-
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (انیسویں قسط ) (ب) طلاق البتہ پر محمول کرنا
بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ صحیح مسلم والی حدیث میں تین طلاق سے مراد ’’طلاق البتہ‘‘ ہے ، چونکہ’’ طلاق البتہ‘‘ تین طلاق کو بھی کہتے ہیں اس لئے راوی نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے اسے تین طلاق سے تعبیر کردیا ۔
عرض ہے کہ:
اولًا : یہ تاویل قطعاً غلط ہے کیونکہ اس حدیث کے کسی بھی طریق میں’’ البتہ‘‘ کا لفظ وارد نہیں ہے جبکہ یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے۔
ثانیاً : عہد ِرسالت میں’’ طلاق البتہ‘‘ صرف اس طلاق کو کہا جاتا تھا، جو سنت کے مطابق تیسری بار دی جاتی تھی جو کہ طلاق بائن بینونۃ کبریٰ ہوتی تھی ، یعنی طلاق رجعی کو’’ طلاق البتہ ‘‘نہیں کہاجاتا تھا ، مثلاً سنت کے مطابق ایک ہی طلاق دی گئی ، یا سنت کے مطابق دوسری طلاق دی گئی تو اس کو ’’طلاق البتہ‘‘ نہیں کہا جاتا تھا، بلکہ سنت کے مطابق تیسری طلاق ہی کو ’’طلاق البتہ ‘‘کہا جاتا تھا۔
اور اس حدیث کے اندر عہد صحابہ کے ساتھ ساتھ عہد رسالت میں بھی تین طلاق کو ایک ماننے کا ذکر ہے جو اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس سے طلاق البتہ مراد نہیں ہے ۔کیونکہ عہد ِرسالت میں طلاق البتہ کو ایک ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ سنت کے مطابق الگ الگ وقت میں دی گئی تین طلاق کو بھی ایک کہا جاتا تھا اور یہ ناممکن ہے اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
نوٹ:۔ طلاق البتہ کی مزید تفصیل اور اس سلسلے کی صحیح وضعیف روایات کی وضاحت آگے اپنے اپنے مقام پر آرہی ہے۔
ثالثاً : عہد ِصحابہ میں بائن کی نیت سے دی گئی ایک طلاق یا بیک وقت دی گئی تین طلاق کو بھی البتہ کہا جانے لگا ، بلکہ البتہ کے صیغے سے ہی طلاق دی جانے لگی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے کبھی بھی تین طلاق قرار نہیں دیا بلکہ اسے ایک ہی طلاق شمار کیا ،چنانچہ:
امام سعید بن منصور رحمہ اللہ (المتوفی۲۲۷)نے کہا:
حدثنا سعيد قال: نا سفيان، عن ابن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد اللّٰه بن شداد، أن عمر بن الخطاب، رضي اللّٰه عنه قال: البتة واحدة، وهو أحق بها۔
عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:طلاق البتہ ایک شمار ہوگی اور شوہر اپنی بیوی کو واپس لینے کا حق رکھتا ہے۔
[سنن سعید بن منصور:۱؍۴۳۱،وإسنادہ صحیح ، ومن طریق سفیان أخرجہ أیضاً ابن أبی شیبہ فی مصنفہ :۵؍۶۶،وعبدالرازق فی مصنفہ :۶؍۳۵۷،وأخرجہ أیضاً سعید فی سننہ:۱؍۴۳۱،من طریق ہشیم ، وابن أبی شیبہ فی مصنفہ:۵؍۶۶،من طریق ابن ادریس ، کلاہما (ہشیم و ابن ادریس) عن الشیبانی ، عن الشعبی بہ]
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث میں طلاق البتہ مراد نہیں ہے کیونکہ طلاق البتہ کو تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی تین طلاق نہیں قرار دیا بلکہ اسے ایک ہی طلاق شمار کیا کرتے تھے ۔
(ج) تاکید والی طلاق ثلاثہ پر محمول کرنا
ابن حجر رحمہ اللہ ابن سریج شافعی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فقال بن سريج وغيره يشبه أن يكون ورد فى تكرير اللفظ كأن يقول أنت طالق أنت طالق أنت طالق وكانوا أولا على سلامة صدورهم يقبل منهم أنهم أرادوا التأكيد فلما كثر الناس فى زمن عمر وكثر فيهم الخداع ونحوه مما يمنع قبول من ادعي التأكيد حمل عمر اللفظ على ظاهر التكرار فأمضاه عليهم‘‘
’’ابن سریج وغیرہ نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث اس سلسلے میں وارد ہو کہ پہلے لوگ ایک طلاق دیتے وقت محض الفاظ کو دہرا دیتے تھے اوریوں کہتے تھے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، اور شروع میں ان کے دل صحیح وسالم تھے اس لیے ان کا یہ بیان قبول کرلیا جاتا تھا کہ انہوں نے محض تاکید کے ارادے سے طلاق کا لفظ دہرا دیا ہے ، لیکن جب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ چیز کثرت سے ہونے لگی اور لوگوں کے اندر دھوکہ بازی وغیرہ بہت ہونے لگی تو یہ چیز ان کے دعوائے تاکید کو قبول کرنے سے مانع ہوگئی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے الفاظ کو ظاہری تکرار پر ہی محمول کیا اور ان کے طلاق کو ان پر نافذ کردیا‘‘
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۴]
عرض ہے کہ:
اولًا : اگر ایسی بات ہے تو یہ چیز بھی اس روایت کے کسی ایک طریق میں آنی چاہئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔
ثانیاً : ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری حدیث سے یہ ثابت ہے کہ عہد رسالت میں تین طلاق بغیر نیت تاکید وتکرار سے دی گئی اور نبی e نے اسے ایک طلاق قراردیا ، جیساکہ رکانہ کے واقعہ سے متعلق صحیح حدیث آگے آرہی ہے۔
ثالثاً : صحابہ وتابعین کے بارے میں یہ کہنا کہ پہلے ان کے دل صحیح وسالم تھے بعد میں ان میں دھوکہ بازی کی کثرت ہوگئی اس لیے ان کے بیان کا اعتبار نہیں کیا گیا ، بہت بڑی جسارت ہے ، ان سے غلطیاں تو ہوسکتی ہیں لیکن ان میں ایسی دھوکہ بازی کی کثر ت ہونا کہ یہ خلاف واقعہ بیان دینے لگے ، یہ اس دور کے لوگوں پر بکثرت جھوٹ بولنے کی تہمت دھرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟
ابومالک کمال ابن السید سالم لکھتے ہیں:
’’ثم إنه لا وجه مقبول للقول بإن الخداع كثر فى الناس زمان عمر، لأن الناس فى زمنه هم أصحاب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى غالبيتهم العظمي ، ومن وجد فيهم من التابعين فهم تلامذتهم ، وزمان عمر هو خيرالازمان بعد زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وزمن أبي بكر فكيف يصح القول بكثرة الخداع فيهم؟ ‘‘
’’نیز یہ کہنے کی کوئی مقبول وجہ نہیں ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دھوکہ بازی عام ہوچکی تھی، کیونکہ ان کے زمانے کے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور ان میں اکثریت کبار صحابہ کی تھی ، اور اس وقت جو تابعین تھے وہ انہی صحابہ کے شاگرد تھے ، اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ عہد رسالت اور عہدصدیقی کے بعد سب سے بہترین زمانہ تھا تو یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں دھوکہ دہی عام ہوچکی تھی ‘‘؟
[صحیح فقہ السنہ :ص:۲۸۸]
بغیر کسی ثبوت ودلیل کے محض ظن وگمان کے سہارے خیر القرون کے لوگوں پر بکثرت دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے کی تہمت کسی بھی صور ت میں قبول نہیں ہے ۔
فریق مخالف سے مطالبہ ہے کہ اس طرح کی جسارت کرنے سے پہلے کوئی ایک ایسی صحیح روایت پیش کریں جس میں اس دور کے کسی شخص نے تین طلاق دینے کے بعد یہ دعویٰ کیا ہو کہ میں نے تو صرف تاکیدو تکرار کے لئے تین طلاق دیا تھا ۔
اورستم تو یہ ہے کہ بعض نے خیرالقرون کے لوگوں پر دھوکہ دہی اور غلط بیانی کی تہمت لگاکر ان کی طرف سے طلاق میں تاکید وتکرار کے دعوے کو ناقابل قبول بتادیا گیا ، لیکن یہ بھول گئے کہ بعد میں اپنے اپنے دور کے لوگوں کی طرف سے طلاق میں اس طرح کے دعوے کو علماء نے بلکہ چاروں مذاہب کے علماء نے قابل قبول بتایا ہے جیساکہ اس طرح کاایک حوالہ آگے آرہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ بعض نے تو یہ بھی صراحت کردی ہے کہ اگرشوہر طلاق میں تاکید کا دعویٰ کرے اور اس کی بیوی اس کو جھٹلا تے ہوئے استئناف وتجدید کا دعویٰ کرے تو بھی شوہر کا دعویٰ ہی قبول ہوگا کیونکہ وہ اپنی نیت کا اعتراف کررہاہے البتہ اس سے قسم بھی لے لی جائے گی، چنانچہ:
ابو اسحاق الشیرازی (المتوفی۴۷۶)فرماتے ہیں:
’’وإن قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق وادعي أنه أراد التأكيد وادعت المرأة أنه أراد الاستئناف فالقول قوله مع يمينه لأنه اعترف بنيته ‘‘
’’اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیتے ہوئے کہا:تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کوطلاق ہے، تجھ کو طلاق ہے ، اور پھرتاکید کا دعویٰ کرے اور اس کی بیوی استئناف وتجدید کا دعویٰ کرے تو شوہر کا دعویٰ ہی قابل قبول ہوگا قسم کے ساتھ کیونکہ وہ اپنی نیت کا اعتراف کررہا ہے‘‘
[المہذب فی فقۃ الإمام الشافعی للشیرازی:۳؍۴۵]
سوال یہ ہے کہ کیا بعد کے ادوار کے لوگوں کے دل خیرالقرون کے لوگوں سے زیادہ صحیح وسالم ہوگئے ؟؟؟
اوروہ اس حد تک پاکباز اور متقی ہوگئے تھے کہ اگران کے دعوائے تاکید کو ان کی بیوی جھٹلا بھی دے تو بھی اس پر کچھ فرق پڑنے والا نہیں ؟
پھر آخر خیر القرون کے صحابہ وتابعین کا کیا قصور تھا کہ ان کے دعوائے تاکید کو یکسر جھٹلا دیا گیا ، حتیٰ کی ان کی بیویاں بھی ان سے اتفاق کریں تو بھی ان سے دھوکہ دہی کی تہمت رفع نہیں ہوسکتی!سبحان اللہ! ھذا بھتان عظیم !
اللہ ان بزرگوں کی مغفرت فرمائے جو تقلیدی بھنور میں پھنس کر محسوس ہی نہ کرسکے ، کہ ان کی زبان وقلم سے کیا صادر ہورہا ہے ۔
بہرحال یہ تاویل خیرالقرون کی اکثریت پر بغیر کسی دلیل وبرہان کے محض وہم وگمان کے سہارے لگائے گئے اتہام پر مبنی ہے لہٰذا قطعاً باطل و مردود ہے۔
اس تاویل کو پیش کرنے والے بعض حضرات کو شاید اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس طرح تو خیرالقرون کے لوگوں پر سنگین تہمت لگتی ہے ، اس لیے انہوں نے اس تاویل میں اس طرح ترمیم کردی کہ پہلے لوگ تاکید کے لیے تین دیتے تھے تو انہیں ایک ہی مانا جاتا تھا، لیکن بعد میں لوگ تجدید کی نیت سے تین دینے لگے تو ان کی نیت کے اعتبار سے تینوں طلاقیں ان پر نافذ کردی گئی، چنانچہ:
امام ابو العباس القرطبی رحمہ اللہ (المتوفی۶۵۶)فرماتے ہیں:
’’قال غير البغداديين:المراد بذلك الحديث من تكررَّ الطلاق منه، فقال:أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق۔فإنها كانت عندهم محمولة فى القدم على التأكيد۔فكانت واحدة۔وصار الناس بعد ذلك يحملونها على التجديد، فأُلزِمُوا ذلك لَمَّا ظهر قصدَهم إليه۔ويشهد بصحة هذا التأويل قول عمر رضي اللّٰه عنه :إن الناس قد استعجلوا فى أمر كانت لهم فيه أناة ‘‘
’’غیر بغدادی لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث سے وہ لوگ مراد ہیں جو لفظ طلاق کی تکرار کرتے ہوئے اس طرح طلاق دیتے تھے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو پہلے کے لوگ تاکید کے لیے ایسا کہتے تھے اس لیے ان کی طلاق ایک شمار ہوتی تھی ، لیکن بعد کے لوگ تجدید کی نیت سے ایسا کہنے لگے اس لیے ان کی نیت کے مطابق ان کی تین طلاق ان پر نافذ کردی گئی ، اس تاویل کے درست ہونے کی تائید عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اس جملے سے بھی ہوتی ہے کہ :لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی ‘‘
[المفہم للقرطبی:۴؍۲۴۳]
عرض ہے کہ :
بعد کے لوگ جب خود ہی تجدید مراد لیتے تھے ، یعنی خود ہی تین طلاق کو شمار کرتے تھے ، تو اس میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی کہ’’فلو أمضيناه عليهم؟ ‘‘ ’’اگر ہم اس کو نافذ کردیں تو ؟‘‘ اور پھر آگے چل کر بالاخر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے”فامضيناه عليهم؟ ‘‘ (ان طلاقوں کو ان پر نافذ کردیا )!
سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جب خود ہی تجدید کی نیت سے تین طلاق دیتے تھے ، یعنی خود ہی تین کو تین ہی شمار کرتے تھے ، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تین شمار کرنے کے لیے تنفیذی کارروائی کی ضرورت کیوں پڑی ؟
اگر کہا جائے کہ یہ لوگ تجدید کی نیت سے تین طلاق دے کر تاکید کا دعویٰ کرتے تھے تو پھر وہی اتہام والی جسارت کا اعادہ ہوگیا جس کا بطلان اوپر واضح کیا جاچکاہے۔
اور اگر کہا جائے کہ یہ لوگ تجدید کی نیت سے تین طلاق دے کر بھی اسے ایک ہی شمار کرتے تھے ، تو پھر یہی تو ہمارا کہنا ہے کہ یہ لوگ تین طلاق دے کر بھی ایک ہی شمار کرتے تھے ، یہی عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال اور اس سے پہلے عہدصدیقی اور اس سے بھی پہلے عہد نبوی میں معمول رہا ہے کہ لوگ وہ بیک وقت تین طلاق دینے کے بعد اسے ایک ہی شمار کرتے تھے۔والحمدللہ۔
اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ ’’إن الناس قد استعجلوا فی أمر کانت لہم فیہ أناۃ‘‘ (لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کے لئے مہلت ووسعت تھی) اس سے طلاق اصل یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت میں ایک ہی دفعہ طلاق دینے کی تعلیم ہے جس کے بعد رجوع یا نکاح جدید کی مہلت ورخصت ہے۔اورایک سے زائد بار طلاق دینا خواہ تاکید و تکرار ہی کے لیے ہو یہ طلاق اصل نہیں ہے ،اس لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کایہ جملہ طلاق تاکید کے لیے قطعاً نہیں ہے۔
نوٹ: اس ترمیم شدہ تاویل کے بقیہ دو جوابات وہی ہیں جو اوپر اصل تاویل کے دئے گئے ہیں ۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)