-
کھانے کی دعوت قبول کرنے کے بعد غیر حاضر نہ ہوں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ، انہیں میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب اسے کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺَ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَي الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ: مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟، قَالَ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللّٰهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مسلمان کا مسلمان پر چھ حق ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول وہ کون سے حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو اس کو ملے تو اس کو سلام کر، اور جب وہ تیری دعوت کرے تو قبول کر ،اور جب تجھ سے مشورہ چاہے تو اچھی صلاح دے ،جب چھینکے اور الْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے تو تو بھی جواب دے (یعنی یَرْحَمْک اللّٰہُ کہہ) اور جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کو جا اور جب مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ رہ۔
[صحیح مسلم :ح:۲۱۶۲]
مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے انسانیت اور محبت کے خاطر جہاں مسلمانوں کے مسلمانوں پر بہت سے حقوق بتلائے ہیں وہیں پر ایک حق واضح طور سے یہ بھی بیان فرمایا کہ’’ جب بھی کسی مسلمان کو کسی مسلمان کی طرف سے حلال اور شرعی دعوت طعام دی جائے تواسے چاہئے کہ وہ اُس دعوت کو قبول کرے‘‘ ، اوردعوت قبول کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ صرف ’’ہاں‘‘ بول دیا جائے اور دعوت میں شریک نہ ہوا جائے ، بلکہ دعوت قبول کرنے کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ ’’ہاں‘‘کرنے کے ساتھ ساتھ وقتِ مقررہ پر دعوت میں حاضری بھی دی جائے ، دعوت دینے والے کے کھانے کو کھایا جائے ،تاکہ اسے بھر پور مسرت و خوشی فراہم ہو سکے اور محبت کا پیمانہ لبریز ہونے کے ساتھ ساتھ نبی کی سنت پر عمل بھی ہو سکے ۔
قارئین کرام ! مسلمانوںکے اندرنیک اعمال میں جہاں بہت ساری کوتاہیاں پائی جاتی ہیں وہیں ایک کوتاہی کچھ مسلمانوں کے یہاں کھانے کی دعوت کے حوالے سے بھی پائی جاتی ہے ،ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو کسی خوشی کے موقع پر دعوتِ طعام دیتا ہے تو وہ دعوت کو قبول تو کرلیتا ہے لیکن عین دعوت کے وقت اُن دعوت قبول کرنے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ سستی کاہلی ، دوری ،وقت کی کمی وغیرہ کا حوالہ دے کر دعوت میں حاضر نہیں ہوتے ، حالانکہ دعوت قبول کرنے والے کے لئے ضروری تھا کہ اگر اس کے پاس کوئی شرعی عذر نہیں تھاتو وہ دعوت میں حاضر رہتا ،تاکہ دعوت دینے والے سے محبت کا اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ اسے بھرپور خوشی حاصل ہوتی،مزید دعوت قبول کرنے کے بعد حاضر نہ ہونے کی وجہ سے کھانے کے نقصان کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ اندیشہ بھی ختم ہوجاتا ۔
دعوت کے حوالے سے ہر ایک مسلمان کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات ہونی چاہئے کہ جب کوئی اسے دعوتِ طعام دے تو اسی وقت وہ حتمی فیصلہ کرلے کہ میں اپنے وقت وغیرہ کے حوالے سے اُس دعوت میں شریک ہوسکتا ہوں کہ نہیں ، اگر اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ شریک ہوجائے گا تب تو وہ دعوت کو قبول کرے ، ورنہ دعوت دیئے جانے کے وقت ہی وہ معذرت پیش کردے کہ میں فلاں وجہ سے حاضر نہیں ہوپاؤں گا، ایسا کرنے سے دعوت دینے والا اسے معذور سمجھ سکتا ہے۔
لیکن اگر دعوت دیئے جانے کے وقت اس نے معذر ت پیش نہ کی، بلکہ باخوشی دعوت قبول کرلی اور عین دعوت کے وقت بنا کسی شرعی عذر( مثلاً بیماری،کسی کی وفات ،یا کوئی بڑا حادثہ وغیرہ) کے وہ دعوت میں حاضر نہیں رہا تو جہاں نبی کی سنت کی مخالفت ہوگی وہیں دعوت دینے والے کے کھانے کا نقصان بھی ہوگا اور دعوت دینے والے کودلی تکلیف بھی ہوگی،مزیدآگے رشتہ میں دراڈ پیدا ہونے کا خطر ہ بھی پیدا ہوجائے گا ۔
قارئین کرام ! اکثر و بیشتر کھانے کی دعوت کے موقع پر ایسا دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ پندرہ سے بیس فیصد لوگ بنا کسی شرعی عذر کے دعوت قبول کرنے کے بعد بھی دعوت میں حاضر نہیں ہوتے ،جس کی وجہ سے اچھا خاصا کھانا بچ جاتا ہے ، پھر بعد میں دعوت دینے والے کے لئے ایک مصیبت یہ کھڑی ہوجاتی ہے کہ اب ان بچے ہوئے کھانوں کووہ کیا کرے ؟ بہت سوچنے کے بعد ان بچے ہوئے کھانوں کو یہاں وہاں پھینکنے کے بجائے وہ بیچارہ آئے ہوئے مہمانوں کو ہی پارسل دے کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ جیسے تیسے یہ بربادہونے سے بچ جائے ۔
اس مختصر سے مضمون میں ہم مسلمانوں کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپ جب بھی کسی کی حلال ،شرعی دعوت پر لبیک کہیں تو کم سے کم نبی کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے سارے کام کاج چھوڑ کرقبول کی گئی دعوت میں ضرور شریک ہوں،تاکہ سنت پر عمل کرنے کا ثواب ملنے کے ساتھ ساتھ دعوت دینے والے کے دل کو خوشی سے بھر سکیںاور محبت کوزندہ رکھ سکیں۔
اللہ ہمیں ہرحلال ،شرعی قبول کی گئی دعوت میں شریک ہونے کی توفیق دے ، آمین