Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل !

    کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے والد محترم کو گالی دے، انہیں برا بھلا کہے، صرف زبانی ہی نہ کہے، بلکہ اسے اپنی کتابوں میں لکھے، ایک فکر کی طرح اسے لانچ کرے، پوری ایک بھیڑ کو ان کے پیچھے لگادے جو انہیں نہ صرف برا بھلا کہیں بلکہ اسے درست اور جائز بھی سمجھیں۔
    خاص طور سے ایسی حالت میں جب میرے والد کا معاشرے میں بہت بڑا مقام ہو، سارے مسلمانوں میں ان کی عزت ہو، امت پر ان کے احسانات ہوں، لوگ انہیں نیک و صالح اور بہت ہی سخی فیاض اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتے ہوں۔
    میں سوچتا ہوں کہ کیا میں ایسے شخص کو جواباً برا بھلا نہیں کہوں گا؟
    کیا میرا ظرف اتنا کشادہ ہوسکے گا کہ میں اسے کچھ نہ بولوں؟
    سوچتا ہوں اگر میرا ظرف اتنا کشادہ ہو بھی جائے کہ میں اسے کچھ نہ کہوں، تو پھر کیا اتنا بھی کشادہ ہو جائے گا کہ میں اس کی منبر و محراب سے تعریف بھی کروں گا، اسٹیج سے اس کی مدح سرائی کروں گا؟ اس کی منقبت کا نغمہ سناؤں گا، اس کی حمد و ثنا کے گیت گاؤں گا؟
    میں سوچتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے ہی برا بھلا کہے، وہ نہ صرف میری بے عزتی کا سامان کرے، بلکہ اسے فکر کی شکل میں کتابوں میں ڈال دے، اور خلق اللہ کی ایک جماعت کو میرے پیچھے لگا دے جو نہ صرف مجھے برا بھلا کہے، بلکہ اسے جائز اور درست اور بسا اوقات باعث ثواب بھی سمجھے، تو کیا اسے بھی میں کچھ نہیں کہوں گا؟ اچھا ممکن ہے میرا ظرف اتنا کشادہ ہوجائے کہ میں اسے کچھ نہ کہوں، تو کیا میں اس کی بر سرمنبر تعریف اور مدح سرائی بھی کروں گا؟
    میں تو اتنا کمزور ہوں کہ اپنے ایک موقف کا رد نہیں برداشت کرپاتا، کوئی میرے کسی موقف کو غلط بتانے لگے تو میں بلبلا اٹھتا ہوں، بے قرار ہوجاتا ہوں، کوئی صاف شفاف آئینہ بھی دکھانا چاہے تو پہلے تو اس آئینہ کو ہی توڑنے کی کوشش کرتا ہوں، نہ کر سکوں تو اپنے چہرے کی دھول آئینہ پر مل کر آئینہ ہی کو پراگندہ کردیتا ہوں، کوئی کتنی بھی اچھی دلیل دے الٹے سیدھے دلائل سے اس کا بھرپور رد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
    نہ تو میں نے ابن خلال، ابن أبی عاصم اور بربہاری کی السنۃ پڑھی ہے، نہ ہی ابن مندہ کی کتاب الایمان اور کتاب التوحید، نہ ہی میں نے ابن بطہ کی الابانۃ پڑھی ہے، نہ ہی امام شاطبی کی الاعتصام، نہ ہی میں نے لالکائی کی شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ پڑھی ہے، اور نہ ہی ابن تیمیہ کی کتاب الایمان اور اقتضاء الصراط المستقیم، نہ ہی امام طحاوی کی عقیدہ طحاویہ اچھے سے پڑھی ہے، نہ ہی ابن ابی العز حنفی کی مایہ ناز شرح، نہ ہی شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی کشف الشبہات اور کتاب التوحید صحیح سے پڑھی ہے، اور نہ ہی مجھے نواقضِ ایمان کا پختہ علم ہے، ارے میں نے تو معاصر اہل علم کے ان اصول سے ماخوذ توحید و ایمان اور منہج و اعتقاد کے جو چیدہ چیدہ مباحث یکجا کردیئے ہیں انہیں بھی نہیں پڑھا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بنارس ،دلی، ممبئی، کراچی ،لاہور، فیصل آباد، ڈھاکہ میں موجود دینی اداروں میں پڑھائی جانے والی عقیدہ کی چھوٹی بڑی نہایت مفید کتابیں بھی میں نے صحیح سے نہیں پڑھی ہیں، کبھی پڑھی بھی تودو چار دس بیس پچاس صفحہ پر ہی کہانی ختم ہوگئی، وہ بھی تعلیم کم ترجمہ زیادہ۔
    میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کبھی اصول و اعتقاد کی کوئی کتاب پڑھنی پڑ جائے تو اولاً تو وہ مجھے سمجھ میں نہیں آتی، خاص طور سے اگر وہ عربی میں ہے، اور کسی قدیم مؤلف نے لکھی ہے تب تو میرا سر ہی درد کرنے لگتا ہے، اور اگر سمجھ میں آئے بھی تو بہت جلدی بور ہونے لگتا ہوں، کیا وہی ہر چار لائن بعد قرآنی آیات اور احادیث، اور پرانے علماء کے اقوال، وہی قدامت اور دقیانوسی، نہ کوئی فلسفہ نہ منطق نہ عقلانیت، نہ مو شگافی، نہ قیاس نہ رائے۔
    کسی’’ مُلّے‘‘ نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ جب دل میں ایمان کی حلاوت ختم ہونے لگے، نفس خواہشات کی اسیری قبول کرنے لگے، قلب و جگر اور عقل وشعور کی کمزوری نماز و قرآن اور ذکر واذکار کی شیرینی کو محسوس کرنے سے معذرت کرنے لگیں، بے عملی ڈیرہ جمانے لگے، عمل بھی ہو تو فارمیلٹی سے زیادہ اس کی حیثیت نہ رہ جائے، تب یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے، پھر آیات سے زیادہ فلسفے، احادیث سے زیادہ موشگافیاں، اور قدیم اہل علم کے اقوال سے زیادہ فکاہتیں اپیل کرتی ہیں۔ مگر اس مُلّے کی بات کو میں نے اپنے مخصوص انداز میں یوں اڑا دیا۔
    لیکن ہاں اگر کسی معاصر مفکر کی کتاب مل جائے، بھلے ہی شرعی اعتبار سے اس میں انحراف اور کجی ہو، مگر وہ عقلانیت سے لبریز اور موشگافی سے پر ہو، تو اسے نہ صرف پڑھتا ہوں بلکہ اسے پلکوں پر سجاتا ہوں، اس کے حرف حرف کو نصوص کی طرح اہمیت دیتا ہوں اور اس کے منحرف فکر و فلسفے اور موشگافیوں تک کو اس طرح دل میں بٹھاتا ہوں کہ وہی حرفِ آخر ہے، پھر اسے مانتا ہی نہیں اس کا بھرپور دفاع بھی کرتا ہوں، چاہے اس فلسفہ کا کیچڑ کسی بدبودار نالے سے ہی کیوں نہ مستعار لیا گیا ہو، کتاب میں خامی بہت واضح ہو تو اس پر پردہ ڈالنے یا اس کو ہلکا کرنے اور سیدھے سادے قاری کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اسلوب پر مر مٹتا ہوں اور اس کے شیریں بیانی کا چہار سو نقارہ بجاتا ہوں۔
    یہی میری اصل کائنات ہے، جس کے دم پر میں کبھی اِس ڈال کبھی اُس ڈال چھٹکتا کودتا ہوں، اور ہر جگہ اسٹیج سجانے اور اسٹیج پانے کے چکر میں رہتا ہوں، اس چکر میں بھلے ہی مجھے عقل و شعور اور فہم و فراست کا ہر سودا کرنا پڑے، میں خوشی سے گنگناتے ہوئے کرتا ہوں۔
    مختصراً یوں سمجھ لیں کہ اس باب میں میری علمی حیثیت ایسی ہے کہ کوئی ڈنڈی مار چالاک اور بھٹکا ہوا راہی اگر توحید کی تعریف اور اس کی اساسی تقسیم ہی میں ہیرا پھیری کرنے لگے تو میں وہ بھی نہیں سمجھ پاتا، میں تو بے ساختہ اس کی ہر تھاپ پر تھرکنے اور ہر تال پر تال ملانے لگتا ہوں، ہاں مگر عقیدہ، منہج اور سلف کی بات آجائے تو میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلی پوسٹ میں ہی لگاؤں، پھر اپنی وہ رائے جو میرے ہوائے نفس کی اسیر ہوتی ہے اسے سدھ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہوں۔
    اب ایسا بھی نہیں ہے کہ میں ہر جگہ کود پڑتا ہوں، دو ڈاکٹر کسی طبی مسئلہ پر بحث کر رہے ہوں تو میں ہونقوں کی طرح چپ چاپ ان کا منہ تکتے رہتا ہوں، چار انجینئر کسی پروجیکٹ پر گفتگو کر رہے ہوں تو ٹُکر ٹُکر ان کا چہرہ دیکھتے رہتا ہوں، مگر اِدھر کوئی شرعی مسئلہ چھڑا اُدھر میں اپنے پورے حواس کے ساتھ حاضر اور پوری منطق کے ساتھ شریک ہوجاتا ہوں، بالکل ویسے ہی جیسے گاؤں کے لوگ چائے کی دوکانوں پر سیاسی بحث کرتے ہیں، میں شرعی مسائل پر گفتگو اور چائے خانوں کے مباحثوں میں زیادہ فرق نہیں کرتا، بسا اوقات تو صرف ہنسی مذاق اور چَکلّس میں اللہ تعالیٰـ کی طرف سے ملی ہوئی اپنی زندگی کے دس بیس گھنٹے یوں ہی قربان کردیتا ہوں، اور یہ بھی نہیں سوچتا کہ روز قیامت سب سے پہلے اسی کا حساب دینا ہے۔
    نہ تو میں قواعد فقہیہ جانتا ہوں، نہ تو فروقِ فقہیہ کا مجھے علم ہے، اور نہ ہی سیاسہ شرعیہ کی مجھے شُد بُد، مگر میں شرعی مسائل کے شفاف پانی کو حالات و ظروف اور مسالک ومذاہب کے کیچڑ میں ڈال کر ایک نیا سمپل تیار کرکے اسے پروموٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اور من موافق مکی مدنی زندگی کا ایسا درس دیتا ہوں کہ صاحبِ فن سر پیٹتا رہ جائے، سب کچھ کرتا ہوں، مگر میں اتنا کمزور ہوں کہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ پاتا، تہی دامنی کی وجہ سے جب مجھ سے کچھ بھی نہیں بن پاتا تو اپنے دل میں موجود خلش، انا اور ہوائے نفس کی تسکین کے لیے دوسروں کی من موافق تحریریں ہی جم کر شیئر کرتا ہوں، مگر اپنے موقف سے نہ پیچھے ہٹتا ہوں، نہ ہی اس کی مخالفت برداشت کر پاتا ہوں۔ اتنے ہی پر میں بس نہیں کرتا، بلکہ اپنی نایاب ثقافت اور بعض مفکرین کی چند کتابوں کے ذاتی مطالعہ کے بل بوتے جن کا بھلے ہی شریعت سے تعلق نہ کے برابر ہو، یا عقیدہ و منہج میں وہ زیرو بلکہ بسا اوقات اس کے مخالف ہی ہوں، انہیں کے بل بوتے ہر مناقشہ اور ہر مباحثہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں، اور اہلِ علم اور ماہرین ِفن کسی بھی فن میں بات کر رہے ہوں، چاہے میں اس کے ابجد سے ناواقف رہوں، مگر میں بھرپور مشارکہ کرتا ہوں، وہ خالص شرعی اصولی اور منہجی مباحث جن پر میرا حاصلِ مطالعہ چند صفحات کا بھی نہیں ہے، ان پر بھی کہیں اہل ِفن بحث کرنے لگیں تو میں بھانڈ کی طرح ان کے بیچ کودتا ہوں، اور ہاں صرف کودتا نہیں ہوں، زبردستی اپنی بات منوانے کی بھی پوری کوشش کرتا ہوں، اور’’ عنزۃ ولو طارت‘‘ کا ورد کبھی نہیں چھوڑتا۔
    میں سوچتا ہوں کہ جب میں اتنا کمزور ہوں کہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے کسی موقف کی مخالفت نہیں برداشت کر پاتا تو بھلا میں ایسی کشادہ ظرفی کیسے دکھا پاؤں گا کہ کوئی مجھے برا بھلا کہے، میرے والد یا میرے کسی عزیز کو گالیاں دے، اور میں اسے کچھ نہ کہوں؟ اس پر مستزاد میں اس کی مدح سرائی بھی کروں، اور اس کی منقبت کے لیے اسٹیج بھی سجاؤں؟ بھلا میں ایسی کشادہ ظرفی اپنے اندر کیسے پیدا کر پاؤں گا؟
    عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین کی تیسری کڑی ہیں، وہ خلفائے راشدین جن کی سنت حجت ہے، آپ کو سرورِ کونین ﷺ نے اپنی دو بیٹیاں عقد میں دیں، آپ حکماً وہ بدری صحابی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جاؤ آج کے بعد جو چاہو کرو تم لوگوں کو میں نے معاف کردیا، آپ ﷺ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو تقریباً بیس بار انفرادی طور پر تعیین کے ساتھ جنت کی خصوصی بشارت دی، شاید اتنے بار کسی اور شخص کو خصوصیت اور تعیین کے ساتھ جنت کی خوش خبری نہیں ملی، ایک موقع پر تو آپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ عثمان آج کے بعد جو چاہیں کریں انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، جس سے فرشتے شرماتے تھے، جس نے اپنی مال و دولت سے جس قدر اسلام کی ابتدائی زندگی میں جب وہ کسمپرسی کا شکار تھا آپ ﷺاور السابقون الاولون کی مدد کی ویسا کوئی نہیں کر سکا، قرآن آپ کے سینے میں محفوظ تھا، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں آپ شہید ہوئے، شہید ہونے سے پہلے آپ نے اپنے آقا اور سسر سرورِ کونین ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تاریخ ِاسلام میں اس قدر احسان و خیر خواہی کرنے کے بعد اس قدر مظلوم شاید کوئی اور شخصیت نہ ہو، تین دن تک لاش بے گورو کفن پڑی رہی، پھر ایک رات چپکے سے بقیع کے باہر اپنے محبوب، اپنے سسراور اپنے دونوں دوستوں سے دور دفن کر دیا گیا۔
    یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و قدرت سے ان تینوں کے بعد انہی کی قبر کو خلائق کی زیارتوں اور دعاؤں کا مرکز بنا دیا۔
    پھر ہمارے اس دور کا کوئی بد نصیب آئے، جسے نہ شریعت کا علم ہو، نہ سلف کے منہج سے واقفیت، نہ عربی زبان سے آشنائی ہو، نہ فقہ و عقیدہ میں دسترس، ایسا شخص اس عثمان عظیم کی برگزیدہ شخصیت کو برا بھلا کہے، آپ پر نکیر کرے، آپ پر نقد کو فکری شکل دے کر اسے تحریری شکل میں کتاب کا حصہ بنائے۔ اور ایک بھیڑ کو پیچھے لگا دے جو نہ صرف اس باطل فکر کی ترویج کرے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر مبارک ساتھیوں پر جن کے قیامت تک اسلام اور اہل ِاسلام پر عظیم احسانات ہیں۔ طعن و تشنیع کرے، انہیں برا بھلا کہے، اس کی تحریریں پورے برصغیر اور اس سے باہر فتنے کا دروازہ کھولیں، خارجیت و تکفیر کو جنم دیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن وتشنیع اور نقد کا نہ بند ہونے والا دروازہ کھولیں، رافضی فکر کی ترویج کا سبب بنیں، وہ ’’گنڑ دُلّے‘‘ بھی جو طہارت کا صحیح طریقہ تک نہیں جانتے وہ بھی کہنے لگ جائیں کہ صحابہ بھی ہماری طرح انسان تھے، وہ معصوم تھوڑی تھے، انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی بھی کمیاں ذکر کی جائیں اور پھر ان برگزیدہ نفوس کے تئیں وہ اسی بہانے اپنے دل کی گندگیاں اور خبثِ باطن باہر نکالیں۔
    میں سوچتا ہوں کہ پھر ایسے شخص کی میں بر سر منبر تعریف کروں، اسٹیج سے اس کی مدح سرائی کروں، سرِ عام اس کی حمد وثنا کے گیت گاؤں تو میں درحقیقت روشن خیال، کشادہ ظرف، اور انصاف پسند قرار پاؤں گا؟ یا پھر ڈھٹائی، بے شرمی، بے ایمانی اور منافقت کا علمبردار کہلاؤں گا؟
    میں تو سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں، سوچتا ہوں اب اور کتنا سوچوں؟ اس لیے سوچا کیوں نا آج آپ ہی لوگوں سے پوچھ لوں!
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings