-
علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات (چھٹی قسط) دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب و ادیان، ہر ملل ونحل کے مصادر ہوا کرتے ہیں، مصادر ہی سے کسی بھی مذہب کی صحت و بطلان کی پرکھ ہوتی ہے، جہاں تک مذہب اسلام کی بات ہے تو اس کے دو ہی مصادر ہیں، اللہ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سنت، اسی لئے اسلامی عقائد کی بنا انہی دونوں پر منحصر ہے، چنانچہ دینی و عقدی مسائل کے لئے کتاب وسنت کو اساسی مصادر تسلیم کرنا، ساتھ ہی اخذ و استنباط میں فہم سلف صالحین کا اعتبار کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ کتاب و سنت کے علاوہ ایسے بھی چند فرعی مصادر ہیں، جنہیں معرض استدلال میں استقلال تو حاصل نہیں ہے، مگر مسائل کی تائید و تقویت میں ان کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔
اسلامی عقیدہ کے اصلی مصادر:قرآن کریم اور سنت نبویہ
أولاً: قرآن کریم
قرآن کریم، یہ دستور حیات، منہج زندگی، رحمت و برکت کا خزینہ، ارشاد و ہدایت کا ذریعہ اور دلوں کی شفا ہے، جو دنیا کا سب سے عظیم کلام ہے، کیونکہ یہ اللہ رب العزت کا کلام ہے۔
قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے، جس نے ہر مسئلے کا حل پیش کیا ہے، لہٰذا اس کی اتباع ہر شخص پر واجب و ضروری ہے، اس پر مندرجہ ذیل نصوص دلالت کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِہِ أَوْلِیَائَ}’’تم پر تمہارے رب کی طرف سے جو (کتاب)نازل کی گئی ہے اس کی پیروی کرو، اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو‘‘[الاعراف:۳]
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
{اتَّبِعْ مَا أُوحِیَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ}’’جو (حکم)آپ کے پر وردگار کی طرف سے آپ کے پاس آتا ہے اسی کی پیروی کریں، اس (پروردگار)کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور مشرکوں سے کنارہ کشی اختیار کریں‘‘[الأنعام:۱۰۶]
ثانیاً:سنت نبوی
سنت سے مراد: ہر وہ قول، یا فعل، یا تقریر جو نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے ثابت ہو۔
لہٰذا عقیدہ کے باب میں ہر اس امر کا اعتبار ہوگا جو نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو، اور اس پر مندرجہ ذیل نصوص دلالت کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
{قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ}’’اے (نبیﷺ لوگوں سے)کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ (بھی)تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا، اور اللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے‘‘[سورۃ آل عمرن:۳۱]
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
{وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا}
’’اور رسول(ﷺ)جو چیز تم کو دیں وہ لے لو، اور جس سے منع کریں (اس سے)باز رہو‘‘[ الحشر: ۷]
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ، فَاجْتَنِبُوہُ وَمَا أَمَرْتُکُمْ بِہِ فَافْعَلُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘’’جس چیز سے میں تم کو منع کروں اس سے دور رہو، اور جس چیز کا میں حکم دوں جتنا ہو سکے اسے انجام دو‘‘ [صحیح البخاری:۷۲۸۸،وصحیح مسلم:۱۳۳۷]
مذکورہ نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قرآن کریم وسنت نبوی ہی کو بحیثیت مصدر اولیت حاصل ہے، لہٰذا ہر طرح کے مسائل کے حل کے لئے انہی مصادر اصیلہ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول صراحتاً دلالت کرتا ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللّٰہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ }’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)کی فرمانبرداری کرو، اور جو تم میں سے امراء (علماء اور اصحاب اقتدار)ہیں ان کی(بھی اطاعت کرو)، اور اگر کسی چیز میں تم میں اختلاف واقع ہو، تو اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور (اس کے)رسول (ﷺ کے حکم)کی طرف رجوع کرو‘‘[ النساء:۵۹]
عقیدہ کے باب میں صرف منہج سلف صالح کا اعتبار
نصوص شرعیہ کو سمجھنے، اور ان سے استنباط و استدلال کرنے میں منہج سلف صالحین، اور ان کے طریقہ کار کو اپنانا ضروری ہے، اس پر مندرجہ ذیل نصوص دلالت کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ} ’’مہاجرین اور انصار میں سے جن لوگوں نے سبقت کی (سب سے)پہلے (ایمان لائے)، اور جنہوں نے نیک کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اس سے راضی ہوئے، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اور ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے‘‘[التوبۃ:۱۰۰]
اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّیٰ وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِیرًا}’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد رسول(ﷺ )کی مخالفت کرے گا، اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے گا، تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے، اور (قیامت کے دن)جہنم میں داخل کریں گے، اور وہ بری جگہ ہے‘‘[ النساء:۱۱۵]
نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین وعضوا علیہا بالنواجذ۔‘‘’’میری سنت کو اور خلفائے راشدین کے طریقہ کار کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنا، اور اسے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لینا‘‘[جامع الترمذی:۲۶۷۶،وسنن أبی داود:۴۶۰۷،وسنن ابن ماجہ:۴۲]شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے:[إرواء الغلیل:۲۴۵۵]
یقینا مذکورہ نصوص شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ فہم سلف، ان کا منہج و طریقہ کار کو اپنانا مسلمانوں کی شان و پہچان ہے۔
آج ہمارے پاس قرآن محفوظ ہے، سنت نبویہ مدون ہے، اقول سلف مرتب ہیں، اور ان کے طریقہ کار بھی مبین ہیں، مگر افسوس ہے کہ ہوس کے ٹھیکیداروں نے تاویل کے نام پر عقلی گھوڑے دوڑا کر تحریف وتعطیل کا سہارا لیا، جس کی وجہ سے طرح طرح کی بدعتیں معرض وجود میں آئیں…کاش کہ منہج سلف کی طرف رجوع کیا جاتا!
منہج سلف کو اپنانا ایک مسلمان کے لئے کتنا ضروری ہے، ائمہ کرام کے ان اقوال سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’من کان مستنا فلیستن بمن قد مات، فإن الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ، أولئک أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم أبر ہذہ الأمۃ قلوباً وأعمقہا علماً، وأقلہا تکلفاً، قوم اختارہم اللّٰہ بصحبۃ نبیہ وإقامۃ دینہ فاعرفوا لہم حقہم وفضلہم، فقد کانوا علی الہدی المستقیم‘‘’’جو سنت کا متلاشی ہے وہ اپنے پُرکھوں کی سنت کو لازم پکڑے، کیونکہ جو زندہ ہیں ان پر فتنوں کے خطرات ہیں، وہ محمد ﷺ کے ساتھی ہیں، اس امت کے سب سے صاف و شفاف دل والے ہیں، گہرے علم کے مالک ہیں، تکلف سے عاری ہیں، وہ ایسی جماعت ہے جسے اللہ نے اپنے نبی کی صحبت کے لئے اختیار کیا تھا، اور اپنے دین کی سربلندی کے لئے انتخاب فرمایا تھا، تو ان کے حقوق و فضائل کو جانو، کیونکہ یہی لوگ راہ راست پر گامزن تھے‘‘[جامع بیان العلم وفضلہ:۲؍۹۷]
۲۔ عمر بن عند العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سن رسول اللّٰہ وولاۃ الأمور من بعدہ سننا، الأخذ بہا تصدیق لکتاب اللّٰہ، واستکمال لطاعۃ اللّٰہ تعالی، وقوۃ علی دین اللّٰہ، من اہتدی بہا مہتدی، ومن استنصر منصور، ومن خالفہا واتبع غیر سبیل المؤمنین؛ ولاہ اللّٰہ ما تولی، وأصلاہ جنہم وساء ت مصیرا‘‘’’اللہ کے رسول ﷺ اور ان کے بعد امراء نے چند طریقوں کو بیان فرمایا ہے، انہیں لازم پکڑنا (در اصل )اللہ کی کتاب کی تصدیق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تکمیل ہے، اور اس کے دین کی قوت(کا سبب) ہے، جس نے بھی انہیں ہدایت کا ذریعہ سمجھا (وہ)راہ یاب ہو گیا، اور جس نے انہیں مدد کا باعث سمجھا (وہ)کامیاب ہو گیا، اور جنہوں نے اس روشن راہ کو چھوڑ کر غیروں کے دراوازے پر دستک دی،ان کی خبر خود اللہ ہی لے گا، اور ایسوں کو جہنم رسید کرے گا، جو نہایت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘[الشریعۃ للآجری:ص:۴۶، و شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ للالکائی:۱؍۹۴]
امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ منجملہ ان علماء سلف میں سے ایک ہیں، جن کے اقوال منہج سلف کے التزام میں اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سلف کے ان موتیوں سے یہ بات روشن ہو گئی کہ منہج سلف کو اپنانے میں ہی ہر قسم کی بھلائی پنہا ںہے، اسی سے سعادت وکامیابی ممکن ہے، اور یہی وجہ کہ اہل السنہ والجماعہ اہل الحدیث نے اس کا التزام کیا ہے، اور اسی سے ان کے اور اہل بدعت کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔
اسلامی عقیدہ کے فرعی مصادر:عقل اور فطرت
عقیدہ کے باب میں عقل و فطرت کو فرعی مصادر کی حیثیت حاصل ہے۔
لہٰذا جب تک عقل و فطرت کتاب وسنت سے معارض نہ ہوں، ان کا ایک خاص اعتبار ہے۔
أولاً:عقل
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس باب میں اہل السنہ والجماعہ اہل الحدیث کا منہج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور وہ سرے سے معقولات صریحہ کا انکار کرتے ہی نہیں ہیں، بلکہ معقولات صریحہ سے حجت پکڑتے ہیں، جیسا کہ اس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے، اور اس پر دلالت کرتا ہے، غرض کہ تمام مطالب الٰہیہ پر قرآن عقلی دلائل، اور یقینی براہین سے دلالت کرتا ہے‘‘[الصفدیۃ:۱؍۲۹۵]
بے شک شریعت اسلامیہ نے کوئی بھی ناممکن چیز کو ثابت نہیں کیا ہے، مگر کچھ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے عقل حیران رہ جاتی ہے، اور ان کے ادراک سے قاصر ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’ربوبیت و الوہیت کی وحدانیت میں سے ہر ایک اگرچہ ضروری و بدیہی فطرت، اور نبوی الہٰی شریعت سے معلوم ہے، مگر وہ(شریعت میں) پیش کردہ مثالوں سے بھی معلوم ہے، جو (درحقیقت)عقلی قیاس ہیں‘‘[مجموع الفتاوی:۲؍۳۷]
عقیدہ کے باب میں عقلی دلائل کا اعتبار
اسلامی عقیدہ میں عقلی دلائل کا اعتبار ہے، مگر عقل کوئی مستقل مصدر نہیں ہے، بلکہ تائید و تقویت کے طور پر عقلی دلائل پیش کئے جاتے ہیں، جن کی مثالیں کتاب وسنت میں بھری پڑی ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللّٰہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلٰی أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ وَجَعَلَ لَہُمْ أَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیہِ فَأَبَی الظَّالِمُونَ إِلَّا کُفُورًا}’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر ہے کہ ان جیسے (لوگوں کو)پیدا کردے، اور اس نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا (اسے)قبول نہ کیا‘‘[ الإسراء:۹۹]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ}’’بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ (ان کو پھر)ویسے ہی پیدا کر دے، کیوں نہیں، اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے‘‘[ یس:۸۱]
عقل صریح نقل صحیح سے متعارض نہیں
عقل صریح نقل صحیح سے متعارض نہیں ہو سکتی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کتاب وسنت اور اجماع امت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو عقل صریح کے مخالف ہو، کیونکہ جو عقل صریح کا مخالف ہے وہ باطل ہے، اور کتاب وسنت اور اجماع میں کچھ بھی باطل نہیں ہے، ہاں مگر ان میں کچھ ایسے الفاظ ہیں جنہیں بعض لوگ بسا اوقات سمجھ نہیں پاتے ہیں، یا ان سے باطل(مطلب)سمجھ بیٹھتے ہیں، لہٰذا (یہ نا سمجھی)کی آفت کتاب وسنت کی طرف سے نہیں ہے بلکہ انہی کی طرف سے ہے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۱؍۴۹۰]
عقلی دلائل جو شرعی دلائل سے متعارض ہوں
اگر شرعی دلائل کے ساتھ عقلی دلائل متعارض ہوں تو وہ قابل قبول نہیں ہیں۔
عقل کے ذریعہ نقل کا معارضہ ہو تو اس کا کتنا خطرناک انجام ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ ائمہ کرام کے اقوال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
۱۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا…’’جب بھی ایسا شخص آیا جو دوسرے سے زیادہ جھگڑالو ہو، تو اس نے اس چیز کو رد کیا جسے جبرئیل (علیہ السلام)نے محمد ﷺ پر اتارا تھا‘‘[شرح اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:۱؍۱۴۴]
۲۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ہر وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مخالف ہو،وہ مسقوط ہے۔‘‘ [الأم: ۲؍ ۱۹۳]
۳۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم)اور جنہوں نے اچھائی کے ساتھ ان کی اتباع ، ان کے درمیان یہ متفقہ اصول رہا ہے کہ کسی ایسے شخص کی بات ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتی جس نے اپنی رائے، اپنے ذوق، اپنی عقل، اپنے قیاس، یا اپنے وجد کے ذریعہ قرآن سے معارضہ کیا ہو‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۳؍۲۸]
ثانیاً:فطرت
اس سے مراد وہ: علم ہے جو انسانوں کے دلوں میں جاں گزیں ہے، جس کے ذریعہ خیر وبھلائی کی معرفت اور اس کی محبت، شر وبرائی کی معرفت اور اس کی کراہت جیسے امور حاصل ہوتے ہیں…اور اس کا اصل منبع، وحقیقی معیار توحید و ایمان ہے، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:{وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَہُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُونَ}’’اور لیکن اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو محبوب بنا دیا، اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا، اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا، یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں‘‘ [الحجرات:۷]
اسی فطری علم سے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے، جو در اصل انسانی دلوں میں اس طرح رچا بسا ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی مؤثرات سے نہ متأثر ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کسی بھی صورت میں زائل ہو سکتا ہے۔
اسی لئے فطرت سلیمہ کو بھی عقیدہ باب میں فرعی مصدر کی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ صحیح اور سلیم الفطرت انسان کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار نہیں کر سکتا ہے، رب کا فرمان ہے:
{فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ} ’’پس آپ یکسو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو)، اللہ کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں‘‘[الروم:۳۰]
نوٹ: مبادیٔ علم ربوبیت کے مباحث میں ان شاء اللہ فطرت پر تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔
مسائل اعتقاد کے چند قواعد استدلال:
۱۔ کتاب و سنت کے تمام نصوص پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
۲۔ کتاب وسنت کے احکام دلائل و مسائل پر قائم ہیں۔
۳۔ اصول دین میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا ہے۔
۴۔ اختلاف کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
۵۔ کتاب وسنت کے نصوص کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔
۶ ۔ نقل اور عقل کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔
۷۔ نصوص کے ظاہری معانی شارع کی مراد کے مطابق ہیں۔
۸۔ نصوص کے ظاہری مفاہیم مخاطبین کے لئے واضح ہیں۔
۹۔ متشابہ پر ایمان رکھنا اور محکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۱۰۔ کتاب وسنت کے نصوص کو سمجھنے کے لئے فہم سلف صالح حجت ہے۔
(تفصیل کے لئے دیکھیں: منہج الاستدلال علی مسائل الاعتقاد عند أہل السنۃ والجماعۃ، ص:۲۲۳۔۵۲۳)