Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ماہِ رجب کے روزوں اورقیام کی فضیلت سے متعلق جملہ روایات کا تحقیقی جائزہ (پہلی قسط)

    ٭ماہِ رجب کی وجہِ تسمیہ : رَجَبَ یَرْجُبُ رَجْباً کا ایک معنی ہوتا ہے ’’تعظیم کرنا ،عزت کرنا‘‘دیکھیں: [لسان العرب :۱/۱۱۴،القاموس الوحید:ص:۵۹۹]

    امام عبد الکریم بن محمد الرافعی القزوینی رحمہ اللہ (المتوفی: ۶۲۳ھ) فرماتے ہیں :

    ’’سمی بہ لانہم کانوا یعظمونہ ولا یستحلون فیہ القتال والجمع ارجاب وربما ضموا إلیہ شعبان وسموہما رجبین‘‘’’رجب اِس لیے کہا جا تا ہے کیونکہ عرب کے لوگ اِس مہینے کی تعظیم کرتے تھے اور اِس میں قتال کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور رجب کی جمع ارجاب آتی ہے اور بسا اوقات جب وہ لوگ شعبان کو رجب کے ساتھ ملا کر بولتے تو اِن دونوں کو رجبین بولتے تھے‘‘[التدوین فی اخبار قزوین بتحقیق عزیز اللّٰہ العطاردی :۱/۱۶۵]

    اِس مہینے کی وجہ تسمیہ سے متعلق ایک حدیث اور دو آثار مروی ہیں لیکن وہ سب کے سب ناقابل التفات ہیں جیساکہ آئندہ سطور میں آرہا ہے۔

    ٭ماہِ رجب کی فضیلت : ماہِ رجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے ۔ اِس مہینے کی ایک عظیم فضیلت یہ ہے کہ یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔

    ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:

    ’’ اَلسَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَھْراً ، مِنْھَا اَرْ بَعَۃٌ حُرُمٌ ، ثَلَا ثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُوْ الْقَعْدَۃِ ، وَذُوْالْحِجَّۃِ ، وَ الْمُحَرَّمُ ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَ شَعْبَانَ ‘‘’’سال میں بارہ مہینے ہیں ، ان میں سے چار حرمت والے ہیں ، تین مسلسل (یعنی لگاتار)ہیں :(۱)ذو القعدہ (۲)ذو الحجہ (۳)محرم اور (۴)رجب ِمضر ہے جو جمادی (الآخر) اور شعبان کے درمیان ہے‘‘[صحیح بخاری:۳۱۹۷، صحیح مسلم:۱۶۷۹]

    اِس فضیلت کے علاوہ ماہِ رجب کی اور کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے۔

     مذکورہ حدیث کے علاوہ ماہِ رجب کی فضیلت میں جتنی بھی روایتیں مروی ہیں ، وہ سب کی سب ضعیف یا سخت ضعیف یا منکر اور موضوع ہیں۔

    ٭ماہِ رجب کے روزوں اور اُس کے قیام کی فضیلت : ماہِ رجب کے روزوں اور اُس کے قیام کی فضیلت سے متعلق ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے۔جتنی بھی روایتیں مروی ہیں ، وہ سب کی سب ضعیف یا سخت ضعیف یا منکر اور موضوع ہیں۔ ایک بھی لائق احتجاج نہیں ہے۔

    ٭ماہِ رجب،اُس کے روزوں اور اُس کے قیام کی فضیلت سے متعلق تمام ضعیف، سخت ضعیف، منکر اور موضوع روایتوں کی تحقیق:

    جیسے ہی ماہِ رجب قریب آتا ہے، ویسے ہی اِس مہینے ،اِس کے روزوں اور اِس کے قیام کی فضیلت سے متعلق بہت ساری ضعیف، سخت ضعیف، منکر اور موضوع روایتیں معاشرے میں گردش کرنے لگ جاتی ہیں ۔ اِسی لیے میں نے ارادہ کیا کہ اُن تمام روایتوں کی مفصل تحقیق کر کے اُن کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔

    اُن روایتوں کی مفصل تحقیق پیش کرنے سے پہلے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کا ایک قول پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

    آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  ’’لم یرد فی فضل شہر رجب، ولا فی صیامہ، ولا فی صیام شیء منہ معین، ولا فی قیام لیلۃ مخصوصۃ فیہ حدیث صحیح یصلح للحجۃ، وقد سبقنی إلی الجزم بذالک الإمام ابو إسماعیل الہروی الحافظ، رویناہ عنہ بإسناد صحیح  وکذالک رویناہ عن غیرہ‘‘ ’’رجب کے مہینے کی فضیلت ، اُس کے روزوں کی فضیلت، اُس کے چند مخصوص دنوں کے روزوں کی فضیلت اور اُس کی رات میں مخصوص قیام کی فضیلت کے تعلق سے کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ہے جو احتجاج کے قابل ہواور مجھ سے پہلے بالجزم یہ بات امام ابو اسماعیل الہروی الحافظ رحمہ اللہ نے کہی ہے ، ہم نے اِس قول کو اُن سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور اِسی طرح اس بات کو ہم نے دوسروں سے بھی روایت کیا ہے‘‘[تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب بتحقیق ارشاد الحق الاثری:ص:۷]

    پھر کچھ آگے جا کر فرماتے ہیں: ’’واما الاحادیث الواردۃ فی فضل رجب، او فضل صیامہ، او صیام شیء منہ صریحۃ، فہی علٰی قسمین:ضعیفۃ وموضوعۃ‘‘’’رہی بات اُن احادیث کی جو ماہِ رجب یا اُس کے روزوں یا اُس کے کسی متعین دن کے روزے کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں ، وہ دو قسموں کی ہیں:(۱)ضعیف اور(۲)موضوع‘‘ [تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب بتحقیق ارشاد الحق الاثری:ص:۱۲]

    اب اللہ کی توفیق سے اُن تمام روایتوں کی مفصل تحقیق پیش خدمت ہے:

    ٭ماہِ رجب کی وجہ تسمیہ سے متعلق ایک مرفوع حدیث اور دو آثار صحابہ کی تحقیق:

    ٭ مرفوع حدیث :

    ٭  امام ابو محمد حسن بن محمد الخلال البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۳۹ھ)فرماتے ہیں :

    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبُخَارِیُّ قَدِمَ عَلَیْنَا، قَالَ:ثنا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ حَاتِمٍ الْبُخَارِیُّ الْمُعَدِّلُ، ثَنا الْحَارِثُ بْنُ المُسْلِمٍ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مَیْمُونٍ، عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَال:’’ قِیلَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لِمَ سُمِّیَ رَجَبٌ ؟ قَالَ: لِاَنَّہُ یُتَرَجَّبُ فِیہِ خَیْرٌ کثیرٌ لِشَعْبَانَ وَرَمَضَانَ‘‘انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہا گیا:’’اے اللہ کے رسول !(ماہِ رجب کا نام)رجب کیوں رکھا گیا ہے؟ آپﷺنے فرمایا:کیونکہ اِس مہینے میں ماہِ شعبان اور رمضان کے لیے بہت ساری بھلائیاں انڈیلی جاتی ہیں‘‘

    (تخریج) [فضائل شہر رجب للخلال بتحقیق ارشاد الحق الاثری :ص:۳۱،ح:۲]

    (حکم حدیث)  ’’یہ حدیث موضوع ہے‘‘

    (موضوع ہونے کی وجہ) روایت ہذا کی سند میں زیاد بن میمون البصری ہے جو کہ کذاب اور متروک الحدیث ہے۔ نیز اِس نے خود اعتراف کیا ہے کہ اِس نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا ہے اور احادیث گھڑی ہیں۔

    ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:

    ٭  امام ابو داؤد سلیمان بن داؤد الطیالسی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۰۴ھ)

    ’’اَتَیْنَا زِیَاد بن مَیْمُون فَسَمعتُہ یَقُولُ: اَسْتَغْفرُ اللّٰہ، وضَعتُ ہٰذِہ الْاَحَادِیثَ‘‘’’ہم زیاد بن میمون کے پاس آئے تو میں نے اُس کو یہ کہتے ہوئے سنا:میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور میں نے اِن احادیث کو گھڑا ہے‘‘ [العلل ومعرفۃ الرجال بتحقیق وصی اللّٰہ بن محمد عباس:۲/۴۴۹، ت:۲۹۹۷،واسنادہ صحیح]

    ٭  امام ابو خالد یزید بن ہارون السلمی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۰۶ھ)

    ’’ترکت احادیث زیاد بن میمون وکان کذابا، قد استبان لی کذبہ‘‘’’میں نے زیاد کی احادیث کو ترک کر دیا ہے ۔ وہ جھوٹا تھا ۔ اُس کا جھوٹ میرے سامنے واضح ہو چکاہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۵۴۴، ت۲۴۵۸،واسنادہ حسن]

    ٭  امام ابو زکریا یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (المتوفی :۲۳۳ھ)

    ’’لیس حدیثہ بشیء ‘‘’’اس کی حدیث کچھ نہیں ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۵۴۴، ت:۲۴۵۸واسنادہ صحیح]

    ٭  امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶ھ)

    ’’ترکوہ‘‘ ’’محدثین نے اِسے ترک کر دیا ہے‘‘[التاریخ الکبیر بحواشی محمود خلیل:۳/۳۷۰:ت ۱۲۵۲]

    ٭  اما م ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۷۷ھ)

    ’’کان یقال انہ کذاب، ترک حدیثہ‘‘’’کہا جاتا تھا کہ یہ کذاب ہے ۔ اِس کی حدیث ترک کر دی گئی ہے‘‘ [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۵۴۵، ت:۲۴۵۸]

    ٭  امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳ھ)

    ’’متروک الحدیث ‘‘’’متروک الحدیث ہے‘‘[الضعفاء والمتروکون بتحقیق محمود إبراہیم زاید:ص:۴۴، ت:۲۲۲]

    ٭  امام ابو جعفر محمد بن عمرو العقیلی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۲ھ)

    ’’زِیَادُ بْنُ مَیْمُونٍ یَکْذِبُ‘‘’’ زیاد بن میمون جھوٹ بولتا تھا‘‘[الضعفاء الکبیر بتحقیق عبد المعطی:۱/۹۷، ت: ۱۱۳]

    ٭  امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴ھ)

    ’’کَانَ یَرْوِی عَن اَنَس وَلَمْ یرہ وَلَا سمع مِنْہُ شَیْئًا‘‘’’یہ انس بن مالک سے روایت کرتا تھا جبکہ اس نے اُن کو نہ دیکھاہے اور نہ ہی اُن سے کچھ سنا ہے‘‘[المجروحین بتحقیق محمود إبراہیم:۱/۳۰۵، ت:۳۵۹]

    انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے عدم سماع کا اعتراف اِس نے خود کیا ہے۔

    ٭ امام بشر بن عمر الزہرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۰۷/۲۰۹ھ)فرماتے ہیں :

    ’’قال زیاد بن میمون:۔۔۔ إنی لم اسمع من انس شیئا‘‘’’زیاد بن میمون کہتا ہے : میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۵۴۴، ت:۲۴۵۸،واسنادہ صحیح]

    ٭  امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)

    ’’ہالک اعترف بالکذب‘‘’’ یہ ہالک ہے اِس نے جھوٹ کا اعتراف کیا ہے‘‘[دیوان الضعفاء بتحقیق حماد  الانصاری:ص:۱۴۹، ت:۱۵۱۰]

    مزید اقوال کے لئے دیکھیں : [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۵۴۴، ت:۲۴۵۸]و غیرہ.

    (فائدہ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔

     دیکھیں :  [سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ واثرہا السیء فی الامۃ:۸/۱۸۹، ح:۳۷۰۸]

    (تنبیہ) علامہ البانی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث کے راوی حارث بن مسلم کی بابت فرماتے ہیں :

    ’’والحارث بن مسلم؛ مجہول ‘‘’’حارث بن مسلم مجہول ہے‘‘[سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ:۸/۱۸۹، تحت الحدیث:۳۷۰۸]

    راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ یہ حارث بن مسلم مجہول نہیں ہے کیونکہ یہ حارث الرازی ہیں اور یہ ثقہ و صدوق راوی ہیں ۔

    ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:

    ٭  اما م ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۶۴ھ)

    ’’صدوق لا باس بہ، کان رجلا صالحا‘‘’’ صدوق ہیں ، اِن میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیک آدمی تھے‘‘ [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۸۸، ت:۴۰۶]

    ٭  اما م ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۷۷ھ)

    ’’عابدشیخ ثقۃ صدوق رایتہ وصلیت خلفہ ‘‘’’عبادت گزار ، شیخ، ثقہ اور صدوق ہیں ۔ میں نے اِن کو دیکھا ہے اور اِن کے پیچھے نماز پڑھی ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳/۸۸، ت:۴۰۶]

    ٭  امام ابو یعلی خلیل بن عبد اللہ الخلیلی القزوینی رحمہ اللہ (المتوفی :۴۴۶ھ)

    ’’الْحَارِثُ بْنُ مُسْلِمٍ الرَّازِیُّ کَبِیرٌ، سَمِعَ زِیَادَ بْنَ مَیْمُونٍ وَالثَّوْرِیَّ وَبَحْرَ بْنَ کُنَیْزٍ السَّقَّا، وَلِبَحْرٍ نُسْخَۃٌ یَرْوِیہَا حَارِثٌ، وَہُوَ ثِقَۃٌ، إِلَّا فِیمَا یَرْوِیہِ عَنِ الضُّعَفَائِ کَزِیَادِ بْنِ مَیْمُونٍ وَالْحَمْلُ فِیہِ عَلٰی زِیَادٍ، لِاَنَّہُ یَرْوِی عَنْ اَنَسٍ الْمَنَاکِیرِ الَّتِی لَا یُتَابَعُ عَلَیْہَا‘‘’’حارث بن مسلم الرازی کبیر ، انہوں نے زیاد بن میمون ، امام ثوری اور بحر بن کنیز سے سنا ہے اور بحر کا ایک نسخہ ہے جس کو حارث بن مسلم نے روایت کیا ہے اور یہ ثقہ ہیں سوائے اُن روایتوں کے جن کو انہوں نے ضعیف راویوں سے روایت کیا ہے جیسے زیاد بن میمون اور اُن کا ذمہ دار زیاد ہی ہے کیونکہ اِس نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی ہے‘‘[الإرشاد فی معرفۃ علماء الحدیث بتحقیق محمد سعید:۲/۶۶۳]

    مذکورہ تمام اقوال کی موجودگی میں امام احمد بن علی السلیمانی البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۴۰۴ھ)کا حارث بن مسلم الرازی کی بابت یہ قول’’فیہ نظر ‘‘ناقابل التفات ہے کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

    ’’رَاَیْتُ لِلسُّلَیْمَانِیّ کِتَاباً فِیْہِ حَطٌّ عَلٰی کِبَارٍ، فَلَا یُسمَعُ مِنْہُ مَا شَذَّ فِیْہِ ‘‘’’میں نے سلیمانی رحمہ اللہ کی ایک کتاب دیکھی ہے جس میں کئی کبار علماء پر بے جا جرح ہے لہٰذا جس جرح میں یہ منفرد ہوں ، وہاں اِن کی بات نہیں سنی جائے گی‘‘[سیر اعلام النبلاء بتحقیق مجموعۃ من المحققین:۱۷/۲۰۲، ت:۱۱۵]

    ٭ دوآثار صحابہ: عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما سے بھی اِس مہینے کی وجہ تسمیہ سے متعلق دو قول ملتے ہیں ۔

    اب اُن اقوال کا تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :

    (پہلا قول)٭ امام ابو محمد حسن بن محمد الخلال البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی۴۳۹ھ)فرماتے ہیں :

    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ الْعَبَّاسِ الْوَرَّاقُ، ثنا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَاعِظُ، ثنا اَبُو رِفَاعَۃَ عُمَارَۃُ بْنُ وَثِیمَۃَ، ثنا اَحْمَدُ بْنُ عَبْد اللّٰہ الْبَجَلِیُّ، ثنا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْمُہَلَّبِ، ثنا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ إِدْرِیسَ، ثنا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ اَبِی صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِی اللّٰہ عَنْہُمَا:’’اَنَّ یَہُودِیًّا اَتَاہُ فَقَالَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! إِنِّی اُرِیدُ اَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ اَشْیَائَ إِنْ اَنْتَ اَخْبَرْتَنِی بِتَاْوِیلِہَا فَاَنْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ قَال: وَمَا ہِیَ؟ قَالَ: عَنْ رَجَبٍ لِمَ سُمِّیَ رجب وعن شعبان لما سُمِّیَ شَعْبَانُ؟ قَال: اَمَّا رَجَبٌ فإنہ یُتَرَجَّبُ فِیہِ خَیْرٌ کَثِیرٌ لِشَعْبَانَ وَسُمِّیَ اَصَمُّ لاَنَّ الْمَلائِکَۃَ تُصَمُّ اَذَانُہَا لِشِدَّۃِ ارْتِفَاعِ اَصْوَاتِہَا بِالتَّسْبِیحِ وَالتَّقْدِیسِ‘‘ ’’عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ ایک یہودی اُن کے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ نے اُن کا جواب مجھے دے دیا تو آپ ابن عباس ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ چیزیں کیا ہیں ؟ اُس نے کہا کہ رجب کو رجب اور شعبان کو شعبان کیوں کہا جاتا ہے ؟تو آپ نے جواباً عرض کیا کہ رہی بات رجب کی تو اُسے رجب اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اُس میں شعبان کے لیے بہت زیادہ بھلائیاں انڈیل دی جاتی ہیں اور اِس مہینے کو اصم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ فرشتوں کے کان اُن کی تسبیح و تقدیس کی بلند آواز کی شدت کی وجہ سے بہرے ہو جاتے ہیں‘‘

    (تخریج) [فضائل شہر رجب للخلال بتحقیق ارشاد الحق الاثری :ص:۵۰،ح:۱۳]

    (حکم حدیث)  ’’یہ حدیث موضوع ہے‘‘

    (موضوع ہونے کی وجہ) روایت ہذا کی سند میں’’محمد بن سائب کلبی ‘‘ہے جو کہ متروک الحدیث اور کذاب ہے۔ اِس نے خود اِس بات کااعتراف کیا ہے کہ جو کچھ میں نے عن ابی صالح ، عن ابن عباس کے طریق سے بیان کیاہے وہ جھوٹ ہے۔

    ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:

    ٭  اما م سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ (المتوفی:۱۶۱ھ)

    ’’قال لنا الکلبی:ما حدثت عنی عن ابی صالح عن ابن عباس فہو کذب فلا ترووہ‘‘’’کلبی نے ہم سے کہا:جو کچھ میں نے عن ابی صالح ، عن ابن عباس کے طریق سے بیان کیاہے وہ جھوٹ ہے لہٰذا تم اُسے روایت نہ کرو ‘‘[الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۷/۲۷۱، ت:۱۴۷۸،واسنادہ صحیح]

    ٭  امام ابو اسحاق ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۹ھ)

    ’’کذاب ساقط ‘‘’’یہ کذاب اور ساقط ہے‘‘[احوال الرجال بتحقیق عبد العلیم البَستوی:ص:۶۶، ت:۳۷]

    ٭  اما م ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۷۷ھ)

    ’’الناس مجتمعون علٰی ترک حدیثہ لا یشتغل بہ ،ہو ذاہب الحدیث ‘‘’’لوگ نے اس کے متروک الحدیث ہونے پر اجماع کیا ہے، اس کے متعلق مشغول نہیں ہوا جائے گا ۔یہ ذاہب الحدیث ہے‘‘[الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۷/۲۷۱، ت:۱۴۷۸]

    ٭  امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۸۵ھ)

    (۱)  ’’مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ‘‘’’متروک الحدیث ہے‘‘[العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ بتحقیق محفوظ الرحمن السلفی:۶/۱۹۳، رقم السوال:۱۰۶۱]

    (۲)  ’’مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْکَلْبِیُّ الْمَتْرُوکُ  اَیْضًا ،ہُوَ الْقَائِلُ:کُلُّ مَا حَدَّثْتُ عَنْ اَبِی صَالِحٍ کَذِبٌ‘‘’’محمد الکلبی بھی متروک ہے اور یہ کہتا ہے کہ جو کچھ میں نے ابو صالح سے بیان کیا ہے وہ جھوٹ ہے‘‘[سنن الدارقطنی بتحقیق الارنوؤط ورفقائہ :۵/۲۲۸، ح:۴۲۲۷]

    ٭  امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)

    ’’شِیْعِیٌّ، مَتْرُوْکُ الحَدِیْثِ‘‘’’ شیعہ متروک الحدیث ہے‘‘[سیر اعلام النبلاء بتحقیق مجموعۃ من المحققین:۶/۲۴۸، ت:۱۱۱]

    ٭  امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)

    ’’متروک الحدیث، بل کذاب‘‘’’ متروک الحدیث بلکہ کذاب ہے‘‘[التلخیص الحبیر بتحقیق الدکتور محمد الثانی:۱/۳۴۴]

    مزید اقوال کے لئے دیکھیں:  [تہذیب الکمال فی اسماء الرجال للمزی بتحقیق بشار عواد:۲۵/۲۴۶، ت: ۵۲۳۴و غیرہ]

    (دوسرا قول) ٭ امام ابو محمد حسن بن محمد الخلال البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۳۹ھ)فرماتے ہیں :

    حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَہْلٍ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَکِیلُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ مُدْرِکٍ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّامِیُّ، ثنا مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ:قَالَ عَبْد اللّٰہ بْن عَمْرٍو … :’’وإنما سمی رجب لانَّ الْمَلائِکَۃ تَرْجُبُ فِیہِ بِالتَّسْبِیحِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ لِلْجَبَّارِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔’’رجب کو رجب اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اِس ماہ میں فرشتے کثرت سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، تحمید ، اور تقدیس میں مشغول رہتے ہیں ‘‘

    (تخریج)  [فضائل شہر رجب للخلال بتحقیق ارشاد الحق الاثری ،ص:۵۴،ح:۱۶،و جزء فی فضل رجب لابن عساکر بتحقیق جمال عزون ، ص:۳۱۹،ح:۱۵،ومن حدیث مالک بن انس للازدی البصری باعداد احمد الخضری: ص:۲۵، ح:۹۲]

    (حکم حدیث)   ’’اس کی سند موضوع ہے‘‘

    (موضوع ہونے کی وجہ) روایت ہذا کی سندمیں عُثْمَان بن عَبْد اللہ الشَّامِی القرشی الاموی ہے جو کہ کذاب اور وضاع ہے اور ثقہ رواۃ پر حدیثیں گھڑا کر تا تھا۔

    ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں :

    ٭   امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴ھ)

    ’’یروی عن اللیث بن سعد ومالک وابن لھیعۃ ویضع علیھم الحدیث ۔۔۔‘‘’’شامی نے لیث بن سعد ، مالک اور ابن لہیعہ سے روایت کیا ہے او ر ان پر حدیث گڑھی ہے ۔۔۔۔‘‘[المجروحین بتحقیق محمود ابراہیم:۲/۱۰۲، ت:۶۷۲]

    ٭  امام ابو احمد بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۵ھ)

    ’’حدث بالمناکیر عن الثقات ‘‘’’اس نے ثقہ رواۃ سے منکر رواتیں بیان کی ہیں‘‘

    پھر اِس کی چند روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

    ’’ولعثمان غیر ما ذکرت من الاحادیث احادیث موضوعات‘‘’’میری ذکر کردہ احادیث کے علاوہ عثمان کی اور بھی کئی موضوع روایتیں ہیں ‘‘[الکامل فی ضعفاء الرجال بتحقیق عادل و علی:۶/۳۰۱۔۳۰۴، ت:۱۳۳۶]

    ٭  امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۸۵ھ)

    ’’کان ضعیفا‘‘’’ یہ ضعیف تھا‘‘[العلل بتحقیق محفوظ الرحمن السلفی:۱۰/۷۹]

    ٭  امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی:۴۰۵ھ)

    ’’کذاب‘‘’’ یہ کذاب ہے‘‘[سوالات مسعود بن علی السجزی بتحقیق موفق بن عبد اللّٰہ: ص:۸۲، ت:۴۲]

    ٭  امام ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۶۳ھ)

    ’’وکان ضعیفا، والغالب علٰی حدیثہ المناکیر‘‘’’یہ ضعیف تھااوراس کی حدیث میں منکر حدیثیں زیادہ ہیں‘‘ [تاریخ بغداد بتحقیق بشار عواد:۱۳/۱۶۰، ح:۶۰۰۶]

    ٭  امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)

    (۱) ’’ متھم واہ، رماہ بالوضع ابن عدی وغیرہ‘‘’’متہم سخت ضعیف راوی ہے۔ امام ابن عدی وغیرہ نے اسے متہم بالوضع قرار دیا ہے‘‘[دیوان الضعفاء بتحقیق حماد بن محمد الانصاری :ص:۲۷۰، ت:۲۷۶۹]

    (۲) ’’وہو احد المتروکین لإتیانہ بالطامات‘‘’’ موضوعات روایت کرنے کی وجہ سے متروکین میں سے ایک ہے‘‘[تاریخ الإسلام بتحقیق بشار عواد:۵/۸۸۳، ت:۲۷۷]

    اِس کی ایک حدیث کو ذکر کر کے فرمایا :

    (۳) ’’وہٰذا من وضعہ‘‘’’یہ حدیث اِس کی گھڑی ہوئی حدیثوں میں سے ہے‘‘ [میزان الاعتدال بتحقیق البجاوی:۳/۴۲، ت:۵۵۲۳]

    ٭  امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)

    ’’عثمان متروک‘‘ ’’عثمان متروک ہے‘‘[الغرائب الملتقطۃ من مسند الفردوس باعدادہ احمد الخضری : ح: ۱۴۸]

    مزید اقوال کے لئے دیکھیں :[لسان المیزان بتحقیق ابی غدۃ:۵/۳۹۴، ت:۵۱۳۲]

    اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں :

    (تنبیہ نمبر:۱) زیر بحث روایت کے راوی عثمان بن عبد اللہ کی کئی نسبتیں ہیںجیسے :

    (۱) العثمانی    (۲) الاموی        (۳) القرشی        (۴) الشامی

     دلیل کے لئے دیکھیں :  (۱)  [تاریخ بغداد بتحقیق بشار عواد:۱۳/۱۶۰، ح:۶۰۰۶]

    (۲) [الکامل فی ضعفاء الرجال بتحقیق عادل و علی:۶/۳۰۱۔۳۰۴، ت:۱۳۳۶]

    (۳) [لسان المیزان بتحقیق ابی غدۃ:۵/۳۹۴، ت:۵۱۳۲]

    (تنبیہ نمبر:۲) جزء فی فضل رجب لابن عساکر میں صحابی رسول کا نام ’’عبد اللہ بن عمرو‘‘لکھا ہوا ہے جبکہ فضائل شہر رجب للخلال اور من حدیث مالک للازدی میں ’’عبد اللہ بن عمر‘‘لکھا ہوا ہے۔

    راقم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحیح’’عبد اللہ بن عمرو‘‘ ہے کیونکہ:

    (۱) عروہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کثرت سے روایت بیان کی ہے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عبد اللہ بن عمرو کے مقابل میں نا کے برابر روایت کیا ہے ۔ مجھے تو صرف دو ہی روایتیں ملی ہیں۔

    (۲) جس طریق سے مذکورہ اثر مروی ہے ، اُس طریق سے اور بھی کئی روایتیں مروی ہیں ۔ اُن میں سے کسی بھی روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے بلکہ سب میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔

    (تنبیہ نمبر:۳) فضائل شہر رجب للخلال میں’’ حماد بن مدرک‘‘ ہے۔

     اور من حدیث مالک للازدی میں ’’عمر بن مدرک‘‘لکھا ہوا ہے۔راقم کہتا ہے کہ صحیح ’’حماد بن مدرک‘‘ ہے کیونکہ :

    (۱) انہوں نے ایک اور روایت عثمان بن عبد اللہ الشامی سے روایت کی ہے ۔

    دیکھیں : [ مَجْلِسٌ مِنْ اَمَالِی الشَّیْخِ الزَّاہِدِ اَبِی بَکْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ ابْنِ فَنْجُوَیْہِ الثَّقَفِیِّ فِی فَضْلِ رَمَضَانَ بتعلیق ابُو مُحَمَّدٍ الالْفِیُّ ،ص:۷،ح:۶ (ہناک: الْہَجَسْتَانِیُّ وہذا تحریف والصحیح : الفِسِنْجَانِیُّ) کما قال العلماء و سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ  والموضوعۃ للالبانی:۱/۴۷۰، ح:۲۹۹]

    اُس میں واضح طور پر’’ الفِسِنْجَانِیُّ‘‘لکھا ہوا ہے جو کہ ’’حماد بن مدرک‘‘ کی نسبت ہے نا کہ ’’عمر بن مدرک‘‘ کی۔

    اِس پر مزید یہ کہ وہاں حماد سے ’’محمد بن بدر الامیر رحمہ اللہ ‘‘نے روایت کیا ہے اور اِن کے اساتذہ میں’’ حماد بن مدرک‘‘ کا نام ملتا ہے ۔

    لہٰذا یہ ایک واضح دلیل ہے کہ زیر بحث روایت میں حماد بن مدرک ہی ہے ۔ واللہ اعلم۔

    (۲)  عثمان بن عبد اللہ الشامی کے شاگردوں میں حماد بن مدرک کا تذکرہ ملتا ہے جیساکہ امام عراقی رحمہ اللہ نے ذیل میزان الاعتدال میں ذکر کیا ہے۔دیکھیں :[ذیل میزان الاعتدال بتحقیق علی و عادل ، ص:۱۵۷، ت: ۵۶۴] لیکن ’’عمر بن مدرک ‘‘کا نہیں ملتا ہے۔

    (تنبیہ نمبر:۴) جزء فی فضل رجب لابن عساکر میں ’’حماد بن مدرک‘‘کا واسطہ گِر گیا ہے۔

    (تنبیہ نمبر:۵) امام ابو الفضل عبد الرحیم بن الحسین العراقی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۰۶ھ)فرماتے ہیں :

    عُثْمَان بن عبد اللّٰہ الشَّامی: عَن مَالک وَعنہُ حَمَّاد بن مدرک۔ ’’فرق الْخَطِیب وَابْن الْجَوْزِیّ بَینہ وَبَین عُثْمَان بن عبد اللّٰہ الْامَوِی وَکِلَاہُمَا یرْوی عَن مَالک۔قَالَ الْخَطِیب: الشَّامی عَن مَالک اَحَادِیث مُنکرَۃ وَجمع الذَّہَبِیّ بَینہمَا فِی تَرْجَمَۃ وَاحِدَۃ‘‘ عثمان بن عبد اللہ الشامی : اس نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے اور اس سے حماد بن مدرک نے روایت کیا ہے۔’’امام خطیب بغدادی اور امام ابن الجوزی رحمہما اللہ نے عثمان بن عبد اللہ الشامی اور عثمان بن عبد اللہ الاموی میں فرق کیا ہے اور دونوں امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں ۔ امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شامی نے مالک سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک ہی ترجمے میں جمع کر دیا ہے‘‘ [ذیل میزان الاعتدال بتحقیق علی و عادل : ص:۱۵۷، ت:۵۶۴]

    راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ :

    (۱)  حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ مذکورہ قول کے تحت فرماتے ہیں :

    ’’قلت:فاصاب‘‘’’میں کہتا ہوں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کیا ہے‘‘[لسان المیزان بتحقیق ابی غدۃ:۵/۳۹۹، ت: ۵۱۳۲]

    (۲)  محقق ذیل لسان المیزان دکتور عبد القیام حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

    ’’لم اقف این فرق الخطیب‘‘’’امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے دونوں میں کہاںفرق کیا ہے میں اس سے واقف نہیں ہو سکا‘‘[ذیل میزان الاعتدال بتحقیق الدکتور عبد القیوم : ص:۳۵۴۔۳۵۵، ت:۵۷۱]

    (تنبیہ نمبر:۶) علامہ البانی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے تحت فرماتے ہیں :

    ’’وعثمان بن عبد اللّٰہ العثمانی لم اعرفہ ‘‘’’عثمان بن عبد اللہ العثمانی کو میں جرح و تعدیل کے اعتبار سے نہیں جانتا ہوں‘‘[الضعیفۃ:۷/۲۱۰، ح:۳۲۲۳]

    راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ:

    (۱) عثمان بن عبد اللہ العثمانی ، یہ الشامی القرشی ہی ہے جیساکہ فضائل شہر رجب للخلال میں ہے۔

    (۲) علامہ البانی رحمہ اللہ حوالہ مذکورہ میں عثمان العثمانی کو نہیں پہچان سکے لیکن ارواء الغلیل میں اِسے پہچانا ہے اور وہاں کذاب اور وضاع کہا ہے ۔ دیکھیں:[إرواء الغلیل:۲/۳۰۷، تحت الحدیث:۵۲۷]

    (تنبیہ نمبر:۷) شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فضائل شہر رجب للخلال کی تحقیق میں زیر بحث اثر کے تحت فرماتے ہیں :

    ’’منصور بن محمد و حماد بن مدرک ، لا اعرفہما‘‘’’منصور بن محمد اور حماد بن مدرک کو میں جرح و تعدیل کے اعتبار سے نہیں جانتا ہوں‘‘[فضائل شہر رجب للخلال بتحقیق ارشاد الحق الاثری :ص: ۵۴،ح:۱۶]

    راقم باادب عرض کرتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے حماد بن مدرک رحمہ اللہ کو’’ المُحَدِّثُ الکَبِیْرُ ‘‘کہا ہے۔

    دیکھیں :  [سیر اعلام النبلاء بتحقیق مجموعۃ من المحققین:۱۴/۱۱۹، ت:۶۲]

    (خلاصۃ التحقیق) ماہِ رجب کی وجہ تسمیہ کے تعلق سے نبی کریم ﷺاور صحابہ کرام سے جو مروی ہے ، وہ سب کی سب ناقابل احتجاج اور نا قابل التفات ہے۔ واللہ اعلم۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings