Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نکاح اور تعدد ازدواج

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں مردوعورت کی شکل میں پیدا کیا ہے،جہاں بھی نظر ڈالئے مرد اور عورت کی پیدائش ایک خاص تناسب کے ساتھ جاری وساری ہے،دونوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے تقاضے اور مطالبے ودیعت کردیے گئے ہیں،اس ضرورت کی تکمیل کے لیے دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں،اللہ تعالیٰ نے اس فطری ضرورت کی تکمیل کے لیے نکاح کا مہذب طریقہ رائج کیا ہے اور اس کے فضائل بھی بیان کئے ہیں تاکہ آدمی اس تقاضے کی تکمیل کے لیے نکاح کا جائز راستہ اختیار کرے،نہ کہ زنا کی راہ پر چل پڑے،یہ بات مسلم ہے کہ نکاح کا اگر چلن نہیں ہوگا تو سماج میں زنا کی نجاست پھیلے گی،کیونکہ فطرت اپنے ظہور کے لیے چور دروازہ تلاش کر لیتی ہے،مغرب میں نکاح کا رواج کم ہے تو زنا اور بدکاری کا بازار گرم ہے،آج ہمارا معاشرہ بھی دھیرے دھیرے اسی ڈگر پر چل رہا ہے،نکاح مشکل بنایا گیا اور زنا کے چوپٹ دروازے کھول دیئے گئے،اس لیے ان کا معاشرہ درندوں کے جنگل میں تبدیل ہوگیا ہے جہاں دن رات ہوس کے پجاری شکار کی تلاش میں ہوتے ہیں، نکاح جب رائج ہوتا ہے تو آگے چل کر تعدد ازدواج کا راستہ بھی ہموار ہوتا ہے،زنا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعدد ازدواج فیصلہ کن رول ادا کرتا ہے،جن ممالک میں تعدد ازدواج کا چلن ہے وہاں بدکاری کا تناسب بہت کم ہے،ایک سے زائد شادیوں پر غور کیجئے تو اس کے ثمرات وبرکات حیرت انگیز ہیں،بیشمار خیر کی چیزیں اس سنت سے جڑی ہوئی ہیں،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
    {وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰي فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰي وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ذٰلِكَ اَدْنٰٓي اَلَّا تَعُوْلُوْا}
    ’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر تمہیں اس بات کا ڈرہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو صرف ایک (سے نکاح کرو) یا لونڈیوں (پر گزارا کرو) جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو‘‘
    [النساء:۳]
    اسلام نے عدل کی شرط کے ساتھ ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے،عدل کا مفہوم یہ ہے کہ نان و نفقہ،سکنیٰ،شب باشی اور دیگر مادی ضروریات کی تکمیل میں تمام بیویوں کے ساتھ انصاف اور مساوات پر عمل کیا جائے، کسی ایک پر مال اور محبت نچھاور کرنا اور دوسری بیویوں کو نظر انداز کرکے چلنا اسلام اس سے منع کرتا ہے،عدل اگر ایک بیوی کے ساتھ آدمی نہیں کرسکتا ہے تو اسے ایک نکاح کی بھی اجازت نہیں ہے،اگر شرع کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو زندگی کے تمام معاملات میں عدل مطلوب ہے کیونکہ شریعت عدل پر مبنی ہے،مادی ضرورتوں کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ انسان کے دل کا معاملہ اس کے کنٹرول میں نہیں ہوتا ہے، کسی ایک کی طرف اس کا جھکاؤ ممکن ہے،اس پر گناہ نہیں ہے،اسی لیے قرآن میں کہا گیا کہ تم انصاف نہیں کرسکتے تو ایک پر اکتفا کرو،پھر اسی سورہ میں آگے جاکر ارشاد فرمایا کہ تم چاہ کر بھی انصاف نہیں کرسکتے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَآئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا } ’’تم سے یہ تو کبھی نہیں ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو ، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کر لو ، اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے ‘‘
    [النساء:۱۲۹]
    ایک سے زائد نکاح زیادہ ثواب کا بھی ذریعہ ہے،جب نکاح عبادت اور ثواب کا عمل ہے تو آدمی شرع کے دائرے میں رہ کر جتنا زیادہ نکاح کرے گا اسی قدر اجر وثواب کا مستحق ہوگا،ایک سے زائد نکاح کے ذریعے آدمی کثرت سے صدقے کا ثواب حاصل کرتا ہے کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’فِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ‘‘ ’’اور (بیوی سے مباشرت کرتے ہوئے ) تمہارے عضو میں صدقہ ہے‘‘
    [صحیح ابن حبان:۴۱۶۷]
    لہٰذا ایک سے زائد بیوی والوں کے لیے اس اعتبار سے ثواب کے مواقع زیادہ ہیں،یہ رب کی مہربانی ہے کہ اس نے جائز طریقے سے شہوت کی تکمیل کو بھی ثواب سے جوڑ دیا ہے،دوسری شادی اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ نبی ﷺ نے ایک سے زائد شادیاں کی تھیں اور یہ آپﷺ کے صحابہ کی بھی سنت ہے،کتب تاریخ کے مطالعے کے دوران بمشکل تمام اکا دکا صحابی ملتے ہیں جنہوں نے صرف ایک نکاح پر اکتفا کیا تھا،صحابہ کی اکثریت ایک سے زائد نکاح والی تھی،نیک اور صالح اولاد اور موت کے بعد ان کی دعائیں حصول ثواب کا ذریعہ ہیں،ایک سے زائد نکاح صالح اولاد کے حصول اور بعد از موت کثرت سے نیکیوں کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں، اللہ کے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا:
    ’’إِذَا مَاتَ ابنُ آدم انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ‘‘
    ’’ جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے ( وہ منقطع نہیں ہوتے ) : صدقۂ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے ‘‘
    [صحیح مسلم:۱۶۳۱]
    دوسری شادی امت کی افزائش نسل اور کثرت تعداد میں بھی معاون ہے،اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    ’’تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ‘‘ ’’ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں ۔ بلاشبہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کرنے والا ہوں‘‘
    [سنن ابی داؤد:۲۰۵۰]
    اس لیے امت مسلمہ میں ہر دور میں تعدد ازدواج کا رواج تھا اور نہ کرنا عیب شمار ہوتا تھا،آج صورتحال اس کے برعکس ہے،اب دوسری شادی عیب ہے اور ایک نکاح پر باقی رہنا خوبی ہے،جو آگے بڑھ کر اس سنت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے،اس کو کئی چیلنجز سے گزرنا پڑتا ہے،مخالفتوں اور ناراضگیوں کا کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے،طعنے اور بولیوں کی بوچھار ہوتی ہے،پہلی بیوی کے گھر والے محاذ بنا لیتے ہیں،گھر خاندان والے بھی کوستے ہیں،آدمی کی زندگی عذاب بن جاتی ہے،یہی وہ خوفناک ردِّ عمل ہوتا ہے جسے سوچ کر آدمی چاہ کر بھی دوسری شادی کی جرأت نہیں کرتا،شادی کی خواہش کو سینے میں دفن کرلیتا ہے،مگر کہیں کہیں اندھیرے میں امید کی کرن نظر آجاتی ہے،اس نامساعد ماحول میں بھی چند نفوس آگے بڑھتے ہیں،دھارے کے خلاف بہنے کا عزم مصمم کرتے ہیں،وہ مخالفتوں کے سرکش بہاؤ کی پرواہ نہیں کرتے،وہ بِھڑ کے چھتے میں پتھر ماردیتے ہیں اور دل آزا ریوں کا پامردی سے مقابلہ کرتے ہیں ،کچھ دنوں کے ٹرائل کے بعد ماحول پرسکون ہوجاتا ہے،بس اسی ہمت اور جگر گردے کر ضرورت ہوتی ہے،جو چیلنجز سے گھبراتے ہیں،گوشۂ عافیت جنہیں عزیز ہوتی ہے وہ چاہت کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور دوسری شادی کرنے والوں کے خلاف برپا ہونے والے ہنگاموں کے تماشائی بن جاتے ہیں،اس قبیل کے بعض لوگ حسد میں مبتلا ہوکر مخالف بھی بن جاتے ہیں۔
    دوسری شادی سماج کی ضرورت اور فطری تقاضا ہے اور ایسا بھی نہیں کہ یہ اسلام کی ایجاد کردہ ہے اوراسلام سے پہلے دنیا میں اس کا وجود نہیں تھا،حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مذاہب میں موجود تھا،چنانچہ ایک تجزیہ نگار لکھتے ہیں:
    اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارہویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ہے،عرب علاقوں میں آباد یہودی ۱۹۵۰ء تک ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے لیکن ۰ ۱۹۵ء میں اسرائیل کے علماء نے کثرت ازدواج پرمکمل پابندی لگا دی۔اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی نظرآتی ہے ۔ یہ تو چند صدیاں پہلے عیسائی علماء نے ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائدکی ہے ۔اگر آپ برادران وطن کے متون مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں اور مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔’’دشرتھ‘‘ کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ کرشنا کی بھی بہت سی بیویاں تھیں۔
    دوسری بات یہ کہ مختلف سروے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ تمام ممالک میں مردوں کی نسبت عورت کی تعداد زیادہ ہے،اگر ہر آدمی صرف ایک نکاح پر اکتفا کرلے تو زائد خواتین کہاں جائیں گی؟ان سے نکاح کون کرے گا؟انہیں بے نکاحی زندگی گزارنی پڑے گی،اس صورت حال میں اخلاقی بے راہ روی کے مواقع کھلے ہوتے ہیں،ان حالات میں بہت سی خواتین شیطان کے جھانسے میں آجاتی ہیں،اس لیے ایک سے زائد شادی وقت کی ضرورت اور حکمت کا تقاضا ہے۔
    خواتین کے کچھ مخصوص ایام(حیض ونفاس) ہوتے ہیں جس میں وہ جنسی عمل کے قابل نہیں رہتی ہیں اور شریعت نے بھی ان ایام میں پابندی لگائی ہے،اب اگر آدمی کے اندر ان ایام میں شہوت زور مارے تو وہ اپنی تسکین کہاں کرے گا؟ اسے ایک اور بیوی کی ضرورت ہوگی جس کا دروازہ سماج نے بند کیا ہوا ہے،اب اگر وہ استقامت نہیں دکھاتا ہے تو گناہ سے آلودہ ہونے میں وقت نہیں لگتا ہے،مگر ظالم سماج کی نظر میں زنا قابل برداشت ہے لیکن دوسری شادی ناقابل برداشت ہے۔
    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی کسی مرد میں شہوت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے،ایک نکاح ایسے مردوں کے لیے ناکافی ہے،ایک سے زائد نکاح ان کی ضرورت ہے،اگر وہ ایک سے زائد نکاح نہیں کریں گے تو ان کو زنا کا خطرہ لاحق ہوگا جو اسلام میں حرام ہے۔
    سماج میں بعض عورتیں بانجھ ہوتی ہیں،وہ اپنے شوہروں کو اولاد دینے سے قاصر ہوتی ہیں،اگر آدمی دوسری شادی نہیں کرے گا تو وہ اولاد سے محروم رہے گا،اس کا آنگن کبھی اولاد کی دید سے سیراب نہیں ہوگا،لہٰذا یہ صورتحال بھی ایک سے زائد شادیوں کا تقاضا کرتی ہے،بعض خواتین چند سالوں بعد جماع کی استطاعت سے محروم ہوجاتی ہیں،وہ اپنے شوہروں کی جنسی تسکین کے قابل نہیں رہ جاتی ہیں،اس سچویشن میں اگر آدمی کے اندر شہوت بھڑکتی ہے تو وہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے کہاں جائے گا؟دوسری بیوی تو ہے نہیں جہاں وہ تسکین کرلے،لہٰذا اس آدمی کے بہکنے اور گمراہ ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں،لہٰذا دوسری شادی اس صورت حال میں جنسی تحفظ کا ضامن ہے،دوسروں کے یہاں ان حالات میں دوسری شادی کا دروازہ اس لیے بند رہتا ہے کہ ان کے یہاں زنا کاکلچر رائج ہے،وہ زنا اور بدکاری کو نکاح کا متبادل سمجھتے ہیں اور اپنا مرغوب شوق پورا کرتے ہیں،وہ جب ضرورت متقاضی ہوئی،جہاں طبیعت راغب ہوئی وہاں تسکین کرلیتے ہیں،اس لیے وہ نکاح کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں،مگر مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے اپنی عاقبت کے تحفظ کے لیے دوسری شادی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ عذاب آخرت سے ڈرتا ہے۔
    دوسری شادی پر کئی اعتراضات وارد کئے گئے ہیں،ایک اعتراض یہ ہے کہ ایک سے زائد نکاح شہوت پرستی ہے،ہوا و ہوس کی غلامی ہے،اگر غور کیا جائے تو یہ ایک شریفانہ عمل ہے،آدمی میں اگر شہوت زور کررہی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ غلط راستے سے اپنی شہوت پوری کرے،وہ شرافت کے ساتھ شرعی نکاح کرتا ہے اور فطری طریقے سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے،جبکہ اسی معاشرے میں وہ لوگ بھی رہتے ہیں جو اپنی دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غلط طریقے سے عورتوں کا استحصال کرتے ہیں،ان کو شہوت پرست نہیں کہا جاتا ہے،آدمی جیب میں پیسے رکھ کر گناہ کے اڈوں کی طرف نکل جاتا ہے اور منہ کالا کرکے آجاتا ہے،وہ شریف کہلاتے ہیں،حیرت ہے جو شادی کرکے ایک خاتون کو عزت دیتا ہے اور اس کی پوری زندگی کی ذمے داریوں کو اٹھاتا ہے وہ شہوت پرست ہے اور جو چند لمحوں کو رنگین کرنے کے لیے کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے وہ معزز شہری ہے،شہوت پرست کون نہیں ہے،فرق صرف جائز و ناجائز طریقے کا ہے، درحقیقت زنا کے معاشرے میں رہنے والوں کو صحیح طریقہ راس نہیں آتا ہے،اس لیے ایمانداری اور شرافت سے کیا جانے والا کام قابل اعتراض ہے،ایک اور اعتراض اور اس کا جواب ایک عربی عالم دین کے الفاظ میں اس طرح ہے:
    ’’ملحد اور دشمنان دین کا دعویٰ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے نتیجے میں بیویوں میں کچھ جھگڑا فساد ہوتا ہے اس سے زندگی کی رونق(اور مزا) کِرکِرا ہوجاتا ہے، کیونکہ مرد جب کسی ایک زوجہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری ناراض ہوجاتی ہے ، دوسری کو خوش کرنا چاہتا ہے تو پہلی ناراض ہوجاتی ہے یوں وہ ہمیشہ دو ناراضیوں میں سے ایک کا بہرحال شکار رہتا ہے ، اور خود کو ایسی پریشانی میں مبتلا کرنا حکمت اور مصلحت کا کام نہیں۔۔۔جو لوگ اس بنیاد پر تعددزوجات کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کلام ایسا ساقط اور کمزور ہے کہ جس کا لغو اور بے کار ہونا کسی عقلمند پر مخفی نہیں ، کیونکہ ایک گھر میں آپس میں نوک جھوک اور جھگڑے ایک ایسا کام ہے جس سے فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں ، بعض مرتبہ مرد کے اپنی اکلوتی بیوی سے اختلافات اور لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، الغرض گھر کے مختلف افراد کی آپس میں نوک جھوک اور جھگڑے معاشرے میں ایک معمول کی بات سمجھا جاتا ہے اور ان اختلافات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ، چنانچہ ایک سے زائد بیویاں رکھنے میں جو کچھ فسادات واختلاف ہوتے ہیں، ان فسادات واختلافات کی ان مصلحتوں کے قابلے میں کچھ حیثیت نہیں جو مصلحتیں اس سنت پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے‘‘۔
    دوسری بات یہ ہے کہ جوائنٹ فیملی بھی جھگڑے اور لڑائی کا سبب ہے اور غیر اسلامی بھی ہے،اسے کیوں برداشت کرلیا گیا ہے،اس کو ختم کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی ہے،اس سسٹم کو موقوف کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی ہے؟
    ایک اعتراض یہ ہے کہ دوسری شادی سے بچوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،وہ خراب ہوجاتے ہیں،یہ بات بھی کم فہمی اور تنگ نظری پر مبنی ہے،اگر ایک سے زائد نکاح کرنے والوں کے بچے بگڑجاتے ہیں تو کیا ایک نکاح کرنے والوں کے بچے اسوہ ہوتے ہیں،سروے کرکے دیکھ لیا جائے کہ ایک نکاح والوں کے بچے کتنے فیصد شریف ہیں؟کیا صحابہ نے دوسری شادیاں کی تھیں تو ان کے بچے بگڑ گئے تھے؟وہ غیر معیاری تھے،صحیح بات یہ ہے کہ بگاڑ کا تعلق شادی سے نہیں بلکہ تربیت سے ہے،اگر تربیت صالح ہو تو بچے نیک ہوں گے خواہ وہ ایک بیوی والے کے بچے ہوں یا ایک سے زائد بیوی والوں کے بچے ہوں،اس کے علاوہ بھی چندظاہر فریب اعتراضات ہیں جو بس کم فہمی پر مبنی ہیں،ایک سے زائد نکاح اسلام کی تعلیم ہے،انبیاء کی سنت ہے،صحابہ کی سنت ہے،فطرت اور سماج کی ضرورت ہے،موجودہ دور میں اس کے رواج کی اشد ضرورت ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings