Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا بیٹیاں ہمارے لئے زحمت ہیں؟
    رضوان اللہ عبد الروف سراجی

    (مدرس:مر کز الامام البخاری تلولی)

    محترم قارئین!  او لاد ہمارے لئے نعمت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے:{اَلْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا}’’مال اوراولاد دنیا کی زینت ہیں‘‘[الکھف:۴۶]

    مذکورہ آیت کریمہ میں مال کے ساتھ ساتھ اولادکو بھی دنیوی زندگی کی زینت قرار دیا گیاہے، اور مال کی طرح اولاد بھی ہمارے لئے نعمت ہے، ، اور کسی بھی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جا ئے ، نا شکری سے اجتناب کیا جا ئے کیوں کہ شکر گزاری پر اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور مزید نعمتیںعطاکرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :{لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ}’’اگر تم نے میرا شکریہ ادا کیا تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر تم نے نا شکری کی تو میرا عذاب سخت ہے‘‘[ابراہیم:۷]

    یہاں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے حساب سے خرچ کیا جا ئے یعنی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو ، غرباء ، فقراء اور مساکین کا حق دو ، اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کیا ہے ، اگر آپ کا مال نصاب کو پہنچ جا ئے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کرو اور اس مقام پر خرچ کرو جو نیکی والا ہو ،گناہ کے کامو ںمیں خرچ کرنے سے بچو۔

    مال کی طرح اولاد بھی ہمارے لئے مفید ومضر ہوتی ہے بہت سے لوگوںکی اولاد پھولی پھلی اور ان کے لئے رحمت ثابت ہو ئی اور ان کی موت کے بعد ان کی اولاد نے اپنے ماں باپ کے لئے مغفرت کی دعا کیا اور بہت سے بچوں نے اپنے ماںباپ کو حیران و پریشان کردیا اوراپنے باپ کی موت کے بعد سکون کی سانس لی ۔

    اولاد ہمارے لئے امانت ہے، ایک انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ امانت میں خیانت نہ کرے بلکہ صحیح طریقے سے امانت کی حفاظت کرے اور اولاد کی حفاظت یہ ہے کہ انہیں طور طریقہ سکھا ئے ، دین سے آگاہ کرے ، نماز وغیرہ کی طرف توجہ دلا ئے تاکہ وہی بچے ان کے بڑھا پے کا سہارا بنیں ، ان کی ضرورت پوری کریں ، بیماری میں ان کا ساتھ دیں ، ان کا علاج کریں اور موت کے بعد ان کے حق میں مغفرت کی دعا کریں ۔         

    ٭اسی لئے ہر انسان کوشادی کے وقت نیک اور دین داربیوی کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جیسا کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا :’’تُنْکَحُ المَرْاَۃُلِاَرْبَعٍ:لِمَالِہَا وَلِحَسَبِہَا وَلِجَمَالِہَا وَلِدِینِہَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ، تَرِبَتْ یَدَاکَ‘‘

    ’’عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے ،اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے ، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندارکے ساتھ کامیاب ہوجا، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی‘‘[صحیح بخاری:۵۰۹۰،صحیح مسلم:۱۴۶۶]

    مذکورہ روایت میںاللہ کے رسولﷺنے دیندار بیوی سے شادی کو ترجیح دیا ہے کیوں کہ بچے کی تربیت میں بیوی کا کردار اہم ہوتا ہے،جب عورت دیندار ہوگی تو بچوں کی پرورش دین ہی پر ہوگی اور اس کے بچے بھی دین دارہوں گے۔

    ٭اوراولاد کے لئے اللہ سے دعا کرو کیوں کہ کسی بھی چیز کا عطا کرنا اللہ کا کام ہے ، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے نہ مانگو۔

    اوراللہ تعالیٰ سے نہ صرف یہ کہ اولاد کی دعا کرو بلکہ نیک اولاد کی دعا کرو جیسا کہ زکریا علیہ السلام نے کیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہُ قَالَ رَبِّ ہَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً إِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ}  ’’وہیں زکریانے اپنے رب سے دعا کی، کہا کہ اے میرے رب!مجھے اپنے پاس سے پاک ذریت عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے ‘‘[آل عمران :۳۸]

    اور ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ :{رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ}’’میرے رب مجھے نیک (اولاد )عطا کر ‘‘[الصافات:۱۰۰]

    کیوں کہ اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک اولاد کی دعا کرتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :{وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا}’’اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار!تو ہمیں ہماری بیویوں اور الاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا‘‘[الفرقان:۷۴]

    اب آپ کا جو کام تھا آپ نے کردیا ، اب آگے اللہ کا کام ہے ، اللہ جس کو چاہے گا دے گا اور جس کو چاہے گا محروم کر دے گا، اللہ کے سامنے کسی کی چلنے والی نہیں ہے، اگر اللہ نے آپ کو نہیں دیا تو اس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کو یا بیوی کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ کا ہر فیصلہ صحیح ہوتا ہے ۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے:{لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَاء ُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَاء ُ إِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَاء ُ الذُّکُورَ ،اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَإِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَائُ عَقِیمًا إِنَّہُ عَلِیمٌ قَدِیرٌ }’’آسمان اور زمین کی بادشاہت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے،یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والاہے ‘‘ [الشوریٰ:۴۹۔۵۰]

     اب جس کے یہاں اولاد نہیں ہوتی تو اس کاراز صرف وہی جانتا ہے، وہ ہر بات کی قدرت رکھتا ہے، اس لئے بندہ کو اللہ کی تقدیرپر ہرحال میں راضی رہنا چاہیے، اسی میں اس کے لئے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔

    لیکن معاشرے میں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے پر کبھی کبھی ناراضگی کا اظہار کرنے لگتے ہیں اگر بچے نہ پیدا ہوں تو گھر والے بیوی کو نہ جانے کیا کیا کہنے لگتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے مقامات پر بیوی کو مارا پیٹا جاتا ہے ، زبان سے بکواس جملے نکالا جاتاہے، اسے گالیاں دی جاتی ہیں ، اسے گھر سے نکلنے یا خودکشی پر مجبور کیا جاتا ہے اور اسے طلاق تک دے دیا جاتا ہے ۔

    اور کچھ لوگ تو بچہ پیدا نہ ہونے پر بیوی کو تو کچھ نہیں کہتے لیکن ایسے مقامات پربھی چلے جاتے ہیں جہاں جاناگناہ ہوا کرتا ہے حالانکہ صبر کرنا چاہئے اور دعا کرتے رہنا چاہئے ۔

    اسی طرح اگر کسی کو صرف بیٹیاں ہوں تو وہ بھی منہ پھلانے لگتا ہے، بیویوں کو کوسنے لگتا ہے، حالانکہ لوط علیہ السلام کے پاس صرف بیٹیاں تھیں ، نبی ﷺکے سارے بیٹوں کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا ، آپ ﷺکے پاس صرف بیٹیاں بچی تھیں لیکن انہوں نے کبھی نا راضگی کا اظہار نہیں کیا ، کبھی اللہ کی شان میں گستا خی نہیں کی اور آج کا انسان اللہ ہی کو کوسنا شروع کردیتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ کہیں کہیں دور جا ہلیت سے بھی زیادہ خطرناک نتیجہ سامنے آتا ہے، دور جاہلیت میں کیاہوتا تھا،اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں:{وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیمٌ ، یَتَوَارَی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوئِ مَا بُشِّرَ بِہِ اَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہُونٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ اَلَا سَائَ مَا یَحْکُمُونَ}’’ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے،اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے، سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ!کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں‘‘[النحل:۵۸۔۵۹]

    دو رجاہلیت میں تو کم از کم بچی کو پیدا ہونے کی اتھارٹی تھی لیکن آج ماں کے پیٹ ہی میں پتہ چلنے پر مار دیا جاتا ہے ، اگر یہ کہا جا ئے کہ عصر حاضر میں بچیوں کے تئیں لوگوں میں دور جاہلیت کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی برا گمان پایا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

    اور اگر کچھ لوگوں کے پاس بیٹے بیٹیاں دونوں ہو ںتو لڑ کی اور لڑکے میں تفریق کرنے لگتے ہیں، لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں سے کام کچھ زیادہ ہی لیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اس کے پیچھے بہت زیادہ خرچ ہوگا ، اس کی شادی میں جہیز دینا ہوگا، اس کے لئے مجھے محنت کرنی ہوگی ،ان کے سامنے سفارش کرنی ہوگی حالانکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لڑکی کا تذکرہ پہلے لڑکے کا تذکرہ بعد میں کرکے لڑکی کا مقام واضح کردیا ، ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ لڑکی اور لڑکے میں تفریق نہ کرو بلکہ دونوں کو برابر تسلیم کرو ،اور دونوں کے درمیان انصاف کرو ۔اللہ تعالیٰ نے فر مایا:{اِعْدِلُوا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَی} ’’انصاف کرو کیوں کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ‘‘[المائدہ:۸]

    اور رسول ﷺنے فر مایا:’’اعْدِلُوا بَیْنَ اَوْلَادِکُمُ اعْدِلُوا بَیْنَ اَبْنَائِکُمْ‘‘’’اپنے اولاد کے درمیان انصاف کرو، اپنے بچوں کے درمیان انصاف کرو‘‘[سنن ابی داؤد:۳۵۴۴،صحیح]

    یہاں اللہ کے رسول ﷺنے اولاد کہا ہے اور اولاد میں لڑکی اور لڑکا دونوں شامل ہیں یعنی دونوں کے درمیان ماں باپ کو انصاف کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔

    ٭ بیٹیاں ہمارے لئے رحمت ہیں ، بیٹیاں گھر کی ملکہ ہیں، مصیبت میں اکثر بیٹیاں ہی کام آتی ہیں ، بیٹے بہت کم کام آتے ہیں، ماں باپ کی خدمت کرنے میں بیٹیاں بیٹوں سے بہت آگے ہیں ،کتنی ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو بھائیوں کے مقابلہ میں اپنے والدین کے حق میں بہت مہربان اور فائدہ مند ہوتی ہیں ، کتنے ہی بیٹے ہیں جو ماں باپ کی پریشانی کا سبب بنے ہو ئے ہیں ، حال یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ بسا اوقات ماں باپ غصے میں بیٹوںکے موت کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔

    نبی ﷺکی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی نے اپنے باپ کے گردن سے او جھڑی ہٹایا تھا جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی عِنْدَ الْبَیْتِ وَاَبُو جَہْلٍ وَاَصْحَابٌ لَہُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْض، اَیُّکُمْ یَجِیء ُ بِسَلَی جَزُورِ بَنِی فُلَانٍ فَیَضَعُہُ عَلٰی ظَہْرِ مُحَمَّدٍ، إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ اَشْقَی الْقَوْمِ، فَجَاء َ بِہِ، فَنَظَرَ حَتّٰی إِذَا سَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَہُ عَلٰی ظَہْرِہِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ وَاَنَا اَنْظُرُ لَا اُغَیَّرُ شَیْئًا لَوْ کَانَ لِی مَنَعَۃٌ، قَالَ: فَجَعَلُوا یَضْحَکُونَ وَیُحِیلُ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ، وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا یَرْفَعُ رَاْسَہُ حَتّٰی جَاء َتْہُ فَاطِمَۃُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَہْرِہِ۔۔۔‘‘

    ایک دفعہ رسول اللہ ﷺکعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں)بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو)اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی)اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر)جب محمدﷺسجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے،یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی)اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں)میں یہ (سب کچھ)دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا، کاش!(اس وقت)مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے)لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہﷺسجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے)اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے،یہاں تک کہ (آپ ﷺکی چہیتی بیٹی)فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا۔۔۔‘‘[صحیح بخاری:۲۴۰]

    ٭بیٹیاں جنت کا راستہ ہیں۔ جیسا کہ اللہ کے رسولﷺنے فر مایا:{مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ دَخَلْتُ اَنَا وَہُوَ الْجَنَّۃَ کَہَاتَیْنِ وَاَشَارَ بِاُصْبُعَیْہ} ’’جس نے دو بچیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی)سے اشارہ کیا‘‘[جامع الترمذی:۱۹۱۴، صحیح ]

    ٭بیٹیاں جہنم کا پردہ ہیں۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فر مایا: ’’ مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْئٍ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ‘‘ ’’جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی‘‘[جامع الترمذی :۱۹۱۳، صحیح]

    اورعائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’دَخَلَتِ امْرَاَۃٌ مَعَہَا ابْنَتَانِ لَہَا فَسَاَلَتْ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِی شَیْئًا غَیْرَ تَمْرَۃٍ، فَاَعْطَیْتُہَا إِیَّاہَا فَقَسَمَتْہَا بَیْنَ ابْنَتَیْہَا، وَلَمْ تَاْکُلْ مِنْہَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ ﷺ، فَاَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ النَّبِیّ:ﷺ مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْئٍ مِنْ ہٰذِہِ الْبَنَاتِ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ‘‘ ’’میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، اس نے (کھانے کے لیے)کوئی چیز مانگی مگر میرے پاس سے ایک کھجور کے سوا اسے کچھ نہیں ملا، چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجور کو خود نہ کھا کر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیا اور اٹھ کر چلی گئی، پھر میرے پاس نبی ﷺتشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا:جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دو چار ہو اس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی‘‘[جامع الترمذی:۱۹۱۴،صحیح]

    اس لئے ہم بیٹیوں کا مقام سمجھیں ، انہیں گری ہو ئی اور ذلیل نظروں سے نہ دیکھیں کہ کل کو یہ میرے لئے مصیبت بنے گی بلکہ اللہ پر توکل رکھیں کہ اگر اللہ نے دیا ہے تو اس کا کو ئی نہ کوئی حل ضرور نکا لے گا ، اس لئے کہ بیٹیاں رحمت ہیں،زحمت نہیں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings