Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (سولہویں قسط )

    اب آئیے اگلی سطور میں ایک ضعیف روایت بھی دیکھ لیتے ہیں جس کی بنیاد پر کچھ لوگ غیر مدخولہ کی بات کرتے ہیں۔
    سنن ابی داؤدکی ضعیف حدیث
    امام ابوداؤدرحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
    حدثنا محمد بن عبد الملك بن مروان، حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن غير واحد، عن طاؤس:’’ أن رجلا، يقال له:أبو الصهباء كان كثير السؤال لابن عباس، قال:أما علمت أن الرجل كان إذا طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، جعلوها واحدة علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وأبي بكر، وصدرا من إمارة عمر؟، قال ابن عباس:بلٰي، كان الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، جعلوها واحدة علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وأبي بكر، وصدرا من إمارة عمر، فلما ر أى الناس قد تتابعوا فيها، قال:أجيزوهن عليهم ‘‘
    طاؤس کہتے ہیں :’’کہ ابو الصہباء نامی ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ سوال کیا کرتا تھا ۔ اس نے کہا :کیا آپ کو علم ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تھا تو ایسی طلاق کو رسول اللہ ﷺ، ابوبکررضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں ایک ہی شمار کرتے تھے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں! آدمی جب اپنی بیوی کو مباشرت سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تھا تو عہد رسالت ، عہد ابی بکر اور ابتدائے عہد عمر میں اس کو ایک ہی شمار کرتے تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ مسلسل طلاقیں دینے لگے ہیں تو انہوں نے کہا: انہیں ان پر نافذ کر دو‘‘
    [سنن أبی داؤد :۲؍۲۶۱،رقم:۲۱۹۹،ومن طریق أبی داودأخرجہ البیہقی فی سننہ رقم:۱۴۹۸۵]
    یہ روایت درج ذیل علتوں کی بناپر ضعیف ہے:
     پہلی علت:( أبو النعمان محمد بن الفضل عارم کا اختلاط)
    ابو النعمان محمد بن الفضل عارم آخری عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے جیساکہ محدثین نے متفقہ طور پر اس کی گواہی دی ہے،چند اقوال ملاحظہ ہوں:
     امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷) نے کہا:
    ’’اختلط عارم فى آخر عمره، وزال عقله، فمن سمع عنه قبل الاختلاط فسماعه صحيح، وكتبت عنه قبل الاختلاط سنة أربع عشرة، ولم أسمع منه بعدما اختلط، فمن كتب عنه قبل سنة عشرين ومائتين فسماعه جيد ‘‘
    ’’عارم آخری عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اور ان کی عقل زائل ہوگئی تھی ، تو جنہوں نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ان کاسماع صحیح ہے اور میں نے ان سے اختلاط سے پہلے سن ۲۱۴ہجری میں سناہے اور اختلاط کے بعد میں نے ان سے نہیں سنا تو جس نے ان سے ۲۲۰ہجری سے پہلے سنا ہے ان کا سماع بہتر ہے‘‘
    [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۸؍۵۸]
    نوٹ: امام ابوداؤدکے بقول ۲۱۳ہجری ہی سے ان کا اختلاط شروع ہوگیا تھا۔[الضعفاء للعقیلی، ت د مازن: ۵؍ ۳۶۰]
     امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳) نے کہا:
    ’’عارم أبو النعمان ثقۃ، إلا أنہ تغیر، فمن سمع منہ قدیما، فسماعہ جید، ومن سمع منہ بعد الاختلاط، فلیسوا بشیء‘‘
    ’’ عارم ابوالنعمان ثقہ ہیں ، مگر وہ تغیر کے شکار ہوگئے تھے ، اس لئے جنہوں نے ان سے قدیم زمانے میں سنا ہے ان کا سماع بہتر ہے اور جنہوں نے ان سے اختلاط کے بعد سنا ہے تو ان کی روایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ‘‘[سنن النسائی الکبریٰ، الأرناؤوط:۳؍۶۹]
     امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۲) نے کہا:
    ’’فمن سمع من عارم قبل الاختلاط فهو أحد ثقات المسلمين، وإنما الكلام فيه بعد الاختلاط ‘‘
    ’’جس نے عارم سے اختلاط سے پہلے سنا تو عام ثقہ مسلمانوں میں سے ایک ہیں اور ان پر کلام ان کے اختلاط کے بعد ہے ‘‘
    [الضعفاء للعقیلی، ت د مازن:۵؍۳۶۲]
     امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’اختلط فى آخر عمره وتغير حتي كان لا يدري ما يحدث به فوقع المناكير الكثرة فى روايته فما روي عنه القدماء قبل اختلاطه إذا علم أن سماعهم عنه كان قبل تغيره فإن احتج به محتج بعد العلم بما ذكرت أرجو أن لا يجرح فى فعله ذلك وأما رواية المتأخرين عنه فيجب التنكب عنها على الأحوال وإذا لم يعلم التمييز بين سماع المتقدمين والمتأخرين منه يترك الكل ولا يحتج بشيء منه ‘‘
    ’’یہ آخری عمر میں اختلاط وتغیر کے شکار ہوگئے تھے ، یہاں تک کہ انہیں شعور نہیں ہوتا تھا کہ یہ کیا بیان کررہے ہیں ، پھر اس کے سبب ان کی احادیث میں مناکیر کی کثرت ہوگئی ، تو ان کے قدیم شاگردوں نے ان کے اختلاط سے پہلے جو احادیث بیان کی ہیں ، اگر اس کا علم ہوجائے تو ان احادیث سے حجت پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن متأخرین نے ان سے جو احادیث بیان کی ہیں ، ان سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے ، اور جن احادیث کے بارے میں پتہ نہ چلے کہ انہیں متقدمین نے بیان کیا ہے یا متأخرین نے تو ایسی تمام احادیث ترک کردی جائیں گی ان میں سے کسی سے بھی حجت نہیں پکڑی جائے گی ‘‘
    [المجروحین لابن حبان، تزاید:۲؍۲۹۵]
    محدثین کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ابوالنعمان عارم آخری عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اور بعض محدثین نے اپنے اپنے علم کے مطابق اس کے اختلاط کی ابتداء کا وقت بھی بتایا ہے ، نیز محدثین نے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ اختلاط کے بعد اس کی بیان کردہ احادیث کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
    کیا عارم نے اختلاط کے بعد کوئی منکر روایت بیان نہیں کی؟
    لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام دارقطنی کے ایک قول کو بنیاد بناکر یہ دعویٰ کیا کہ ابوالنعمان عارم نے اختلاط کے بعد کوئی حدیث بیان نہیں کی، چنانچہ کہا:
    ’’فرج عنا الدارقطني فى شأن عارم، فقال: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر، وهو ثقة ‘‘
    ’’ابوالنعمان عارم کے بارے میں دارقطنی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ آخری عمرمیں تغیر کے شکار ہوگئے تھے لیکن ان کے اختلاط کے بعد ان کی کوئی منکر حدیث ظاہر نہیں ہوئی ہے اور یہ ثقہ ہیں‘‘
    [سیر أعلام النبلاء للذہبی: ۱۰؍۲۶۷]
    اس کے بعد امام ابن حبان رحمہ اللہ کے کلام کا شدید رد کیا ہے۔
    عرض ہے کہ:
    امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنے کلام میں منفرد نہیں ہیں بلکہ امام نسائی اورامام عقیلی وغیرہ نے بھی یہی بات کہی ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کا امام ابن حبان رحمہ اللہ پربرسنا بے سود ہے ۔
    رہی بات امام دارقطنی(المتوفی۳۸۵)کے اس قول کی کہ ابوالنعمان عارم کے اختلاط کے بعد ان کی کوئی منکر حدیث ظاہر نہیں ہوئی ہے ، تو یہ انہوں نے اپنے علم کی حد تک کہا ہے ، جب کہ ان سے سینئر محدثین امام ابوداؤد (المتوفی۲۷۵)،امام عقیلی(المتوفی۳۲۲) اورامام ابن حبان(المتوفی۳۵۴) رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ انہوں نے اختلاط کے بعد منکر حدیث بیان کی ہے۔ذیل میں ایسی بعض منکر احادیث پیش کی جارہی ہیں جنہیں ابوالنعمان عارم نے اختلاط کے بعدبیان کیا ہے:
     ابوالنعمان عارم کی پہلی منکر روایت:
    امام ابوداؤدرحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
    ’’كنت عند عارم، فحدث عن حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه:أن ماعزا الأسلمي سأل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عن الصوم فى السفر۔فقلت له:حمزة الاسلمي؟ فقال: يا بني ماعز لا يشقي به جليسه،يعني أن عارما، قال:هذا وقد زال عقله‘‘
    ’’میں عارم کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے حماد بن زید، عن ہشام بن عروۃ، عن أبیہ کے طریق سے بیان کیا کہ ماعزا الأسلمی نے نبی ﷺ سے سفر میں روزے سے متعلق سوال کیا ۔ تو میں نے کہا:یہ سوال تو حمزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا:بیٹا ماعز کے ساتھ بیٹھنے والا نامراد نہیں ہوسکتا ۔ یعنی ابوالنعمان عارم نے ایسی بات تب کی جب ان کی عقل زائد ہوچکی تھی ‘‘
    [سؤالات الآجری أبا داؤد، ت الأزہری:ص۱۸۰]
     ابوالنعمان عارم کی دوسری منکر روایت:
    امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۲) نے کہا:
    حدثنا محمد بن إسماعيل، قال:قام رجل إلى عفان، فقال:يا أبا عثمان، حدثنا بحديث حماد بن سلمة، عن حميد، عن أنس،أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، قال:’’اتقوا النار ولو بشق تمرة، فقال له عفان:إن أردته، عن حميد، عن أنس، فاكتري زورقا بدرهمين وانحدر إلى البصرة، يحدثك به عارم، عن حميد، عن أنس، فأما نحن فحدثناه حماد بن سلمة، عن حميد،عن الحسن،أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، قال:اتقوا النار ولو بشق تمرة ‘‘
    ایک شخص عفان رحمہ اللہ کے پاس آیا اور کہا :’’اے ابوعثمان آپ ہمیں حماد بن سلمۃ، عن حمید، عن انس ان النبی کے طریق سے یہ حدیث سنائیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ، تو عفان رحمہ اللہ نے کہا:اگر عن حمید، عن انس کے طریق سے تمہیں یہ حدیث سننی ہے تو دو درہم خرچ کرکے ایک کشتی کرایہ پر لے لو اور بصرہ تک سفر کرو وہاں عارم تمہیں عن حمید، عن أنس ان النبی کے طریق سے یہ حدیث سنائیں گے ، لیکن جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمیں یہ حدیث حماد بن سلمہ نے عن حمید،عن الحسن ان النبی کے طریق سے بیان کی ہے کہ حسن نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ‘‘
    [الضعفاء للعقیلی، ت د مازن:۵؍۳۶۱]
    امام عفان رحمہ اللہ کے اس بیان سے بھی ثابت ہوا کہ عارم ابو النعمان نے اختلاط کے بعد یہ منکر حدیث بیان کی ہے۔ امام ابن رجب رحمہ اللہ (المتوفی۷۹۵) فرماتے ہیں:
    ’’ومما روي فى اختلاطه عن حماد بن سلمة عن حميد عن انس أن النبى ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ قال:’’اتقوا النار ولو بشق تمرة ‘‘۔ورواه قبل اختلاطه عن حميد عن الحسن عن النبى ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ مرسلاً۔وكذا رواه عفان عن حماد بن سلمة، وهو الصواب‘‘
    ابوالنعمان عارم اپنے اختلاط کی حالت میں عن حماد بن سلمۃ عن حمید عن انس کی سند سے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا:’’آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ، جبکہ خود ابوالنعمان عارم اپنے اختلاط سے پہلے اس حدیث کو عن حمید عن الحسن عن النبی کی سند سے مرسلاً بیان کرتے تھے اور اس حدیث کو ارسال کے ساتھ ہی عفان نے بھی حماد بن سلمہ سے بیان کیا ہے اور یہ درست ہے‘‘
    [شرح علل الترمذی لابن رجب، ت ہمام:۲؍۷۵۱]
    ابوالنعمان عارم کی تیسری منکر روایت:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶) نے کہا:
    حدثنا أبو النعمان، حدثنا جرير بن حازم، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه، عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال:’’من أعتق شقصا…‘‘
    [صحیح البخاری:۳؍۱۴۱،رقم:۲۵۰۴]
    اس سند میں ابوالنعمان عارم نے اس حدیث کو موصولاً ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوالنعمان عارم سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔جیساکہ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
    ’’إنما سمع منه البخاري سنة ثلاث عشرة قبل اختلاطه بمدة‘‘
    ’’امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے ۲۱۳ہجری میں ان کے اختلاط سے ایک عرصہ پہلے سنا ہے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط السلفیۃ:۱؍۴۴۱]
    لیکن بعد میں ابوالنعمان عارم نے دوبارہ اس حدیث کو بیان کیا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ساقط کرکے اسے مرسلاً بیان کیا چنانچہ:
    خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفی۴۶۳) نے کہا:
    أخبرنا أبو طالب عمر بن إبراهيم بن سعيد الفقيه أنا عبد اللّٰه بن أيوب نا أبو مسلم البصري نا أبو النعمان عارم أنا جرير عن قتادة عن النضر بن أنس عن بشير عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بمثله(من أعتق شقصا من مملوك…)
    [الفصل للوصل المدرج فی النقل:۱؍۳۵۵]
    خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس کی اس غلطی کو بیان کرتے ہوئے کہا:
    ’’رواه عارم بن الفضل عن جرير فلم يذكر أبا هريرة ‘‘
    ’’اسے ابوالنعمان عارم بن الفضل نے جریر سے بیان کیاتو ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا‘‘
    [الفصل للوصل المدرج فی النقل:۱؍۳۵۴]
    ابوالنعمان عارم کی چوتھی منکر روایت:
    امام ابوداؤدرحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
    حدثنا أبو كامل، حدثنا يزيد يعني ابن زريع، ح وحدثنا أحمد بن منيع، عن يحيي بن زكريا، وهذا لفظه، عن داؤد، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، قال:’’لما أمر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم برجم ماعز بن مالك، خرجنا به إلى البقيع، فواللّٰه، ما أوثقناه، ولا حفرنا له…‘‘
    ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’کہ جب نبی ﷺنے ماعز بن مالک کو رجم کرنے کاحکم دیا توہم انہیں بقیع لے کر گئے ، تو اللہ کی قسم ہم نے نہ تو انہیں باندھا اور نہ ہی ان کے لئے گڈھا کھودا…‘‘
    [سنن أبی داؤد :۴؍۱۴۹، وإسنادہ صحیح]
    اس صحیح حدیث میں یہ ذکر ہے کہ ماعز بن مالک کو رجم کرتے وقت ان کے لیے گڈھا نہیں کھودا گیا تھا ۔ صحیح مسلم رقم(۱۶۹۴)میں بھی داؤد بن ابی ہند کے طریق سے یہی بات ذکر ہے۔
    لیکن یزید بن زریع کی اسی سند(عن یزید بن زریع، عن داود بن أبی ہند، عن أبی نضرۃ، عن أبی سعید الخدری) سے ابوالنعمان عارم نے اس حدیث کو روایت کیا تو اس میں ماعز بن مالک کے گڈھا کھودنے کی بات ذکر کرتے ہوئے کہا:
    ’’فلم نزل نحفر له‘‘
    ’’ہم ان کے لیے گڈھا کھود رہے تھے‘‘
    [المسند الصحیح المخرج علی صحیح مسلم لأبی عوانۃ :۱۳؍۳۳۱]
    ظاہر ہے کہ ابوالنعمان عارم نے یہاں متن کو بیان کرنے میں واضح غلطی کی ہے ، امام ابو عوانہ ابوالنعمان عارم کی اس غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا:
    ’’كذا يقول عارم:فلم نزل نحفر‘‘۔
    ’’ ابوالنعمان عارم اسی طرح روایت کرتے تھے کہ ہم گڈھا کھود رہے تھے ‘‘
    [المسند الصحیح المخرج علٰی صحیح مسلم لأبی عوانۃ :۱۳؍۳۳۱]
     ابوالنعمان عارم کی پانچویں منکر روایت:
    پانچویں منکر روایت کی جگہ اسی حدیث کو لے لیجئے جس کی تضعیف ہم واضح کررہے ہیں ، کیونکہ یہی حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں بھی ہے لیکن اس میں غیرمدخولہ کا ذکر نہیں ہے جبکہ سنن ابی داؤدکی زیر بحث حدیث میں غیر مدخولہ کا ذکر ہے ، ظاہر ہے کہ ابوالنعمان عارم کی غلطی ہے جوان کے اختلاط کا نتیجہ ہے۔
    ان احادیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث ہیں جن میں ابوالنعمان عارم نے سند یا متن کے بیان میں غلطی کی ہے ، اس سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ ابوالنعمان عارم نے اختلاط کے بعد بھی کئی منکر احادیث بیان کی ہیں ۔ لہٰذا امام دارقطنی رحمہ اللہ کا بیان صرف ان کے اپنے علم کی حد تک ہے اور وہ حجت نہیں ہے کیونکہ اس کا غلط ہونا ثابت ہوگیا ہے ۔پھر اس بنیاد پرامام ذہبی رحمہ اللہ کا کلام بھی بے معنی ہوگیا ۔
    بلکہ شاید امام ذہبی رحمہ اللہ کو بھی بعد میں اس کا احساس ہوگیا اور انہوں نے اپنے سابق کلام سے رجوع کرلیا اور جمہور محدثین کے فیصلے کو تسلیم کرلیا چنانچہ ایک مقام پر خود اعتراف کرتے ہیں کہ :
    قلت:’’فمما أنكروه عليه روايته عن حماد، عن حميد، عن أنس حديث:اتقوا النار ولو بشق تمرة وقد كان قبل ذلك رواه عن حماد، عن حميد، عن الحسن مرسلا، كما رواه عفان، وغيره ‘‘
    میں (ذہبی)کہتاہوں :’’کہ حماد سے ابوالنعمان عارم کی جن احادیث کو محدثین نے منکر مانا ہے انہیں میں سے عن حمید، عن أنس کے طریق سے بیان کردہ ان کی یہ حدیث ہے کہ :آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ، جبکہ ابوالنعمان عارم خود اس سے پہلے اسی حدیث کو عن حمید، عن الحسن کے طریق سے مرسلا ًبیان کرتے تھے جیساکہ عفان وغیر نے بیان کیاہے‘‘
    [تاریخ الإسلام ط التوفیقیۃ :۱۶؍۲۲۵]
    صرف یہی نہیں بلکہ امام ابوداؤدرحمہ اللہ جب ابوالنعمان عارم سے حدیث سننے گئے اوروہاں جاکر یہ پتہ چلا کہ یہ تو مختلط ہوگئے ہیں اور غلط سلط احادیث بیان کرنے لگے ہیں تو امام ابوداؤدرحمہ اللہ نے ان سے روایت ہی نہیں کیا ، اس پرامام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    قلت:’’لم يأخذ عنه أبو داؤد لتغيره، والذي ينبغي أن من خلط فى كلامه كتخليط السكران، أن لا يحمل عنه البتة، وأن من تغير لكثرة النسيان، أن لا يؤخذ عنه ‘‘
    میں (ذہبی )کہتاہوں:’’ابوداؤدنے ابوالنعمان عارم کے تغیر حفظ کے بعد ان کی حدیث نہیں لی اور جوشخص اپنی اپنے کلام میں مدہوش انسان کی طرح اختلاط شکار ہوجائے تو اس کی احادیث قطعاً نہیں لی جائے گی اور جو بکثرت بھولنے کے سبب تغیر حفظ کا شکار ہوجائے اس کی حدیث بھی نہیں لی جائے گی ‘‘
    [سیر أعلام النبلاء للذہبی: ۱۰؍۲۶۹]
    ملاحظہ فرمائیں ابوالنعمان عارم اختلاط کے بعد بھی حدیث بیان کرتے تھے اور لوگ ان سے روایت بھی کرتے تھے مگر امام ابوداؤدنے ان کے اختلاط کے سبب ان سے روایت نہیں کیا ، اس پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوداؤدکا رد نہیں کیا بلکہ ان کی تائید فرمائی کہ جو راوی اختلاط کا شکار ہوکر مدہوش انسان کی طرح کلام کرنے لگے ، یا بکثرت بھولنے کے سبب اس کا حافظہ خراب ہوجائے تو اس کی حدیث نہیں لی جانی چاہئے۔
    بہرحال دلائل سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ ابوالنعمان عارم اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اور اختلاط کے بعد وہ منکر احادیث بیان کرتے تھے اس لئے ان سے جن رواۃ نے اختلاط سے پہلے سنا ہے صرف انہیں کی روایت صحیح ہوگی ، باقی جنہوں نے اختلاط کے بعد سنا یا جن کے بارے میں تمیز نہ ہوسکے کہ انہوں نے اختلاط سے پہلے سنا تھا یا اختلاط کے بعد ایسے تمام لوگوں کی روایات ضعیف ومنکر ہوں گی۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس علت کی بناپر اس حدیث کو ضعیف ومنکر کہا ہے ۔
    ’’وهذا إسناد معلول عندي بأبي النعمان واسمه محمد بن الفضل السدوسي ولقبه عارم، وهو وإن كان ثقة فقد كان اختلط، وصفه بذلك جماعة من الأئمة منهم أبوداؤد والنسائي والدارقطني وغيرهم…قلت:وهذا الحديث من رواية ابن مروان وهو أبو جعفر الدقيقي الثقة، ولا ندري أسمع منه قبل الاختلاط أم بعده؟ وهذا عندي أرجح، فقد خولف عارم فى إسناده ومتنه ‘‘
    ’’میرے نزدیک اس حدیث میں علت یہ ہے کہ ابوالنعمان جس کا نام محمد بن الفضل السدوسی اور جس کا لقب عارم ہے ، یہ گرچہ ثقہ تھے لیکن اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اور ہمیں نہیں پتہ کہ ان کی یہ حدیث ان کے اختلاط سے پہلے سنی گئی ہے یا بعد میں ؟ اور دوسری بات ہی راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ عارم نے اس حدیث کو جس سند اور متن کے ساتھ بیان کیا ہے دوسرے رواۃ نے اس کے خلاف بیان کیا ہے ‘‘
    [سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ:۳؍۲۷۱]
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے جو یہ کہا کہ راجح یہی ہے کہ اس حدیث کو عارم کے اختلاط کے بعد سنا گیاتو اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عارم سے اس حدیث کو روایت کرنے والا محمد بن عبد الملک الواسطی ہے اور اس کی وفات ۲۶۶ہجری میں ۸۱سال کی عمر میں ہوئی ہے۔
    [تہذیب الکمال للمزی: ۲۶؍ ۲۶]
    اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد بن عبد الملک الواسطی کی پیدائش ۱۸۵ہجری ہے اور ان کے استاذ ابوالنعمان عارم کے اختلاط کی شروعات ۲۱۳ہجری میں ہوئی۔
    [الضعفاء للعقیلی، ت د مازن:۵؍۳۶۰]
    اس وقت محمد بن عبد الملک الواسطی کی عمر صرف ۲۸سال کی تھی ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ محمد بن عبد الملک الواسطی یہ ابوالنعمان عارم کے متأخرین شاگردوں میں سے ہیں ۔
    شعَیب الأرنؤوط اور ان کے رفقاء سنن ابی داؤدکے اپنے نسخہ میں اس روایت سے متعلق فرماتے ہیں:
    قوله: ’’قبل أن يدخل بها لم ترد إلا فى رواية أبي داؤد هذه تفرد بها أبو النعمان، ويغلب على الظن أنه حدث بهذا الحديث بعد اختلاطه‘‘
    ’’اس حدیث میں غیر مدخولہ والے الفاظ صرف ابوداؤدکی اسی روایت میں ہیں جنہیں نقل کرنے میں ابوالنعمان عارم منفرد ہے اور ظن غالب ہے کہ اس نے اس حدیث کو اختلاط کے بعد بیان کیا ہے‘‘
    [سنن أبی داؤد ت الأرنؤوط: ۳؍۵۲۴]
    بہرحال چونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ محمد بن عبد الملک الواسطی نے ابوالنعمان عارم سے یہ حدیث ان کے اختلاط سے پہلے سنی ہے اس لئے اس علت کے سبب یہ حدیث ضعیف ہی ہے ۔
    (جاری ہے……)

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings