-
نواسۂ رسول حسنین رضی اللّٰہ عنہما کی فضیلت بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ کرام جنتی ہیں ، اللہ نے ان سب سے اپنی رضامندی کا اعلان قرآن مجید میں ان الفاظ میں فرمایا ہے :
{وَالسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْاَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا اَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ }
’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ،یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘
[سورۃ التوبۃ:۱۰۰]
اس لئے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عزت وتوقیر اور ان کا احترام تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔
میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کی دو ممتاز شخصیات نواسۂ رسول ﷺ (حسن وحسین رضی اللہ عنہما ) کے چند فضائل و مناقب کو صحیح احادیث کی روشنی میں جمع کیا ہے تاکہ مسلم عوام ان کے مقام مرتبہ کو سمجھ کر ان کی عزت و تکریم کریں اور ان سے متعلق غیر شرعی افکار و نظریات سے بچ سکیں ۔
۱۔ میرا یہ بیٹا حسن سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف ۔اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔
[صحیح بخاری: ۳۷۴۶]
۲۔ سیدنا حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والے صلح کاعظیم الشان تاریخی واقعہ ۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما (معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا (جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی،( وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے) کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔
آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کے پہلو میں تھے، آپ ﷺ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف ۔اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے۔
[صحیح بخاری:۲۷۰۴]
۳۔ اے اللہ! مجھے ان سے (اسامہ بن زید اور حسن بن علی رضی اللہ عنہماسے ) محبت ہے تو بھی انہیں محبوب رکھ۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ انہیں اور حسن رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر یہ دعا کرتے تھے:
’’اللهم إني احبهما فاحبهما‘‘
(اے اللہ! مجھے ان سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت رکھ۔)
۔[صحیح بخاری:۳۷۴۷]
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺکے کاندھے پر دیکھا اور آپ ﷺ فرماتے تھے:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي اُحِبُّهُ فَاَحِبَّهُ‘‘
’’ اے اللہ!میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ‘‘
[صحیح مسلم:۲۴۲۲]
یہ رسول اللہ ﷺکی اس دعا کا نتیجہ ہے کہ بلا تفریق مسلک و ملت پوری امت محمدیہ کے لوگ حسنین سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ،بس فرق اتنا ہے کہ کچھ لوگ محبت میں اعتدال پر قائم رہتے ہیں اور کچھ لوگ ان دونوں کی محبت میں غلو کرتے کرتے گمراہی (شرک ) تک پہنچ جاتے ہیں ۔
۴۔ رسول اللہ ﷺ نے حسن ر ضی اللہ عنہ کو گلے سے لگالیا ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دن کے ایک وقت نکلا نہ آپ ﷺمجھ سے بات کرتے تھے، نہ میں آپ سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے، پھر آپ ﷺ لوٹے اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا: بچہ ہے، بچہ ہے۔ یعنی حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق، ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لیے روک رکھا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے (یعنی رسول اللہ ﷺ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ)، پھر رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي اُحِبُّهُ، فَاَحِبَّهُ وَاَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ ‘‘
’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ، اور محبت رکھ اس شخص سے جو اس سے محبت رکھے‘‘
[صحیح مسلم :۲۴۲۱]
۵۔ رسول اللہ ﷺنے خچر پر حسن رضی اللہ عنہ کو آگے اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیچھے سوار کرلیا۔
(سیدنا سلمہ بن الاکو ع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ :میں نے اس سفید خچر کو کھینچا جس پر رسول اللہ ﷺ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سوار تھے یہاں تک کہ ان کو لے گیا حجرہ نبوی تک۔ ایک صاحبزادے آپﷺکے آگے تھے اور ایک پیچھے۔
[صحیح مسلم:۲۴۲۳]
۶۔ (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
ابونعیم نے بیان کیا کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں موجود تھا ان سے ایک شخص نے (حالت احرام میں) مچھر کے مارنے کے متعلق پوچھا (کہ اس کا کیا کفارہ ہو گا) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا کہ عراق کا، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو، (مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے) حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہﷺ کے نواسہ کو (بے تکلف قتل کر ڈالا) میں نے نبی کریمﷺ سے سنا آپﷺ فرما رہے تھے کہ یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
[صحیح بخاری:۵۹۹۴]
۷۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو دوران خطبہ منبر سے اتر کر گود میں اٹھا لیا۔
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپﷺ (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آ گئے، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے :
’’إنما اموالكم واولا د كم فتنة‘‘
’’تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں‘‘
میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔
[سنن نسائی:۱۴۱۳،صحیح]
مذکورہ احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حسنین سے بے پناہ محبت کرتے تھے ، اور جن سے رسول اللہ ﷺ محبت کریں تو پوری امت محمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کریں ۔
۸۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
’’الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ‘‘
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
[سنن ترمذی:۳۷۶۸،صحیح]
یہ تھاحسنین رضی اللہ عنہما کے فضائل سے متعلق چند صحیح احادیث کا ترجمہ جو حسنین رضی اللہ عنہما کے فضائل کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔
آخر میں دعا گو ہوں کہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو تما م صحابہ کرام بالخصوص حسنین رضی اللہ عنہما کے فضائل اور ان کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
٭٭٭