Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عدت کی اقسام اوراس کی حکمتیں

    اسلامی شریعت اور اس کے احکام ہر زمان اور مکان کے لیے ہمہ وقت مناسب اور لائق عمل ہیں، اللہ رب العالمین نے جو بھی احکامات کتاب و سنت کے ذریعے سے اپنے بندوں کو عطا کیے ہیں وہ ہمیشہ ہر دور کے لیے اور ہر زمانے کے لیے بالکل پرفیکٹ اور مناسب ہیں، شادی اور بیاہ کی زندگی میں طلاق اور عدت کے مسائل بھی پیش آتے ہیں یہ بھی انہی شرعی احکام کا ایک حصہ ہیں جو وحی ِالٰہی کے ذریعے سے ہم تک اور آپ تک پہنچے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ اللہ رب العالمین سے بہتر اس کے بندوں کے سلسلے میں فیصلہ کون کر سکتا ہے چنانچہ اس کے فیصلے حکمتوں سے بھرپور اور بندوں کی طبیعتوں اور فطرتوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہر خاص و عام کے لیے مناسب ہوتے ہیں، زیر نظر مضمون عدت اور اس کی قسمیں اور اس کے احکام اور مصالح سے متعلق ہیں جنہیں ذیل کے سطور میں قارئین کرام کے فائدے کے لیے درج کیا جا رہا ہے، اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہم تمام لوگوں کو دینی احکام پر عمل پیرا ہونے کی سعادت اور توفیق بخشے۔آمین
    عدت کا معنیٰ اور اس کی تعریف:
    عدت کا لفظ عربی زبان میں’’عددت الشئي عدا وعدة‘‘سے ماخوذہے اور عد یعد کا مصدر ہے۔جس کا معنی ہے کسی چیز کو شمار کرنا ،گننا اور حساب کرنا ،اور یہ تعداد اور چند گنتی پر بھی بولا جاتا ہے عربی میں کہا جاتا ہے’’ عدةرجال وعدة نساء‘‘ ’’چند آدمی اور چند عورتیں‘‘ ۔
    بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ یہ لفظ’’اعداد‘‘سے ماخوذ ہے جس کا معنیٰ ہے کسی چیز کو تیار کرنا۔
    عدت کانام اس لیے رکھا گیا کیونکہ عام طور پر اس میں مقررہ دنوں کو شمار کر کے گزارنا ہوتا ہے۔دیکھئے :[مقاییس اللغۃ؍ ابن فارس،تھذیب اللغۃ؍ ازھری والنھایہ فی غریب الحدیث؍ ابن الاثیرالجزری]
    اصطلاحی تعریف:
    اہلِ علم نے عدت کی متعدد تعریفات کی ہیں جنہیں کتب ِفقہ میں دیکھا جاسکتا ہے ،یہاں ایک جامع تعریف ذکر کی جارہی ہے جسے بعض اہل علم نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔تعریف درج ذیل ہے:
    ’’العدة اسمٌ لِمُدَّةٍ تترَبَّصُ فيها المرأةُ عن التَّزويجِ بعدَ وفاةِ زَوجِها أو فِراقِه لها، إمَّا بالوِلادةِ، أو بالأقرائِ، أوالأشهُرِ‘‘
    ’’عدت اس مقررہ مدت کو کہتے ہیں جس میں ایک عورت شوہر کی وفات یا اس سے جدائی کی وجہ سے وضعِ حمل یا مقررہ ایامِ حیض یا مقررہ مہینوں تک شادی کرنے کے لیے انتظار کرتی ہے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر:۹؍۴۷۰، سبل السلام؍الصنعانی :۳؍۱۹۶،نیل الأوطار؍ الشوکانی :۶؍۳۴۱]
    عدت کا شرعی حکم:
    عدت گزارنا واجب ہے اور یہ ہر اس عورت پر لازم ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو، الگ ہونے کی وجہ چاہے طلاق ہو یا خلع ،چاہے فسخ نکاح ہو یا شوہر کی وفات بشرطیکہ خلوت صحیحہ ثابت ہو۔
    اس کی مشروعیت اور اس کا حکم قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
    قرآن مجید میں متعدد مقامات پر طلاق ہو جانے کے بعد یا شوہر کی وفات کے بعد عدت گزارنے اور اس کے شمار کرنے کا حکم ہے۔
    فرمان باری ہے:
    {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوئٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ }
    ترجمہ:’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک (عقد ثانی سے) روکے رکھیں اور اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں (بچہ دانیوں) میں پیدا کیا ہے اور ان کے خاوند اس مدت میں (طلاق رجعی کو) واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں بشرطیکہ ان کا ارادہ حسنِ سلوک کے ساتھ رہنے کا ہو اور عورتوں کے لیے بھی دستور کے مطابق مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جس طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے اور اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
    [البقرۃ:۲۲۸]
    دوسری جگہ ارشاد ہے:
    { وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير}
    ترجمہ: ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں پھر جب مدت ختم کر لیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے‘‘
    [البقرۃ:۲۳۴]
    اورایک جگہ طلاق کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
    {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَّأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ وَمَن يَّتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا}
    ترجمہ: ’’اے نبی اپنی امت سے کہو کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تو تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حد ہے جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا ،تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے‘‘
    [ الطلاق:۱]
    اسی طرح احادیث ِمبارکہ میں پیارے نبیﷺ نے بھی متوفی عنہا زوجہایا مطلقہ یا حاملہ عورتوں کو طلاق اور شوہر سے جدائی کی شکل میں عدت گزارنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا:
    ’’لا يحل لامرأة تؤمن باللّٰه واليوم الآخر أن تُحِدَّ علٰي ميت فوق ثلاث، إلا علٰي زوج: أربعة أشهر وعشرًا ‘‘
    ’’کہ کسی بھی عورت کے لیے جواللہ اورآخرت پر ایمان رکھتی ہے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے جس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی ‘‘
    [ بخاری:۵۳۳۴، مسلم:۱۴۸۶]
    دوسری حدیث میں حضرت سبیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ وہ حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور حجۃ الوداع میں ان کے شوہر کی وفات ہو گئی اس حالت میں کہ وہ حمل سے تھیں چنانچہ ان کی وفات کے بعد بچے کی پیدائش ہوئی اور یہ نفاس اور زچگی کے مرحلے سے نکلنے کے بعد شادی کرنے کی سوچنے لگیں، اتفاق سے صحابی ٔ رسول حضرت ابو السنابل کو پتہ چلا تو انہوں نے روکا اور کہا کہ جب تک چار مہینے۱۰؍ دن تک عدت کی مدت مکمل نہ کر لو اس وقت تک تم شادی نہیں کر سکتیں چنانچہ یہ معاملہ سن کر انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے دربار رسالت کا رخ کیا اور پہنچ کر مسئلہ پوچھا ،فرماتی ہیں:
    ’’فأفتاني بأني قد حللت حين وضعت حملي، وأمرني بالتزويج، إن بدا لي‘‘
    کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’کہ تم نے بچہ جن دیا ہے اس لیے اب حلال ہو چکی ہو اور اگر شادی کرنا چاہتی ہو تو شادی کر سکتی ہو‘‘
    [بخاری:۳۱۹۱، مسلم:۱۴۸۴]
    چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں متوفی عنہا حاملہ کی عدت کا ذکر ہے ۔
    اسی طرح علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ عدت واجب ہے جیسا کہ علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ اور دیگر فقہاء نے کتب ِفقہ میں اس کی صراحت کی ہے، علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ ولا خلاف بين اهل العلم فى وجوب العدة فى الجملة على المراة المدخول بها…‘‘ ’’کہ تمام اہل علم کے درمیان اس عورت پر عدت کے واجب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس کے شوہر نے اس کے ساتھ دخول کیا ہے ‘‘ دیکھئے:[ الاجماع ؍ابن منذر:۴۹۳، احکام القرآن ابن العربی:۳؍۵۸۷،والمغنی لابن قدامۃ وغیرہ]
    عدت کی حکمتیں اورمصالح:
    اسلامی شریعت میں جب کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس میں رب تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرورپنہاں ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سماجی و معاشرتی فوائد و مصالح بھی ہوتے ہیں چاہے ہمارے علم کی وہاں تک رسائی ہو یا نہ ہو ،عدت بھی انہی شرعی احکام میں سے ایک ہے جس کے پیچھے بہت ساری حکمتیں ہیں جنہیں فقہائے اسلام اور اہل علم نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان فرمایا ہے،ہو سکتا ہے کہ آئندہ زمانے میں اس کی اور بھی حکمتیں اور مصلحتیں اجاگر ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں اہل علم نے کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں بیان کی ہیں :
    ۱۔ استبرائے رحم
    اسلامی شریعت نسل انسانی اور لوگوں کے حسب و نسب کو تحفظ دینے اور اسے شکوک و شبہات سے بچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے چنانچہ اسی حکمت کے پیش نظر کہ نسب کا ثبوت ممکن ہو اور اس میں کوئی شبہ اور اختلاط پیدا نہ ہو یہ حکم دیا گیا کہ ہر عورت کا رحم اپنے پرانے شوہر کے نطفے اور اس کے حمل سے پاک اور صاف ہو جائے اور کسی طرح کا کوئی اختلاط اور شبہ نہ ہو اسی لیے بعض اہل علم نے لکھا ہے: ’’ ولأن العده تجب لمعرفه براء ةالرحم والحاجه الي الاستبراء بعد الدخول لا قبله۔۔۔۔ ‘‘’’کہ رحم مادرکی پاکی اوربرأ ت کے لیے عدت ضروری ہے اور یہ شوہر سے ملاپ کے بعد ہوگا نہ کہ اس سے پہلے‘‘[المغنی لابن قدامہ: ۱۱؍۱۴۹]
    اس سلسلے میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس کی حکمت میں سے ایک یہ ہے کہ :
    ’’’’العِلمُ ببَراء ةِ الرَّحِمِ، وألَّا يجتَمِعَ ماء ُ الواطِئَينِ فأكثَرَ فى رَحِمٍ واحِدٍ، فتختَلِطَ الأنسابُ وتَفسُدَ، وفي ذلك مِن الفَسادِ ما تمنَعُه الشَّريعةُ والحِكْمةُ‘‘
    ’’کہ اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے رحم مادر کی پاکی کا علم ہوتا ہے ،اوریہ مقصد بھی ہے کہ رحم مادر میں دویااس سے زیادہ لوگوں کا نطفہ بیک وقت اکٹھانہ ہو تاکہ اس کی وجہ سے حسب ونسب میں اختلاط اورفساد نہ پیدا ہوجائے،اوراس میں بہت فسادوبگاڑ ہے جسے شریعت وعقل دونوں مٹانا چاہتی ہے‘‘
    [اعلام الموقعین:۲؍۵۱]
    استبراء رحم کیوں ضروری ہے؟
    اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی اورعلم طب اوراس کے آلات کے ذریعہ استبراء رحم کاپتہ لگانے اور عدت کی ضرورت نہ ہونے کے شبہات کی تردید کرتے ہوئے مصر کے ایک ڈاکٹر نے بڑی پیاری بات لکھی ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ استبراء رحم کیوں ضروری ہے،وہ لکھتے ہیں کہ:
    ’’الدراسات الحديثة أثبتت أن ماء الرجل يحتوي علي62 نوعا من البروتين وأن هذا الماء يختلف من رجل إلى آخر فلكل رجل بصمة فى رحم زوجته۔وإذا تزوجت من رجل آخر بعد الطلاق مباشرة، قد تصاب المرأة بمرض سرطان الرحم لدخول أكثر من بصمة مختلفة فى الرحم، وقد أثبتت الأبحاث العلمية أن أول حيض بعد طلاق المرأة يزيل من 32 فى المئة إلى 35 فى المئة، وتزيل الحيضة الثانية من 67 فى المئة إلي72 فى المئة منها، بينما تزيل الحيضة الثالثة 99.9 فى المئة من بصمة الرجل، وهنا يكون الرحم قد تم تطهيره من البصمة السابقة وصار مستعدا لاستقبال بصمة أخري‘‘
    ’’جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مردکے نطفے میں ۶۲قسم کے پروٹین ہوتے ہیں اوریہ ہرمرد میں الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اسی طرح ہرمرد اپنی بیوی کے رحم یعنی بچہ دانی میں ایک الگ بصمہ یعنی نشان اورچھاپ چھوڑتا ہے،اب اگر یہ طلاق کے بعد فوراً (بغیر استبراء رحم کے)شادی کرلیتی ہے توکبھی رحم میں ایک ساتھ دونطفوں کے چھاپ کی وجہ سے عورت کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہوسکتی ہے،اورجدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ طلاق کے بعد پہلے حیض سے ۳۲ تا۳۵%اوراس کے بعد دوسرے حیض سے۶۲تا۷۲%اورتیسرے حیض سے۹۔۹۹ % رحم میں موجود مرد کے نشان اورچھاپ زائل ہوجا تے ہیں اوراس طرح عورت کارحم پہلے شوہر کے بصمات سے پاک ہوکردوسرے بصمات کے استقبال کے لئے تیار ہو جاتا ہے‘‘۔مزید دیکھئے مقالہ بعنوان:
    [الإعجاز العلمی فی عدۃ المطلقۃ والمتوفی عنہا زوجہا’’بقلم الدکتور رفیق المصری منشورۃ بإصدارۃ‘‘’’إعجاز‘‘ بالموقع الإلکترونی لمنتدی الإعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ فی لبنان]
    ۲۔ عقد نکاح کی عظمت اوربلندشان
    عدت کے ذریعے نکاح جیسے عظیم عمل اور عقد کا بلند مقام و مرتبہ واضح ہوتا ہے اس طور پر کہ ایک عورت اس عقد سے جڑنے کے بعد ڈائریکٹ، بلا فصل اور بلا عدت مقررہ کے اپنے شوہر کی زوجیت سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتی اوراس طرح اس میں طرفین کے لیے مصلحت ہے، ہو سکتا ہے کہ صبح کا بھولا ہوا شام کو واپسی کا ارادہ کرے ایسی صورت میں گویاعدت دونوں کے لیے رجوع کا ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ :
    ’’تعظيمُ خَطَرِ عَقدِ النِّكاحِ، ورَفعُ قَدْرِه، وإظهارُ شَرَفِه ‘‘
    ’’یعنی اس میں عقد نکاح کی خطرناکی ،اس کابلند مقام اوراس کی عظمت شان کوواضح کرنا ہے‘‘
    [اعلام الموقعین: ۲؍۵۱]
    ۳۔ اظہار تأسف وملال
    عدت ایک طرح سے نکاح جیسے پاکیزہ عمل کے ختم ہونے اور ٹوٹنے پر اظہار تأسف اور رنج و غم ہے کیونکہ نکاح کی وجہ سے عورت کو شوہر کی طرف سے عزت و آبرو کی حفاظت وصیانت کے ساتھ نان و نفقہ اور اخراجات کے برداشت کرنے کی نعمت بھی ملی تھی اور اس کے ٹوٹنے سے عورت ان نعمتوں سے گویا محروم ہو گئی۔ [بدایع الصنائع ؍الکاسانی: ۳؍۱۹۲]
    ۴۔ چار مہینے دس دن کا فلسفہ
    بیوہ کی عدت کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی کتاب تفسیرابن کثیر میں رقمطراز ہیں:
    سعید بن مسیب اور ابو العالیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ: بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ حمل کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ آیا کہیں حمل تو نہیں، جب یہ عرصہ انتظار کیا جائے گا تو اس سے حمل کے متعلق علم ہو جائے گا کہ حمل ہے یا نہیں۔
    جیسا کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی صحیحین وغیرہ کی درج ذیل روایت میں بیان ہوا ہے:
    ’’یقینا تمہاری خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ رکھا جاتا ہے، اور پھر وہ اتنے ہی ایام میں ایک لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اتنے ہی ایام میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے‘‘۔
    تو یہ چالیس ایام تین بار ہوں تو چار ماہ بنتے ہیں، اور اس کے بعد دس دن اور احتیاط کے ہیں کیونکہ بعض اوقات کوئی مہینہ کم ہوتا ہے، اور پھر اس میں حرکت اور روح پھونکے جانے کے لیے یہ ایام رکھے گئے ہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم
    سعید بن عروبہ قتادہ رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ یہ دس دن کے متعلق کیا ہے ؟
    ان کا جواب تھا: اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔
    اور الربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے ابو العالیہ سے عرض کیا:
    چار ماہ کے ساتھ یہ دس دن کیوں رکھے گئے ؟
    ان کا جواب تھا: اس لیے کہ ان ایام میں اس بچہ میں روح پھونکی جاتی ہے ۔
    دونوں کو ابن جریر نے روایت کیا ہے۔[تفسیرابن کثیر؍البقرہ:۲۳۴]
    امام شوکانی رحمہ اللہ فتح القدیر میں لکھتے ہیں:
    ’’بیوہ کی عدت اتنی مقدار میں رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ غالباً بچہ تین ماہ میں حرکت کرنے لگتا ہے، اور بچی چار ماہ کی حرکت کرنے لگتی ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس پر دس دن اور زائد اس لیے کیے کہ بعض اوقات بچہ کمزور ہوتا ہے اور کچھ ایام حرکت میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے لیکن اس عرصہ سے زائد تاخیر نہیں ہوتی‘‘[ فتح القدیر؍البقرہ:۲۳۴]
    مزید تفصیل کے لئے دیکھیں :[زاد المسیر ابن الجوزی:۱؍۲۷۵،و اعلام الموقعین:۲؍۵۲،وزادالمعاد ابن القیم: ۵؍۵۹۰]
    عدت کی قسمیں:
    عدت گزارنے والی عورتوں کی کل نوقسمیں ہیں:
    نمبر ایک: وہ عورت جس پر عدت نہیں ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو مجامعت یعنی ملاپ کے بغیر طلاق دے دے تو اس پر عدت نہیں ہے جیسا کہ قران مجید میں اللہ رب العالمین نے فرمایا:
    { يَٰٓأَيُّهَاا لَّذِينَ آمَنُوٓاْ إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا }
    ’’اے مومنو جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو‘‘
    [الاحزاب:۴۹]
    نمبر دو: عورت اگر حمل سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچے کو جن دیناہے، اس کے بعد جب تک بچے کی پیدائش نہیں ہوتی وہ عدت گزارے گی اور جب بچے کی پیدائش ہو جائے گی تو عدت ختم ہو جائے گی، اس صورت میں عورت چاہے مطلقہ ہو یا متوفی عنہا زوجہا ہو یا کوئی اور ہو اس کی مدت یہی وضع حمل ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
    { وَأُوْلَٰتُ لْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ}
    ’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے‘‘
    [الطلاق:۴]
    اور صحیح بخاری اور مسلم حضرت سبیعہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ وہ حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجیت میں تھی اور حجۃ الوداع میں ان کے شوہر کی وفات ہو گئی اس حالت میں کی وہ حالت حمل میں تھی چنانچہ ان کی وفات کے بعد بچے کی پیدائش ہوئی اور یہ نفاس اور زچگی کے مرحلے سے نکلنے کے بعد شادی کرنے کی سوچنے لگیں، اتفاق سے صحابی رسول حضرت ابو السنابل کو پتہ چلا تو انہوں نے روکا اور کہا کہ جب تک چار مہینے ۱۰ دن تک عدت کی مدت مکمل نہ کر لو اس وقت تک تم شادی نہیں کر سکتی چنانچہ یہ معاملہ سن کر انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے دربار رسالت کا رخ کیا اور پہنچ کر مسئلہ پوچھا فرماتی ہیں:
    ’’ فأفتاني بأني قد حللت حين وضعت حملي، وأمرني بالتزويج، إن بدا ليكه ‘‘
    ’’نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جب بچہ جن دیا ہے اس لیے اب حلال ہو چکی ہو اور اگر شادی کرنا چاہتی ہو تو شادی کر سکتی ہو‘‘
    [بخاری:۳۹۹۱، مسلم:۱۴۸۴]
    نمبر تین: شادی کے بعد عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی دو شکلیں ہیں:
    یا تو عورت حمل سے ہو تو اس کی عدت جیسا کہ گزر چکا ہے وضع حمل ہے، چاہے چار مہینہ ۱۰ دن سے پہلے بچے کی پیدائش ہو جائے یا بعد میں جب تک بچے کی پیدائش نہ ہوگی عدت ختم نہ ہوگی۔
    یاعورت حمل سے نہیں ہے ،اس صورت میں چاہے عورت مدخول بہا ہو یا نہ ہو اس کی عدت شوہر کی وفات کی وجہ سے چار مہینے دس دن ہی ہے، جیسا کہ فرمان باری ہے :
    {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير}
    ترجمہ: ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں پھر جب مدت ختم کر لیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے‘‘۔
    [البقرہ:۲۳۴]
    نمبر چار: عورت اگرمطلقہ مدخول بہا ہے اوراسے حیض کا خون جاری ہے۔تواس کی عدت تین حیض ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے کہ:
    {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوء}
    ’’کہ طلاق شدہ عورتیں تین مہینے تک انتظار کریں گے‘‘
    [البقرہ:۲۲۸]
    نمبر پانچ : مطلقہ عورت کو اگر حیض نہیں آتا ہے چاہے وہ زیادہ عمر کی وجہ سے حیض سے مایوس ہے یعنی آئسہ ہے یا صغیرہ غیر بالغہ ہے اس لیے ایسا ہے تو اس کی عدت تین مہینہ ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے:
    {وَلَّٰٓـِئي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ رْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ أَشْهُرٍ وَلَّٰٓـِئي لَمْ يَحِضْنَ }
    ’’ تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہو‘‘[ الطلاق:۴]
    نمبر چھ: وہ عورت جس کا حیض سن یا س سے پہلے ہی بند ہو جائے اور اسے اس کا سبب معلوم نہ ہو تو اگر اس کا شوہر اسے چھوڑ دے یا طلاق دے دے یا اس کی وفات ہو جائے تو اس کی عدت ایک سال ہے، جس میں نو مہینے برأ ت رحم کے لیے اور تین مہینے سن یاس کے یعنی کل بارہ مہینے اور اس طرح کل ایک سال تک وہ عدت گزارے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ فیصلہ ہے جسے مہاجرین و انصار کی موجودگی میں انہوں نے دیا تھا اور ہمارے علم کی حد تک کسی نے اس کا انکار نہیں کیا تو گویا کہ اس پر اجماع ہے ۔
    [الکافی: ۵؍۱۵۔ ۱۶، شرح المنتہی:۵؍۵۹۷]
    اور اگر ایسی عورت کو سال پورا ہونے سے پہلے حیض آجائے تو وہ حیض کے ذریعے عدت گزارے گی ۔
    اور اگر عدت میں رہنے والی عورت کو پتہ چل جائے کہ انقطاع حیض بچے کو دودھ پلانے یا کسی مرض کے سبب ہے تو وہ عدت میں ہی رہے گی یہاں تک کہ اسے حیض آجائے اور پھر عدت گزارے گی چاہے جتنا وقت لگے۔
    اس کی دلیل حضرت علقمہ ابن قیس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دیا یا پھر انہیں ایک بار یا دو بار حیض آنے کے بعد سات یا آٹھ مہینے تک حیض ہی نہیں آیا اور پھر ان کی وفات ہو گئی چنانچہ یہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :’’حبس اللّٰه عليك ميراثها فورثه منها‘‘ ’’ کہ اللہ نے تمہارے اوپر اس کی میراث کو روکے رکھا چنانچہ یہ عورت کی وراثت میں حصے دار ہوئے‘‘[السنن الکبریٰ للبیہقی:۷؍۴۱۹ بسند صحیح]
    نمبر سات: مفقود الخبرشوہر کی بیوی کے سلسلے میں اہل علم کے مابین صریح نصوص نہ ہونے کی وجہ سے شدید اختلاف وارد ہے،تاہم آثارصحابہ اوردیگر فقہاء کی آراء واجتہادات سے جو بات راجح محسوس ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اگراس کی موت وحیات کے مابین کشمکش ہے توعورت چار سال تک انتظار کرے گی اوراس کے بعد عدت الوفاہ چار مہینہ دس دن گزار کر آزاد ہوجائے گی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس بابت فیصلہ ہے۔ دیکھئے: [مؤطاامام مالک:۲۱۳۴، مصنف ابن ابی شیبہ:۱۶۷۲۰]اور بعض اہل علم نے اسے قاضی ٔوقت پر چھوڑا ہے کہ وہ مفقود کے موت وحیات کی تحقیق کے بعدجو مناسب فیصلہ سمجھیں کریں گے۔
    نمبر آٹھ : خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے جیسا کہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لے لیا ،چنانچہ مسئلہ دریافت کرنے پر آپﷺ نے حکم دیا: ’’فأمرت أن تعتد بحيضة‘‘کہ ایک حیض آنے تک عدت گزارو۔[سنن ترمذی:۱۱۸۵، ابن ماجہ: ۲۰۵۸،بسند صحیح]
    اور ایسے ہی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کہ جب حضرت ثابت ابن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا ’’فجعل النبى ﷺ عدتها حيضة‘‘ ’’تو اللہ کے نبی ﷺ نے ان کی عدت ایک حیض مقرر فرمایا‘‘[ سنن ابی داؤد:۲۲۳۱،سنن ترمذی:۱۱۸۵،نسائی:۳۴۹۷ بسندصحیح]
    نمبر نو : وہ عورت جو زنا جیسے گناہ کبیرہ کی مرتکب ہوتی ہے:
    فقہائے کرام نے ایسی عورتوں کی عدت کے سلسلے میں بھی کلام کیا ہے جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو جاتی ہے یا جن سے یہ گناہ عظیم سرزد ہوتا ہے تواگروہ حمل سے نہیں ہے تو اس کی عدت ایک حیض ہے تاکہ استبرائے رحم کیا جا سکے اور نسب کے اختلاط سے بچا جا سکے اور اگر حاملہ ہے تو عدت وضع حمل ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
    یہ کل نو طرح کی عورتیں ہیں جن کے بارے میں فقہاء کرام نے کتاب و سنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں عدت کی الگ الگ قسمیں ذکر کی ہیں۔مزید تفصیل کے لیے کتب فقہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
    اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت کے احکام سمجھنے اوراسے برتنے کی توفیق ارزانی عطافرمائے۔وماتوفیقی الاباللہ

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings