Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دینی علم کی اہمیت و ضرورت اور فوائد

    اسلام علم والا دین ہے،اسی لیے اسلام نے ہر مسلمان مردوعورت پر علم دین حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے، کیونکہ علم کے بغیر کوئی بھی انسان نہ رب کی عبادت کرسکتا ہے اور نہ ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے علم کو کیا اہمیت دی ہے اور اس دینی علم کی ہمیں کتنی ضرورت ہے اور علم سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
    ۱۔ ہر مسلمان پر دین کابنیادی علم حاصل کرنا فرض ہے : نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :
     «طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلٰي كُلِّ مُسْلِمٍ»
    ’’علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔
    [سنن ابن ماجۃ:۲۲۴]
    اس حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان مرد وعورت،امیر وغریب،چھوٹے بڑے، پڑھے لکھے وان پڑھ ، مزدور وکسا ن اور نوکر ومالک کوئی بھی ہو اس پر دین کا ضروری و بنیادی علم حاصل کرنا ہرحال میں فرض عین ہے، فرض کی ادائیگی اللہ کو بہت زیادہ محبوب ہے، اور جو فرض نہ ادا کرے اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے، اس سے دینی علم حاصل کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
    ۲۔ کھانے پینے سے زیادہ دینی علم کی ضرورت ہے: کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے، جس سے وہ زندہ رہتا ہے، لیکن دینی علم سے انسان کی روح کو زندگی ملتی ہے،جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے ویسے ہی دینی علم سے انسان کی روح اور اس کا دل زندہ ہوجاتا ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
     «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللّٰهُ بِهِ مِنَ الْهُدَي وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ»
    ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے‘‘۔
    [صحیح البخاری: ۷۹]
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے علم کی ضرورت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
     «الناس الي العلم أحوج منهم الي الطعام والشراب لأن الرجل يحتاج الطعام فى اليوم مرة أو مرتين، وحاجته الي العلم بعدد أنفاسه»
    ’’لوگوں کو کھانے اور پینے سے زیادہ علم دین کی ضرورت ہے،کیونکہ آدمی کو دن میں ایک یا دو بار کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے،اور علم دین کی ضرورت اتنی ہے جتنی (زندگی)کے لیے سانسوں کی ضرورت ہے‘‘۔
    [مدارج السالکین لابن القیم :ص:۴۴۰]
    لہٰذا ہمیں کھانے پینے کا انتظام کرنے کے ساتھ ہی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے، تاکہ ہمارے جسم کے ساتھ ہماری روح اور ہمارا بادشاہ دل بھی زندہ رہے۔
    ۳۔ جنت کا راستہ دینی علم ہے: ہر مسلمان جنت کا طلب گار ہے، لیکن علم سے دور ہے، جب کہ جنت کا راستہ دینی علم سے ملتا ہے،دین کا علم ہی انسان کو جنت کا راستہ دکھاتا ہے، انسان کا عقیدہ اور عمل علم سے ہی درست ہوتا ہے،فرائض کی ادائیگی کا صحیح طریقہ دینی علم سے ہی آتا ہے، دینی علم انسان کو اللہ ورسول کا فرماں بردار بنا دیتا ہے، اور جنت کی راہ آسان ہوجاتی ہے ۔نبی ﷺ نے فرمایا:
     «مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللّٰهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ»
    ’’جو شخص حصول علم کی راہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ سہل کر دے گا‘‘۔
    [صحیح مسلم:۶۸۵۳]
    توحید وشرک، سنت وبدعت، خیر وشر، خبیث وطیب،حسن اخلاق وبد اخلاقی کا فرق دینی علم سے ہی آتا ہے اسی لیے اللہ نے علم والے اور بے علم والے میں فرق کرتے ہوئے فرمایا:
     «قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ»
    ’’بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے)‘‘۔
    [الزمر:۹]
    ۴۔ علم ایک روشنی اور جہالت اندھاپن ہے: جسے دین کا علم ہے،گویا اس کے پاس آنکھیں ہیں جس سے وہ حلال وحرام کو دیکھتا ہے، ہرقسم کی گمراہی سے بچتا ہے، رب کو خوش کرنے کے لیے بھلائی کے کام صحیح طریقے سے انجام دیتا ہے، گھر، بازار، مسجد، اسکول، سماج ہرجگہ وہ علم کی روشنی میں رہتا ہے، جس طرح آنکھوں والا گرنے پڑنے سے محفوظ رہتا ہے ویسے علم والا علم کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے اور بے علم وجاہل اندھا ہوتا ہے اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے اللہ نے فرمایا:
     «أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَي إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ»
    ’’کیا وہ ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں‘‘۔
    [الرعد:۱۹]
    اس آیت میں اللہ نے دین سے جاہل انسان کو اندھا کا لقب دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آنکھیں زندگی کے لیے ضروری ہیں ویسے ہی دین کا علم سیکھنا ضروری ہے۔جس کے پاس علم نہیں ہے اس کا عمل بھی درست نہیں ہوسکتا ہے، لہٰذا مسلمان ہو تو دین کا علم بھی حاصل کرو تاکہ آپ کے اعمال درست ہوسکیں۔جہالت کی وجہ سے انسان شرک وبدعت کی کھائی میں گر پڑتا ہے اور حرام کو حلال کر بیٹھتا ہے لیکن اسے اس کا علم ہی نہیں ہوتا ہے۔
    ۵۔ علم سیکھنا ایک عظیم عبادت ہے : ہر مسلمان پر اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے جس سے وہ اپنے دینی فریضہ کو ادا کرسکے اور اللہ ورسول اور اسلام کو سمجھ سکے، حلال وحرام سے بچ سکے، اورتمام فرض عبادتیں سب سے افضل اور اللہ کو محبوب ہوتی ہیں ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
     «وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ»
    ’’اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے‘‘۔
    [صحیح البخاری :۶۵۰۲]
    ۶۔ علم سیکھنے والے سب سے بہترین لوگ ہیں: علم سیکھنا انسان کو اللہ کی نظر میں سب سے بہترین بنادیتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ»
    ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے‘‘۔
    [صحیح البخاری :۵۰۲۷]
    دینی علم یہی وہ بھلائی ہے جو اللہ بندوں کو عطا فرماتا ہے، علم دین سراپا خیر اور خیر کثیر ہے۔ اللہ نے فرمایا:
     «يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَائُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ»
    ’’وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘
    [البقرۃ:۲۶۹]
    اور نبی رحمت ﷺ نے فرمایا :
     «مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ»
    ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے‘‘۔
    [صحیح البخاری :۷۱]
    ۷۔ علم والا مالدار جاہل مالدار سے بہت بہتر ہے: دنیا کی نعمتوں کو بہترین طور پر صرف علم والا ہی استعمال کرسکتا ہے،اور جاہل اپنے مال سے خود ہی اپنی آخرت کو برباد کرلیتا ہے، سماج کے مالدار اگر علم دین سیکھ لیں تو ان کا مال ان کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوسکتا ہے لیکن جہالت سے وہی مال ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
     «عَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ المَنَازِلِ…»
    ’’ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے‘‘۔
     «وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ المَنَازِلِ»
    ’’اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے‘‘
    [سنن ترمذی:۲۳۲۵]
    ۸۔ علم سے مسلمان کا مقام اور درجہ بلند ہوتا ہے: علم ایک مسلمان کو دنیا وآخرت میں باعزت بنادیتا ہے،اور جہالت انسان کے لیے ذلت ورسوائی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ نے علم والوں کے رفعت شان اور بلند درجات کو یوں فرمایا:
     «يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ»
    ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے‘‘
    [المجادلۃ:۱۱]
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم اللہ کی ایسی نعمت ہے جو اللہ اپنے ان بندوں کو عطا کرتا ہے، جنہیں وہ پسند کرتا ہے، اور علم کے ذریعے ہی ان کو دنیا وآخرت میں باعزت بنادیتا ہے کیونکہ علم نافع سے انسان کے اندر خوف وخشیت پیدا ہوتا ہے اور متقی یعنی اللہ سے ڈرنے والا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
     «إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ»
    ’’بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے‘‘
    [الحجرات:۱۳]
    نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
     «إِنَّ اللّٰهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»
    ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا‘‘۔
    [صحیح مسلم :۱۸۹۷]
    ۹۔ علم دین انبیاء کرام کی میراث ہے: انبیاء کرام اپنے بعد علم دین چھوڑ کر جاتے ہیں، یہی علم دین میراث نبوت ہے جو مال سے بہت زیادہ قیمتی ہے، اور جو بھی مسلمان علم دین سیکھتا ہے وہ سب سے قیمتی چیز لیتا ہے، کیونکہ علم کے اچھے اثرات ہمیشہ باقی رہتے ہیں اور دنیا وآخرت میں فائدہ پہنچاتے ہیں،جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
     «إِنَّ الْعُلَمَائَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَائِ، إِنَّ الْأَنْبِيَائَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ»
    ’’بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، لہٰذا جس نے اس علم کو حاصل کیا، اس نے پورا پورا حصہ لیا‘‘۔
    [صحیح ، سنن إبن ماجۃ:۲۲۳]
    انبیاء کا میراث سب سے زیادہ عظیم، بابرکت، نفع بخش ہے اور اس کو حاصل کرنے والے بھی اسی طرح عظیم اور بابرکت ہیں ۔
    ۱۰۔ علم ہمیشہ اور زیادہ سے زیادہ حاصل کریں: علم پوری زندگی حاصل کرتے رہنا چاہئے کیونکہ علم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔اللہ نے فرمایا:
     «وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ»
    ’’ہر ذی علم پرفوقیت رکھنے والادوسرا ذی علم موجود ہے‘‘۔
    [یوسف:۷۶]
    اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو علم میں اضافہ کی دعا سکھلائی ،اگر علم سے زیادہ کوئی اور چیز اہم ہوتی تو اس میں اضافہ کی دعا سکھائی جاتی وہ دعا یہ ہے:
     «{وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا}» ’’یہ دعا کر کہ پروردگار!میرا علم بڑھا‘‘۔[طہ:۱۱۴]
    بچپن، جوانی اور بڑھاپا عمر کے ہر حصہ میں علم دین سیکھتے رہنا چاہیے اور علم میں برابر اضافہ کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ علم سے اللہ کا خوف بڑھتا ہے، ایمان بڑھتا ہے،خیر سے محبت اور جنت کی چاہت میں اضافہ ہوتا ہے،نفس پاکیزہ ہو جاتا ہے، عمل صالح کرنا اور برائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔سورہ کہف میں موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا، تکلیف اٹھانا،مال خرچ کرنا،صبر کرنا انبیاء کرام کا طریقہ ہے،علم کے باوجود علم میں اضافہ کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے یہ مشقت برداشت فرمائی ۔
    اللہ ہم سبھی دین کا علم سیکھنے اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings