Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اسلام اور تعلیمِ نسواں

    دین اسلام نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ، اس کی اہمیت وفضیلت کو واضح کیا ، حصول علم کو ایک مہتم بالشان عمل قرار دیا ، علماء کو (چاہے مرد ہوں یا عورت )تشریف وتکریم کی نظر سے دیکھا اور اس میں مردو عورت کی تفریق وتخصیص نہیں کی ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا لْعِلْمَ دَرَجَـٰت وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير}
    ’’اللہ ان لوگوں کو درجات میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے جو تم کرتے ہو باخبر ہے ‘‘
    [المجادلۃ:۱۱]
    {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ}
    ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘
    [العلق:۱]
    {وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْماً}
    ’’اور کہو کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما ‘‘
    [طٰہٰ:۱۱۴]
    {شَهِدَ اللّٰهُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ}
    ’’اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے ، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ‘‘
    [آل عمران:۱۸]
    محترم قارئین! اسلام صرف مردوں ہی کے لیے نہیں اترا ،جنسِ لطیف بھی اس میں برابر کی حصہ دارہے ، اسلام نے جس طرح ہر میدان میں عورتوں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور انہیں احترام کی نظر سے دیکھا ہے ، اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی ان پر غیر معمولی توجہ دی ہے ، معاشرہ میں عورت کے کردار کی اہمیت کے پیشِ نظر اسلام نے اس کی تعلیم وتربیت کو ضروری قرار دیا ہے ، مشہور حدیث’’طلب العلم فریضۃ علٰی کل مسلم ‘‘کا حکم مرد وعورت دونوں کے لیے ہے، اس پر علماء کا اجماع ہے ،خاص طور پر عورتوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
    ۱۔ عَنْ أَبِيْ بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَال َقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:’’ثَلا ثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ:رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ ﷺ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أَدَّي حَقَّ اللّٰهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ‘‘
    حضرت ابو بردۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’تین آدمیوں کو دوہرا ثواب ملے گا: ایک تو اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) میں سے وہ شخص جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا اور پھر محمد ﷺ پر ایمان لایا ، دوسرے وہ غلام جو اللہ کاحق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا بھی ،اور تیسرے وہ شخص جس کے پاس ایک لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے اور اچھی طرح تعلیم دے اور آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا ‘‘
    [صحیح البخاری:۹۷]
    ۲۔ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَال:حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ:سَمِعْتُ عَطَاء ً، قَالَ:سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ:أَشْهَدُ عَلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَوْ قَالَ عَطَاء ٌ:أَشْهَدُ عَلَي ابْنِ عَبَّاسٍ:’’أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم- خَرَجَ وَمَعَهُ بِلاَلٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ المَرْأَةُ تُلْقِي القُرْطَ وَالخَاتَمَ، وَبِلاَلٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ‘‘
    سلیمان بن حرب شعبہ روایت کرتے ہیں کہ ایوب نے کہا میں نے عطاء سے سنا ہے ،عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں آپ ﷺ پر گواہی دیتا ہوں، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ پر گواہی دیتا ہوں (راوی کو شک ہے ):’’کہ آنحضرت ﷺ (مردوں کی صف سے )نکلے اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے، آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی ، پھر آپ ﷺ نے عورتوں کو نصیحت کی اور ان کو خیرات کرنے کا حکم دیا،چنانچہ کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی ، کوئی انگوٹھی ، ا ور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے کے کونے میں (یہ خیرات) لینا شروع کر دیا ‘‘
    [صحیح البخاری:۹۸]
    عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَتِ النِّسَائُ لِلنَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ:مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلاَثَةً مِنْ وَلَدِهَا، إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ:وَاثْنَتَيْنِ؟ فَقَالَ: وَاثْنَتَيْنِ‘‘
    حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا :’’مرد آپ کے پاس آنے میں ہم پر غالب ہوئے تو آپ اپنی طرف سے (خاص) ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیجیے ،آپ نے ان سے ایک دن ملنے کا وعدہ فرمایا ،اس دن ان کو نصیحت کی اور شریعت کے احکام بتلائے، ان باتوں میں جو آپ نے فرمایا یہ بات بھی تھی کہ تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیجے تووہ (آخرت میں)اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے ، ایک عورت نے عرض کیا: اگر دو بھیجے تو،آپ نے فرمایا :اور دوبھی‘‘
    [صحیح البخاری:۱۰۱]
    قرآن کریم نے اپنے احکام وارشادات میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی خطاب کیا ہے ، نبیﷺ نے خواتین کے مطالبے پر ان کی تعلیم کے لیے ہفتہ میں ایک دن مقرر فرمایا تھا ،جمعہ اور جماعت میں شرکت کی انہیں اجازت دی (مسجدوں میں خواتین کے جانے سے روکنے والوں کو منع فرمایا ) عید الفطر وعید الاضحی میں ان کی حاضری کو ضروری قرار دیا، ان نصوصِ شرعیہ کے اندازِ بیان اور احکام سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام عورتوں کو کسی بھی موقع پر نظر انداز نہیں کرتا ہے بلکہ ہر موقعہ پر ان کی بہتری کے لیے ضروری احکام صادر کرتا ہے، قرآن نے نبیﷺ کا منصب یہ بھی بتایا ہے کہ آپ اَن پڑھ لوگوں کو قرآن سنانے اور انہیں کتاب وسنت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث فرمائے گئے ،ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم کا دائرہ صرف مردوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں عورتیں بھی شامل تھیں ، نیز نبی ﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ نے متعدد عورتوں سے عقد جائز قرار دیا تھا، علماء اسلام نے اس تعدد کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک حکمت یہ بھی لکھی ہے کہ امہات المومنین کے ذریعہ مسلم عورتوں کو دینی احکام کی تعلیم کاموقع فراہم ہوا ، اور ازواج النبی ﷺ سے امت کی عورتوں نے بھی خوب خوب استفادہ کیا ، (دیکھیے تفصیل کے لیے:خاتونِ اسلام :صفحہ نمبر:۵۷)
    محترم قارئین! اسلام ہی واحد دین ہے جس نے عورتوں کو اس کے تمام حقوق دئیے ،ورنہ اس دکھیاری کے ساتھ جو ناروا سلوک کیے جاتے تھے اس کے ذکر سے آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں ،اسلام نے انہیں ان کے سارے حقوق میں سے ایک عظیم حق تعلیم وتربیت کادیا ہے ، اس کو لکھنے پڑھنے اور تعلیم وتربیت دینے پر ابھارا ہے اور اس کی اہمیت کو واضح کیاہے ، چنانچہ بخاری کی ایک حدیث میں ہے :
    ’’وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ‘‘
    ’’جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہے ، اس نے اس کی تعلیم وتربیت تہذیب واصلاح اخلاق میں ایک خاص کوشش کی پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیا ، تو اللہ تعالیٰ اسے دہرا اجر دے گا‘‘
    [صحیح البخاری:۹۷]
    بہر کیف عورتوں کی تعلیم ایک ضروری و لابدی چیز ہے ، یہی وجہ ہے کہ اگر آپ نصوص شرعیہ کا استقراء واستقصاء کریں گے ، سیر وتاریخ کابغور مطالعہ کریں گے تو آپ کے لیے واضح ہوجائے گا کہ قرونِ اولیٰ میں تعلیم وتربیت کا کیا زور وشور تھا ۔
    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ:
    ’’نِعْمَ النِّسَاء ُ نِسَائُ الأَنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الحَيَائُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ‘‘
    ’’انصارکی عورتیں بھی بہت خوب تھیں دین کی، تفقہ حاصل کرنے میں شرم وحیا ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی تھی ‘‘
    [صحیح البخاری:بَابُ الحَیَاء ِ فِی العِلْمِ]
    کیا آج بھی عورتوں کی تعلیم اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے اشکالات کریں اور علماء امت سے جوابات لیں ، اگر نہیں ہوتی تو کیوں محمد ﷺ کی سنت سے اعراض کیا جا رہا ہے ، اگر سچ پوچھو تو مسلمانوں کی پستی کا قوی تر سبب عورتوں کی جہالت ہے ، سلف ایسی عورتوں کی گود میں پرورش پاتے تھے جو حقیقت میں علوم و فنون کا دودھ پلاتی تھیں ،تمسک بالقرآن والسنہ کی روح پھونکتی تھیں ، عصر نبوت سے لے کر کئی صدیوں تک اس کا رواج رہا کہ عورتیں مستقل درس دیتی تھیں لوگ ان سے استفادہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے پر فخر کرتے تھے، امام ابوداؤد سجستانی جن کی سنن کتب ستہ میں داخل ہے فن حدیث میں ایک عورت کے بھی خوشہ چیں تھے ، علامہ سیوطی کی سرفہرست اساتذہ میں بہت سی صاحبِ کمال عورتیں نظرآتی ہیں،حضرت عمررضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر شخص اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھا کرتے تھے، بعض عورتوں نے خطبات و لکچر میں اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ ان کو خاص لقب دیئے جاتے تھے ، اسماء بنت سکن کو عام طور سے’’خطیبۂ انصار ‘‘کاخطاب ملا تھا ، تسیہ بنت کعب سے صحابہ اور علماء تابعین غسل میت کی تعلیم حاصل کرتے تھے ، کریمہ المروزیہ علم حدیث کی اتنی ماہر خاتون تھیں کہ ان کے شاگردوں میں خطیب بغدادی اور حمیدی جیسے لوگ شامل ہیں ،اسی طرح فن شاعری ، طب وجراحت ،اورتجارت میں بھی خواتین کو عبور حاصل تھا۔
    معزز قارئین! معاشرے کی تعمیر وتخریب میں عورتوں کا کلیدی رول ہوتا ہے ، خواتین معاشرے کانصف حصہ ہیں اور باقی نصف حصے کی پیدائش و پرورش کی ذمہ دار بھی ، اگر عورت تعلیم یافتہ ہو، اسلامی احکامات کا اسے علم ہو ، توحید کو جانتی ہو شرک کی قباحت کو اور اس کے چور دروازے کو سمجھتی ہو تو پورا معاشرہ اسلامی ہوگا ، اسی طرح اگر خواتین ، اسلام کے صحیح عقائد واعمال سے آراستہ ہو ںتو وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سماج کی تعمیر وترقی اورفلاح و بہبود کے پروگرام میں اہم رول ادا کریں گی ،اس دعویٰ کی تصدیق میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔
    مشہور صحابیِٔ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت ام سلیم رمیصاء رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا، ان کے شوہر کفر پر ہی تھے ،ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنے بچے کو توحید اور اسلام سکھانے لگیں ، باپ نے کہا بچے کو خراب نہ کرو ، جواب دیا میں اس کی اصلاح کررہی ہوں ،بالآخر ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو نکاح کاپیغام دیا ، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم ایسے آدمی ہو جس کا رشتہ ٹھکرایا نہیں جاتا ، لیکن تم کافر آدمی ہو اور میرے لیے مشرک سے نکاح کرنا جائز نہیں، اور تم غور نہیں کرتے کہ تم ایک پتھر کو پوجتے ہو جو نہ نفع پہنچاتا ہے اور نہ نقصان ،یاپھر لکڑی کو جسے بڑھئی تراشتا خراشتا ہے ، اگر تم اس میں آگ لگاؤ تو وہ جل جائے گا ، کیا وہ تمہیں نقصان یا نفع پہنچا سکتا ہے؟ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم اگر ایمان لے آؤ تو یہی میرا مہر ہوگا ۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ لوٹے تو ام سلیم کی بات دل میں گھر کر گئی تھی، چنانچہ دوبارہ آئے اور اسلام قبول کرلیا ، یہی ان کا مہر تھا ، ثابت کہتے ہیں کہ میں نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بہتر کسی عورت کا مہر نہیں سنا ، (یہ روایت نسائی ،مسند احمد ،طبقات ابن سعد وغیرہ میں اسانید صحیحہ کے ساتھ مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔(دیکھئے: سیر أعلام النبلاء ۲؍،، بتحقیق شعیب الأرنؤوط)
    اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مومنہ نے کس طرح دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیا،اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے معقول رشتے کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک وہ کافر وبت پجاری تھے ، اس لیے کہ مومنہ کے لیے کافر سے ازدواجی تعلق استوار کرنا حرام ہے ۔
    لہٰذا ضروری ہے کہ خواتین اسلام کو تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کیاجائے ، انہیں لکھنا پڑھنا سکھایا جائے ، تعلیمی مجال میں ان پر خطیر رقم خرچ کیے جائیں ، اوران کی تعلیم وتربیت تشذیب وتہذیب کے لیے علیحدہ انتظام کیا جائے ،کیونکہ ماں کی گود ایک یونیورسٹی ہے ، اسی یونیورسٹی سے قوم ومعاشرہ کے عروج وزوال کافیصلہ ہوتا ہے،جب تک ہماری سوسائٹی وسماج کی مائیں تعلیم سے بے بہرہ ہوں گی ، تب تک ان کی گود میں پلنے والی نسل کا مستقبل سیاہ رہے گا ، نیپولین بوناپارٹ نے کہا تھا ’’تم مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا ‘‘۔
    مختصر یہ کہ عورت انسانی وجود اور اسے سنوارنے میں اہم فریضہ انجام دیتی ہے ،پڑھی لکھی عورت ہی کے پلکوں کے تلے اچھی زندگی کے خاکے نظر آتے ہیں، جس طرح آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں ،اسی طرح پڑھی لکھی عورت کی زندگی کھلی ہوئی کامیاب شاہراہ ہوتی ہے ،وہ ایسی شاخِ گل ہوتی ہے جو نکیلے کانٹوں کو بھی پھولوں کی خوبصورتی سے آراستہ کرتی ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings