-
Tags: فروری،2023
مبادیٔ توحید ربوبیت قسط:(۳) دلیل فطرت وہ علمی و اردای قوت ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرتا ہے، اور انہی دونوں قوتوں کے ذریعہ خیر و شر کے درمیان تفریق کرنے پر وہ قادر ہوتے ہیں۔دیکھیں:
[دلائل الربوبیۃ:ص:۳۰]
فطرت کی دو قسمیں ہیں :
پہلی قسم: فطرتِ معرفت :
اللہ کی معرفت فطری طور پر انسانی دلوں کے اندر مرکوز ہوا کرتی ہے، جو کسی بھی وجہ سے بدلتی ہے اور نہ اس میں کجی آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلٰي أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلٰي}
’’اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی اس ذریت سے جو ان کے ہیکل سے (نسلاً بعد نسل) پیدا ہونے والی تھی عہد لیا تھا اور انہیں (یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کی فطرت میں) خود اس پر گواہ ٹھہرایا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘سب نے جواب دیا تھا:’’کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہی ہمارا رب ہے)‘‘
[الاعراف: ۱۷۲]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقوله:’’(أَشْهَدَهُمْ) يقتضي أنه هو الذى جعلهم شاهدين علٰي أنفسهم بأنه ربهم، وهذا الإشهاد مقرون بأخذهم من ظهور الآباء…‘‘
’’اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:’’(ان کو گواہ بنایا) اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ ہی نے ان سے ان کے مقابلے میں یہ اقرار لیا کہ وہی ان کا رب ہے اور انہوں نے اپنے باپ کی پیٹھ سے (نکلنے سے قبل ہی)اس گواہی کا اقرار کیا ہے‘‘
[درء تعارض العقل والنقل:۸؍۴۸۷]
مزید فرماتے ہیں:
’’فإذا كان فى فطرتهم ما شهدوا به من أن اللّٰه وحده هو ربهم، كان معهم ما يبين بطلان هذا الشرك، وهو التوحيد الذى شهدوا به علٰي أنفسهم، فإذا احتجوا بالعادة الطبيعية من اتباع الآباء، كانت الحجة عليهم الفطرة الطبيعية العقلية السابقة لهذه العادة الأبوية‘‘
’’تو جب ان کی فطرت میں وہ (معرفت موجود)ہے جس کی انہوں نے گواہی دی ہے، یعنی صرف اللہ ہی ان کا پروردگار ہے، لہٰذا ان کے پاس (یہ ایک ایسی دلیل ہے) جو اس شرک کا باطل ہونا بیان کرتی ہے اور (یہ دلیل در اصل) وہ توحید ہے جس کی گواہی خود انہوں نے دی ہے، چنانچہ اگر وہ باب (دادا) کی اتباع کو (اپنے شرک کے لیے) دلیل بنائیں تو اس وراثتی عادت کے تئیں سابقہ طبعی و عقلی فطرت ان کے خلاف (ایک ٹھوس اور مضبوط) دلیل ہے‘‘
[درء تعارض العقل والنقل:۸؍۴۹۱]
علامہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور فطرت انسانی کی اصلی آواز ’’بَلٰی‘‘ہے، یعنی:تصدیق ہے، انکار نہیں ہے، اور اسی لیے کوئی انسان اپنی غفلت کے لیے معذور نہیں ہو سکتا ہے اور یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ آباء و اجداد کی گمراہی سے میں بھی گمراہ ہو گیاکیونکہ اس کے وجود کے باہر گمراہی کے کتنے ہی موثرات جمع ہو جائیں لیکن اس کی فطرت کی اندرونی آواز کبھی دب نہیں سکتی ہے، بشرطیکہ وہ خود اس کے دبانے کے درپے نہ ہو جائے اور اس کی طرف سے کان بند نہ کرلے‘‘
(ترجمان القرآن:۲؍۹۳)
گویا ربوبیت کی یہ معرفت وجود میں آنے سے پہلے ہی انسانوں کے دلوں میں موجود ہوا کرتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق فرماتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:
{فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ}
’’(اور) اللہ کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کیے رہو) اللہ کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں‘‘
[الروم:۳۰]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’كون الخلق مفطورين علٰي دين اللّٰه، الذين هو معرفة اللّٰه والإقرار به…‘‘
’’اور انسان اللہ کے دین پر پیدا کیے گئے ہیں جو (در حقیقت) اللہ کی معرفت اور اس (کی ربوبیت) کا اقرار ہے‘‘
[درء تعارض العقل والنقل:۴؍۳۲۲]
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ بدل سکتی ہے اور نہ ہی کسی خارجی موثر سے متأثر ہو سکتی ہے۔
دوسری قسم:فطرت تألہ :
انسان جب اپنی اصل فطرت میں باقی رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے متعلق اس فطری معرفت کی وجہ سے وہ تعظیم و محبت کے ساتھ اپنے رب کی طرف قصد و توجہ کرتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’في قلوب بني آدم محبة وإرادة لما يتألهونه ويعبدونه، و ذلك قوام قلوبهم وصلاح نفوسهم…‘‘
’’وجاجتهم إلى التأله أعظم من حاجتهم إلى الغذاء ، فإن الغذاء إذا فقد يفسد الجسم، وبفقد التأله تفسد النفس، ولن يصلحهم إلا تأله اللّٰه وعبادته وحده لا شريك له، وهى الفطرة التى فطروا عليها‘‘
’’بنی آدم کے دلوں میں اس (معبود)کی محبت اور ارداہ ہوتا ہے جس کی طرف (محبت و تعظیم اور عاجزی کے ساتھ) قصد کرتا ہے، اور اس کی عبادت کرتا ہے، اور (یقیناً) یہی ان کے دلوں کے نظام اور نفوس کی بہتری (کا سبب)ہے…‘‘
[قاعدۃ فی المحبۃ:ص:۴۴]
اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) غذا کی ضرورت سے زیادہ وہ تألہ کے ضرورت مند ہیں کیونکہ غذا کے مفقود ہونے سے جسم برباد ہوتا ہے مگر (کسی کے اندر) تألہ (کا اعتقاد) مفقود ہو تو اس سے (اس کی) روح فاسد قرار پاتی ہے اور (ان کی زندگی میں) اللہ کی طرف محبت و تعظیم کے ساتھ قصد و توجہ اور صرف اسی کی عبادت بہتری لا سکتی ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور (حق یہ ہے کہ) یہی وہ فطرت ہے جس پر وہ پیدا کیے گئے ہیں۔
اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فالقلوب مفطورة علٰي محبة إلهها وفاطرها وتألهه، فصرف ذلك التأله والمحبة إلى غيره تغيير للفطرة‘‘
’’پس دل ان کے معبود اور خالق کی محبت و تالہ (تعظیم و انکساری کے ساتھ قصد کرنے) پر پیدا کیے گئے ہیں، چنانچہ اس تالہ و محبت کو اس کے سوا کسی دوسرے کے لیے پھیرنا تغییر ِفطرت ہے‘‘
[إغاثۃ اللہفان فی مصاید الشیطان: ص:۸۸۹]
لہٰذا معلوم ہوا کہ فطرتِ معرفت در اصل فطرتِ تالہ کو مستلزم ہے، مگر جب انسان اپنے رب سے متعلق فطری معرفت کی بنا پر محبت و تعظیم کے ساتھ اس کی طرف قصد کرتا ہے تو اس کی یہ خالص توجہ بسا اوقات خارجی موثرات سے متأثر ہوتی ہے، جیسا کہ شیخ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فإن اللّٰه تعالٰي فطر عباده على الدين الحنيف القيم، فكل أحد مفطور علٰي ذلك، ولكن الفطرة قد تغير وتبدل، بما يطرأ عليها من العقائد الفاسدة‘‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سچے (اور ) دین حنیف پر پیدا فرمایا ہے، چنانچہ ہر شخص اسی (فطرت) پر پیدا کیا گیا ہے، مگر (یہ) فطرت بسا اوقات اس میں طاری ہونے والے فاسد عقائد کی وجہ سے بدل سکتی ہے‘‘
[تفسیر سعدی:ص:۳۰۸]
گویا فطرتِ تالہ بعض موثرات کی وجہ سے متاثر ہوا کرتی ہے اور انسان دین حنیف سے منحرف ہو جاتا ہے۔
اور استقراء نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فطرتِ تالہ کے دو اہم موثرات ہیں:
۱۔ ماحول: انسان جس ماحول اور جس معاشرے میں آنکھیں کھولتا ہے، اسی کے اعتبار سے اس کی پرورش ہوتی ہے، پھر وہ موروثی اعتقادات کی وجہ سے بسا اوقات اصل فطرت سے منحرف ہو جاتا ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَي الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ‘‘
’’ہر بچہ فطرت (توحید) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘
[صحیح البخاری:ح:۱۳۵۹، و صحیح مسلم:ح:۲۶۵۸]
نبی علیہ السلام نے اس حدیث میں ’’یُسلمانہ‘‘ نہیں فرمایا، جو اس بات پردلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنی معرفت، محبت اور قصد عبادت پر پیدا فرمایا ہے۔دیکھیں:
[ فتح الباری:۳؍۲۵۰، و شرح النووی:۴؍۸۴]
۲۔ شیطان : یہ ملعون اور اس کے چیلے ہر موڑ پر انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوا کرتے ہیں اور اسی شیطان رجیم کی وجہ سے سب سے پہلی بار دین حنیف سے لوگ انحراف کے شکار ہوئے، جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن طريق م…‘‘
’’اور میں نے اپنے بندوں کو یکسو ہونے والا(صرف اپنے خالق کی طرف متوجہ ہونے والا) پیدا کیا، پس شیاطین نے ان کو ان کے دین سے گمراہ کر دیا…‘‘
[صحیح مسلم:ح:۲۸۶]
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرتِ تالہ میں واقع ہونے والے والے انحراف سے لوگوں کو روکنے اور صحیح و سچے راستے کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور سب نے لوگوں کے دلوں میں موجود فطرتِ معرفت (ربوبیت)کو حجت بنا کر انہیں فطرتِ تالہ (الوہیت)کی دعوت دی ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}
’’ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ اس معبود حقیقی پر کوئی شک (بھی ہے کیا؟) جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا ہے‘‘
[سورۃ إبراہیم :۱۰]دیکھیں :[الربوبیۃ للدکتور أبی سیف الجہنی: ص:۲۴۔۲۹]
اس باب میں وارد نصوص کے استقراء سے واضح ہوتا ہے کہ اصل عقیدہ کے دو مصادر ہیں:
۱۔ فطرت
۲۔ بعثت ِرسل (علیہم السلام)
(یہ علمی فائدہ دکتور ابو سیف جہنی؍حفظہ اللہ کے دروس سے مستفاد ہے)
خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ فطرتِ معرفت فطرتِ تالہ کو مستلزم ہے، جبکہ فطرتِ تالہ فطرتِ معرفت کومتضمن ہے۔
۲۔ فطرتِ معرفت توحید ربوبیت کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ فطرتِ تالہ توحید الوہیت کا تقاضا کرتی ہے۔
۳۔ فطرتِ معرفت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے، جبکہ فطرتِ تألہ بعض موثرات (ماحول و شیاطین) سے متاثر ہو سکتی ہے۔
۴۔ اصل عقیدہ کے دو مصادر ہیں:فطرت اور بعثت ِرسل (علیہم السلام)
۸۔ دلیل اتقان : دنیا اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اور اس عظیم کائنات کا مضبوط نظام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دنیا میں کوئی تو ہے جس نے کارہائے عالم کو سنبھال رکھا ہے، جس کی وجہ سے یہ نظام ربوبیت باقی ہے، اور اس نظام عالم کا ایک ایک جزء اس رب کائنات کے علم و حکمت پر دلالت کرتا ہے، ہزارہا ہزار سال بیت گئے مگر اس متقن و محکم نظام میں کبھی کوئی خلل واقع نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْئٍ إِنَّهُ خَبِيْرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ}
’’(یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا‘‘
[النمل:۸۸]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أي:يفعل ذلك بقدرته العظيمة الذى قد أتقن كل ما خلق ، وأودع فيه من الحكمة ما أودع‘‘
یعنی:’’وہ اسے اپنی عظیم قدرت کے ذریعہ انجام دیتا ہے جس نے اپنی مخلوقات کو متقن بنایا اور ان میں اپنی خاص حکمتیں ودیعت کردی ہیں‘‘
کارخانۂ ہستی کا یہ محکم نظام ربوبیت اور اس میں پائی جانے والی مختلف قسم کی مخلوقات میں سے ہر ایک کے لیے ایک خاص نظام حیات ہے، سب کے لیے ایک حد مقرر ہے، اور ان تمام امور میں جس کی تدبیر کار فرما ہے وہ رب العالمین کی ذات مقدسہ ہے، چنانچہ ’’ہم دیکھتے ہیں دنیا میں سود مند اشیاء کی موجودگی کے ساتھ ان کی بخشش و تقسیم کا بھی ایک نظام موجود ہے، اور فطرت صرف بخشتی ہی نہیں بلکہ جو کچھ بخشتی ہے ایک مقررہ انتظام اور ایک منضبط ترتیب و مناسبت کے ساتھ بخشتی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جس جس چیز کی ضرورت تھی اور جس جس وقت اور جیسی جیسی مقدار میں ضرورت تھی ٹھیک ٹھیک اسی طرح انہی وقتوں میں اور اسی مقدار میں مل رہی ہے اور اس نظم و انضباط سے تمام کارخانہ ٔحیات چل رہا ہے‘‘
[ترجمان القرآن:۱؍۷۱]
کائنات کی یہ منضبط ترتیب اور مقرر انتظام منجملہ ربوبیت الہٰی کے واضح ترین دلائل میں سے ایک ہے، چنانچہ امام ابن مندہ رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’کتاب التوحید‘‘میں ایک باب قائم کیا ہے:
’’ذكر ما استدل به أولو الألباب من الآيات الواضحة التى جعلها اللّٰه عز وجل دليلاً لعباده من خلقه علٰي معرفة وحدانيته من انتظام صنعه وبدائع حكمته فى خلق السموات والأرض‘‘
یعنی:’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے متعلق اللہ عز وجل کی غیر معمولی کاریگری و بے مثال حکمتوں کے دلائل کا بیان جن سے اس کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہوتی ہے‘‘
[کتاب التوحید:۱؍۹۷]
اور یقیناً کائناتِ عالم کا یہ متقن نظامِ ربوبیت اللہ عز وجل کے وجود پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’…وهذا كله من أدل الدلائل على الخالق لها سبحانه، وعلٰي إتقان صنعه، وعجيب تدبيره، ولطيف حكمته، فإن فيما أودعها من غرائب المعارف، وغوامض الحيل، وحسن التدبير والتأتي لما تريده، ما يستنطق الأفواه بالتسبيح، ويملأ القلوب من معرفته، ومعرفة حكمته وقدرته‘‘
’’اور یہ سب واضح ترین دلائل ہیں ان (مخلوقات) کے خالق (کے وجود) پر جو (ہر قسم کے عیوب و نقائص سے) پاک ہے، اور اس کی مضبوط کاریگری، عجیب تدبیراور اس کی باریک حکمت پر، بے شک اس نے ان (مخلوقات) کے اندر جن بے مثال معارف، باریک حکمتوں اور ان کے منشا کے تئیں جس بہترین تدبیر و اعلیٰ حکمت علمی کو ودیعت فرمایا ہے، (اس سے) زبانیں (اس ذات عالی کی) تسبیح و پاکی بیان کرنے لگ جاتی ہیں اور دل اس (خالق حقیقی) کی معرفت اور اس کی حکمت و قدرت کی معرفت سے بھر جاتے ہیں‘‘
[سفاء العلیل:۱؍۲۰۷]
اور علامہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے:’’کائنات کے تمام اعمال و مظاہر کا اس طرح واقع ہونا کہ ہر چیز بڑھنے والی اور ہر تاثیر زندگی بخشنے والی ہے، اور پھر ایک ایسے نظامِ ربوبیت کا موجود ہونا جو ہر حالت کی رعایت کرتا اور ہر طرح کی مناسبت ملحوظ رکھتا ہے، ہر انسان کو وجدانی طور پر یقین دلاتا ہے کہ ایک پروردگارِ عالم کی ہستی موجود ہے، اور وہ ان تمام صفات سے متصف ہے جن کے بغیر نظامِ ربوبیت کا یہ کامل اور بے عیب کارخانہ وجود میں نہیں آسکتا تھا‘‘
(ترجمان القرآن:۱؍۸۶)
اور اس رب العالمین نے کائنات کی ہر مخلوق کے لیے ایک ایسا بہترین نظام تیار کیا ہے کہ ہر چیز ضبط و ترتیب کے ساتھ واقع ہوئی ہے، جیسا کہ علامہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کائناتِ خلقت اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ ہر چیز ضبط و ترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام و قانون میں منسلک ہے اور کوئی شیء نہیں جو حکمت و مصلحت سے خالی ہو…‘‘
(ترجمان القرآن:۱؍۸۳)
لہٰذا معلوم ہوا کہ اس محکم و متقن نظام کائنات میں تدبیر کرنے والا صرف اللہ عز وجل ہے، جس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی ہل سکتا ہے اور نہ ہی ایک دانہ اُگ سکتا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں علامہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’گیہوں کا ایک دانہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لو اور اس کی پیدائش سے لے کر اس کی پختگی و تکمیل تک کے تمام احوال وظروف پر غور کرو کیا یہ حقیر سا ایک دانہ بھی وجود میں آ سکتا تھا اگر تمام کارخانۂ ہستی ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں سر گرم نہ رہتا؟اور اگر دنیا میں ایک ایسا نظام ربوبیت موجود ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو؟‘‘!
(ترجمان القرآن:۱؍۸۹)
جاری ہے ………