Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اسلام اور فیملی پلاننگ

    الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام عليٰ نبينا محمد، وعلی آله وصحبه أجمعين، وبعد:
    دین اسلام کے تمام احکام ’’جلب المصالح وتكثيرها،ودرء المفاسد وتقليلها‘‘ کے قاعدہ پر مبنی ہیں، چنانچہ دین کے احکام کا مقصداور ان کے نزول کی حکمت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو بندوں کے لیے دنیا وآخرت میں بھلائی اور سعادت کا باعث ہے،نہ صرف اس کا حصول مطلوب ہے بلکہ اس کی کثرت بھی مطلوب ہے،نیز جن چیزوں کو دین وشریعت نے بندوں کی دنیا وآخرت کے لیے باعث شقاوت ومفسدت بتایا ہے،اس کا مکمل ازالہ کیا جائے اور اگر مکمل ازالے کی صورت ممکن نہ ہو تو اسے ممکن حد تک کم کرنے کی کوشش کی جائے، دین کے تمام احکام کا یہی خلاصہ ہے۔
    وہ مصالح ومقاصد جن کے حصول کے لیے دینی احکامات نازل کئے گئے ہیں وہ اپنی اہمیت اور ان کے تئیں بندوں کے احتیاج کے اعتبار سے تین مراتب ودرجات میں تقسیم کئے گئے ہیں: پہلے درجے میں وہ مصالح ومقاصد ہیں جن کے فوت ہونے سے نہ تو کارہائے زندگی چل سکتی ہے اور نہ ہی اخروی کامیابی مل سکتی ہے،انہیں ’’المصالح الضرورية‘‘ یا ’’المقاصد الضرورية‘‘ کہا جاتا ہے۔
    ضروری مقاصد پانچ ہیں،جنہیں ’’المقاصد الضرورية الخمسة‘‘ کہا جاتا ہے اور ان کے حصول،ان کی حفاظت وصیانت اور ان کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے شریعت کے سارے احکام نازل کیے گیے ہیں اور وہ یہ ہیں: (۱) دین کی حفاظت (۲) جان کی حفاظت (۳)عقل کی حفاظت (۴)نسل کی حفاظت (۵) مال کی حفاظت۔
    ان پانچوں مصالح ومقاصد کے سلسلے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر ممکن طریقے سے ان کی حفاظت کرنااور انہیں ضائع ہونے سے بچانا واجب ہے،اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت کے تمام اوامر وواجبات،مناہی ومحرمات کا تعلق انہی پانچوں امور میں سے کسی نہ کسی سے ہوتا ہے۔
    ان پانچوں مصالح ومقاصد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے شریعت نے دو اسالیب اختیار کیے ہیں:
    پہلا: ان کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے جن کے ذریعہ ان مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کو ’’الحفظ من جانب الوجود‘‘ کہا جاتا ہے۔
    دوسرا: ان کاموں سے منع کیا جو ان مقاصد کے حصول میں خلل پیدا کریں۔ اس اسلوب کو ’’الحفظ من جانب العدم‘‘ کہا جاتا ہے۔
    محترم قارئین! نسل انسانی کی حفاظت،اس کی بقا ،اس کی نشوونما،دین اسلام کے انہی پانچ بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ شرعی مصالح ومقاصد کی حفاظت شریعت دو طریقوں سے کرتی ہے:
    پہلا طریقہ ایجابی یا وجودی کہلاتا ہے،جس میں مطلوبہ مقصد کے حصول کے وسائل وذرائع کو اختیار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
    اور دوسرا طریقہ سلبی یا عدمی کہلاتا ہے،جس میں مطلوبہ مقصد کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کیا جاتا ہے، نیز ان تمام امور کی نفی کی جاتی ہے جن سے حاصل شدہ مقصد فوت ہورہا ہو یا اس کا خطرہ ہو۔ چنانچہ اسی اصول کی بنیاد پر شریعت نے بقائے نسل انسانی کے مقصد کی حفاظت بھی انہی دونوں طریقوں سے کی ہے۔
    نسلِ انسانی کی حفاظت کا ایجابی طریقہ:
    اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی حفاظت فطری اور شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اس کی افزائش کے لیے نکاح کو مشروع قرار دیا،اس کی ترغیب دی،اس پر اجرو ثواب کا وعدہ کیا،اس کے بے شمار دنیوی واخروی فوائد بتائے۔
    اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
    {فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنٰي وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ}
    [النساء:۳]
    نیز فرمایا: {وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَي مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ}
    [النور:۳۲]
    نکاح اور اس کے ذریعہ افزائش نسل کو اپنی نشانیوں میں سے بتایا: {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ}
    [الروم:۲۱]
    اللہ کے نبی ﷺ نے شادی کرنے اور کثرت سے بچے پیدا کرنے کا حکم دیا، آپ نے فرمایا: ’’تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَم‘‘
    [أخرجہ أبوداؤد فی السنن، والنسائی فی السنن، وصححہ الألبانی]
    یہ وہ بعض نصوص ہیں جن میں ہماری شریعت نے افزائش نسل کی بنیاد ڈالنے اور اس کو تسلسل دینے کے لیے نکاح کو مشروع قرار دیااور طرح طرح سے اس کی ترغیب دی۔
    نسلِ انسانی کی حفاظت کا سلبی طریقہ:
    اللہ تعالیٰ نے ان تمام وسائل کا سد باب کر دیا ہے جن سے نسل انسانی کو خطرہ ہے، نصوص شریعت میں اس کی دو صورتیں ملتی ہیں:
    پہلی صورت: وہ چیز جو نسل انسانی کے وجود میں آنے کے راستے میں رکاوٹ ہے اس سے منع کیا گیا، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’رَدَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ، وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لَاخْتَصَيْنَا‘‘
    [متفق علیہ]
    عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَاء ٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَلَا نَسْتَخْصِي؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ‘‘
    [متفق علیہ]
    ان دونوں حدیثوں کے اندر تبتل (عورت اور نکاح سے دوری) اور خصی ہو جانے سے منع کیا گیا ہے،کیوں کہ دونوں ہی مقصد تناسل کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔
    دوسری صورت: نسل انسانی کے وجود میں آجانے کے بعد اس کی حفاظت کی،اسے تلف اورضائع ہونے سے بچایا،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:  {وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ} [الأنعام:۱۵۱]
    سابقہ تفاصیل سے یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ نسل انسانی کا وجود اس کی بقا وحفاظت شریعت اسلامیہ کے بنیادی مقاصد میں سے ہے،نیز اس کو وجود میں آنے سے روکنایا وجود میں آنے کے بعد اسے ختم کرنا شریعت کی منشا کے منافی ہے۔
    اس قدرے تفصیلی مقدمہ سے یہ بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ تناسل اور افزائش نسل کی اسلام کی نظر میں کیا اہمیت ومقام ہے،نیز اسے روکنا اوراس پر پابندیاں لگانا کس قدر سنگین ہے۔
    یوں تو افزائش نسل پر پابندی اور اس پر روک تھام مختلف شکلوں میں بہت قدیم زمانے سے پایا جارہا ہے، یہاں تک کہ علم الاجتماع کے بعض ماہرین نے تو اس کی تاریخ انیسویں صدی قبل مسیح سے جوڑا ہے۔ [تعدد الزوجات وتحدیل النسل للشیخ عطیہ محمد سالم :ص:۱۲۹]
    ہماری شریعت کے نصوص یہ بتاتے ہیں کہ نبی ﷺ کی بعثت کے وقت بھی عربوں کے اندر بچیوں کو پیدائش کے بعد زندہ درگور کردینے کا چلن موجود تھا،اسی طرح دنیا کے مختلف معاشروں میں نسل پر پابندی مختلف شکلوں میں پائی جاتی رہی ہے،لیکن ماضی بعید میں کبھی بھی کسی بھی معاشرے میں اس چلن کو منظم یا قانونی شکل نہیں حاصل تھی۔
    افزائش نسل پر پابندی کی پہلی منظم تحریک ۱۷۹۸ء میں اس وقت شروع ہوئی جب تھامس رابرٹ مالتھس (Thomas Robert Malthus) نامی ایک برطانوی ماہر اقتصاد نے( An Essay on the Principle of Population) نامی کتاب لکھی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ دنیا کی آبادی ہر پچیس سال میں دوگنی ہوجائے گی،جبکہ اشیاء خوردونوش کی شرح نمو،آبادی کی شرح نمو کے مقابلے میں بہت کم ہے، اگر آبادی پر کنٹرول نہ کیا گیا تو غذاء کی قلت ایک ایسا چلنج بن کر سامنے آئے گی جس کا مقابلہ کرنے کی سکت دنیا میں نہیں ہوگی۔
    اس تھیوری کے نتائج اتنے ڈراؤنے انداز میں پیش کئے گئے کہ پوری دنیا اس مزعومہ اعداد وشمار اور آنکڑوں کے جال میں پھنستی چلی گئی،اس طرح افزائش نسل پر وہ پابندی جو صدیوں سے انفرادی شکلوں میں موجود تھی،اسے نئے دور نے (فیملی پلاننگ) کا نیا اور خوشنما نام دے کر اڈاپٹ کر لیااور نسل بندی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
    موجودہ زمانے میں (فیملی پلاننگ) کو منظم انداز میں،حکومتی سطحوں پراور قانونی طور سے متعارف کرایا گیا ہے،اس کو پروموٹ کرنے کے لیے تحریکیں چلائی جارہی ہیں،اس کی تشہیر وتنفیذ کے لیے قوانین بنائے جارہے ہیں، کثرت اولاد کے نقصانات گنوا کر (ہم دو ہمارے دو) کا نعرہ دیا جارہا ہے۔ ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ (فیملی پلاننگ) سے متعلق ہماری شریعت کا کیا موقف ہے۔
    فیملی پلاننگ کا شرعی حکم:
    فیملی پلاننگ پر مطلق طور سے حرمت یا جواز کا حکم نہیں لگایا جا سکتا،کیوں کہ فی زمانہ اس کی متعدد قسمیں ہیں،ان قسموں میں فیملی پلاننگ کے لیے مختلف وسائل وذرائع اختیار کیے جاتے ہیں،نیز ان کے پیچھے مختلف دواعی واسباب کار فرما ہوتے ہیں،اس لیے ان مختلف اقسام واسباب کے اعتبار سے ان کے احکام بھی مختلف ہوں گے۔
    فیملی پلاننگ کی قسمیں اور ان کے شرعی احکام:
    فیملی پلاننگ کی پہلی قسم:
    تولید کا سلسلہ شروع ہونے اور کوئی بھی بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مانع حمل وسائل کا استعمال کرناجس سے کہ عورت کو حمل نہ ہو،اسے فقہاء کی اصطلاح میں ’’منع الحمل‘‘ کہا جاتا ہے۔
    فیملی پلاننگ کی دوسری قسم:
    چند ایک بچوں کی ولادت کے بعد مانع حمل وسائل کا استعمال کرنا،بایں طور کہ مستقبل میں استقرار حمل کو کلی اور دائمی طور سے روک دیا جائے،اسے فقہ کی اصطلاح میں ’’تحدید النسل‘‘ کہا جاتا ہے۔
    فیملی پلاننگ کی پہلی اور دوسری قسم میں فرق:
    دونوں قسموں کے ما بین ایک یکسانیت اور ایک فرق ہے۔
    یکسانیت یہ ہے کہ: دونوں ہی قسموں میں حمل ودلات کو دائمی طور سے روک دیا جاتا ہے۔
    فرق یہ ہے کہ: پہلی قسم میں بچوں کی ولادت کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیا جاتا ہے، جبکہ دوسری قسم میں چند بچوں کی ولادت کے بعد حمل کو روکا جاتا ہے۔
    فیملی پلاننگ کی پہلی اور دوسری قسم کے طریقے:
    فیملی پلاننگ کی اول الذکر دونوں اقسام میں ایک ہی طرح کے طریقے اور وسیلے اختیار کیے جاتے ہیں،ان میں سے کچھ اہم، معروف اور مؤثر طریقے یہ ہیں:
    ۱۔ عورت کا رحم (بچہ دانی) نکال دینا۔
    ۲۔ مردوں کا نس بندی( Vasectomize) کروا لینا۔
    ۳۔ رحم کے منہ کو( Intrauterine Device) کے ذریعہ بند کر دینا،جسے عربی زبان میں ’’لولب منع الحمل‘‘ کہا جاتا ہے۔
    ۴۔ مانع حمل دواؤں کا استعمال کرنا جو کہ کیپسول اور انجکشن وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہیں۔
    ۵۔ مرد کا صحبت کے وقت کنڈوم( Condom) (واقی ذکری) کا استعمال کرنا۔
    پہلے اور دوسرے طریقے میں حمل کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے، جبکہ تیسرے چوتھے اور پانچویں طریقے میں حمل کے عمل کو دوبارہ شروع کیے جانے کا امکان باقی رہتا ہے۔
    اس کے علاوہ اور بھی طریقے ہو سکتے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ وسیلہ جسے استعمال کرکے استقرار حمل کو دائمی طور سے روکا جائے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔
    فیملی پلاننگ کی پہلی اور دوسر ی قسم کا شرعی حکم:
    مذکورہ دونوں قسموں میں فیملی پلاننگ کے مختلف اسباب اور مختلف اغراض ومقاصد ہو سکتے ہیں ان اسباب اور اغراض ومقاصد کو دیکھتے ہوئے اس پر شرعی حکم لگایا جائے گا:
    ۱۔ عورت کی جان بچانے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا:
    اگر ماہر،متخصص، معتمد اور موثوق اطباء کی رائے ہو کہ عورت حمل کی متحمل نہیں ہو سکتی اور حمل ہونے سے اس کی زندگی کو خطرہ ہے، ایسی صورت میں فیملی پلاننگ کرنا شرعا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، چاہے کسی بھی بچے کی ولادت سے قبل کیا جائے یا کچھ بچوں کی ولادت کے بعد کیا جائے۔
    مذکورہ صورت حال میں فیملی پلاننگ کے جواز کی دلیلیں:
    ۱۔ قاعدہ فقہیہ ہے کہ: ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ ’’ یعنی بحالت مجبوری واضطرار حرام چیزیں جائز ہو جاتی ہیں‘‘، لیکن اس سے اصل حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے،گویا یہ ایک استثنائی جواز ہے، جیسے مخمصے کی حالت میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے : {فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [البقرۃ: :۱۷۳]
    اور عورت کی زندگی کو خطرہ اضطرار کا اعلیٰ ترین درجہ ہے، لہٰذا اسے بچانے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا جائز ہوگا۔
    یہ قاعدہ کئی مختلف صیغوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ جیسے:
    ’’لا حرام مع ضرورة ولا واجب مع التعذر والاستحالة‘‘ اور’’لا واجب مع العجز، ولامحرم مع الضرورة‘‘
    [الأشباہ والنظائر للسبکی:۱؍۴۹، والمنثور فی القواعد للزرکشی:۲؍۳۱۷،والتحبیر شرح التحریر :۸؍۳۸۴۷، والأشباہ والنظائر لابن نجیم :ص:۷۳، وموسوعۃ القواعد الفقہیۃ لمحمد صدقی آل بور نور :۹؍۳۹ ،رسالۃ لطیفۃ جامعۃ فی أصول الفقہ المہمۃ للشیخ السعدی: ص:۱۰۲]
    ۲۔ مقاصد ومصالح کے باب میں ایک قاعدہ ہے کہ اگر دو مصالح متعارض ہوں تو جس مصلحت کا مرتبہ بڑا ہے اسے مقدم کیا جائے گا اور بالاتفاق جان کی حفاظت (حفظ النفس) نسل کی حفاظت (حفظ النسل) پر مقدم ہے، اب ایک طرف عورت کی جان ہے ،دوسری طرف افزائش نسل، ایسی صورت میں عورت کی جان کی حفاظت مقدم ہے۔ [الاجتہاد فی مناط الحکم الشرعی دراسۃ تأصیلیۃ تطبیقیۃ، بلقاسم الزبیدی :ص:۳۰۸]
    ۳۔ قاعدہ فقہیہ ہے کہ: ’’المحافظة على الأصل مقدمة على المحافظة على الفرع‘‘ ’’ یعنی اصل کی حفاظت کرنا فرع کی حفاظت پر مقدم ہے، بیشک ماں اصل ہے اور بچہ فرع، ماں کی جان کی حفاظت بچے کے وجود پر مقدم ہے‘‘[علم المقاصد الشرعیۃ لنور الدین الخادمی :ص:۱۷۹]
    ۴۔ ایک اصولی قاعدہ ہے کہ: ’’إذا عاد الفرع على الأصل بالإبطال فالفرع يكون باطلا‘‘ ’’ اگر فرع کی وجہ سے اصل کا بطلان لازم آرہا ہو ، تو فرع کو ہی باطل قرار دے دیا جائے گا‘‘۔ ماں اصل ہے، بچہ فرع،بچے کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہے،لہٰذا فیملی پلاننگ کرکے ماں کی زندگی کو بچایا جائے گا۔ [تعدد الزوجات وتحدید النسل للشیخ عطیۃ محمد سالم :ص:۱۳۴]
    ۵۔ ایک فقہی قاعدہ ہے: ’’إذا تضرر الأصل بالفرع وجب تقديم مصلحة الأصل على فرعه‘‘’’ اگر اصل کو فرع کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہو، تو ہر حال میں اصل کی مصلحت کو فرع کی مصلحت پر مقدم کیا جائے گا‘‘۔ ماں جو کہ اصل ہے،اسے بچے کہ وجہ سے جو کہ فرع ہے، موت کا خطرہ لاحق ہے، لہٰـذا ماں کی زندگی کو مقدم کیا جائے گا۔ [تعدد الزوجات وتحدید النسل للشیخ عطیۃ محمد سالم: ص:۱۳۴]
    اس قاعدہ کی اصل ہمیں قرآن میں بھی ملتی ہے،جب خضر علیہ السلام نے بچے کو بغیر کسی ظاہری سبب کے قتل کر دیا،{فَانْطَلَقَا حَتَّي إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا} [الکہف:۷۴] اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: {وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا}[الکہف:۸۰]
    ۶۔ ایک اور فقہی قاعدہ ہے: ’’من كان أصلا فى وجود إنسان لا يكون ذلك الإنسان سببا فى انعدامه‘‘’’یعنی فرع کا وجود اصل کے عدم کا سبب نہیں ہو سکتا، بچے کے دنیا میں آنے کا سبب ما ں ہے، اب وہی بچہ ہی ماں کی موت کا سبب نہیں بن سکتا‘‘[تعدد الزوجات وتحدید النسل للشیخ عطیۃ محمد سالم: ص:۱۳۴]
    اس قاعدہ کی اصل اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث ہے جسے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ: ’’لَا يُقَادُ الوَالِدُ بِالوَلَدِ‘‘ [أخرجہ الترمذی فی الجامع، وصححہ الألبانی]
    یعنی باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا،کیوں کہ باپ اصل اور بیٹے کے دنیا میں آنے کا سبب ہے،لہٰذا وہ باپ کی موت کا سبب نہیں بن سکتا بعینہٖ اسی طرح بچے کے وجود کے لیے ماں کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالا جائے گا۔
    ۲۔ عورت کی زندگی کو خطرہ نہ ہونے کے باوجود فیملی پلاننگ کرنا:
    عورت کی زندگی کو خطرہ نہ ہونے کے باوجود بھی فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے، شرعی ادلہ اور اصول وضوابط کی روشنی میں اس کے اسباب درج ذیل ہیں:
    ۱۔ ابتدائی صفحات میں یہ بات قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کی گئی ہے کہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد افزائش نسل ہے، اور ہر وہ عمل جو شریعت کی منشا اور اس کے مقصد کے خلاف ہو وہ حرام ہے اور فیملی پلاننگ مکمل طور سے مقصد ِ تناسل کے خلاف ہے،لہٰذا یہ حرام ہے۔
    ۲۔ اگر کوئی چند بچوں کی ولادت کے بعد فیملی پلاننگ کرتا ہے تو بھی یہ شریعت کے مقصد کے خلاف ہے، کیوں کہ شریعت کا مقصد نہ صرف مصالح کا حصول ہے، بلکہ ان کی تکثیر بھی شریعت کے مصالح میں شامل ہے،جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔ [المدخل المفصل لمذہب الإمام أحمد للشیخ بکر أبو زید :ص:۷۷]
    نکاح کا اولین اور اصل مقصد تناسل ہے، تناسل کے علاوہ نکاح کے جو مقاصد ہیں وہ تبعی مقاصد ہیں، امام شاطبی فرماتے ہیں:
    ’’الشارع قصد بالنكاح التناسل، ثم أتبعه آثارا حسنة من التمتع باللذات، والانغمار فى نعم يتنعم بها المكلف كاملة‘‘
    [الموافقات للشاطبی:۲؍۳۷۵]
    اور فیملی پلاننگ سے نکاح کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے، لہٰذا یہ حرام ہے۔
    ۳۔ نبی ﷺ سے ایک صحابی نے ایک ایسی عورت سے شادی کرنے کے سلسلے میں مشورہ طلب کیا جو بچے نہیں پیدا کر سکتی تھی،نبی ﷺ نے انہیں منع کر دیا اور بچے پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا، حدیث کے الفاظ ہیں:
    عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَجَمَالٍ، وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ، أَفَأَتَزَوَّجُهَا، قَالَ: (لَا) ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَنَهَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: (تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَم)
    [أخرجہ أبوداؤد فی السنن، والنسائی فی السنن، وصححہ الألبانی]
    ۴۔ اللہ کے نبی ﷺ نے خصی ہونے اور تبتل اختیار کرنے سے منع فرمایا، اس کی علت یہ ہے کہ دونوں ہی چیزوں سے نسل بندی لازم آتی ہے، جو کہ شریعت کے مقصدِ تناسل کے خلاف ہے،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
    ’’رَدَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ‘‘
    [متفق علیہ]
    اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
    ’’كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَاء ٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَلاَ نَسْتَخْصِي؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ‘‘
    [متفق علیہ]
    اختصاء یا تبتل کی ممانعت کی علت فیملی پلاننگ کے اندر بدرجہء اتم موجود ہے، کیوں کہ جس طرح خصی ہوجانے یا تبتل اختیار کرنے سے نسل بندی لازم آتی ہے اسی طرح فیملی پلاننگ بھی نسل بندی ہی کے لیے ہوتی ہے اور شرعی اصول ہے کہ: ’’الحكم يدور مع العلة وجودا وعدما‘‘ یعنی اگر کسی علت اور سبب کی وجہ سے ایک مسئلے پر جواز یا عدم جواز کا جو حکم لگایا گیا ہے، اگر وہی علت وسبب دوسرے مسئلے میں پایا جائے تو بعینہٖ وہی حکم دوسرے مسئلے کا بھی ہوگا۔
    [قواطع الأدلۃ فی الأصول للسمعانی:۲؍۱۵۳، والقول المفید فی أدلۃ الاجتہاد والتقلید للشوکانی: ص:۷۲، ومذکرۃ فی أصول الفقہ للشنقیطی: ص:۳۱۴]
    ۵۔ فیملی پلاننگ کی حرمت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ چیز کفار ومشرکین سے آئی ہے، اس میں ان کی مشابہت ہے، جو کہ سختی کے ساتھ ہماری شریعت میں ممنوع ہے، اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    ’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘
    [أخرجہ أبو داؤد فی السنن، وصححہ الألبانی]
    ۶۔ اگر عورت کا رحم ( بچہ دانی) نکال کر،یا مرد کو خصی کرکے فیملی پلاننگ کی جائے،تو یہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے،جو کہ حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا}
    [النساء:۱۱۹]
    امام قرطبی فرماتے ہیں:
    ’’وَأَمَّا الْخِصَاء ُ فِي الْآدَمِيِّ فَمُصِيبَةٌ، فَإِنَّهُ إِذَا خُصِيَ بَطَلَ قَلْبُهُ وَقُوَّتُهُ، عَكْسُ الْحَيَوَانِ، وَانْقَطَعَ نَسْلُهُ الْمَأْمُورُ بِه… وَكُلُّ ذَلِكَ مَنْهِيٌّ عَنْهُ، ثُمَّ هَذِهِ مُثْلَةٌ‘‘
    [الجامع لأحکام القرآن للقرطبی:۵؍۳۹۱]
    عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
    ’’لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ الْوَاشِمَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘
    [أخرجہ النسائی، وصححہ الألبانی]
    اگر وشم،نمص اور تفلج تغییر لخلق اللہ ہے، تو جسم کے کسی ایسے حصے کو کاٹ کے نکال دینا تغییر لخلق اللہ کیوں کر نہیں ہوگا، جس پر شریعت کے مقصدِ تناسل کا انحصار ہے؟!
    ۷۔ فیملی پلاننگ کرنا قضاء وقدر کے تئیں عدم رضا کا ثبوت ہے جو کہ حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَي اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ}
    [الأحزاب: :۳۶]
    اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے جو اختیار کیا ہے اس پر راضی نہ ہونا، اس کو بدل دینے کی کوشش کرنا اسلام اور ایمان کے منافی ہے۔
    [مدارج السالکین لابن القیم:۲؍۱۸۵]
    ۸۔ فیملی پلاننگ کے لیے استعمال کیے جانے والے مختلف وسائل کے کئی سارے جسمانی اور نفسیاتی نقصانات ہیں، جس کا اعتراف علم طب بھی کرتا ہے اور یہ نقصانات کیوں نہ ہوں، جب کہ یہ سراسر فطرت سے بغاوت ہے؟!
    ۹۔ فیملی پلاننگ کی وجہ سے کئی سماج میں آبادی کی شرح نمو قابل تشویش حد تک نیچے آگئی ہے جو کہ مختلف سماجی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔
    ۱۰۔ فیملی پلاننگ کے نت نئے طریقوں نے زنا اور فحاشی کو آسان بنا دیا ہے نہ حمل کا خوف نہ رسوائی کا ڈر۔
    ۳۔ فقر وفاقہ یا مستقبل میں اس کے خوف سے فیملی پلاننگ کرنا
    موجودہ دور میں فیملی پلاننگ کی تحریک فقروفاقہ کا خوف دکھا کر ہی شروع کی گئی ہے، بہت شد ومد کے ساتھ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اگر شرح تناسل پر کنٹرول نہ کیا گیا تو پوری دنیا غذائی نقص کی لپیٹ میں آجائے گی اور لوگ بھوکوں مرنے لگیں گے۔
    اگر کوئی فقر کا حوالہ دے کر فیملی پلاننگ کرتا ہے تو یہ حرام ہے، اس کے اسباب یہ ہیں:
    ۱۔ ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے وہی سب کا پالنہار اور روزی رساں ہے، اللہ تعالیٰ جسے بھی اس دنیا میں پیدا کرتا ہے، اس کی روزی کا سامان بھی وہی کرتا ہے،کسی کو بھی پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اس بات کی یقین دہانی کرایا ہے۔ ارشاد ہے:
    {وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}
    [ہود:۶]
    دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
    [العنکبوت:۶۰]
    ایک اور جگہ ارشاد ہے:
    {إِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ}
    [الذاریات:۵۸]
    جو لوگ اپنی غربت اور فقر وفاقہ کی وجہ سے فیملی پلاننگ کرتے ہیںاور نسل کے وجود میں آنے سے پہلے ہی نسل کشی کا عمل شروع کردیتے ہیں ان جیسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ}
    [الأنعام:۱۵۱]
    اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اطمینان دلا رہا ہے کہ
    بچوں کی وجہ سے غربت کا خوف مت پالو تمہاری اور تمہارے بچوں کی روزی کا ذمہ میرا ہے۔
    اور جو لوگ غربت کے شکار نہیں ہیں، لیکن انہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ اگر اولاد کی کثرت ہوگی تو خرچ بڑھ جائے گا اور میں غربت کا شکار ہو جاؤں گا، اس خوف سے فیملی پلاننگ جیسی گھناؤنی نسل کشی کرتے ہیں،ان جیسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا}[الإسراء:۳۱] یعنی فقر کے خوف سے نسل کشی پر مت اتر جاؤ، تمہاری نسلوں اور تمہاری روزی کا بندوبست میں کروں گا۔
    فقرو فاقہ کے خوف سے فیملی پلاننگ کے سلسلے میں تین باتیں جاننا بہت ضروری ہے، دو کا تعلق ڈائریکٹ ہمارے ایمان سے ہے جبکہ تیسرے کا تعلق زمینی حقیقت سے۔
    پہلی بات: اگر کوئی فیملی پلاننگ اپنے فقریا مستقبل میں فقر کے خوف سے کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ان بچوں کی روزی کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظن کا شکار ہے جو کہ بہت مذموم صفت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ} [الحجر:۵۶]، حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي‘‘ [متفق علیہ]
    دوسری بات: ایک مومن کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ بچوں کو روزی دینے والا اللہ ہے، اس نے ہمیں اس روزی کے لیے سبب بنایا ہے،مسبب اللہ کی ذات ہے اور سبب اللہ کی مشیئت کے بغیر مؤثر نہیں ہو سکتا۔
    اگر کسی نے سبب پر اس طرح اعتماد کرلیا اور اس کو فی نفسہٖ مؤثر مان لیا کہ مسبب یعنی اللہ سے غافل ہوگیا تو یہ شرک ہے ۔
    اسباب سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے اس مسئلے کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ:
    التعلق بالأسباب أقسام:
    القسم الأول: ما ينافي التوحيد فى أصله، وهو أن يتعلق الإنسان بشيء لا يمكن أن يكون له تأثير ويعتمد عليه اعتمادا كاملا معرضا عن اللّٰه مثل تعلق عباد القبور بمن فيها عند حلول المصائب. وهذا شرك أكبر مخرج عن الملة وحكم الفاعل ما ذكره اللّٰه تعالي بقوله: {إِنَّهُ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ}
    القسم الثاني: أن يعتمد علٰي سبب شرعي صحيح مع غفلته عن المسبِّب وهو اللّٰه تعالٰي فهذا نوع من الشرك ولكن لا يخرج من الملة، لأنه اعتمد على السبب ونسي المسبب وهو اللّٰه تعالٰي.
    القسم الثالث: أن يتعلق بالسبب تعلقا مجردا لكونه سببا فقط، مع اعتماده الأصلي على اللّٰه فيعتقد أن هذا السبب من اللّٰه، وأن اللّٰه لو شاء قطعه ولو شاء لأبقاه وأنه لا أثر للسبب فى مشيئة اللّٰه عز وجل فهذا لا ينافي التوحيد لا أصلا ولا كمال۔[مجموع فتاويٰ ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين:۱؍۱۰۴]
    اس طویل اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قاری اندازہ لگا سکے کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے اور کس طرح سے اس کا تعلق ہماری توحید، ہمارے عقیدہ وایمان سے ہے۔
    تیسری بات: اگر زمینی حقائق پر غور کیا جائے تو فقر وفاقہ اور نقص غذاء کا خوف دلا کر فیملی پلاننگ کی تحریک چلانے والے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں،دنیا کے اندر جیسے جیسے انسانی آبادی کے اندر اضافہ ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے وسائل وذرائع اور اشیاء خوردونوش کے سورسز میں بھی اضافہ کیا ہے، بلکہ اگر آج سے دو تین دہائیاں بھی پیچھے جائیں گے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ماضی کے مقابلے میں آج لوگوں کا کھانا پینا، پہننا اوڑھنا، وسائل حمل ونقل، گھر مکان غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں رفاہیت اور بہتری آئی ہے، جبکہ دنیا کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کو فقر وفاقہ کا خوف دلانے والوں کے دعوے کہاں گئے؟ بلکہ اس طرح کی خبریں بھی آتی ہیں کہ غذا کی اس قدر فراوانی ہوئی کہ ا سے ضائع کر دیا گیا۔ وہیں دوسری جانب اس کرّہ ٔارض پر زندگی گزارنے کے کتنے وسائل ایسے ہیں جو ابھی تک استعمال ہی میں نہیں آئے ہیں۔
    یہ بات بھی مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی میں ثابت ہے کہ جب بھی کسی کے یہاں بچوں کی پیدائش شروع ہوتی ہے اور اس کی ضرورتیں بڑھتی ہیں تو اس کے رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن انسان کی مادہ زدہ آنکھ ان حقائق کو دیکھ نہیں پاتی ہے اس کا غافل دل اس کا ادراک نہیں کر پاتا ہے۔
    ۲۔ فقر وفاقہ کے خوف سے فیملی پلاننگ کرنا زمانہ ٔجاہلیت کے عقائد وعادات میں سے ہے، جس کا خاتمہ کرنے اسلام آیا، نبی ﷺ کی بعثت کے وقت بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو فقر وفاقہ سے ڈر سے قتل کر دیتے تھے، اللہ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: {وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ} [الأنعام: ۱۵۱]
    ۴۔ بچوں کی تربیت میں آنے والی مشقتوں کی وجہ سے فیملی پلاننگ کرنا
    اگر بچوں کی تربیت اور ان کی دیکھ بھال کی مشقت سے بچنے کے لیے کوئی فیملی پلاننگ کرتا ہے تو بھی جائز نہیں ہے،کیوں کہ اول تو بچوں کی تربیت بہت سارے واجبات کی طرح اس کی ذمہ داریوں میں شامل اور اس پر اسے اجر وثواب بھی ملتا ہے، دوسرے یہ کہ بچوں کی تربیت اور اس کی توفیق بھی رزق کی طرح ہی ہے، جس کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، اگر اس کے خوف سے فیملی پلاننگ کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کے ساتھ سوء ظن ہے، شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں: ’’فإن تأديبهم وتوجيههم كرزقهم فالكل بيد اللّٰه عز وجل وكما أنك تعتمد على اللّٰه عز وجل فى رزق أولادك كذلك أيضاً يجب أن تعتمد على اللّٰه سبحانه وتعالٰي فى أدب أولادك وهدايتهم فإن اللّٰه تعالي هو الهادي سبحانه وبحمده (مَنْ يَهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي) وعلي هذا فالذي ينظم نسله أو يحدده خوفاً من عدم القدرة على تأديبهم هو أيضاً مسيء الظن بربه تبارك وتعالٰي‘‘ [فتاوی نور علی الدرب:۲؍۹]
    ۵۔ عورت کو حمل کی مشقتوں سے بچانے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا
    اگر کوئی عورت کو حمل اور اس کی مشقت سے بچانے کے لیے فیملی پلاننگ کرتا ہے تو یہ بھی حرام ہے، کیوں کہ حمل عورت کے بنیادی وظائف میں شامل ہے، اس کے لیے اس سے مفر نہیں ہے، اس مشقت کے لیے شریعت کے مقصد تناسل سے معارضہ نہیں کیا جاسکتا،اور اس مشقت پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف کی ہے،اسے اس کے لیے باعث فضل بتایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ} [لقمان:۱۴]، نیز فرمایا: {وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا} [الأحقاف:۱۵]
    ۶۔ عورت کے جسمانی گلیمر اور چمک دمک کو برقرار رکھنے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا
    عورت کی خوبصورتی اور گلیمر کو تادیر باقی رکھنے کی غرض سے بھی فیملی پلاننگ کروانا جائز نہیں ہے،کیوں کہ جمال وخوبصورتی تحسینی اور تکمیلی مقصد ہے،جبکہ تناسل ضروری مقصد ہے،اور جب ضروری مقاصد تحسینی مقاصد کے ساتھ متعارض ہوں گے تو ضروری مقاصد کو مقدم کیا جائے گا۔ مقاصد ومصالح کے تعارض کے باب میں قاعدہ ہے: ’إذا كانت المصالح المتعارضة مختلفةً فى مراتبها، بأن كان بعضها ضرورياً، وبعضها حاجياً، وبعضها تحسينياً، فإنه تُقَدَّم المصالح الضرورية على الحاجية والتحسينية، وتُقَدَّم الحاجية على التحسينية‘‘
    [الاجتہاد فی مناط الحکم الشرعی دراسۃ تأصیلیۃ تطبیقیۃ:ص:۳۰۷]
    دو شبہات اور ان کا ازالہ:
    پہلا شبہ: بعض لوگ فیملی پلاننگ کو جائز ٹھہرانے کے لیے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کو فتنہ بتایا ہے، ارشاد ہے: {إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ} [التغابن:۱۵] یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ: جب اولاد فتنہ ہے تو پھر اس فتنے سے بچنے کے لیے فیملی پلاننگ کروانے میں کیا حرج ہے؟۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ: اس آیت میں فتنہ سے مراد آزمائش ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو خیر وشر دونوں سے آزماتا ہے،ارشاد ہے: {وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً} [الأنبیاء :۳۵] لہٰذا اولاد کو فتنہ کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ شر ہے، بلکہ وہ خیرہے، اور جس طرح اللہ تعالیٰ بندوں کو بہت ساری نعمتیں دے کر آزماتا ہے،اسی طرح اولاد کی نعمت دے کر بھی آزماتا ہے، کیا بندے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا بچوں کے تئیں جو واجبات ہیں انہیں ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ [دروس الشیخ ابن عثیمین:۱۱؍۹۳]
    دوسرا شبہ: فیملی پلاننگ کو بعض لوگ عزل پر قیاس کرتے ہیںاور عزل چونکہ جائز ہے جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’كُنَّا نَعْزِلُ عَلٰي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالقُرْآنُ يَنْزِلُ‘‘[متفق علیہ]
    اس کا جواب یہ ہے کہ: فیملی پلاننگ کو عزل پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، یہ قیاس مع الفارق ہے،کیوں کہ فیملی پلاننگ کے ذریعہ تناسل کے سلسلے کو یقینی طور پر منقطع کر دیا جاتا ہے، جبکہ عزل میں ایسا نہیں ہے؟عزل کرنے کے باوجود بھی حمل ٹھہر سکتا ہے،اللہ کے رسول ﷺنے ایک دوسری روایت میں اسے بڑے ہی واضح انداز میں بتا دیا، ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: سُئِلَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْعَزْلِ، فَقَالَ: ’’مَا مِنْ كُلِّ الْمَائِ يَكُونُ الْوَلَدُ، وَإِذَا أَرَادَ اللّٰهُ خَلْقَ شَيْئٍ، لَمْ يَمْنَعْهُ شَيْء ٌ‘‘ [متفق علیہ]
    اور واقعتا ایسا ہوا بھی،جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے عزل کیا،باوجود اس کے حمل ٹھہر گیا : عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَي رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ لِي جَارِيَةً، هِيَ خَادِمُنَا وَسَانِيَتُنَا، وَأَنَا أَطُوفُ عَلَيْهَا، وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ، فَقَالَ: اعْزِلْ عَنْهَا إِنْ شِئْتَ، فَإِنَّهُ سَيَأْتِيهَا مَا قُدِّرَ لَهَا، فَلَبِثَ الرَّجُلُ، ثُمَّ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ الْجَارِيَةَ قَدْ حَبِلَتْ، فَقَالَ: (قَدْ أَخْبَرْتُكَ أَنَّهُ سَيَأْتِيهَا مَا قُدِّرَ لَهَا) [صحیح مسلم]
    ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي جَارِيَةً لِي، وَأَنَا أَعْزِلُ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ ذَلِكَ لَنْ يَمْنَعَ شَيْئًا أَرَادَهُ اللّٰهُ‘‘ قَالَ: فَجَاء َ الرَّجُلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّ الْجَارِيَةَ الَّتِي كُنْتُ ذَكَرْتُهَا لَكَ حَمَلَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’أَنَا عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُولُهُ‘‘ [صحیح مسلم]
    فیملی پلاننگ کی تیسری قسم:
    چند ایک بچوں کی ولادت کے بعد ایک متعینہ مدت تک کے لیے حمل اور ولادت کے سلسلے کو روکنے کی غرض سے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے حمل نہ ہو،اور دو بچوں کے درمیان گیپ اور فاصلہ ہو جائے،اس کے بعد حمل کے سلسلے کو جاری کیا جائے،فقہاء اسے (تنظیم النسل) کا نام دیتے ہیں۔
    اس قسم میں ایک صورت یہ بھی داخل کی جا سکتی ہے کہ: شادی کے بعد حمل اور ولادت کی ابتدا ہونے سے قبل ہی کچھ مدت کے لیے حمل کو روک دینا۔
    فیملی پلاننگ کی پہلی دوسری اور تیسری قسم کے مابین فرق:
    پہلی دوسری اور تیسری قسم کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلی دونوں قسموں میں حمل کو دائمی طور سے روک دیا جاتا ہے، چاہے بچوں کی ولادت سے قبل، یا چند بچوں کی ولادت کے بعد۔ جبکہ تیسری قسم میں حمل کو ایک متعینہ مدت کے لیے روکا جاتا ہے،چاہے حمل وولادت کی ابتداء سے قبل ہی یا چند بچوں کی ولادت کے بعد۔
    فیملی پلاننگ کی تیسری قسم (تنظیم النسل) کے طریقے:
    فیملی پلاننگ کی اس قسم کے لیے مختلف طریقے اور وسیلے اختیار کیے جاتے ہیںان میں سے کچھ معروف اور مؤثر طریقے یہ ہیں:
    ۱۔ رحم کے منہ کو( Intrauterine Device) کے ذریعہ متعینہ مدت تک کے لیے بند کر دینا۔
    ۲۔ مانع حمل دواؤوں کا استعمال کرنا ۔
    ۳۔ مرد کا صحبت کے وقت کنڈوم( Condom) (واقی ذکری) کا استعمال کرنا۔
    فیملی پلاننگ کی تیسری قسم(تنظیم النسل) کا شرعی حکم:
    اس کے حکم پر آنے سے پہلے یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ فیملی پلاننگ کی اس قسم میں حمل کو دائمی طور پر نہیں روکا جاتا ہے، بلکہ دو حمل کے درمیان گیپ لانے کی غرض سے کچھ مدت کے لیے مانع حمل وسائل کا استعمال کیا جاتا ہے۔
    پہلی اور دوسری قسموں کی طرح یہاں بھی فیملی پلاننگ کے اغراض ومقاصد اور اس کے اسباب کو دیکھتے ہوئے اس پر حکم لگایا جائے گا:
    ۱۔ عورت کی جان بچانے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا:
    اگر بلا توقف کے حمل کا سلسلہ جاری رکھنے میں عورت کی جان کو خطرہ ہے تو حمل کے سلسلے میں توقف لانا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔ اس کی دلیلیں وہی ہیں جو فیملی پلاننگ کی پہلی اور دوسری قسم میں گزر چکی ہیں۔
    ۲۔ عورت، اس کے بچوں یا شوہر کو مشقت سے بچانے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا
    حمل اور ولادت کے مشکل مرحلے سے گزرنے کے بعد عورت کو نارمل حالت میں آنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، وہ کمزور ولاغر ہو جاتی ہے،کئی دفعہ بیمار رہنے لگتی ہے، کئی عورتوں کو ولادت کے لیے آپریشن سے گزرنا پڑتا ہے، جس کی پریشانیوں سے نکلنے میں وقت لگتا ہے،اب اگر ایک ولادت کے بعد فورا دوسرا حمل ہوجائے تو یہ ایسی مشقت کا باعث ہوتا ہے جس کو تحمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
    یا مسلسل حمل وولادت کی وجہ سے بچے چھوٹے ہوتے ہیں،ان کوسنبھالنا بہت مشکل امر ہوتا ہے، بچوں کو ماں کی وہ توجہ نہیں مل پارہی ہوتی ہے جو اس عمر میں بچوں کو ملنی چاہئے، یا حمل کے ساتھ شیر خوار بچے کو سنبھالنا، اسے دودھ پلانا، ماں بچے اور حمل تینوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوتا ہے، یا مسلسل حمل کی وجہ سے شوہر کی ضرورتیں پوری نہیں ہو پارہی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں دو حمل کے درمیان توقف کرنا جائز ہے۔
    جن اسباب کی وجہ سے حمل میں توقف جائز ہے ان کا ضابطہ یہ ہے کہ: میاں بیوی یا بچوں کو ایسی مشقت لاحق ہو جو خارج عن المعتاد ہو،کیوں کہ ایسی ہی مشقتیں شریعت میں معتبر ہیں اور ان کی وجہ سے شرعی احکام میں تسہیل ہوتی ہے، ورنہ دنیا کا کوئی بھی کام نارمل مشقت سے خالی نہیں ہے۔
    مشقت کی بنیاد پر حمل میں توقف کرنے کی دلیل:
    ۱۔ شریعت کا قاعدہ ہے کہ: ’’المشقة تجلب التيسير‘‘’ یعنی مشقت کے وقت شریعت آسانیاں پیدا کرتی ہے‘‘ [الأشباہ والنظائر للسبکی:۱؍۴۹،والأشباہ والنظائر للسیوطی: ص:۷، والأشباہ والنظائر لابن نجیم: ص:۶۴]
    یہ قاعدہ شریعت کے نصوص سے ماخوذ ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ}[الحج:۷۸]، نیز ایک اور جگہ فرمایا: {يُرِيدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} [البقرۃ:۱۸۵]
    ۲۔ سعد بن ابی وقاص کے روایت کیا ہے کہ ایک شخص اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا:
    ’’إِنِّي أَعْزِلُ عَنِ امْرَأَتِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺَ: (لِمَ تَفْعَلُ ذَلِكَ؟) فَقَالَ الرَّجُلُ: أُشْفِقُ عَلٰي وَلَدِهَا، أَوْ عَلٰي أَوْلَادِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺَ: ’’لَوْ كَانَ ذَلِكَ ضَارًّا ضَرَّ فَارِسَ وَالرُّومَ‘‘
    [صحیح مسلم]
    وجہ استدلال یہ ہے کہ: جب نبی ﷺ نے عزل کرنے کی وجہ پوچھی تو اس شخص نے کہا کہ: بچوں پر شفقت کی بنا پر عزل کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے بچوں پر شفقت کی وجہ سے حمل کو روکنے کی کوشش پر کوئی نکیر نہیں کیا، البتہ اس شخص کی جو سمجھ تھی کہ یہ چیز بچے کے لیے نقصان دہ ہے آپ نے اس کی نفی ضرور کی۔
    تنبیہ:
    کسی معتبر مشقت کی وجہ سے مانع حمل وسائل کا استعمال صرف اسی وقت تک جائز ہوگا جب تک وہ مشقت ختم نہ ہو جائے، مشقت کے ختم ہونے کے بعد جائز نہیں ہوگا۔ کیوں کہ جواز کی علت مشقت ہے،علت ختم ہوتے ہی جواز کا حکم بھی ختم ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں فقہاء نے نصوص شریعت کی روشنی میں کئی قواعد وضع کیے ہیںجن میں ایک معروف قاعدہ ہے: ’’إذا ضاق الأمر اتسع وإذا اتسع ضاق‘‘
    [الأشباہ والنظائر للسیوطی: ص:۸۳، القواعد والضوابط الفقہیۃ المتضمنۃ للتیسیر للدکتور عبد الرحمٰن العبد اللطیف:۱؍۱۱۵]
    ۳۔ فقر کی وجہ سے یا مستقبل میں اس کے خوف کی وجہ سے فیملی پلاننگ کرنا
    یہ جائز نہیں ہے،کیوں کہ یہ معاملہ فیملی پلاننگ تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسان کے عقیدہ سے ہے ۔ اس کی تفصیل پہلی اور دوسری قسم کی فیملی پلاننگ میں گزر چکی ہے۔
    ۴۔ حسن وجمال اور گلیمر کو برقرار رکھنے کے لیے فیملی پلاننگ کرنا
    یہ بھی جائز نہیں ہے،کیوں کہ یہ کوئی مشقت نہیں ہے،کچھ مدت حمل میں توقف کے لیے مانع حمل وسائل کا استعمال مشقت کی وجہ سے جائز ہے، جو کہ یہاں موجود نہیں ہے۔ اس مسئلے کی بعض تفصیلات پہلی اور دوسری قسم کی فیملی پلاننگ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان وعمل کی توفیق دے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings