Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سورہ کہف دورفتن کا ایک محفوظ قلعہ (ساتویں اور آخری قسط)

    محترم قارئین:  دین اسلام ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہے،یہ ہماری جان سے بھی بڑھ کر ہمیں محبوب ہے،یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے،کیونکہ ہماری دنیا وآخرت کی کامیابی کا انحصار دین اسلام پر موقوف ہے،ہماری زندگی کا مقصد  ایمان وعمل صالح سے معمور پاکیزہ زندگی اور آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت کا حاصل کرنا ہے،اور ان اعلیٰ مقاصد کا حصول بغیر دین اسلام کے محال ہے اللہ نے فرمایا:

    {قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاء ِ اللّٰہِ وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ}’’واقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے‘‘[یونس:۴۵]

    فتنوں کا محرک اصلی کون؟  ابلیس تمام فتنوں کا مرکزی کردار ہے،حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کیلئے انسانوں کا سب سے کھلا ہوا دشمن یہی شیطان ہے،اسی لئے اللہ نے اس کی عداوت اور دشمن سے بچنے کیلئے بار بار قرآن میں آگاہ کیا ہے۔فرمایا:

    {إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا}’’شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو‘‘[فاطر:۶]مزید فرمایا: { إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا} ’’بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘[بنی اسرائیل:۵۳] اس نے جھوٹی قسم کھا کر،خیر خواہی ظاہر کرکے،خوبصورت امید دلا کر،حضرت آدم علیہ السلام کو بہکایااور جنت سے نکلوایا، قیامت تک کیلئے مہلت مانگی تاکہ سارے انسانوں کو صراط مستقیم سے بھٹکا سکے،اور اپنے ساتھ انسانوں کو جہنم میں لے جاسکے، اسی لئے اس سے دوستی کرنا،اس کی راہ پر چلنا،اس کی اطاعت کرنا،اس کے نقش پا کی اتباع کرناشدید قسم کی گمراہی ہے،اور حماقت کی انتہاء ہے۔

    خبردار!  صراط مستقیم سے گمراہ کرنا ابلیس کا مشن ہے،یہی اس کامقصد حیات ہے۔

     اصلاح کا اعلیٰ ترین راستہ :  کتاب وسنت کی اتباع ہی وہ راستہ ہے جس سے انسان صراط مستقیم پر رواں دواں رہ سکتا ہے،استقامت کی نعمت پا سکتا ہے،شیطان کے مکر وفریب سے بچ سکتا ہے،فتنوں کو سمجھ سکتا ہے،موت تک دین پر قائم رہ سکتا ہے،اسی لئے سورہ کہف میں موسیٰ وخضر کا قصہ اسی علم اور تعلیم وتعلم کی اہمیت وضرورت کیلئے بیان کیا گیا ہے۔

    گمراہی اسی وقت آتی ہے،شیطان کی کمزور چالیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب ہم کتاب وسنت کی رہنمائی کو نظر انداز کرتے ہیں،کیونکہ اتباع کتاب وسنت پر ہدایت اور عظیم کامیابی کا وعدہ ہے۔

    {وَمَن یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا}’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیابی‘‘[ الاحزاب:۷۱]

    شیطان کی دشمنی اور رحمت الہٰی کی وسعت:  شیطان انسان کی نفسیات سے واقف ہے،اسے آہستہ آہستہ گمراہی کی طرف لاتا ہے،جسے قرآن نے’’خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ‘‘ کہا ہے،اور اس کے نقش پا کی پیروی سے منع فرمایا ہے، شیطان دین اورمعاش کے معاملے میں انسان کو معمولی کوتاہیوں اورغفلتوں کے راستے گھماتا ہوا دھیرے دھیرے دین کے بڑے بڑے معاملات سے غافل کردیتا ہے،فرائض تک سے روک دیتا ہے،بلکہ توحید جیسی بنیادی تعلیم سے بھی متنفر کردیتا ہے،اور اسی طرح روزی کے معاملے میں آہستہ آہستہ حرام کمائی ، فضول خرچی اور بخیلی جیسے تباہ کن جرائم میں ملوث کردیتا ہے،لیکن ہمیشہ اللہ کی رحمت بندے کے قریب ہی رہتی ہے،جیسے ہی بندہ احساس کرتا ہے،شرمندہ ہوتا ہے،توبہ کرکے رب کی طرف رجوع ہوتا ہے تو فوراً رحمت الہٰی اسے اپنے آغوش میں چھپالیتی ہے، اور بندے پر لگی ابلیس کی ساری گمراہیوںاورنجاستوںکو دھل دیتی ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

    {وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ}’’وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے‘‘[الشوریٰ:۲۵]

    اور خود غفور رحیم رب سارے گناہ گاروں کو رحمت ومغفرت کی بشارت سناتا ہے،تاکہ بندے مایوسی کی لعنت سے محفوظ رہیں۔ {لَاتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا}’’تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے‘‘[الزمر:۵۳]

    سورہ کہف کے چھ معنوی غار:

    سورہ کہف فتنوں کا علاج پیش کرتی ہے،دور فتن میں معنوی ودینی اسباب کیا ہیں،جن کے اختیار کرنے سے آپ فتنوں سے محفوظ رہیں گے،یا فتنوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ان میں سے اہم اسباب اور وسائل میں آپ کے سامنے رکھ رہاہوں،جنہیں مرکزی حیثیت حاصل ہے،ہمیں ان کا اہتمام کرنا ہے اور تمام مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے۔اس حصول کیلئے محنت کرنا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ چھ بڑے کشادہ غار ہیں جن سے ہم فتنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں،اپنا دفاع کرسکتے ہیں،ان کی آغوش میں پناہ لے سکتے ہیں،یہ چھ اسباب قرآن کے معنوی غار ہیں،جو موجودہ دور میں ہماری حفاظت کے ضامن ہیں،اختصار کے ساتھ وہ وسائل پیش خدمت ہیں۔

    ۱۔  قرآن کریم کی رفاقت:  اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کا آغاز ہی نعمت قرآن کے ذکر سے فرمایا ہے ’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابَ‘‘،رسول اکرم ﷺ کے بے پناہ شوق اور ہدایت کے تعلق سے بھی اس کتاب کا ذکر فرمایا ہے’’إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَٰذَا الْحَدِیثِ‘‘،اسی سورہ میں اللہ نے تلاوت قرآن کا بھی حکم دیا ہے:’’ وَاتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ‘‘ رسول اکرم ﷺ کا شرف اور امتیاز بھی یہی کتاب ہے۔آپ کا زندہ اور دائمی معجزہ بھی یہی کتاب ہے، یہ قرآن کی اہمیت کی دلیل ہے،ہمیں فتنوں سے بچانے کیلئے سب سے بنیادی وسیلہ قرآن کریم ہی ہے،اس کی تکریم ،اس سے تعلیمی،علمی وروحانی تعلق ہی میںہے،سیکھنا،سکھانا،تلاوت کرنا،عمل کرنا،اس کے فیصلوں اور تعلیمات کو نافذ کرنا،اس کی طرف دعوت دینا،ہر کام میں اس سے رہنمائی اور ہدایت لیناضروری ہے،فتنہ انسان کو کنفیوژ کردیتا ہے،اورقرآن حق وباطل کو صاف صاف بیان کرتا ہے،کیونکہ قرآن الفرقان ہے،فتنہ انسان کو اندھا کردیتا ہے،اور قرآن قلب ونظر کو پر نور اور بابصیرت بنادیتا ہے،کیونکہ قرآن نور ہے۔فتنہ گمراہ کردیتا ہے اور قرآن ہر فکر وعمل کی اصلاح کرتا ہے،اور ہر کجی اور ٹیڑھاپن کو سیدھا کردیتا ہے،گمراہوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھاتا ہے،کیونکہ قرآن’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے،فتنہ بے چینی اور اضطراب پیدا کرتا ہے،اور قرآن سکون قلب عطا کرتا ہے۔کیونکہ قرآن ذِکر اللہ ہے’’ أَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب‘‘سنو!اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔فتنے کالی رات کی طرح ڈراؤنے ہوتے ہیں اور قرآن نور اور روشنی ہے،بشارت اور خوش خبری سناتا ہے، اس لئے قرآن سے گہری دوستی اس پرفتن دور میں بے حد ضروری ہے،قرآن سے جتنی قربت ہوگی،فتنوں سے اسی بقدر حفاظت ہوگی۔

    ۲۔  دعوت الی اللہ:  بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اور اللہ کی طرف بلانا امت محمدیہ کا سب سے بڑا کام ہے،یہی کام اس امت کی پہچان ہے،خیر امت کا لقب بھی اسی کام کی وجہ سے ہی ملا، اور اصلاح سماج کا مقصد بھی اسی سے پورا ہوگا،اللہ کی نصرت وتائید ملے گی،نبوت ورسالت اور نزول کتاب کا مقصد بھی یہی ہے،اصحاب کہف نے اپنی ایمانی زندگی دعوت کی راہ میں قربان کردی،اللہ نے ان کے ایمان اور دعوت کی تعریف بیان فرمائی ہے:

    {وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوبِہِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}’’ہم نے ان کے دل مضبوط کردیئے تھے جب کہ یہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان وزمین کا پروردگار ہے‘‘ [الکھف:۱۴]

    بلکہ ان پر حجت پوری کرتے ہوئے ان سے دلائل وبراہین کا مطالبہ بھی کیا:

    {ہٰؤُلَائِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ آلِہَۃًلَوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْہِمْ بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ‘‘’’یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے‘‘[الکہف:۱۵]

    اسی طرح دوباغ کا مالک کافر جب حد سے بڑھنے لگا تو فوراً ایک مومن نے اسے اللہ کی دعوت پیش کی،اسے دین کی بات سمجھائی،اسے نصیحت کرنے لگا،دعوت الی اللہ ہماری طاقت وقوت اور کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے،آج ہم ذلیل ہیں،دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں،اس کاایک بنیادی سبب دعوت الی اللہ سے اعراض اورروگردانی ہی ہے،یہ انبیاء کا مشن ہے،یہ قرآن کا مشن ہے،اسی مشن کی وجہ سے ہی عرب سے نکل کر اسلام ہمارے گھروں تک آیا،اگر نہ آتا،تو آج ہم بھی کروڑوں دیوی دیوتاؤں کو پوج رہے ہوتے۔شیطان کی اتباع کررہے ہوتے،لیکن الحمد للہ اسی دعوت کی برکت سے ہمارے آباء واجداد ایمان لائے،اسلام میں داخل ہوئے،آج دوبارہ اسی مشن کو شروع کرنے اور تجدید کی ضرورت ہے۔تاکہ ہمیں اللہ کی مدد مل سکے اور ہم عزت ووقار کی زندگی حاصل کرسکیں۔

    ۳۔  اچھی رفاقت:  ماحول کا اثر انسان کے ذہن ودماغ اور دین واخلاق پر بہت گہرا ہوتا ہے،بری مجلسیں اچھے بھلے لوگوں کو بگاڑ دیتی ہیں،اسی لئے اللہ نے نبی ﷺ کو نیک لوگوں کی رفاقت کا حکم دیا اور صالح دوستوں کی پہچان بھی بتائی،فرمایا جو لوگ اخلاص کے ساتھ صبح وشام رب کی عبادت کرتے ہیں،اللہ کی رضا وخوشنودی کے متلاشی ہیں،سرکشی اور ریاکاری سے محفوظ ہیں،یہی لوگ صالح ہیں،ان کو لازم پکڑو،اور صبر کے ساتھ انہیں رفیق بناؤ،اور جس کا دل اللہ کے ذکر سے غافل ہو، خواہشات کا پجاری ہو،الٹے سیدھے،افراط وتفریط پر مبنی کام کرتا ہو،یہ بہت ہی برا انسان ہے نہ اس کی بات مانیں،نہ اس کی دوستی کریں،بری دوستی ہر حال میں نقصان دہ ہے،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،بروز قیامت انسان افسوس کرے گا، اپنے ہاتھ چبائے گا،کہے گا کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا،لیکن وہاں شرمندگی سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا،اور دنیا میں جو برے لوگ ہیں وہ بھی انسان کا نام اور کام،دین ودنیا دونوں برباد کردیتے ہیں،لہٰذا آج بصیرت کی ضرورت ہے، نیک رفاقت تلاش کرنے کی ضرورت ہے،اس کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ پہلے آپ خود اپنے آپ کو صالح بناؤاور پھر اچھے لوگوں سے دوستی بناؤ،بہترین دوستی ہم سب کی بنیادی ضرورت ہے،اسی لئے بطور نمونہ اللہ نے انبیاء اور صالحین اور اہل ایمان کے حالات بیان فرمائے ہیں،تاکہ آپ ان سے عبرت اور نصیحت حاصل کرو،اور سماج،سوشل میڈیا وغیرہ میں بھی ہمیں بہترین دوست ہی منتخب کرنا چاہیے،فتنوں سے محفوظ رکھنے میں ان صالح دوستوں کا بہت گہرا تعلق ہے،بسا اوقات بچے بری دوستی میں پڑ کر بگڑ جاتے ہیں،اگر والدین بچوں کو اپنا دوست بنالیں،تو بچوں کو ادھر ادھر بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ضرورت ہے کہ ہم اچھے اور نیک دوست کا انتخاب کریںاور فتنوں سے بچاؤ کریں۔

    ۴۔  آخرت پر ایمان:  آخرت پر ایمان اللہ کی عظیم ترین نعمت ہے،اہل ایمان کے دلوں کو خوش کردینے،حوصلہ افزائی کرنے،جذبۂ صبر کو بیدار کرنے میں یہ عقیدہ بے حد اہم ہے،یہ ایمان کا پانچواں رکن ہے،اس سے برائی سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کا بے پناہ شوق ملتا ہے،یہ عقیدہ دل کو سکون عطا کرتا ہے،اللہ کی ربوبیت اور رحمت کی بے مثال دلیل ہے،آخرت کی وسعت انسانی فکر سے کہیں زیادہ وسیع ہے،سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھو جو پانی انگلی میں ہے وہ دنیا ہے اور آخرت پورے سمندر کی طرح وسیع اور لامحدود ہے۔ایمان باللہ کے ساتھ سب سے زیادہ اسی عقیدہ کو دہرایا گیا ہے،تمام انبیاء کی بنیادی دعوت میں اہم ترین دعوت آخرت کی تعلیم تھی۔صالح لوگوں کیلئے ایمان بالیوم الآخر  ایک ربانی تحفہ ہے،بشارت اور خوش خبری ہے،فرمایا گیا:

    {أُولَٰئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ  وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ}’’یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں‘‘[لقمان:۵]

    برے لوگوں کیلئے آخرت ایک دھمکی،وارننگ،تنبیہ ہے،اللہ نے فرمایا:

    {وَأَنَّ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا أَلِیمًا}’’اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘[بنی اسرائیل:۱۰]

    نفس انسانی کی اصلاح کیلئے ایمان باللہ کے بعد سب سے اثردار عقیدہ یہی آخرت پر ایمان ہی ہے۔اسی طرح مختلف قسم کے فتنوں سے بچنے کیلئے آخرت پر ایمان بہت ہی اہم ہے،اسی لئے اللہ نے اس سورہ مبارکہ میں آخرت، قیامت،جنت،جہنم،عذاب،اخروی کامیابی اور ناکامی کا ذکر کئی مقام پر کیا ہے۔اور سورہ مبارکہ کی ابتداء اور انتہاء میں بھی آخرت،رب سے ملاقات،وقوع قیامت کا ذکر موجود ہے،یہ اس کی اہمیت کی دلیل ہے،اس لئے ہمیشہ ہمارے قلب وروح کی گہرائی میں آخرت کے دن کا پورا پورا احساس باقی رہنا چاہئے۔مقصد کی عظمت سے صبر وبرداشت کا دائرہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔دل کی وسعت میں اضافہ ہی ہوتا ہے،عزائم سدا جوان ہی رہتے ہیں،اس لئے آخرت کا علم حاصل کریں،فتنوں سے محفوظ رہیں،جنت اور اللہ کی رضا کو حاصل کریں۔

    ۵۔  دنیاوی زندگی کا گہرا علم:  دنیا بہت خوبصورت اور دلکش ہے،لذت کے سامان بے شمار ہیں،دلفریب اور دلآویز مناظر سے کائنات مالا مال ہے،انسان فطری طور پر مال سے بے پناہ محبت کرتا ہے،عورت اس کی کمزوری ہے،کوئی مقناطیس ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے،اور بھی بے شمار سامان تعیش اسے دعوت دے رہے ہیں، شیطان انسان کو دھوکہ دینے کیلئے ہر بری چیز کو مزین کرکے پیش کررہا ہے،اب معاملہ کشمکش کا ہے،ایک طرف دنیا کی یہ دلربائی اور دوسری طرف رب العالمین کی دعوت ہے’’وَاللّٰہُ یَدْعُو إِلیٰ دَارِ السَّلَامِ‘‘ ’’اور اللہ سلامتی کے گھر جنت کی طرف بلا رہا ہے‘‘اسی لئے اللہ نے سورہ کہف آیت نمبر۴۵،۴۶میں دنیا کی بے ثباتی، ناپائیداری، بے وقعتی کو بڑی حقارت کے ساتھ بیان کیا ہے،کھیت کی فصل کے آغاز،عروج،زوال،تباہی،مٹ جانے کو دنیا کی زندگی سے تعبیر فرمایا ہے، دنیا کو استعمال کرو لیکن محبت نہیں،فائدہ اٹھاؤ لیکن مقصد نہ بناؤ،ہمیشگی والی آخرت پر معمولی دنیا کو ترجیح نہ دو، ورنہ تباہ ہوجاؤگے:{فَأَمَّا مَن طَغیٰ وَآثَرَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا فَإِنَّ الْجَحِیمَ ہِیَ الْمَأْویٰ}

    ۶۔  اخلاص:  فتنوں کا محرک اصلی ابلیس ہے،اور اس نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اللہ کے مخلص بندوں پر اس کا جادو نہیں چل سکتا ہے’’الا عبادک منہم المخلصین‘‘اخلاص جن کی خوبی ہوگی شیطان انہیں گمراہ نہیں کرپائے گا، رب نے بھی مخلصین کو اپنی خاص حفاظت میں لے رکھا ہے،ہر کام رب کی خوشی کیلئے انجام دینا اخلاص کہلاتا ہے،دنیا میں اعمال صالحہ کی خیر وبرکت اور آخرت میں کامیابی کیلئے اخلاص بنیادی شرط ہے،اور آخرت کی کامیابی تو اخلاص کی وجہ سے ہی مل سکتی ہے،سورہ کے آخر میں اللہ نے اخلاص وامان سے عاری کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والا کہا ہے،کیونکہ کفارومشرکین،منافقین اورریاکاروں،شہرت پسندوں کے اعمال برباد کردئے جائیں گے، ان کے اعمال کا کوئی بھی اعتبار نہیں ہوگا۔

    سورہ کہف کی آخری آیت میں مزید اخلاص کی تاکید کی گئی ہے،اور شرک اصغر یعنی ریاکاری سے منع کیا گیا،رضاء الہٰی کے علاوہ کسی اور مقصد کیلئے کیا جانے والا عمل مردود ہے،اللہ قبول نہیں فرماتا ہے،دراصل رب انہی کاموں کا بدلہ عطا فرمائے گا جو خالص اس کی رضاء کیلئے انجام دیئے گئے ہوں گے،اسی لئے اللہ نے آخرت میں رب سے ملاقات پر یقین رکھنے والوں کو عمل صالح کا حکم دیا اور ہر قسم کے شرک اور ملاوٹ سے منع فرمایا:

    {فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَائَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَدًا}’’پس جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے‘‘[الکہف:۱۱۰]

    لہٰذا ہماری کاوشوں کا مقصد رضائے الہٰی کی تلاش ہونی چاہیے،اخلاص کے ساتھ تمام اعمال کرنا چاہئے۔تاکہ دنیا وآخرت کے فتنوں سے محفوظ رہیں،رب کریم کی رحمت کے مستحق بن سکیں،اور اللہ کے مخلص بندوں کے ساتھ خوشی خوشی جنت میں داخل ہوسکیں،کیونکہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔الحمد للہ رب العالمین۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings