Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تقویٰ: دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن

    آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول پوری انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے ہوا ہے، جسے متعدد مقامات پر ھدی للناس کہہ کر کوڈ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ کتابِ ہدایت بھی اسی کے لیے نفع بخش اور سود مند ہے جو اسے کلام اللہ سمجھے، اس پر یقین کامل رکھے اور اس کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کر کے اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرے۔ اسی لیے ایک عمومی اعلان کے بعد اسے ’’هدي للمتقين‘‘ کے ساتھ مشروط کیا گیا۔
    تقویٰ خوف خدا اور خشیت الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ دل میں اگر اپنے مالکِ حقیقی کے رو برو جوابدہ ہونے کا خوف نہ ہو تو انسان راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے اور ہر وہ کام کرنے لگتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہئے، خواہ وہ بڑے سے بڑا جرم ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے قانونِ الٰہی اور خوفِ خدا کے سوا دنیا کا کوئی بھی قانون جرائم پر مکمل بریک نہیں لگا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کرائم واَپرادھ کو روکنے کی ساری انسانی تدابیر وقوانین اور بندشیں نا کام ثابت ہو رہی ہیں، اور اَپرادھ ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے، ہزار کوششوں، پابندیوں اورسزاؤں کے باوجود آئے دن کرائم ریٹ بڑھتا ہی جا رہا ہے، اور انسانوں سے انسانیت کم سے کمتر ہوتی جارہی ہے۔ اور اس معاملے میں کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سبھی ایک ہی قطار میں نظر آرہے ہیں۔
    آج کا مسلمان صرف نام اور حسب ونسب کا مسلمان رہ گیا ہے۔ وہ خوفِ خدا اور خشیتِ الہٰی سے آزاد، دنیاوی موج مستیوں میں مگن اور کھلم کھلا احکامِ شریعت کی ان دیکھی کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اقوامِ عالم میں ان کا کوئی وزن نہیں رہا، ہر کوئی انہیں اپنا ٹارگیٹ بنا رہا ہے اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ جب ان کے دل خشیتِ الٰہی سے خالی ہو گئے تو ان میں دشمنانِ خدا کا خوف گھر کر گیا۔ مثل مشہور ہے:’’خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے‘‘۔ جس طرح ایک معبودِ حقیقی کا سجدہ بندگان خدا کو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے، اسی طرح تنہا خوفِ خدا ہزار دشمنانِ خدا کے خوف سے بندوں کو نجات دلاتا ہے۔
    آج آخرت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دنیا بھی اجڑ گئی ہے، ان کا چین وسکون غارت ہوگیا ہے۔ ان پر چو طرفہ حملے ہو رہے ہیں اور انہیں ہر وقت خوف وہراس کے ماحول میں جینا پڑ رہا ہے۔ جبکہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اورتاریخ کے ہزاروں صفحات گواہ ہیں کہ جب مسلمانوں کے دلوں میں اللہ کا ڈر تھا۔ جب تک وہ تقویٰ سے متصف کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے، دنیا بھر میں ان کی دھاک تھی، اسلامی معاشرہ ہر طرح کے کرائم سے پاک تھا، ہر طرف امن وشانتی کا ماحول تھا، اسلامی قوانین کی بالادستی تھی، کسی قوم میں مسلمانوں سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ تھی اور ہر کوئی انہیں عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ سب کچھ انہیں تقویٰ کی بدولت حاصل تھا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے تقویٰ اختیار کرنے والوں کو{إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا }[النبا:۳۱]کامیابی کی ضمانت دے رکھی ہے۔
    تقویٰ، خوفِ الٰہی سے عبارت ہے اور خوف کا تعلق دل سے ہے۔ معلوم ہوا کہ تقویٰ ایک قلبی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہی کہ نبی ﷺ نے اپنے دل کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’اَلتَّقْوٰي هٰهُنَا‘‘[ مسلم:۶۵۴۱]
    تقویٰ کا مرکز ومحور دل ہے، البتہ اس کا اظہار اعضاء وجوارح کے نیک عمل سے ہوتا ہے۔
    شرعی اصطلاح میں تقویٰ کہتے ہیں: شریعت کے جملہ احکام وعبادات کو بجا لانا اور تمام منکرات وسیئات سے اجتناب کرنا، اور یہ بغیر خشیت الٰہی کے ممکن نہیں۔ اسی لیے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے متقیوں کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:
    ’’’’الذين يحذرون من اللّٰه عقوبته فى ترك ما يعرفون من الهديٰ، ويرجون رحمته فى التصديق بما جاء به‘‘ [تفسیر ابن کثیر:۱؍۱۵۳، تفسیر طبری:۱؍۲۳۲]۔ کہ متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اس کے عذاب کے بارے میں ڈرتے ہیں اس ہدایت کو چھوڑنے میں جس کو انہوں نے پہچانا، اور اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اس چیز کی تصدیق میں جس کو لے کر نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔
    در حقیقت تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے سے نیک کاموں سے انسیت اور گناہوں سے جھجھک محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور یہی بندوں سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے، وہ ان کی ظاہری شکل وصورت اور مال وزر کو نہیں دیکھتا، بلکہ ان کے اخلاصِ عمل اور دلی کیفیت کو نوٹس کرتا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے:
    ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلَي أَجْسَادِكُمْ، وَلَا إِلَي صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَي قُلُوبِكُمْ ‘‘ [صحیح مسلم:۲۵۶۴]
    تمام اعمال کی قبولیت کا دار ومدار بھی اسی پر ہے۔’’إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘[صحیح البخاری:۱]
    اور’’ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ‘‘ [المائدۃ:۲۷] اسی کی طرف غماز ہیں۔
    نماز، روزہ، زکاۃ اور اسلام کی دیگر تمام عبادتوں کا بنیادی مقصد اطاعت الٰہی اور حصولِ تقویٰ ہی ہے۔ جس کو جا بجا ’’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‘‘ [البقرۃ:۲۱] کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔
    اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت وبرتری اوربزرگی کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے، ’’إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ‘‘[الحجرات:۱۳]۔
    لہٰذا کوئی بھی شخص پرہیزگاری کے بغیر اللہ کا محبوب وبرگزیدہ بندہ اور ولی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے کتاب اللہ اور سنت ِرسول میں بے شمار مواقع پر مومنوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ ‘‘[آل عمران: ۱۰۲] اور ’’فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘[التغابن:۱۶] کہہ کر انہیں حتی المقدور تقویٰ کے راستے پر چلنے کی تاکید کی گئی۔
    تقویٰ کی راہ اپنانے والوں سے مختلف انداز واسلوب میں طرح طرح کے انعامات واکرامات کا وعدہ کیا گیا اور اس سے دوری اختیار کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی۔ چنانچہ جو شخص پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرتا ہے، رب کریم اسے صحیح وغلط، حق وباطل اور نیکی وبدی کے درمیان تمیز کرنے کی قوت وصلاحیت عطا فرماتا ہے۔ ’’إِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا‘‘ [الانفال:۲۹]، اور اس کے لیے مصائب ومشکلات سے نکلنے کی سبیل ہموار کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جہاں سے عام حالات میں ملنے کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا، ’’وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ‘‘ [الطلاق:۲۔۳]
    مختصر یہ کہ متقیوں کے لیے ہی دنیا وآخرت کی فلاح وکامرانی کا وعدہ ہے، ’’وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ‘‘ [البقرۃ: ۱۸۹]۔
    تقویٰ سفر آخرت کے لیے بہترین زادِ راہ ہے،’’فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَي‘‘[البقرۃ:۱۹۷]۔
    جنت میں پرہیزگاروں کا استقبال کرتے ہوئے کہا جائے گا:’’اُدْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ‘‘[الحجر:۴۶]
    اور انواع واقسام کے کھانے پینے کی چیزیں پیش کرتے ہوئے باین کلمات: ’’كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّا كَذَالِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‘‘[المرسلات:۴۳۔۴۴]ان کی عزت وتکریم کی جائے گی۔
    پروردگار عالم ہمیں بھی اپنے پرہیزگار بندوں میں شامل کر لے اورآخرت میں جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ آمین۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings