Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مطلقہ کے نان ونفقہ کا ذمہ دار کون؟

    الحمد للّٰه وحده، والصلاة والسلام علٰي من لا نبي بعده!
    اللہ تعالیٰ ہم سب کے خالق ہیں،خالق ہی کو اپنی مخلوقات کی بابت ہر پہلو مکمل علم رہتا ہے کہ کس کی احتیاج کیا ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے، ایسے میں انسان کی دینی ودنیوی دونوں ضرورتوں کو شارع نے تفصیل سے بیان کردیا ہے۔انسانی ضرورتوں میں سماجی ومعاشرتی ضرورتیں بھی ہیں ، ان ضرورتوں کوپورا کرناکس کا کام ہے؟ بوجھ کن کے کاندھوں پر ہوگا؟ مسؤول کون ہوگا؟ سب کچھ بتادیا گیا ہے، اورمسؤولیت بھی صنف اورطاقت کی رعایت کرکے دی گئی ہے۔کسب کی ذمہ داری مرد کو دی گئی ہے،یعنی شرعاًمرد مکلف ہے،عورت فطرتاً کسب کے لیے خلق نہیں کی گئی ہے ، اس پر کتاب وسنت میں متعدد دلائل ہیں، ایک دلیل پر اکتفا کرتا ہوں۔
    قرآن مجیدمیں تخلیق آدم علیہ السلام کو متعدد مقامات پر متنوع اسلوب میں بیان کیا گیاہے۔ہر جگہ ایک خاص امر کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔سورہ طٰہ کے اواخرمیں بھی مذکورہ قصے کا ایک اہم پہلو بیان کیا گیاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلٰي آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا۔وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبٰي۔ فَقُلْنَا يَاآدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَي۔ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرٰي۔ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحٰي}
    ’’ہم نے آدم کو پہلے ہی تاکیدی حکم دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا ۔اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، اس نے صاف انکار کر دیا۔ تو ہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے ۔ یہاں تو تجھے یہ آرام ہے کہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا‘‘
    [طٰہ:۱۱۵۔۱۱۹]
    اس بارے میں ابو عبد اللہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’وإنما خصَّه بذِكر الشَّقاء ولم يقل فتشقَيان: يعلِّمان أن نفقة الزوجة على الزوج، فمِن يومئذ جرتْ نفقة النساء على الأزواج، فلما كانت نفقة حوَّاء علٰي آدم كذلك نفقاتُ بناتها علٰي بني آدم بحق الزوجية۔ وأعلَمنا فى هذه الآية أن النفقة التى تجب للمرأة علٰي زوجِها هذه الأربعة: الطعام والشراب والكسوة والمسكن، فإذا أعطاهها هذه الأربعة فقد خرج إليها من نفقتها فإنْ تفضَّل بعد ذٰلك فهو مأجور، فأما هذه الأربعة فلا بدَّ لها منها، لأنَّ بها إقامة الْمُهجَة‘‘
    ’’کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس بات سے آگاہ فرمایا کہ اگر شیطان انہیں بہکانے میں کامیاب ہوجائے توبہکنے کے سبب دونوں(آدم وحواء ) جنت سے خارج کردیئے جائیں گے، جنت سے خروج کے لیے تثنیہ کا صیغہ ’’فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ‘‘ ، استعمال کیا گیا۔ مگر اس خروج کے نتیجے میں آفت ومشقت کا سامنا کس کو ہوگا؟ اس بارے میں قرآن نے صرف آدم علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہا:’’فَتَشْقَی‘‘ ، یعنی صیغۃ الافرادسے خطاب کیاگیا۔ یہاں ’’فتشقیا‘‘ نہیں کہا۔خروج کا تعلق دونوں سے ہے مگر شقاوت یعنی بدنی تھکاوٹ صرف آدم سے کیوں؟وہ اس لیے کہ جنت میں کھاناپینا،پہننا اوڑھنااوررہنے سہنے کے لیے سکن سب کچھ بغیرکسی محنت ومشقت کے دونوں کو نصیب تھا،دونوں کے لیے میسرتھا۔لیکن جنت سے خروج کے بعد ضروریات زندگی کی یہ ساری اشیاء بند وبست کرنامرد کے ذمے ہے، اسی لیے’’فَتَشْقَی‘‘ ،صیغۃ الافرادمیں کہا گیا۔اوراشارۃًیہ بھی بتادیا گیا کہ بنات حواء کے لیے اشیائے خوردونوش،لباس اورچھت کی فراہمی ابنائے آدم کی مسؤولیت ہوگی۔
    [الجامع لأحکام القرآن:۱۱؍ ۲۲۴۔۲۲۵، المجلد السادس]
    مطلقہ کا نان ونفقہ: مطلقہ عورت کے لیے نان ونفقہ میں طلاق رجعی اوربائن کا فرق پیش نظرہونا ضروری ہے۔ طلاق رجعی میں نان ونفقہ شوہرکے واجبات میں سے ہے اس لیے کہ یہ حق زوجیت ہے،اس میں شوہرکے رجوع کا حق برقراررہتاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {لاَ تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ أَمْرًا۔ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ}
    ’’نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناًاپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے،پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو‘‘
    [الطلاق:۱۔۲]
    مزیدتنبیہ بھی کی گئی ہے کہ طلاق رجعی میں بیوی شوہر ہی کے گھر رہے، اور شوہراپنی بیوی کو گھر سے نکلنے پرکسی طرح مجبورنہ کرے،اس کا دائرہ تنگ نہ کرے،اورنہ ہی لڑکی کے گھروالے لڑکی کو اپنے گھر بلائیں جس سے رجعیت کا مقصود بحال رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ}
    ’’تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان (طلاق والی) عورتوں کو رکھو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ‘‘
    [الطلاق:۶]
    حدیث فاطمہ بنت قیس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    ’’إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنٰي لِلْمَرْأَةِ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ‘‘
    [سنن النسائی: کتاب الطلاق، باب الرخصۃ فی ذلک۔ رقم:۳۴۰۳، صححہ الشیخ الألبانی رحمہ اللّٰہ فی ’’ الصحیحۃ:۴؍۲۸۸‘‘، رقم:۱۷۱۱، ینظر: مسند أحمد :۴۵؍۵۳، رقم:۲۷۱۰۰]
    تنبیہ: یہاں ایک بات یہ بھی ذکرکرنا ضروری ہوگا کہ اگرطلاق رجعی میں دورانِ عدت شوہر کی وفات ہوجائے تو مطلقہ خاتون اس حالت میں بھی وارث ہوگی اورجو بھی اس کا حصہ بنے گا مکمل حاصل کرے گی۔
    ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے مسائل میراث پر گفتگو کرتے ہوئے ایک مسئلہ یہ بھی بیان کیاہے، کہا:
    ’’إذا طلَّق الرجل امرأته طلاقًا يملِك رجْعتَها فى عدَّتها، لم يسقُطِ التوارثُ بينهما، ما دامت فى العدة، سواء ٌ كان فى المرض أو الصحة. بغير خلافٍ نعلَمه. ورُوي ذلك عن أبي بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وابن مسعود، رضي اللّٰه عنهم. وذٰلك لأن الرجعية زوجةٌ يلحقها طلاقُه وظِهارُه وإيلاؤه، ويملك إمساكَها بالرجعة بغير رضاها ولا وليٍّ ولا شهود ولا صداقٍ جديد، وإن طلَّقها فى الصحة طلاقًا بائنًا أو رجعيًّا فبانت بانقضاء عدتها، لم يتوارثا إجماعًا‘‘
    [المغنی:۹؍۱۹۴ ، ( دار عالم الکتب الریاض. ط: الثالثۃ:۱۴۱۷:ہ،ـ۱۹۹۷۔ن]
    طلاق بائن: تیسری طلاق واقع ہونے کے بعدمطلقہ عورت کے لیے شوہر نان ونفقہ کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔البتہ مطلقہ حمل سے ہو تووہ مطلق سے نان ونفقہ حاصل کرے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّي يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق:۶]۔ اوراگرمطلقہ وضع حمل کے بعدرضاعت کی ذمہ داری بھی ادا کررہی ہو تو مطلق پرحسب طاقت اس کی اجرت اداکرنا بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: {فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ} [الطلاق:۶]
    حدیث فاطمہ بنت قیس میں یہ بھی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺنے آ پ کے ایک استفسارپر فرمایا: ’’لَا نَفَقَةَ لَكِ إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَامِلً‘‘ [ سنن أبی داؤد: کتاب الطلاق، باب فی الرخصۃ فی نفقۃ المبتوتۃ۔ رقم:۲۲۹۰، ینظر: صحیح مسلم: کتاب الطلاق، باب المطلقۃ ثلاثًا لا نفقۃ لہا۔رقم:۴۱۔(۱۴۸۰)، قال أبو داؤد: وکذٰلک رواہ یونس، عن الزہری، وأما الزبیدی، فروی الحدیثین جمیعا حدیث عبید اللّٰہ، بمعنی معمر، وحدیث أبی سلمۃ بمعنی عقیل، ورواہ محمد بن إسحاق، عن الزہری، أن قبیصۃ بن ذؤیب حدثہ بمعنی دل علٰی خبر عبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ، حین قال: فرجع قبیصۃ، إلی مروان فأخبرہ بذلک، وصححہ الشیخ الألبانی رحمہ اللّٰہ]
    مطلقہ کے سرپرستوں سے اپیل: شریعت نے مطلقہ کی خبرگیری کے لیے اس کے اہل خانہ اور اس کے وارثین کو مسؤول بنایاہے کہ وہ اس کی ضروریات پوری کرنے کی سعی کریں جس میں چھت،کھاناپینا،لباس،علاج ومعالجہ وغیرہ امورآتے ہیں۔
    حافظ ابن کثیررحمہ اللہ آیت کریمہ ’’وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ‘‘ [البقرۃ:۲۳۳]،کی تفسیر میں جمہورمفسرین کا موقف بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عليه مثلُ ما علٰي والدِ الطفل من الإنفاق علٰي والدة الطفل، والقيامِ بحقوقها وعدَم الإضرار بها‘‘’’ وارث کو بھی یہی چاہیے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے، اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے،اوراسے کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچائے‘‘۔
    آپ مزیدفرماتے ہیں:علمائے احناف اورحنابلہ اپنے موقف کے لیے کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے، اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ عمر بن الخطاب اورجمہورسلف رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے۔
    مطلقہ کی خاطرداری میں سیرت سے ایک مثال:کتب احادیث میں فاطمہ بنت قیس قرشیہ رضی اللہ عنہا جوضحاک بن قیس فہری کی بڑی بہن تھیں کا ایک واقعہ ملتا ہے جو سماجی زندگی کے متعدد امورپر روشنی ڈالتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(صحیح البخاری: کتاب الطلاق، باب:۴۱، قصۃ فاطمۃ بنت قیس رضی اللہ عنہا، قبل رقم:۵۳۲۱ ) میں صرف ترجمۃ الباب میں اس قصے کی طرف اشارہ کیا ہے،یہ قصہ مفصل صحیح مسلم اورسنن اربعہ سمیت دیگرحدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
    قصہ یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہرابوحفص بن عمروبن المغیرہ مخزومی رضی اللہ عنہ جو دو طلاق دے چکے تھے،پھرایک سفرمیں تھے تیسری طلاق دے دی،اوراپنے وکیل کے سپردکچھ جَوبھیجے تاکہ فاطمہ بنت قیس کو دے دیں،مگرکمیت دیکھ کر یہ ناراض ہوگئیں۔وکیل صاحب کو اس بات کا علم تھا کہ مطلقہ (بائنہ) کو نفقہ ہے نہ سکنیٰ،کہہ دیا :  ’’وَاللّٰہِ مَا لَکِ عَلَیْنَا مِنْ شَیْئٍ‘‘ ،’’اللہ کی قسم!تمہاراہم پرکوئی حق نہیں‘‘۔صحابیہ فاطمہ بنت قیس رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اوریہ بات آپ کو بتائی۔آپﷺ نے فرمایا: ’’لَیْسَ لَکِ عَلَیْہِ نَفَقَۃٌ‘‘،’’اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں ہے‘‘[ صحیح مسلم: کتاب الطلاق، باب المطلقۃ ثلاثًا لا نفقۃ لہا،رقم:۳۶۔(۱۴۸۰)] [ینظر: صحیح مسلم: کتاب الطلاق، باب المطلقۃ ثلاثًا لا نفقۃ لہا۔ رقم:(۴۱۔(۱۴۸۰)
    قال أبو داؤد: وکذلک رواہ یونس، عن الزہری، وأما الزبیدی، فروی الحدیثین جمیعا حدیث عبید اللّٰہ، بمعنی معمر، وحدیث أبی سلمۃ بمعنی عقیل، ورواہ محمد بن إسحاق، عن الزہری، أن قبیصۃ بن ذؤیب حدثہ بمعنی دل علٰی خبر عبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ، حین قال: فرجع قبیصۃ، إلی مروان فأخبرہ بذلک، وصححہ الشیخ الألبانی رحمہ اللّٰہ]
    صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں الفاظ اس طرح ’’لَا نَفَقَۃَ لَکِ، وَلَا سُکْنٰی ‘‘ہیں۔
    غورطلب بات: رسول اللہ ﷺ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو صرف شرعی حکم سنانے پر اکتفا نہیں کئے کہ آپ کے لیے (طلاق بائن) کی وجہ سے نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔بلکہ شرعی حکم سنانے کے ساتھ ساتھ بحیثیت امام المسلمین ان کی رہائش، نان ونفقہ اورعزت آبروکی حفاظت کے لیے بھی فکرمند رہے۔
    عدت گزارنے سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیاتھاکہ وہ ام شریک رضی اللہ عنہاکے گھر میں رہیں۔پھر آپ ہی نے ایک علت بتاکرمنع کردیا۔ پھریہ خاتون معاشرے میں اپنے آپ کو بے سہارا پائی،رسول اللہ ﷺ سے عدت گزارنے کے لیے سوال کی کہ کہاں عدت گزاروں؟آپﷺ نے کہا: ’’اعْتَدِّی عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ، فَإِنَّہُ رَجُلٌ أَعْمَی تَضَعِینَ ثِیَابَکِ‘‘۔’’تم ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں عدت گزارلو،وہ نابینا آدمی ہیں،تم اپنے اوڑھنے کے کپڑے بھی اتارسکتی ہو‘‘۔
    عدت کے آغازہی میں رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ کہہ کر بھی ہمت دی کہ: ’’فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِینِی‘‘،’’تم جب عدت کی بندش سے آزادہوجاؤتو مجھے بتانا‘‘۔اورتنبیہ بھی فرمائی : ’’لَا تَفُوتِینَا بِنَفْسِکِ‘‘،’’اپنے نکاح کے معاملے میں ہمارے ساتھ مشورہ کئے بغیرہی پیچھے نہ چھوڑدینا‘‘۔رسول اللہ ﷺ کو مقصودیہ تھا کہ ان کی شادی کردی جائے تاکہ ان کے لیے دائمی طور پر نفقہ اورسکنیٰ کا مناسب انتظام ہوجائے۔
    مگرعدت گزارنے کے بعد وہ خود رسول اللہ ﷺ کے پاس ازخودتین نام پیش کیں کہ ان سب کی طرف سے میرے لیے پیغام نکاح ہے۔ان میں سے ایک ابوجہم عامربن حذیفہ قرشی عدوی ،دوسرے معاویہ بن ابو سفیان اموی، اورتیسرے اسامہ بن زیدبن حارثہ کلبی رضی اللہ عنہم اجمعین۔
    یہاں ایک مطلقہ خاتون کے لیے رسول اللہ ﷺ صرف شادی کرانے کا خیال نہیں رکھے تھے بلکہ اس خاتون کی کفالت مقصود تھی۔اسی لیے تو رسول اللہ ﷺ نے معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے متعلق کہا: ’’وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ‘‘، ’’کہ کسی طور پر بھی ان کے نان ونفقہ اورسکنیٰ کا مسئلہ دائمی طور پر حل ہوجائے‘‘۔رسول اللہ ﷺ کے مشورے کا احترام کرتے ہوئے اسامہ بن زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہم سے نکاح کے لیے آمادہ ہوگئیں اور زندگی بھر سدابہاررہیں۔کہتی ہیں: ’’فجعل اللّٰہ فیہ خیرا، واغتبطت بہ‘‘۔
    نوٹ: اس حدیث سے متعلق اہل علم کا نقدمعروف ہے،عمر بن الخطاب ،ام المومنین عائشہ سمیت کچھ صحابہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہم سے مروی روایت پر عمل اورفتویٰ سے احتراز کرتے تھے،جب کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا موقف راجح ہے۔اس بارے میں یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔بس اتنی بات یہاں ذکرکروں گاکہ اہل علم کی ایک تعداد نے حدیث فاطمہ بنت قیس پرناگزیرحالات میں فتویٰ دیاہے اورطلاق بائن کی صورت میں بھی بطورعدت سابقہ خاوندکے گھرہی رہائش بتایاہے۔
    تنبیہ: مطلقہ کی خاطر بطورنفقہ کے لیے اہل علم اس بات پر بھی زوردیتے ہیں کہ اس کے اصل حقوق پورے کئے جاناضروری ہے،جیسے اگراس کا مہر نہ دیا گیاہوتو ادائیگی ضروری ہے،اورمہرکی ادائیگی میں دخول اورقبل ازدخول کی تفصیل بھی ہے۔مہرکی ادائیگی ہو چکی ہو تو اس میں سے کسی طورپربھی کچھ واپس نہ لے۔اسی طرح مطلقہ کے لیے حق حضانت پر اس کی اجرت اورضروریات کا خیال رکھاجاناواجبات میں سے ہے۔
    عورت سے استمتاع کے عوض بھی طلاق بائن کی صورت میں رفاقت کی بہترصورت اختیارکی جائے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کادرج ذیل آیتوں میں ارشاد ہے:
    {اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}[البقرة:۲۲۹]،{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة:۲۳۱]،{وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِينَ}[البقرة:۲۴۱]،{فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا} [الأحزاب:۴۹]
    ہدایات: مطلقہ،بیوہ اوردیگرضرورت مندمسلمان ان کے لیے ملکی سطح پر مقامی بیت المال کا قیام( الحمدللہ ایک محاضرہ مستقل اس عنوان (قیامِ بیت المال کی اہمیت وضرورت)پر بتاریخ ۱۵؍صفر ۱۴۳۹ھ موافق ۵؍نومبر۲۰۱۷م بروزاتوار دے چکا ہوں،اوریہ ہمارے یوٹیوب چینل پر موجودہے۔ ) ہوناچاہئے اوران مسلمانوں کی کفالت ہونی ضروری ہے،یا ان کے لیے ان کی عمر،طاقت اورصنف ودیگرامورکا لحاظ کرتے ہوئے ماہانہ آمدنی کے ذرائع فراہم کرنا چاہئے،جہاں یہ صورت حال اختیارکی گئی ہے وہاں اس کے اچھے اثرات نمایاں ہیں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings