-
Tags: فروری،2023
نکاح کے فوراً بعد ولیمہ کی شرعی حیثیت شادی اور نکاح میں ولیمہ کرنا باتفاق امت مشروع ہے کیوں کہ ولیمہ کرنانبی ﷺ کے قول اور فعل دونوں سے ثابت ہے ، لیکن اہل علم کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ ولیمہ فرض ہے یا سنت؟
بہت سے اہل علم کا مذہب ہے کہ ولیمہ سنت ہے اور اس بارے میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ استحباب کے لیے ہیں کیوں کہ یہ دعوت خوشی اور مسرت کی وجہ سے مشروع ہے تو جس طرح دیگر خوشی کی دعوتیں واجب نہیں ہیں اسی طرح ولیمہ بھی واجب نہیں ہے ۔ ابن قدامہ نے کہا :
’’وليست واجبة فى قول أكثر أهل العلم۔وقال بعض أصحاب الشافعي:هي واجبة، لأن النبى ﷺ ۔أمر بها عبد الرحمٰن بن عوف، ولأن الإجابة إليها واجبة؛ فكانت واجبة۔ولنا، أنها طعام لسرور حادث، فأشبه سائر الأطعمة، والخبر محمول على الاستحباب‘‘
’’اکثر اہل علم کے قول کے مطابق ولیمہ واجب نہیں ہے اور بعض اصحاب شافعی کا مذہب ہے کہ ولیمہ واجب ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس لیے بھی کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے لہٰذا ولیمہ بھی واجب ہوگا، ہماری دلیل یہ ہے کہ ولیمہ ایک ایسی دعوت ہے جو حصولِ مسرت کی وجہ سے کی جاتی ہے ، لہٰذا وہ دوسری دعوتوں کے مثل ہے اور حدیث میں وارد امر استحباب پر محمول ہے …‘‘
[المغنی :۱۰؍۱۹۳،ط:دار عالم الکتب]
ولیمہ کی فرضیت کا قول صرف بعض اصحاب شافعی کا نہیں بلکہ بہت سے اہل علم کا مذہب ہے ، ابن حزم نے کہا :
’’وفر ض علی کل من تزوج ان یولم بما قل اوکثر‘‘’’جو شادی کرے اس پر فرض ہے کہ ولیمہ کرے خواہ کم ہو یا زیادہ‘‘[المحلی :۹؍۴۵۰(۱۸۱۹)]
دلائل کی روشنی میں یہی بات راجح ہے کہ بقدر استطاعت ولیمہ فرض ہے ، ایک دلیل تو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو اس کا حکم دیا تھا :’’اولم ولوبشاة‘‘’’ولیمہ کرو اگر چہ ایک ہی بکری کیوںنہ ہو‘‘ [بخاری:۲۰۴۸ ، مسلم:۱۴۲۷]
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
’’يا على ! انه لا بد للعرس من وليمة‘‘’’اے علی ! شادی کے لیے ولیمہ ضروری ہے ‘‘[مسند احمد: ۳۸؍ ۱۴۲(۲۳۰۳۵]
اور تیسری بات یہ ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے ولیمہ کا ترک کبھی بھی ثابت نہیں ہے ، یہ مواظبت اور پابندی مذکورہ امر کے ساتھ وجوب کی دلیل ہے ۔
امام البانی رحمہ اللہ نے کہا :’’ولابد له من وليمة بعد الدخول‘‘ ’’شادی میں زوجین کی ملاقات کے بعد ولیمہ ضروری ہے ‘‘[آداب الزفاف:۱۴۴]
علامہ حسین عوایشہ نے بھی الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ :۵؍۲۰۳ میں کہا ہے ’’وجوب الوليمة‘‘ ’’ولیمہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ استطاعت کے بقدر فرض ہے ۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ کب کیا جائے ؟ کیا عقد کے بعد اور زوجین کی ملاقات سے قبل ولیمہ درست ہے ؟
اس سلسلے میں جو نصوص ہمارے سامنے ہیں ان کا تقاضا یہی ہے کہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد مشروع ہے ، صرف عقد کے بعد ولیمہ کرنا کسی بھی نص میں اور کسی بھی واقعہ میں ثابت نہیں ہے ، اتباع سنت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اسی وقت انجام دیا جائے جب ثابت ہے ، اور جس وقت ثابت نہیں ہے اس وقت اسے انجام دینے سے احتراز برتا جائے ۔
نبی ﷺسے ولیمہ کے متعلق جو عمل ثابت ہے وہ یہی ہے کہ آپ نے ملاقات کے بعد ہی ولیمہ کیاہے، صرف عقد کے بعد ملاقات سے قبل کبھی نہیں کیا ہے ۔
اسی طرح صحابۂ کرام کے جو واقعات ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں ، ان سے بھی زوجین کی ملاقات سے قبل ولیمہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، ولیمہ کرنا ایک شرعی حکم ہے اور اسے بطور عبادت انجام دیا جاتا ہے، اس لیے اسے انجام دینے کا جو طریقہ مروی ہے اسی پر اکتفا کرلینا ضروری ہے کیونکہ تعبد کا یہی تقاضا ہے اور اتباع بھی یہی ہے ، اور ایسی صورت میں یقین ہے کہ حکم پورا ہوگیا اور اس سے مختلف صورت میں اگر ادا کیا جائے تو کم ازکم یہ تو ہے کہ معلوم نہیںکہ حکم پورا ہوا یا نہیں !
کتبِ فقہ کی جستجوکے بعد یہ مسئلہ فقہاء کے یہاں نفیاً یا اثباتاً نظر نہیں آتا، ان سے یہ صراحت نہیں ملتی کہ عقد کے بعد ولیمہ کرنا مشروع ہے یا ممنوع ؟ ولیمہ کی مشروعیت کے لیے زوجین کی ملاقات ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی ، مگر احادیث میں ولیمہ کرنے کی جو صورت زمانۂ رسالت میں ثابت ہے اس کاتقاضا یہی ہے کہ زوجین کی ملاقات کے بعد ہی ولیمہ کی مشروعیت ہوتی ہے اس سے قبل نہیں۔
پھر میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سلف کا اختلاف نقل کیا ہے۔فرمایا :
’’وقداختلف السلف فى وقتها هل هو عند العقد اوعقبه اوعند الدخول اوعقبه ، او موسع من ابتدأالعقد الي انتهاء الدخول على اقوال‘‘
’’اور ولیمہ کے وقت کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف کی بنا پر کئی اقوال ہیں :نکاح کے وقت یا نکا ح کے بعد ولیمہ، دخول کے وقت یا دخول کے بعد یا پھر عقد کے بعد سے لے کر دخول کے بعد اس کے وقت میں وسعت ہے‘‘
[الفتح:۹؍۲۳۰]
سلف کے یہ پانچ اقوال ہیں ولیمہ کے وقت کے بارے میں ۔
البتہ فقیہ سنت مجدد زمانہ امام البانی رحمہ اللہ کے کلام میں اس کی طرف رہنمائی موجود ہے ، انہوں نے آداب الزفاف : ۱۴۴، میں ولیمہ کے لیے زوجین کی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اور کہا:’’ولا بد له من عمل وليمة بعد الدخول ‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ شوہربیوی سے ملاقات کرلے اور دونوں کو خلوت صحیحہ حاصل ہو اس کے بعد ولیمہ واجب ہوگا۔ دوسری جگہ کہا:’’ان تكون ثلاثة ايام عقب الدخول لانه هو المنقول عن النبى ﷺ ‘‘ ’’کہ ولیمہ کا وقت دخول کے بعد تین دنوں تک ہے کیونکہ یہی نبی ﷺ سے منقول ہے‘‘[آداب الزفاف:۱۴۵، الموسوعۃ:۵؍۲۰۳]
یہی بات ان کے شاگرد حسین عوایشہ نے بھی نقل کرکے تائید کی ہے ۔[الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:۵؍۲۰۳]
ان سے قبل شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھاہے کہ :’’وقت الوليمة فى حديث زينب وصفته يدل على انه عقب الدخول ‘‘’’زینب کی حدیث میں ولیمہ کا وقت اور اس کی صفت موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے ‘‘[الاختیارات العلمیۃ:۳۴۶]یعنی زوجین کی ملاقات کے بعد ۔حافظ نے کہا :’’وحديث انس صريح فى انها بعد الدخول لقوله فيه:’’اصبح عروسابزينب فدعا القوم‘‘’’حدیث انس اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ ولیمہ دخول؍ملاقات کے بعد ہے کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں کہا ہے کہ:آپ ﷺ نے زینب سے زفاف منا کر صبح کیا، پھر لوگوں کو مدعو کیا ‘‘[الفتح:۹؍۲۳۱]
دکتور علاء شعبان زعفرانی نے کہا:
’’والافضل فعل وليمة النكاح بعد الدخول اقتداء بفعل النبى ﷺ فان لم يتيسر ذالك فلا حرج من فعلها قبل الدخول ان عند العقد او بعده ‘‘
’’اور نبی ﷺ کے عمل کی اقتداء میں افضل تو یہی ہے کہ دخول کے بعد ولیمہ کیاجائے لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نکاح کے وقت یا اس کے بعد دخول سے پہلے بھی کرنے میں کوئی حرج نہیںہے‘‘
[شبکۃ الألوکۃ،اٹرنیٹ]
صنعاني نے كها :قال السبكي :’’والمنقول من فعل النبى ﷺ انها بعد الدخول وكأنه يشيرالي قصهٖ زواج زينب بنت جحش لقول انس: اصبح النبى ﷺ عروسا بزينب فدعا القوم وقد ترجم عليه البيهقي ’’باب وقت الوليمة‘‘
کہ امام سبکی نے فرمایا :’’اور نبی ﷺ کے فعل سے یہی منقول ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے اور گویا کہ وہ زینب بنت جحش کے نکاح کے قصے کی طرف اشارہ کررہے تھے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ : آپ ﷺ نے زینب سے زفاف مناکر صبح کیا پھر لوگوں کو مدعو کیا اور امام بیہقی نے اس پر باب باندھا : ’’ولیمہ کے وقت کا باب ‘‘
[سبل السلام:۲؍۲۲۷]
قال الدميري:’’لم يتعرض الفقهاء لوقت وليمة العرس۔والصواب انها بعد الدخول‘‘
’’دمیری کہتے ہیں کہ :’’فقہاء کرام نے نکاح کے ولیمہ کے وقت کے سلسلے میں کوئی کلام نہیں کیا البتہ درست یہی ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے‘‘
[النجم الوہاج:۷؍۳۹۳]
محمد علی فرکوس نے کہا :
’’ومن التزامات الزوج ايضا الوليمة التى تجب فى حقه عقب الدخول بزوجته ان قدر على ذالك لان النبيﷺ دعا القوم بعد الدخول بزينب رضي اللّٰه عنها۔۔۔‘‘
’’اور شوہر پر ولیمہ کرنا بھی واجب ہے جو کہ دخول کے بعد ہوگا اگر اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے ۔کیونکہ نبی ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے دخول کے بعد ہی لوگوں کو دعوت دی تھی‘‘
[انٹرنیٹ منتدیات الامام الأجری]
’’الافضل فعلها بعد الدخول لان النبى ﷺ لم يولم علٰي نسائه الا بعد الدخول‘‘
’’دخول کے بعد ولیمہ کرنا افضل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی تمام بیویوں سے دخول کے بعد ہی ولیمہ کیا ہے‘‘
[مغنی المحتاج :۴؍ ۴۰۴]
ولیمہ کے بارے میں وارداحادیث کا یہی تقاضا ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’اصبح رسول اللّٰه ﷺ عروسا بزينب بنت جحش وكان تزوجها بالمدينة فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار‘‘
’’نبی ﷺ نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے دولہا کی حیثیت سے صبح کیا ، آپ نے ان سے مدینہ میںشادی کی تھی ، دن چڑھنے کے بعد آپ نے لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا ‘‘
[بخاری:۴۷۹۳،مسلم :۱۴۲۸]
دوسرا لفظ اس طرح ہے :
’’اصبح النبى ﷺ بها عروسا فدعاالقوم فأصابوا من الطعام‘‘
’’کہ نبی ﷺ نے زفاف مناکر صبح کی اور لوگوں کو دعوت دی تو لوگوں نے کھانا کھایا‘‘
[بخاری:۵۱۶۶]
ایک حدیث میں ہے ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’بني النبى ﷺ بامرأة فأرسلني فدعوت رجالاً على الطعام ‘‘
’’نبی ﷺ نے ایک عورت کے ساتھ زفاف منایا پھر آپ نے مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا‘‘
[بخاری:۵۱۷۰]
انہی کی ایک حدیث میں ہے :
’’مارأيت رسول اللّٰه ﷺ اولم علٰي امرأة من نسائه ما اولم على زينب‘‘
’’میں نے نہیں دیکھا کہ نبی ﷺ نے کسی بیوی کا ولیمہ کیا ہو جیساآپ نے زینب کاولیمہ کیا‘‘
[بخاری: ۵۱۶۸، مسلم:۱۴۲۸]
ہمارے زمانہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ عقد کے بعد ملاقات سے پہلے ولیمہ کیوں غلط ہے؟ شریعت نے کہاں منع کیا ہے کہ ملاقات سے قبل ولیمہ نہ کرو؟
یہ حیرت ناک استدلال ہے کیونکہ ولیمہ ایک عبادت اور ایک شرعی حکم ہے اس کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہی ہونا چاہیے ، چونکہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد ہی ثابت ہے لہٰذا ہمیں بھی اس کے بعد ہی کرنا چاہیے اور اگر عقد کے معاً بعد ولیمہ کرنے کی کوئی دلیل مل جائے تب تو ٹھیک ہے ورنہ یہ کہنا بہت غلط ہے کہ منع کی دلیل لاؤ!!!
اس کو اس طرح بھی کہا جاسکتاہے کہ ممانعت کی دلیل تو نہیں ہے آپ جواز کی دلیل کی پیش کریں!! کیونکہ عبادت کے ثبوت کے لیے دلیل چاہیے نفی کے لیے نہیں ۔
بعض لوگوں کا اس استدلال پر یہ اعتراض بڑا وزن رکھتا ہے کہ عقد سے قبل ولیمہ کرنا کیوں ممنوع ہے ؟ عقد سے پہلے ولیمہ غلط ہے اس کی کیا دلیل ہے ؟ نبیﷺ نے کہاں فرمایا ہے کہ عقد سے قبل ولیمہ مت کرو!!اگر حدیث میں یہ ممانعت وارد نہیں ہے کہ عقد سے پہلے ولیمہ نہ کرو تو کیا یہ جائز ہوگا؟
ہر گز نہیں ۔ بلکہ ممانعت کی دلیل یہ ہوگی کہ ایسا کرنا نبی ﷺ اور صحابۂ کرام سے ثابت نہیں ہے ، اسی طرح ملاقات سے قبل ولیمہ کے ممنوع ہونے کی دلیل یہ ہوگی کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔
منبر پر خطبہ دینا نبیﷺ کا طریقہ رہا ہے اور منبر بن جانے کے بعد آپ اسی پر خطبہ دیتے تھے، لہٰذا بلا عذر بغیر منبر خطبہ دینا غلط ہوگا۔
اب اگر کوئی بلا منبر خطبہ دے اور کہے کہ یہ تو ممنوع نہیں ہے ، ممانعت کی دلیل لاؤ اور ایسی کوئی حدیث پیش کرو کہ نبی ﷺ نے بلا منبر خطبہ جمعہ دینے سے منع کیا ہو؟ پھر ہم کیا کریں گے اس دلیل کو تسلیم کرلیں گے ؟ ہر گز نہیں ۔بلکہ کہیں گے کہ خطبۂ جمعہ منبر سے ثابت ہے لہٰذا منبر سے ہی مسنون ہے اور چونکہ منبر کی موجودگی میں بلا منبر خطبۂ جمعہ ثابت نہیں ہے اس لیے وہ غلط ہے ۔
یہی معاملہ یہاں بھی ہے کہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد ثابت ہے لہٰذا اسی وقت مسنون ہے اور ملاقات سے قبل ثابت نہیں ہے اس لیے مسنون نہیں ہے ، اس کے ممنوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ثابت نہیں ہے ۔
اس پوری گفتگو سے بات واضح ہوتی ہے کہ ولیمہ چونکہ ایک عباد ت ہے اس لیے جس طرح ثابت ہے اسی پر اکتفا کیا جائے اور غیر ثابت طریقے پر انجام دینے سے بچا جائے ۔