Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اسلام کا عائلی نظام کانفرنس

    انسان زندگی گزارنے کے لیے اپنے وجود کے فوراً بعد فطری طور پر جس ادارے سے جڑتا ہے وہ ادارہ ’’خاندان‘‘ کہلاتا ہے،یہیںسے انسان کی جسمانی، روحانی، اخلاقی اور فکری پرورش کی ابتدا ہوتی ہے،اس ادارے میں معاشرت،تعلقات اور برتاؤ کے طور طریقوں کو عائلی نظام زندگی کہا جاتا ہے،عائلی زندگی ہی انسانی شخصیت کا نقطۂ آغاز ہے،اس لیے اسلام نے اس ادارے کی طرف بطور خاص توجہ مبذول کرائی ہے، اسلام کا عائلی نظام اور اس سے متعلقہ احکام اسلام کا طرۂ امتیاز ہیں،اسلام زندگی کے تمام شعبہ جات میں اہل ایمان کی رہنمائی کرتا ہے،خاندان، نکاح ، طلاق، خلع،نان و نفقہ، وراثت ، وصیت، رضاعت،حضانت اور حقوق پر معلومات اور اسلامی ہدایات حکمتوں اور فوائد کا خزینہ ہیں اور ان کی نشر و اشاعت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
    مغرب کا خاندانی وسماجی ڈھانچہ جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور فواحش ومنکرات کے سیلاب میں بہہ رہا ہے،اس کی ایک وجہ خاندانی وعائلی نظام سے بغاوت ہے،اس لیے اسلام کا عائلی نظام ہمارے لیے نہ صرف رحمت ہے بلکہ دنیا کے لیے نجات دہندہ بھی ہے،اس نظام کے سائے میں رہنے اور زندگی گزارنے میں عافیت ہے،ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کی بازگشت سنائی دے رہی ہو،ایسے میں اسلام کا عائلی نظام کیا ہے؟اسلام کے خاندانی اصول وضوابط کیا ہیں؟گھریلو زندگی کا لائحۂ عمل کیا ہے؟اس ادارے کے افراد کے درمیان تعلقات،روابط اور برتاؤ کے آداب کیا ہیں؟اس کا تفصیلی پیغام نشر ہونا چاہیے تھا تاکہ عوام الناس اور دیگر حلقوں کو پتہ چلے کہ اہل ایمان کو الگ سے کسی قانون اور نظام کی چنداں ضرورت نہیں ہے،ہماری یہ ضرورت اسلام نے بہت پہلے پوری کردی ہے اور ہم اسی گائیڈ لائن کی روشنی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
    اسلامک انفارمیشن سینٹر(IIC) نے اسلام کے عائلی نظام سے عوام الناس کو متعارف کرانے کے لیے بتاریخ ۱۷؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار جامع مسجد اہلحدیث مومن پورہ میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی اور اجلہ علماء اور ماہرین فن کو بلا کر کانفرنس کی افادیت کو دوچندکر دیا،کانفرنس کا اعلان سن کر شائقین علم و تقویٰ کشاں کشاں مومن پورہ مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے،دور دراز سے کانفرنس کی کشش لوگوں کو کھینچ کر لارہی تھی،کانفرنس تین نشستوں پر مبنی تھی، جماعت کی مایہ ناز شخصیت شیخ ابوالعاص وحیدی حفظہ اللہ اس مؤقر کانفرنس کے صدر تھے،شیخ کفایت اللہ سنابلی اس کے روح رواں تھے،شیخ عبدالشکور مدنی پوری طرح سرگرم تھے،پوری ٹیم مکمل نشاط سے کانفرنس کی ایک ایک کڑی پر نظر جمائے ہوئے تھی،صبح کی پہلی نشست میں توقع کے خلاف کثیر تعداد میں سامعین موجود تھے،تلاوت اور تمہیدی گفتگو کے بعد اصل موضوعات کا آغاز ہوا۔
    شیخ خلیل الرحمٰن سنابلی حفظہ اللہ نے ’’خاندان اور خاندانی نظام کی اہمیت ‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا،گویا آپ نے اپنے بعد کے موضوعات کے لیے سامعین کو ذہنی طور پر ہموار اور بیدار کیا،کانفرنس کے لیے ذہنی فضا تیار کی اور ایک خوبصورت ماحول دے کر کانفرنس کو آگے کی طرف بڑھادیا،دوسراخطاب شیخ ظہیر الدین سنابلی حفظہ اللہ(امام وخطیب جامع مسجد اہلحدیث مومن پورہ) کا تھا،عنوان ’’میاں بیوی کے حقوق‘‘ تھا،جی ہاں حقوق کاباہمی توازن ہی تو خاندان کو پائیداری عطا کرتا ہے،آپ نے موضوع کا حق ادا کیا،تیسرا خطاب’’ نکاح اور تعدد ازدواج‘‘ پر تھا،ایک اہم سماجی وخاندانی ضرورت تعدد ازدواج ہے،یہ ایک مثالی سماجی زندگی میں پائے جانے والے خلا کو پر کرتا ہے،نیزایک سے زائد نکاح بہتیرے مسائل کا حل بھی ہے،چوتھا خطاب معروف قلم کار شیخ شعبان بیدارؔ صفاوی حفظہ اللہ کا تھا،آپ کا موضوع ایک حساس مسئلہ ’’شادی میں ولی کی اہمیت اور کورٹ میرج‘‘ تھا،کتاب وسنت کی روشنی میں اور واقعات و مشاہدات کے جلو میں سامعین کے دلوں میں اتر کر اپنے مخصوص اسلوب میں انتہائی متاثر کن خطاب فرمایا،کہا نکاح خاندانی ادارے کی بنیاد ہے اور ولایت کے بغیر نکاح زنا کے پھیلاؤ کاذریعہ ہے،اس لیے اب فقہی تفہیم سے آگے بڑھ کر اس کے دوررس مضرات اور بکھرتے سماجی تانے بانے کی حفاظت کے لیے موثر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے،پانچواں خطاب شیخ کفایت اللہ سنابلی کا تھا،موضوع ’’اسلام میں عورت اور یتیم پوتے کی وراثت‘‘تھا،آپ نے وراثت کی تقسیم پر اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایاکہ وراثت میں کمی زیادتی کی بنیاد جنس نہیں ہے بلکہ تین چیزیں ہیں،رشتے کی مضبوطی،رشتے کی نزدیکی اور ذمے داریاں،میراث کا اسلامی نظام انتہائی متوازن ہے،کہیں کوئی بے اعتدالی اور خلا نہیں ہے،اگلا خطاب فضیلۃ الشیخ محمد معاذ ابو قحافہ عمری نذیری حفظہ اللہ کا تھا،’’ مطلقہ کے نان ونفقہ کا ذمے دار کون‘‘؟آپ نے اس موضوع پر معیاری خطاب کیا،اس کی معنویت اور معاشرتی حکمتیں کیا ہیں؟ان تمام گوشوں پر گراں قدر نکات ارشاد فرمائے،اگلا خطاب شیخ عبدالشکور مدنی حفظہ اللہ کا تھا،آپ کا موضوع تھا’’مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام‘‘آپ نے صرف کتاب وسنت کی روشنی میں نہیں بلکہ عقل و منطق کی روشنی میں بھی اس مسئلے کا جائزہ لیا اور کہا ان دونوں پہلوؤں پر نظر ڈالنے سے پہلے ایک انسان یہ بات مدِّنظر رکھے کہ اللہ نے نکاح کو سکون کے حصول کا بھی ذریعہ بنایا ہے اور انسان طبعی طور پر خلوت پسند واقع ہوا ہے،نیز اس خاندانی نظام کے عمومی تجربات کیا ہیں؟بڑی سلیقگی سے آپ نے اسلام کا نقطۂ نظر رکھا۔اگلا اور نشست کا آخری خطاب فضیلۃ الشیخ نثار احمد مدنی کا تھا،موضوع تھا’’مرد کا حق طلاق اور عورت کا حق خلع‘‘اس موضوع پر آپ نے مدلل خطاب فرمایا،آپ نے بتایا کہ طلاق یا خلع پر گفتگو کی ضرورت دراصل ہماری غیر اسلامی سوچ اور رویوں کی وجہ سے ہے،طلاق اور خلع کی اجازت دراصل مسئلے کا حل ہے مسئلہ نہیں ہے،اس خطاب کے ساتھ پہلی نشست اختتام پذیر ہوئی،شیخ ابو البیان سلفی حفظہ اللہ نے اس نشست کی نظامت فرمائی تھی،نماز اور ظہرانے کے لیے ایک مختصر سا وقفہ رکھا گیا تھا۔
    دوسری نشست بعد نماز عصر رکھی گئی تھی،ظہرانہ اور پھر قیلولہ کے بعد عصر کی نماز ادا کی گئی اور پورے نشاط اور مستعدی کے ساتھ عوام ایک بار پھر مسجد میں موجود تھی،ایسا لگ رہا تھا کہ ان موضوعات کو سننے کے لیے ایک پیاس تھی،ایک غیر معمولی طلب تھی جس کی وہ تکمیل چاہتے تھے،دوسری نشست وقت پر شروع کردی گئی تھی،اس نشست کا پہلا خطاب فضیلۃ الدکتور فاروق عبداللہ ناراین پوری حفظہ اللہ کا تھا،آپ کا موضوع ’’غیر شرعی نکاح‘‘ تھا،آپ نے بتایا کہ اسلام سے پہلے نکاح خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم و زیادتی کا ذریعہ تھا،اسلام نے نکاح کو ہر طرح کی بے اعتدالی اور زیادتی سے بچایا اور انگلی رکھ رکھ کر ان معاملات نکاح کی نشاندہی کی اور ان کی مذمت کی،نکاح کا صحیح اور اعتدال پر مبنی طریقے کو رائج کیا،آپ نے حلالہ،متعہ اور مسیار کی بھی خبر لی،اگلا خطاب فضیلۃ الدکتور محمد نسیم مدنی حفظہ اللہ کا تھا،آپ کا عنوان’’ اسلام اور فیملی پلاننگ‘‘تھا،یقینا یہ عنوان انتہائی حساس اور وقت کی ضرورت تھا،آپ نے کتاب وسنت اور شرعی احکام کے مقاصد اور حکمتوں کی روشنی میں مسئلے کا جائزہ لیا،آپ نے بتایا کہ اسلامی احکام کے پانچ شرعی مقاصد ہیں،وہ دین،جان،نسل،عقل اورمال کی حفاظت ہے،فیملی پلاننگ اسلام کے حفاظت نسل کے مقصد سے متصادم ہے، آپ نے فیملی پلاننگ کی جملہ شکلوں اور طریقوں کا تجزیہ کیا اورجائز و ناجائز شکلوں کا تذکرہ کرکے شریعت کا مدعا رکھا، اگلا خطاب فضیلۃ الشیخ عبدالستار سراجی حفظہ اللہ کا تھا،آپ کا موضوع ’’طلاق اور خلع کے بعد بچوں کی کفالت کا مسئلہ‘‘تھا،آپ نے اسلام کے عائلی نظام کی معنویت و ہمہ گیریت کو بیان کرنے کے ساتھ بتایا کہ اسلام کا عائلی نظام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے،پھر کانفرنس کی اہمیت اور اپنے موضوع کی معنویت پر روشنی ڈالی اور حضانت کے تئیں شرعی احکام و ہدایات کو یکے بعد دیگرے بیان فرمایا،اس کے بعد فضیلۃ الشیخ عبدالحکیم مدنی حفظہ اللہ کا خطاب تھا،آپ کا موضوع’’ عدت کے اقسام اور اس کی حکمتیں ‘‘تھا،آپ نے عدت کے تعلق سے شرع کے احکام بیان فرمائے اور عقل و حکمت کی روشنی میں بھی اس کا جائزہ لیا،آپ نے بتایا کہ اسلام کے احکام ہر زمان ومکان کے لیے ہیں،پرفیکٹ اور سائنٹفک ہیں،حکمت کے ضمن میں آپ نے عرض کیا کہ عدت دراصل استبراء رحم کی غرض سے ہے،عورت کے رحم کو پاک کرنے کے لیے عورت کو عدت کا پابند کیا گیا ہے تاکہ نسلیں خلط ملط نہ ہوں،طبی نقطۂ نظر سے بھی عدت اپنے اندر بڑی معنویت رکھتی ہے۔ اس خطاب کے ساتھ دوسری نشست اختتام پذیر ہوئی،مغرب کی نماز کے لیے وقفہ دیا گیا،اس نشست کی نظامت فضیلۃ الشیخ ظہیر الدین سنابلی حفظہ اللہ نے ادا کی۔
    ایک بار پھر تیری نشست کے لیے (IIC)کے رضاکاران نے پوزیشن سنبھال لی اور وقت کی بچت کا خیال کرتے ہوئے کانفرنس کو شروع کردیا گیا،تلاوت کے بعد سلطان القلم فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ کو دعوت خطاب دیا گیا،آپ کا موضوع’’ایک مجلس کی تین طلاق اور حلالہ‘‘تھا،آپ نے ملک کے موجودہ فقہی،مسلکی اور سیاسی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے سامعین سے خطاب فرمایا،آپ نے دوران خطاب فرمایا کہ طلاق کا مسئلہ مریض سماج اور ظالم سماج کی کہانی بن کر رہ گئی ہے،اس معاملہ میں کتاب وسنت کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے امت اب تک بہت کچھ برباد کرچکی ہے اور آج بھی اس پر قائم ہے،یہ دراصل ایک مسلکی انا اور فقہی ضد کی شکل اختیار کرچکی ہے اور جو لوگ اس مسئلے میں کتاب وسنت کی دہائی دیتے ہیں،ان کو اس طرح مشق ستم بنایا جاتا ہے جیسے انہوں نے کائنات کا سب سے بدترین جرم کردیا ہو،اس موضوع کے دوسرے پہلوؤں پر بھی آپ نے چشم کشا گفتگو کی،اگلا خطاب فضیلۃ الشیخ عبدالحسیب مدنی حفظہ اللہ کا تھا،آپ کا موضوع ’’گود لینے کا حکم اور یتیموں کی کفالت کا مسئلہ‘‘تھا،آپ نے بڑی بالغ نظری سے اس مسئلے کا جائزہ لیا،شریعت کا رخ دوٹوک انداز میں عوام الناس کے سامنے رکھا،آپ نے بتایا کہ اولاد اللہ کی نعمت ہوتی ہے،وہ دوسرے کی ہی کیوں نہ ہو،اس کی پرورش و پرداخت بہت بڑی نیکی کا کام ہے،اسلام سے پہلے بھی متبنی (گود لینا) کی رسم تھی لیکن وہاں پر افراط و تفریط کا چلن تھا،ظلم وحق تلفی ہوتی تھی،آپ نے بتایا کہ اسلام دوسرے کے بیٹے کو گود لینے کے معاملے میں نسب،وراثت اورحجاب کے بارے میں تحفظات کے ساتھ اجازت دیتا ہے جو غیر معمولی حکمتوں پر مبنی ہے،موضوع کے دوسرے گوشوں پر بھی آپ نے روشنی ڈالی،اب باری تھی فضیلۃ الشیخ ابوالعاص وحیدی کے صدارتی کلمات کی،آپ کو کلمۂ صدارت کے ساتھ ایک موضوع بھی دیا گیا تھا،’’مسلم پرسنل لاء اور سماج پر اس کے مثبت اثرات‘‘،آپ نے کلمۂ صدارت میں کانفرنس اور اس کے موضوع کی ستائش کی،اسے سماج کی دینی و عائلی ضرورت قرار دیا،کلمۂ صدارت میں اپنے بعض ملاحظات پیش کئے،موضوع پر بہت گراں قدر اور قیمتی نکات بیان فرمائے،آپ نے فرمایا کہ مسلم پرسنل لاء اسلام کے اصول وضوابط پر مبنی ہے،ہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس پر فقہ حنفی کے اثرات ہیں اور اس کے کچھ تاریخی عوامل ہیں،آپ نے فرمایا کہ یہ کانفرنس حکومت کے خلاف نہیں ہے،بلکہ اسلام کے عائلی نظام سے سامعین کو روشناس کرانا اور ان کے اندر اس کے تئیں بیداری لانے کی غرض سے ہے،آپ نے فرمایا کہ مسلم پرسنل لاء عین فطرت ہے،یہ کسی پارلیمنٹ کا وضع کردہ قانون نہیں ہے کہ اس میں ردوبدل کی گنجائش ہو،اسلام کے قوانین صدق اور عدل کے اعتبار سے کامل ہیں،زمان و مکان کے ساتھ چلنے کی اس کے اندر پوری صلاحیت موجود ہے،بہت ہی بصیرت افروز اور فاضلانہ خطاب فرمایا،ناسازئی صحت کے باوجود آپ نے بڑی سخت جانی اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا،کانفرنس کو از اول تا آخر سماعت فرمایا،ناظم کانفرنس خلیل الرحمن سنابلی کی دعائیہ کلمات کے ساتھ کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔
    نیچے سے لے کر اوپری منزل تک مسجد سامعین سے بھری ہوئی تھی،درمیان میں جگہ ختم ہوجانے کے سبب اعلان کرنا پڑا کہ باقی ماندہ افراد مولانا آزاد سکول میں چلے جائیں،وہاں جگہ بنائی گئی ہے،صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر محترم شیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ بھی شریک کانفرنس ہوئے،بھیونڈی جمعیت کے امیر عبدالحمید خان صاحب بھی شریک کانفرنس ہوئے،آئی پلس ٹی وی کے صدر برادرم زید پٹیل صاحب بنفس نفیس موجود تھے،عبدالجلیل مکی بھی کانفرنس کو سماعت فرماتے رہے۔
    جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ کے ذمہ داران نے کانفرنس کے انتظامی امور میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،تمام سامعین وحاضرین کے لیے دوپہر اور شام کے کھانے کا معقول بند وبست کیا،جامع مسجد اپنی دینی، دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے جانی جاتی ہے،اسلامک انفارمیشن سنٹر اور آئی پلس ٹی وی کی پوری ٹیم ازاول تاآخر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہی،وقت کا استعمال بڑی کفایت شعاری کے ساتھ کیا گیا،گھڑی کی سوئی کے ساتھ سفر آگے بڑھتا رہا، موضوع کی مناسبت سے ہر کسی کو ناپ تول کر وقت دیا گیا،کسی کو وقت محدد سے تجاوز نہیں کرنے دیا گیا،یہ کانفرنس ایک تحریک ہے جو اسلام کے عائلی اصول و ضوابط کے تئیں عوامی بیداری کی بازیابی کے لیے تھی،اس کی ریکارڈ شدہ تقاریر بعد میں بھی نشر کی جائیں گی اور عوام الناس کو اسلام کے اس اہم سبق کو یاد دلائیں گی،اللہ ہم سب کو زندگی کے تمام کام کو کتاب وسنت کی روشنی میں انجام دینے کی توفیق دے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings