Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • والدین کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں قسط (۲)

    جہنم کی آگ سے بچانا:
    اللہ تعالیٰ نے مومن والدین کو یہ حکم دیاہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں،یہ بہت بڑی ذمہ داری اور زندگی کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے،والدین کے لیے یہ زندگی کا اہم ترین کام ہے، اللہ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًاوَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ}
    ’’ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر‘‘
    [التحریم :۶]
    علامہ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’ووقاية الأهل (والأولاد)، بتأديبهم وتعليمهم، وإجبارهم علي أمر اللّٰه‘‘
    ’’اور بیوی،بچوں کا (جہنم کی آگ سے) بچاؤ اس طرح ہوگا کہ انہیں علمِ دین سکھایا جائے اور باادب بنایا جائے اور ان کو اللہ کے حکم کا پابند بنایا جائے‘‘
    اولاد کی تعلیم وتربیت کے چند اہم پہلو:
    ٭ اسلامی عقیدہ کی تعلیم: اولاد کو توحید کا علم سکھانااوراسلام کی بنیادی تعلیم کا انتظام کرنا والدین پر فرض ہے، کیونکہ یہی وہ بنیادی شرعی علم ہے جو سب پر فرض ہے،اس کے ذریعے ہی بندہ جہنم سے نجات پا تا ہے،اسی سے ہی ایک مسلمان ایمان و عمل صالح سے بھر پور زندگی گزارتا ہے۔اس سلسلے میں لقمان حکیم کی نصیحتیں اپنی اولاد کو کرنا چاہیے،جو کہ سورہ لقمان آیت ۱۳تا ۱۹میں مذکور ہے،جس کا پہلا سبق شرک سے بچنے کی تلقین اور آخری درس حسنِ اخلاق پر ہے،اور توحید اور حسنِ اخلاق جہنم کی آگ سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
    حضرت ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام اپنی اولاد کو دین پر استقامت اور بحیثیت مسلمان زندگی گزارنے کی وصیت کررہے ہیں:
    {وَوَصَّيٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰي لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ}
    ’’اسی کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولادکو کی، کہ ہمارے بچو!اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرمالیا ہے، خبردار!تم مسلمان ہی مرنا‘‘
    [البقرۃ :۱۳۲]
    مسلمان والدین کے لیے ان دو جلیل القدر نبیوں میں بہترین اسوہ ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کو توحید سکھائیں، اسلام پر استقامت کی تلقین کریں،رب کی معرفت، دین کی تعلیم، رسول کی سیرت کو ان کی زندگی کا حصہ بنائیں، اللہ ورسول اور دین اسلام کی محبت بچوں کے دلوں میں پیدا کریںتاکہ ان کی زندگی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور کوئی بھی طوفان انہیں اسلام سے پھیر نہ سکے۔
    ٭ اقامت صلاۃ کی تعلیم وتربیت : نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے،نماز انسان کو اللہ سے قریب کردیتی ہے، نماز بے حیائی اور گناہوں سے روکتی ہے،نماز مومن کی پہچان ہے،ظاہر وباطن کی طہارت کا بہت اہم ذریعہ ہے، نبی کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اس سے سکونِ قلب ملتا ہے اور اسلام اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز یہی نماز ہی ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکو حکم دیا کہ آپ خود بھی نماز پڑھیں اور اہل وعیال کو بھی نماز کا حکم دیں،اللہ کا فرمان ہے :
    {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَيٰ}
    ’’آپ اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید کریں اور خود بھی اس پر جمے رہیں، ہم آپ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تمہیں روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بولا پرہیزگاری ہی کا ہے‘‘
    [سورہ طہ:۱۳۲]
    نماز کی تعلیم وتربیت کے لیے یہ خاص حکم ہر والدین کو یاد رہنا چاہیے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    ’’مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ، وَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا‘‘
    ’’بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہو جائیں تو اس (کے ترک) پر انہیں مارو‘‘
    [سنن أبو داؤد :۴۹۴،حسن صحیح]
    اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں شامل ہیں اور دونوں کو سات سال کی عمر سے ہی نماز کی تعلیم دینا ہے اور پانچوں وقت کی نماز پڑھانا ہے، یہ تعلیم اور تربیت پورے تین سال کرنا ہے اور دس سال کی عمر میں جب نماز میں کوتاہی کریں تو سزا دیں تاکہ وہ مکمل نمازی بن جائیں۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کے پاس آباد کیا تاکہ وہ نماز قائم کریںاور وہ اس میں کامیاب رہے ،اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
    ’’وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا‘‘
    ’’وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰۃ کاحکم دیتا تھا، اور تھا بھی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول‘‘
    [مریم:۵۵]
    مساجد کی محبت بچوں کے دلوں میں بٹھائیں،کیونکہ مساجد سے محبت ایمان کی پہچان ہے،بار بار انہیں مسجد میں لے جائیں،نماز کے لیے، تعلیم کے لیے،درس قرآن، درس حدیث، مساجد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے تاکہ ان کے دلوں میں مسجد کا احترام اور محبت داخل ہوجائے، مسجد میں جانے والا اللہ کا مہمان ہوتا ہے ،جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
    ’’مَنْ غَدَا إِلَي الْمَسْجِدِ وَرَاحَ أَعَدَّ اللّٰهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الْجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ‘‘
    ’’جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرتا ہے ۔ وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے‘‘
    [صحیح بخاری :۶۶۲]
    بہت دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے والدین خود ہی نماز نہیں پڑھتے ہیں، نہ مسجد میں جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پکے نمازی بن جائیں،یہ درست طریقہ نہیں ہے، آپ خود نماز پڑھیں اور گھر والوں کو نماز کا حکم دیں تاکہ پورا گھر جہنم سے نجات پائے اور جنت میں داخل ہو،اس کے برعکس بعض لوگ خود نماز پڑھ کر جنت میں جانا چاہتے ہیں لیکن اپنی بیوی اور بچوں کو بے نمازی بناکر جہنم کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں،یہ کیسی محبت ہے، یہ کیسی وفا ہے، حقیقی محبت یہ ہے کہ خود بھی جنت کی راہ پر چلیں اور اپنے اہل خانہ کو بھی جنت کی راہ چلائیں،خود بھی نماز قائم کریں اور اہلِ خانہ کو بھی نماز کا حکم دیں۔نماز فلاح ونجات کا راستہ ہے۔
    ٭ بچوں کو عربی زبان سکھائیں: عربی زبان دینِ اسلام کا حصہ ہے، قرآن وسنت اور نبی اکرمﷺ کی زبان عربی ہے،لہٰذا اپنے بچوں کو عربی زبان ضرور سکھائیں،تاکہ وہ قرآن مجید عربی میں سمجھ کر اچھی طرح تلاوت کر سکیں ، نمازیں بہتر طریقے سے ادا کرسکیں، قرآن وسنت کی تعلیم کو سمجھ سکیں، بہت ساری بدعات اور گمراہی کا سبب نصوص کتاب وسنت کا غلط فہم ہے،اگر بچوں کو بیسک عربی کی تعلیم دی جائے تو دین کے سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی اور دین سے رشتہ گہرا اور مضبوط ہوگا، جس طرح ہم اردو، ہندی، انگلش سکھاتے ہیں، اسی طرح ہمیں عربی زبان بھی سکھانا چاہیے،ایک بچے کو دین سے جوڑے رکھنے میں عربی زبان بہت معاون ہوگی،عربی زبان کی اتنی تعلیم واجب ہے، جس سے بچہ قرآن پڑھ سکے،اور نماز کی دعائیں اچھی طرح پڑھ سکے،لہٰذا والدین کو اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے،اور الحمد للہ ایسے علماء کرام سماج میں موجود ہیں جو عربی زبان سکھارہے ہیں اور سکھا سکتے ہیں، بس آپ کے عزم وارادہ کی دیر ہے۔وفقنی اللّٰہ وإیاکم
    ٭ بچوں کو صالح بنائیں: تعلیم وتربیت کا مقصد صالح اور نیک بنانا ہے، اور صالح اس شخص کو کہتے ہیں جو ایمان خالص کے ساتھ ساتھ اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرتا ہو، اللہ تعالیٰ صالح بندوں کی مدد کرتا ہے:
    {إِنَّ وَلِيِّيَ اللّٰهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّي الصَّالِحِينَ }
    ’’یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے‘‘
    [الأعراف:۱۹۶]
    اور صالح اور نیک بندوں میں شامل ہونے کے لیے صرف دو کام کا اہتمام کرنا ہے ایک ایمان اور دوسرے عمل صالح،پھر اللہ ایسی اولاد کو صالحین میں شمار کرتے ہیں،جیسا کہ وعدۂ ربانی ہے:
    {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ}
    ’’اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کیے انہیں میں اپنے نیک بندوں میں شمار کر لوں گا‘‘
    [العنکبوت:۹]
    یہ والدین کی ذمہ داری ہے،والدین کو اپنے بچوں کے لیے صالح بن کر زندگی گزارنا چاہیے تاکہ بچوں کی دنیا وآخرت سنور جائے جیسا کہ اہلِ ایمان والدین سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی مومن اولاد کو جنت میں ان کے ساتھ کردے گا۔
    { وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْئٍ}
    ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے‘‘
    [الطور:۲۱]
    اور دنیا میں بھی والدین کی صالحیت سے بچوں کو نفع ملتا ہے جیسا کہ موسیٰ وخضر علیہما السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے دو یتیم بچوں کے خزانہ کی حفاظت فرمائی ،کیوں؟ اس لیے کہ ان بچوں کا باپ صالح تھا ،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
    {وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ}
    ’’ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں‘‘
    [الکہف :۸۲]
    ۳۔ بچوں کو دعائیں دیا کریں: والدین کی دعا قبول ہوتی ہے،اس لیے بچوں کے لیے خصوصی دعائیں کیا کریں، تاکہ آپ کا جو پروجیکٹ ہے وہ مکمل ہو سکے اور آپ کے بچے ایمان وتقویٰ کی زندگی گزارسکیں اور آخرت میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے سامنے بھی دعائیہ کلمات کہیں اور تنہائی میں بھی ان کی فلاح کے لیے دعا کرتے رہیں،نبی اکرم ﷺبچوں کو دعائیں دیتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا تھا تو آپ نے خوش ہوکر ابن عباس کو دعا دیا تھا’’اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّين‘‘’’اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرما‘‘[صحیح بخاری :۱۴۳]
    اسی طرح علماء اور صاحب دین لوگوں سے اپنے بچوں کے لیے دعائیں بھی کروایا کریں، جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا انہیں لے کر نبی ﷺ کے پاس لائیں اور دعا کی درخواست پر نبی ﷺ نے حضرت انس کے لیے دعا فرمائی:’’اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ، وَوَلَدَهُ‘‘ ’’اے اللہ اس کے مال اور اولاد کو بڑھادے‘‘
    حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’فَوَاللّٰهِ إِنَّ مَالِي لَكَثِيرٌ، وَإِنَّ وَلَدِي وَوَلَدَ وَلَدِي لَيَتَعَادُّونَ عَلٰي نَحْوِ الْمِائَةِ الْيَوْمَ‘‘
    ’’تو اللہ کی قسم! میرا مال بہت ہے اور میرے بیٹے اور پوتے سو سے زیادہ ہیں‘‘[صحیح مسلم :۲۴۸۱]
    اہل ایمان خود بھی جامع انداز میں اہل وعیال کے متقی بننے کی دعا کرتے ہیں،ان کے لیے ایمان وعمل صالح کی زندگی کا سوال کرتے ہیں، ہر والدین کو یہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔
    {رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
    ’’اے ہمارے رب!تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا‘‘
    [الفرقان:۷۴]
    بچوں کی تمام اہم ضروریات کے لیے والدین کو دعائیں کرنا چاہیے خصوصاً بچوں کی دینی ضرورت کے لیے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے خوب دعائیں کی ہیں، چند دعائیں بطورِ مثال پیش خدمت ہیں:
    شہر مکہ کے امن وسکون اور اولاد کوشرک وبت پرستی سے بچانے کے لیے دعا :
    {رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الأَصْنَامَ}
    ’’اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والابنادے، اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے‘‘۔
    [إبراہیم: ۳۵]
    اولاد کو نمازی بنانے کے لیے دعا :
    {رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء }
    ’’اے میرے پالنے والے!مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما‘‘
    [إبراہیم:۴۰]
    اولاد کی پاکیزہ روزی کے لیے دعا:
    {وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُون}
    ’’اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں‘‘
    [إبراہیم:۳۷]
    اولاد کے لیے مستقل معلم ومزکی رسول مبعوث کرنے کی خصوصی دعا :
    {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ}
    ’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبہ والااور حکمت والاہے‘‘
    [البقرۃ:۱۲۹]
    ۴۔ بچوں کے ساتھ نرمی کریں: محبت اور نرمی حسن اخلاق کا ایسا پہلو ہے جو لوگوں کو اپنا محبوب بنالیتا ہے،نرم خوئی میں ایک کشش ہے جس سے لوگ اس کی طرف کھینچ کر چلے آتے ہیں،بچے معصوم ہوتے ہیں، ان کا نامۂ اعمال روشن ہوتا ہے،ان کی شرارتیں نادانی پر مبنی ہوتی ہیں،ان کے ساتھ نرمی کریں، محبت کریں، اپنی محبت کا اظہار کریں،نرم لہجے میں گفتگو کریں، نرم رویہ اپنائیں،اس سے بچوں کے دلوں میں آپ کی محبت بڑھ جائے گی،احترام میں اضافہ ہوجائے گا، نبی اکرم ﷺسے صحابہ کی بے مثال محبت کا ایک سبب نبی ﷺ نرمی خوئی تھی:
    {فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ}
    ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے‘‘
    [آل عمران :۱۵۹]
    لیکن ان کی اصلاح کے لیے زجروتوبیخ بھی جائز ہے اور اگر ضرورت محسوس ہوتو جسمانی سزا دینا بھی جائز ہے،جیسا کہ نماز کی تعلیم وتربیت کے باوجود اگر نماز نہیں ادا کرتا ہے تو اسے مارنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن اچھی طرح یاد رہے کہ اگر بچے کے ساتھ ظلم کیا گیا اس کی غلطی سے زیادہ اسے سزا دی گئی،تو قیامت کے دن اس کا حساب ہوگا،لہٰذا ان کمزور بچوں کو سزا دیتے وقت قیامت کے دن کا عدل وانصاف یاد رکھیں۔
    تمام بھلائیاں اللہ نے نرمی کے اندر رکھ دی ہے، نرمی کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ خیر عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں عطا کرتا ہے،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    يَا عَائِشَةُ:’’إِنَّ اللّٰهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَي الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَي الْعُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلٰي مَا سِوَاهُ‘‘
    اے عائشہ! ’’اللہ نرمی کو پسند کرتا ہے اور خود بھی نرم ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی پر نہیں دیتا ہے اور نہ کسی اور چیز پر‘‘
    [صحیح مسلم :۲۵۹۳]
    لہٰذا اپنے بچوں کو اپنے سے قریب رکھنے کے لیے زبان اور دل دونوں کو نرم رکھیں، لہجہ اور رویہ نرم رکھیں۔تاکہ ظاہری وباطنی طور پر یہ رشتہ مضبوط رہے۔اسی طرح اپنے بچوں پر رحم کریں،محبت، رحمت اور الفت سے پیش آئیں، نبی اکرم ﷺ کی سنت یہی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    ’’مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَرْحَمَ بِالْعِيَالِ، مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘
    ’’میں نے کسی کو بال بچوں پر اتنی شفقت کرتے نہیں دیکھا جتنی رسول اللہ ﷺ کرتے تھے ‘‘
    [صحیح مسلم:۲۳۱۶]
    جاری……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings