صحيحا، لكن ينبغي أن يساوي بين الصحابة فى ذٰلك، فإن هذا من باب التعظيم والتكريم، فالشيخان وأمير المؤمنين عثمان بن عفان أولي بذلك منه، رضي اللّٰه عنهم أجمعين‘‘
    یعنی بہت سے ناقلینِ کتب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ خصوصی طور پر(علی)’’علیہ السلام‘‘یا ’’کرم اللہ وجہہ‘‘لکھتے ہیں، جب کہ دیگر تمام صحابۂ کرام کے لیے ایسا نہیں لکھتے۔ معنی کے لحاظ سے یہ درست سہی، تاہم تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تکریم و تعظیم کے لیے ایک جیسے ہی الفاظ استعمال کرنا چاہیے۔اگر امتیازی الفاظ کی اجازت دی جائے تو سب سے زیادہ اس کے مستحق حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ [تفسیر ابن کثیر:۶؍۴۷۸ ]
    امام محی الدین نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    فقال الشيخ أبو محمد الجويني من أصحابنا:هو فى معنى الصلاة ، فلا يستعمل فى الغائب ، فلا يفرد به غير الأنبياء ، فلا يقال :علي عليه السلام ، وسواء فى هذا الأحياء والأموات۔انتهي مختصرا۔
    ہمارے اصحاب میں شیخ ابو محمد الجوینی نے کہا ہے:سلام، یہ صلاۃ کے معنی میں ہے ، لہٰذا یہ کسی غیر موجود کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کا استعمال انبیاء کے علاوہ کسی کے ساتھ نہ کیا جائے ۔ چنانچہ علی علیہ السلام کہنا درست نہیں۔ یہ لفظ (علیہ السلام) زندہ اور فوت شدہ (غیر انبیاء )دونوں کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ [الأذکار: ص: ۱۱۸]
    شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس بابت استفسار کیا گیا تو اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
    ’’لا ينبغي تخصيص على رضي اللّٰه عنه بهذا اللفظ، بل المشروع أن يقال فى حقه وحق غيره من الصحابة رضي اللّٰه عنهم أو رحمهم اللّٰه، لعدم الدليل على تخصيصه بذلك، وهكذا قول بعضهم (كرم اللّٰه وجهه)، فإن ذلك لا دليل عليه ولا وجه لتخصيصه بذلك، والأفضل أن يعامل كغيره من الخلفاء الراشدين، ولا يخص بشيء دونهم من الألفاظ التى لا دليل عليها‘‘
    ’’حضرت علی کے لیے ’’علیہ السلام ‘‘کے الفاظ کی تخصیص کرنا درست نہیں بلکہ آپ کے حق میں اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں’’رضی اللہ عنہم ‘‘کے الفاظ استعمال کرنا مشروع ہے یا ’’رحمۃ اللہ علیہم‘‘کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بہ طور خاص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ’’علیہ السلام‘‘یا’’کرم اللہ وجہہ‘‘کے الفاظ استعمال کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، لہـٰذا افضل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ کے لیے بھی وہی الفاظ استعمال کیے جائیں جو دیگر خلفائے راشدین کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ایسے الفاظ ان کے لیے بہ طور خاص استعمال نہ کیے جائیں جن کی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘(مجموع الفتاویٰ و مقالات:۶؍۳۹۹)
    نیز مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی فرماتے ہیں:
    ’’اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علی، حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے’’علیہ السلام‘‘کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطۂ نظر کے فروغ کا باعث ہے ،جس سے اجتناب ضروری ہے۔‘‘(آثار حنیف بھوجیانی: ۱؍۲۳۷)
    علاوہ ازیں شیخ الحدیث مفتی عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ کا بھی اس بابت یہی موقف ہے جیسا کہ ایک سائل کے سوال پر انہوں نے وضاحت کی ہے۔
    اسی طرح حافظ نور الدین صابونی الحنفی لکھتے ہیں:
    ’’اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اہل بیت میں سے کسی کے لیے ’’الصلاۃ‘‘یا ’’السلام‘‘کا استعمال جائز نہیں ہے حتیٰ کہ سیدنا علی یا حسن یا حسین یا عباس علیہ الصلاۃ، علیہ السلام یا صلوات اللہ علیہ بھی نہیں کہا جائے گا، اسی طرح جملہ اہل بیت کا معاملہ ہے بلکہ ہم’’اہل بیت رضوان اللہ اجمعین‘‘کہیں گے۔ صرف اہل بیت کے لیے ’’الصلاۃ و السلام‘‘ کا استعمال رافضیوں اور اہل بدعت کا شعار ہے۔ وہ ’’الصلاۃ و السلام‘‘ کے ذریعے سے دوسرے تمام صحابہ کے درمیان انہیں ممتاز کرتے ہیں۔‘‘(المنتقیٰ من عصمۃ الانبیاء )
    محتاط بریلوی و دیوبندی علما ء بھی غیر نبی کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘کے استعمال سے منع کرتے ہیں اور اسے شعارِ شیعہ قرار دیتے ہیں۔چنانچہ معروف دیوبندی مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں:
    ’’ملا علی قاری نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ’’علیہ السلام ‘‘لکھنے کو شعارِ شیعہ واہلِ بدعت فرمایا ہے، اس لیے وہ منع فرماتے ہیں۔۔‘‘(فتاویٰ محمودیہ :۱۹؍۱۴۵)
    ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
    ’’قرآن کریم نے صحابۂ کرام کے لیے ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہم‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے، بعض صحابہ کے لیے نبی کریم ﷺنے بھی ان کی وفات (شہادت) پر یہ لفظ ارشاد فرمایا ہے، اور صحابہ و تابعین کے زمانے میں ذرا زیادہ یہ لفظ مستعمل ہوا، پھر عام ہو گیا۔ انبیاء علیم السلام کے لیے لفظ’’علیہ السلام‘‘دورِ نبوی ہی میں زیادہ مستعمل تھا ، صحابۂ کرام بھی استعمال فرماتے تھے اور بعد کے حضرات بھی۔‘‘(فتاویٰ محمودیہ:۱۹؍۱۴۶۔۱۴۷)
    مولانا یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں:
    ’’اہل سنت والجماعت کے یہاں’’ﷺ‘‘اور’’علیہ السلام‘‘انبیائے کرام کے لیے لکھا جاتا ہے،صحابہ کرام کے لیے ’’رضی اللہ عنہ‘‘لکھنا چاہیے۔‘‘(آپ کے مسائل اور ان کا حل:۱؍۲۰۲)
    بریلوی ’’صدر الشریعہ‘‘مفتی امجد علی اعظمی اور ان کی موافقت میں مولانا الیاس قادری صاحب نے اس سے منع کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
    ’’سوال: غیر نبی کے ساتھ’’علیہ السلام ‘‘لکھنا اور بولنا کیسا ہے؟
    جواب: منع ہے۔(اس کے بعد لکھتے ہیں کہ بریلوی صدر الشریعہ امجد علی اعظمی )کی خدمت میں سوال ہوا:یا حسین علیہ السلام کہنا جائز ہے یانہیں اور ایسا لکھنا بھی کیساہے اور پکارنا کیسا ہے ؟
    الجواب: یہ سلام جو نام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے یہ (علیہ السلام کہنا ، لکھنا) سلامِ تحیّت ( ملاقات کا سلام )نہیں جو باہم ملاقات کے وقت کہا جاتا ہے ، یا کسی ذریعے سے کہلایا جاتا ہے ،بلکہ اس (علیہ السلام) سے مقصود صاحبِ اسم (جس کا نام ہے اُس) کی تعظیم ہے ۔ عرفِ اہلِ اسلام نے اس ( علیہ السلام لکھنے بولنے )کو انبیاء و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ لہٰذا غیر نبی و ملک(نبی اورفرشتے کے علاوہ ) کے نام کے ساتھ’’علیہ السلام‘‘نہیں کہنا چاہیے۔‘‘ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب : ص:۲۴۳۔۲۴۴، فتاویٰ امجدیہ :۴؍۲۴۳،۲۴۵)

     

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings