-
زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (آخری قسط) فریق مخالف کے دلائل :
پہلی دلیل :
صحیح بخاری میں ایک طویل واقعہ ہے جس میں جریج زنا سے پیدا ہونے والے بچے سے پوچھتے ہیں کہ :
’’من أبوك يا غلام؟ ‘‘
’’اے بچے تیرا باپ کون ہے‘‘؟
[صحیح البخاری :رقم۲۴۸۲]
تو بچہ کسی چرواہے کانام بتاتا ہے ۔
عرض ہے کہ:
یہاں باپ شرعی معنیٰ میں نہیں ہے ،بلکہ لغوی معنی میں ہے یعنی جریج کے سوال کا مقصد بچے کو زانی کی طرف نسب کے اعتبار سے منسوب کرنا نہیں تھا ، بلکہ یہ پتہ کرنا تھا کہ یہ بچہ کس کے نطفے سے پیدا ہوا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے پوری صراحت کے ساتھ زناسے نسب کی نفی کی ہے۔
[سنن أبی داؤد :رقم۲۲۶۵ وإسنادہ صحیح و حسنہ الالبانی]
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک دوسری حدیث میں اللہ کے نبی ﷺنے ولد الزنا اور زانی کا ذکرکرتے ہوئے زانی کے لیے’’ اَب ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے ، یہ حدیث اوپر دوسری دلیل کے تحت گزرچکی ہے ۔
علاوہ بریں یہ پہلی شریعت کا واقعہ ہے اور ہماری شریعت میں زنا سے نسب کے عدم اثبات پر دلائل موجود ہیں، جیساکہ ماقبل میں ذکر کئے گئے ۔
دوسری دلیل:
حدیث لعان میں ہے:
’’فإن جاء ت به أكحل العينين، سابغ الأليتين، خدلج الساقين، فهو لشريك ابن سحماء‘‘
’’ گر بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا، بھاری سرین اور بھری بھری پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء ہی کا ہو گا‘‘[صحیح البخاری :۴۷۴۷]
ان الفاظ میں اللہ کے نبی ﷺ نے ولد الزنا کو زانی کی طرف منسوب کرنے کی بات کی ہے ، اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ زنا سے بھی نسب کااثبات ہوگا ۔
عرض ہے کہ:
یہ نسبت بھی اثبات نسب کے لیے نہیں ہے بلکہ بیان سبب کے لیے ہے ۔ جیساکہ ماقبل میں جریج والے واقعہ میں وضاحت کی گئی ۔
تیسری دلیل:
امام ابوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
حدثنا مسدد، حدثنا يحيي، عن الأجلح، عن الشعبي، عن عبد اللّٰه بن الخليل، عن زيد بن أرقم قال: ’’كنت جالسا عند النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، فجاء رجل من اليمن، فقال: إن ثلاثة نفر من أهل اليمن أتوا عليا، يختصمون إليه فى ولد، وقد وقعوا على امرأة فى طهر واحد، فقال: لاثنين منهما طيبا بالولد لهذا فغليا، ثم قال: لاثنين طيبا بالولد لهذا فغليا، ثم قال: لاثنين طيبا بالولد لهذا فغليا، فقال: أنتم شركاء متشاكسون، إني مقرع بينكم فمن قرع فله الولد، وعليه لصاحبيه ثلثا الدية، فأقرع بينهم، فجعله لمن قرع، فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتي بدت أضراسه أو نواجذه‘‘
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اہل یمن میں سے تین آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے آئے، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر (پاکی) میں جماع کیا تھا، تو علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے دو، یہ سن کر وہ دونوں بھڑک گئے، پھر دو سے یہی بات کہی، وہ بھی بھڑک اٹھے، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا ، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا، یہ سن کر رسول اللہﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظر آنے لگیں‘‘
[سنن أبی داؤد :رقم ۲۲۶۹]
یہ روایت ضعیف ہے ، تفصیل کے لیے دیکھئے :[سنن ابی داؤد بتحقیق شعیب الارنؤوط :رقم۲۲۶۹]
چوتھی دلیل:
’’أن عمر بن الخطاب كان يليط أولاد الجاهلية بمن ادعاهم فى الإسلام‘‘
’’زمانۂ جاہلیت کے طوائفوں کی اولاد کو دور ِاسلام میں ان کے باپ کی طرف منسوب کرتے تھے‘‘
[موطأ مالک – روایۃ یحییٰ:۴؍۱۰۷۲ ت الأعظمی ، إسنادہ منقطع لکنہ صحیح من طرق أخری]
عرض ہے کہ:
اولاً:
یہ اثرصحیح اور صریح حدیث کے خلاف ہے اس لیے یہ حجت نہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کے علم میں ممکن ہے یہ حدیث نہ رہی ہو ۔
ثانیاً:
یہ حکم صرف زمانۂ جاہلیت کی زناکاری سے متعلق تھا ، کوئی عام حکم نہیں تھا ، لہٰذا عہد ِاسلام کی زناکاری سے متعلق اس اثر سے استدلال درست نہیں ہے ۔
ابو الحسن الماوردی (ت ۵۴۰ہـ) فرماتے ہیں:
’’فَأَمَّا الْجَوَابُ عَنِ الْحَدِيثِ الْمَرْوِيِّ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَلِيطُ أَوْلَادَ الْبَغَايَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِآبَائِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ ، فَهُوَ أَنَّ ذلك منه فِي عِهَارِ الْبَغَايَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دُونَ عِهَارِ الْإِسْلَامِ، وَالْعِهَارُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَخَفُّ حُكْمًا مِنَ الْعِهَارِ فِي الْإِسْلَامِ، فَصَارَتِ الشُّبْهَةُ لَاحِقَةً بِهِ وَمَعَ الشُّبْهَةِ يَجُوزُ لُحُوقُ الْوَلَدِ، وَخَالَفَ حُكْمَهُ عِنْدَ انْتِفَائِ الشُّبْهَةِ عَنْهُ فِي الْإِسْلَامِ‘‘
’’عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا جو یہ اثر ہے کہ وہ زمانۂ جاہلیت کے طوائفوں کی اولاد کو دورِ اسلام میں ان کے جاہلی باپ کی طرف منسوب کرتے تھے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ زمانۂ جاہلیت کے طوائفوں کی زناکاری سے متعلق ہے نہ کہ اسلام آنے کے بعد ہونے والی زناکاری سے متعلق ، اور زمانۂ جاہلیت میں زناکاریوں کا معاملہ عہد اسلام میں ہونے والی زناکاریوں کے ببنسبت اخف ہے (کیونکہ وہ بعض طرح کی زناکاری کو بھی نکاح سمجھتے تھے) ، اس لیے ان کے ساتھ شبہ جڑا ہے ، اور شبہ کے سبب بچے کی نسبت کرنا درست ہوتا ہے (مثلاً نکاح شبہ کے مسئلہ میں) ، اور عہد ِاسلام میں اس شبہ کی گنجائش نہیں ہے (کیونکہ اسلام نے زناکاری کی ہرقسم کو نکاح کے حکم سے خارج کردیا ہے)، اس لئے عہد ِاسلام میں زناکاری کا حکم بھی الگ ہوگا‘‘[الحاوی الکبیر :۸؍۱۶۳]
پانچویں دلیل:
ماں کی طرف نسبت پر قیاس:
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ زناسے جو بچہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا ہے جیساکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے۔تو جب یہ بچہ زانیہ کی طرف منسوب ہوسکتاہے تو زانی کی طرف کیوں نہیں منسوب ہوسکتا؟اگر باپ زانی ہے تو ماں بھی تو زانیہ تھی ؟
عرض ہے کہ :
جس طرح متعدد احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زنا سے پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا ،اسی طرح متعدد احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ زناسے پیدا ہونے والابچہ زانی کی طرف منسوب نہیں ہوگا ۔لہٰذا جب زانی کی طر ف عدم نسبت نص سے ثابت ہے تو نص کی موجوگی میں قیاس نہیں کیا جاسکتاہے جیساکہ فقہ کا مسلم قاعدہ ہے۔
بطور مثال عرض ہے کہ فرض نماز کے اندر ایک رکعت میں دونوں سجدہ رکن ہے اب گر کوئی نمازی ایک سجدہ کرنا بھول گیاتو بھول چوک تومعاف ہے اس پر گناہ نہیں لیکن اسے وہ رکعت دوبارہ پڑھنی ہوگی کیونکہ اس سے رکن فوت ہوگیا ہے۔
دوسری طرف روزہ میں کھانے پینے سے رکنا یہ رکن ہے ، اب اگر کوئی بھول چوک سے فرض روزہ کی حالت میں کھانا کھالے تو قیاس کہتا ہے کہ بھول چوک تو معاف ہے اس پرگناہ نہیں ، لیکن ایسے شخص کو اس دن کا روزہ دوبارہ رکھنا پڑے گاکیونکہ اس سے رکن فوت ہوگیا ہے۔لیکن ہم یہاں یہ قیاس نہیں کرسکتے کیونکہ روزہ سے متعلق نص موجود ہے کہ جو کوئی بھول چوک سے کھالے وہ اپنا روزہ پورا کرے اور اس پر کوئی قضاء نہیں ہے ۔
معلوم ہواکہ نص کی موجودگی میں قیاس نہیں کیا جائے گا لہٰذا زانی کی طرف ولد الزنا کی نسبت کو زانیہ کی طرف نسبت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
ایک جذباتی دلیل کاجائزہ:
بعض لوگ کہتے ہیں مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ ولد الزنا کو زانی کی طرف منسوب کیا جائے ، پھر اس مصلحت کی تفصیل میں طرح طرح کی باتیں پیش کرتے ہیں ، مثلاً یہ کہ اس سے زنا کرنے والوں کے گناہ پر پردہ ڈالاجاتا ہے اور زنا کرنے والوں کے لیے توبہ کی راہ ہموار ہوتی ہے، نیز ولد الزنا کو بچے کا نام نہ دیا جائے تو اسے اس کی بدنامی ہوتی ہے، اوراس کا نقصان ہوتا ہے جبکہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔وغیرہ وغیرہ۔
عرض ہے کہ:
اولاً:
یہ مصلحتیں نص سے معارض ہیں اس لیے کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس ومصلحت اندیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ثانیاً:
مصلحت تو یہ بھی ہے کہ زنا اور زانیوں کے لیے سزا ہو اوران کی حوصلہ شکنی ہے۔
امام السَّرَخْسِیّ (ت۴۸۳ھ) فرماتے ہیں:
’’ولأن قطع النسب شرعا لمعني الزجر عن الزنا فإنه إذا علم أن ماء ه يضيع بالزنا يتحرز عن فعل الزنا ‘‘
’’شریعت میں زنا سے نسب کی نفی کا مقصد زنا سے روکنا ہے ، کیونکہ جب زانی کو یہ پتہ ہو تا کہ زنا کے ذریعہ ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا تو وہ زنا سے دور رہے گا‘‘
[ المبسوط للسرخسی:۴؍۲۰۷]
رہی بات بچے کو باپ کا نام دینے کی تو یہ شریعت سے ٹکراؤ والی بات ہے کیونکہ جب شریعت نے زنا سے نسب کی نفی کی ہے تو زنا سے نسب کا اثبات کرنا شریعت کے خلاف ، شریعت سازی ہے بلکہ یہ زنا سے بھی بڑا گناہ ہے ۔چنانچہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أما إن كان المقصود هو ستر الفاحشة التى وقعوا فيها، وتسجيل ولد الزنا باسمهما، فهذا أشد من الزنا ‘‘
’’اگرزانیہ سے زانی کی شادی کا مقصد اس زنا پر پردہ ڈالنا ہو جس میں یہ دونوں واقع ہوئے اور ولد الزنا کو اپنا نام دینا ہو تو یہ زنا سے بھی بڑا جرم ہے‘‘
[سلسلۃ الہدیٰ والنور (مفرغ کاملا):۱۹؍ ۴۸]
یادرہے کہ ولدالزنا کو باپ کے نام سے محروم کرنے میں یقینا بچے کا نقصان ہے ، لیکن ولد الزنا کو باپ کا نام دینے میں جو فساد وبگاڑ ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کرہے۔
شریعت کے بہت سارے احکامات ایسے ہیں جن پر عمل کی صورت میں کسی بے گناہ کا نقصان ہوتا ہے، لیکن ان پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جو فساد وبگاڑ جنم لیتا ہے اس کا نقصان وضرر کئی گنا بڑھ کرہوتا ہے، اس لیے شریعت نے بڑے فساد ونقصان کی روک تھام کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کرنے کی بات کہی ہے ۔
مثلا ًباپ اگر مرتد ہوجائے تو وارثین وراثت سے محروم ہوجائیں گے ، حالانکہ اس میں وارثین کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اب وارثین کی بے گناہی اور ان کے نقصان کاحوالہ دے کر اسلام کا یہ قانون تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام میں جان کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے بلکہ اسلام میں جان کی حفاظت کی خاطر جبر کی صورت میں زبان سے کفریہ وشرکیہ کلمہ کہنے کی بھی گنجائش ہے ، نیز یتیم بچوں کی پرورش اور ان کفالت پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہے۔
لیکن ایک شخص جس کے کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہوں جن کی وہ پرورش کررہا ہو اس سے زنا کا جرم سرزد ہوجائے اور ثابت ہوجائے تو اس کے لیے سزائے موت ہے ، اوراس کے نتیجے میں اس کے بچے یتیم ہوجائیں گے ، اوراپنے باپ کے سائے اوراس کی پرورش سے محروم ہوجائیں گے جبکہ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے ۔
اب یہاں اسلام میں جان کی حفاظت اور یتیموں کی کفالت وغیرہ کی اہمیت بتاکر شادی شدہ زانی کے لیے سزائے موت کے قانون کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔
رہی بات پردہ پوشی کی توپردہ پوشی کا بھی ایک دائرہ ہے ، پردہ پوشی کی وہ شکل جہاں اسلام کے کسی حکم کی پامالی ہورہی ہو وہاں پردہ پوشی کی گنجائش نہیں ہے ، چنانچہ حاملہ عورت سے وضع حمل سے قبل شادی ناجائزہے ، یہ اسلام کا دو ٹوک اورواضح حکم ہے، اب پردہ پوشی کی خاطر اس حکم کو نہیں بدلاجاسکتا۔
علاوہ بریں ایسی پردہ پوشی سماج و معاشرے میں مزید فساد کا باعث ہے،چنانچہ:
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فأما أن يقول: ’’سوف أتزوجها حتي أسترها أو حتي لا تفتضح، فلا يجوز… فإذا رخص لهم فى هذا كثر الزنا، وكثر الفحش، وصار كل من زني وواقع امرأة حرص علٰي أن يتزوجها ثم يطلقها، وطلاقه لها قد يكون الحامل له عدم ثقته بها، يقول: إذا زنت وهى غير متزوجة فيمكن أن تزني وهى متزوجة، فلا آمنها فراشاً لي‘‘
اگرزانیہ حاملہ سے زناکرنے والا یہ کہتا ہے کہ:’’ میں اس سے شادی کرکے اس کے گناہ پر پردہ ڈالتاہوں تاکہ اس کی رسوائی نہ ہو تو یہ جائز نہیں ہے …اگر ان زانیوں کے لیے اس طرح کی رخصت دی گئی تو فحاشی اور بدکاری اور عام ہوجائے گی ، اور ہر وہ شخص جو کسی عورت کے ساتھ زنا کرے گا وہ اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دینا ہی پسند کرے گا کیونکہ اس پر سے اس کا اعتماد اٹھ جائے گا وہ سوچے گا کہ یہ عورت اگر شادی سے پہلے کسی کے ساتھ زنا کرسکتی ہے تو شادی کے بعد بھی کسی کے ساتھ زنا کرسکتی ہے اس لیے یہ بیوی بنائے جانے کے لائق نہیں ہے‘‘
[شرح عمدۃ الأحکام لابن جبرین:۶۴؍۷ بترقیم الشاملۃ آلیا]
بلکہ یہ پردہ پوشی کتنے بڑے فساد کا باعث ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بعض اہل علم جو زنا سے نسب کے اثبات کے قائل ہیں وہ بھی علی الاطلاق اس کا فتویٰ دینے کے حق میں نہیں ہیں تاکہ اس کے سبب معاشرے میں بے حیائی وبدکاری عام نہ ہوجائے ،چنانچہ:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن العلماء من يجوز ذلك إذا تحققت التوبة، وأنه إذا استلحقه الزاني يُلحق به۔لكن هذا الباب لا يجوز إطلاقًا أن يفتح للناس، فلو كان هذا القول من الناحية النظرية قولًا صحيحًا إلا أنه لا يجوز أن يُفتي به الناس على الإطلاق، لأنهم لو أُفتوا به لتساهلوا فى هذا الأمر، ولكان كل إنسان يزني بامرأة فإذا حملت ذهب يتزوجها، وأهلها سوف يضطرون إلى أن يزوجوه، وسيفتح بهذا باب شر على الناس‘‘
’’ بعض علماء توبہ کے بعد اسے جائز بتلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرزانی اپنے لڑکے کو اپنالے تو وہ اس کا ہی مانا جائے گا، لیکن اس دروازہ کو لوگوں کے لیے علی الاطلاق کھولنامناسب نہیں ہے ،یہ قول گرچہ علمی اعتبارسے صحیح ہو اس کے باوجود بھی علی الاطلاق لوگوں کواس کے مطابق فتویٰ دینا درست نہیں ہے ، کیونکہ اگر علماء یہ فتوے دینے لگ جائیں تو لوگ اس معاملہ میں بے پرواہ ہوجائیں گے اور صورت حال یہ ہوگی کہ بہت سے لوگ اپنی محبوبہ سے (شادی کرنے کی خاطرہی) زناکریں گے کیونکہ جب وہ حاملہ ہوجائے گی اور اس کے بعد وہ اس سے شادی کی مانگ کریں گے تو اس کے گھر والے مجبوراًاس کے ساتھ اس کی شادی کردیں گے اوراس طرح لوگوں کے لیے ایک شر کادروازہ کھل جائے گا‘‘
[تفسیر العثیمین: النساء :۲؍۵۱۶]
الغرض زنا سے نسب کے اثبات میں مصلحت سے زیادہ مفسدت ہی ہے ۔لہٰذا اس لحاظ سے بھی زنا سے نسب کے اثبات کی گنجائش نہیں ہے ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ زانیہ حاملہ سے وضع حمل سے قبل شادی ناجائزہے خواہ شادی کرنے والا زانی ہی ہو ، کیونکہ:
اول : اس حمل کا سبب گرچہ زانی ہے لیکن شرعاً یہ بچہ زانی کا نہیں مانا جائے گا، کیونکہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔
دوم : زانیہ کاحمل حرام نطفے سے ہے اوراس حالت میں اس سے شادی کی گئی تو اس کے ساتھ حلال نطفہ خلط ملط ہوگا ۔ لہٰذا وضع حمل سے قبل زانیہ سے زانی بھی شادی نہیں کرسکتا۔واللہ اعلم۔