Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • شیخ مقیم فیضی :شخصیت کے کچھ اہم گوشے

    زندگی بہتے دریا کے مانند ہوتی ہے، اس میں کچھ لوگ تو گلیشئر کے مانند ہوتے ہیں جن کے ساتھ زندگی کا آغاز ہوتا ہے، کچھ نئی ندیوں کی طرح وقت کے ساتھ زندگی کی بہتی ندی میں آملتے ہیں، ان میں سے کچھ سورج کی تپش سے دھواں بن کر آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں، اور کچھ نہروں کی طرح کسی موڑ پر ساتھ چھوڑ کر نئے راستوں پر نکل جاتے ہیں اور کچھ آخری سانس تک ساتھ نبھاتے ہیں یہاں تک کہ زندگی کا دریا برزخ کے سمندر میں جاملتا ہے۔
    یاد نہیں کہ شیخ مقیم فیضی کا نام پہلی بار کب سنا تھا ، البتہ ان کو پہلی بار احیاء کی ملت نگرآفس میں دیکھا، آئی آئی سی کی دور ملازمت میں’’شمس پیرزادہ‘‘محدثین کی عدالت میںپڑھی ، السنہ کی پرانی فائلوں میں ان کے مضامین اوراداریے بھی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، ان تحریروں نے متاثر کیااور دل ودماغ میں شیخ کو عام علماء کے خانے سے نکال کر خاص علماء کی فہرست میں جگہ دی، پھر جب ۲۰۱۶؁ء میں جمعیت سے بطور داعی منسلک ہوا تو شیخ کو قریب سے دیکھنے ، جاننے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، شیخ ہمارے رفیق کار بھی تھے، ذمہ دار بھی اور مربی بھی ، اللہ نے زندگی میں جن بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا ان میں سے ایک شیخ مقیم فیضی کی رفاقت بھی تھی، اللہ ان کی قبر کونور سے بھر دے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔
    بڑے لوگوں کے بارے میں زندگی کا تجربہ بڑا خراب رہا ہے، کئی ایسے لوگ فاصلوں سے جن کی بڑی تعریفیں سنی تھیں اور جن کے لیے دل میں عقیدت کے عظیم جذبات سجائے ہوئے تھے ان کو جب قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو خانۂ دل میں سجائے عقیدت ومحبت کے بت پاش پاش ہوگئے، یہ تجربات اتنی بار ہوئے کہ اب بڑی سمجھے جانی والی شخصیتوں کے قریب جانے سے ڈر لگنے لگا ہے۔
    شیخ مقیم کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا، ان سے جتنی قربت بڑھی دل میں ان کے لیے محبت اور عقیدت کے جذبات بڑھتے گئے ، ان کی عظمت اور بڑپن کا اعتراف راسخ ہوتا گیا، ہمارے معاشرے میں محبتوں کی بیچ احترام کے نام پر تکلفات کی اتنی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں کہ محبت کے ان جذبات کو شیخ کے سامنے الفاظ دینے کی ہمت کبھی نہیں جٹا سکا، چاپلوسی کے دور میں خود دار انسان کے لیے سچی تعریف اور حقیقی محبت کا اظہار بھی بڑا مشکل ہوتا ہے، وفات سے ہفتہ بھر پہلے جب شیخ سے آخری ملاقات ہوئی تو پوری مجلس میں ہمت جٹاتا رہا کہ اس محبت کا اظہار کروں اور جاتے جاتے دھیمی سی آوازمیں جمع کے صیغے کے ساتھ کہا:’’شیخ ہم لوگ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں‘‘شیخ مقیم واقعی ایسے لوگوں میں سے تھے جن سے ملنے والا ان کی محبت میں گرفتار ہوجائے۔
    شیخ مقیم ان لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا، جن کی صحبت میں بیٹھ کر دل نرم ہوتا تھا ، جن کی باتوں سے دل کی دنیا بدلتی تھی، جن کو سن کر روح کو بالیدگی ملتی تھی، زہد اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی تھی، پتہ نہیں اس مہلک مرض سے گزرنے کے بعد شیخ کی یہ حالت ہوگئی تھی یا یہ معاملہ ان کے ساتھ پہلے سے تھا ان کی دل میں دنیا سے بے رغبتی ، اس کی لذتوں سے بے غرضی، آخرت کی فکر ، تکاثر اور دنیا داری سے کراہت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، ان کی ذاتی مجلسوں اور ان کے خطابات میں یہ باتیں جب ان کی زبان سے نکلتی تو سمجھ آتا تھا کہ یہ کوئی خطیبانہ تصنع اور دکھاوے کے زہد کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے دل سے نکلنے والی آواز ہے ، ان کی باتوں میں ان کے یقین کی مضبوطی جھلکتی تھی، ان کے لہجے میں اخلاص اور فکر مندی کا درد ہوتا، نصح وخیر خواہی کی مٹھاس ہوتی ۔
    شیخ مقیم کی شخصیت کو خوبصورت بنانے والی ایک بہت اہم چیز ان کا تواضع تھا، علم کا حصول بھی اللہ کی عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے ، اللہ جب اس علم کی عبادت کو قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے تواس قبولیت کے کچھ آثار ایک عالم کی شخصیت میں پیدا ہوجاتے ہیں، قبولیت کے انہی آثار میں سے ایک تواضع ہے،تواضع اہل علم کی شان اور ان کے مرتبے کی بلندی کی نشانی ہوتی ہے، کبر ونخوت علم کی روشنی کو مدھم اور صاحب علم کے کردار کو پست کردیتی ہے، تواضع اللہ اور بندے دونوں کی نظر میں صاحب علم کی شان بڑھا دیتا ہے۔شیخ مقیم کی بہت نمایاں خوبیوں سے ایک ان کا تواضع تھا،حالانکہ وہ کوئی چھوٹے موٹے عالم دین نہیں تھے، جن لوگوں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے وہ ان کے مطالعے کی وسعت اور گہرائی دونوں کا اعتراف کریں گے، دنیا جہان کا کوئی موضوع ان کے سامنے چھیڑا جائے ان کے پاس لٹانے کے لیے لطائف ومعارف کے خزانے ہوتے اور اس معاملہ میں وہ بھرپور سخاوت سے کام بھی لیتے، لیکن ان کی گفتگو میں کہیں غرورکی ہلکی سی بھی جھلک نہیں ہوتی، کسی حاضر غائب کے لیے تحقیر کا شائبہ تک نہیں ہوتا، کسی چھوٹے بڑے عالم کے کسی موقف کا رد بھی کرتے تو پوری عالمانہ شان کے ساتھ بغیر ان کی شان میں ادنیٰ گستاخی کے کرتے ۔
    شیخ ہم لوگوں سے علم ، عمر، عمل ، تجربے اورمنصب ہر چیز میں بڑے تھے ، اس کے باوجود ہم جیسے چھوٹے لوگوں سے بھی علمی موضوعات پر بالکل طالب علمانہ انداز میں گفتگو کرتے، بڑے لوگوں کی طرح یک طرفہ صرف بولتے نہیں سنتے بھی تھے ، اپنی باتیں دلیل سے ساتھ رکھتے اور سامنے والے کو بولنے کا موقع دیتے تھے۔
    اکثر عصر کی نماز کے بعد خود ہی کوئی موضوع چھیڑتے ، اکثر تو ان موضوعات کا تعلق ان کے زیر قلم کسی مضمون سے ہوتا ۔ ایک بار ایک فقہی مسئلے پر گفتگو شروع کی ، اس مسئلے پر میرا اور شیخ کفایت اللہ سنابلی کا موقف شیخ مقیم کے موقف کے خلاف تھا، تھوڑی دیر ہم شیخ سے مناقشہ کرتے رہے، پھر نیچے اپنی اپنی کیبن میں چلے آئے، شیخ نے اپنے کمپیوٹر پر کچھ تحقیق کی اور پھر شیخ کفایت کی کیبن میں جاکر ان سے کہا کہ میں آپ کے موقف سے مطمئن ہوں ، اور اپنے موقف سے رجوع کرتا ہوں۔
    مجھے احساس ہوا کہ بڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں، میرے دل میں شیخ مقیم کے لیے عزت اور بڑھ گئی۔
    شیخ مقیم ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ مدرس بھی تھے قلمکار بھی تھے خطیب بھی تھے مناظر بھی تھے منتظم بھی تھے مہتمم بھی تھے معلم بھی تھے اور مربی بھی تھے ،ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طرح کا کمال نصیب فرمایا تھا۔
    شیخ مقیم بہت ذمہ دار قسم کے انسان تھے، اپنی ذمہ داریوں کے تئیں بہت فکر مند رہتے تھے، خواہ وہ ذمہ داریاں علمی ہوں یا انتظامی، اس لیے ہر کام میں اپنا سو فیصد دینے کے قائل تھے، میں نے محسوس کیا تھا کہ ہر کام وہ بہت پرفامنس پریشر لے کر کرتے تھے، کوئی مضمون لکھتے تو کم از کم دس مرتبہ پروف پڑھتے اور ہر مرتبہ کچھ نا کچھ تبدیلی کرتے، اپنے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم کیا تھا اس کے لیے بھی بہت فکرمند رہتے تھے، ایک بار جمعیت کے چندہ کے سلسلے میں ان کے ساتھ ناسک کا سفر کیا، اس سفر میں وہ مدرسے کے لیے بھی چندہ کر رہے تھے، ان کی محنت اور لگن دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی ۔ ان کی شخصیت کا ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آیا۔
    وہ جمعیت کے ایک امپلائی کی حیثیت سے بھی بہت ذمہ دار تھے، جمعیت کے اسٹاف میں سب سے زیادہ وقت کے پابند اور سب سے زیادہ محنتی اور وقت کا درست ترین استعمال کرنے والے اسٹاف تھے، بہت سارے لوگ ادارے میں کسی بڑے منصب پر فائز ہوں تو خود کو ضوابط سے آزاد سمجھ لیتے ہیں لیکن شیخ مقیم کا معاملہ ایسا نہیں تھا، وہ خود جمعیت کے ذمہ دار تھے، لیکن اس حیثیت کا کبھی انہوں نے اسٹاف ہونے کی حیثیت سے غلط فائدہ نہیں اٹھایا، اپنے سے اوپر کے ذمہ داروں سے علم اور عمر میں بڑے ہونے کے باوجود ان کے ساتھ شیخ کا تعامل اور رویہ مکمل اسٹاف جیسا ہی تھا۔
    شیخ مقیم فناء فی العلم قسم کے انسان تھے، ان کا اٹھنا ، بیٹھنا ، سونا جاگنا ، سفر حضر سب علم کے ساتھ ہوتا، ان کو جب بھی دیکھا علم میں گھرا دیکھا، شیخ کی کیبن میری کیبن کے بغل میں تھی، جب بھی کیبن میں دیکھا شیخ کو لکھنے یا پڑھنے میں مصروف پایا، اس عمر میں اتنی ساری بیماریوں سے گھرے ہونے کے باوجودعلم کی وادیوں میں آپ کی محنت ہم جیسے کم عمروں کے لیے رشک کا باعث تھی۔
    شیخ کی تحریریں ہوں یا تقریر گفتگو عالمانہ ہوتی تھی، علمی انداز میں اور اصولوں کی روشنی میں بات کرنے کے عادی تھے ، ان کی تحریر وتقریرمیںکہیں بے اصولی اور ابتذال کا شائبہ نہیں ہوتا تھا جو کہ اس دورکے بہت سارے مقررین اورقلمکاروں کا بہت بڑا عیب ہیں ۔
    شیخ مقیم علم کے سخی تھی، شیخ کے مطالعے میں تنوع بھی بہت تھا، علوم وفنون کے ہر چشمے سے آپ نے سیرابی کی تھی ، اس تنوع نے ان کی علمی شخصیت کوبہت وسیع بنا دیا تھا، اس لیے مجلس میں علم کا خواہ کوئی موضوع زیر بحث ہو اس پر اچھی خاصی معلومات شیخ کے پاس موجود ہوتی اوران کے دست سخاوت میں علم کے سائلین کے لیے کافی سرمایہ رہتا جس کو لٹانے میں وہ ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔
    علم بانٹنا شیخ مقیم کا شوق تھا، کوئی بات بتارہے ہوتے تو خوشی اور ایکسائٹمنٹ کے آثار آپ کے حسین چہرے پر واضح ہوتے تھے، وہ علم بانٹ کر خوش ہوتے تھے۔
    پتہ نہیں شیخ کو اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ یا پھر شیخ کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ ایک ایک منٹ علم کے حق میں وصول کرنے کی فراق میں رہتے ، ممبرا سے کرلا روز کا اپ ڈاؤن تھا، ایک سے دیڑھ گھنٹے کا سفر ہوتا تھا، ٹرین میں بیٹھتے ہی موبائل میں پی ڈی ایف کھولتے یا چھوٹی سی ایک کاپی جس میں وہ اپنے مضامین لکھتے تھے کھول کر لکھنا شروع کردیتے ۔
    میں نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں شیخ مقیم سے زیادہ حق گو انسان نہیں دیکھا، آپ صاف صاف بات کرنے کے عادی تھے،ہر طرح کے خوف اور لالچ سے آزاد ہوکر بات کرنے والے تھے ، نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر کرتے تھے نہ کسی بڑے کی بڑائی کو خاطر میں لاتے تھے، رقیہ کے مسئلے میں لوگوں نے گروپ بنا بناکر شیخ کے خلاف کمپین چلائے ، ہر حربہ آزمایا ، ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی لیکن شیخ کے پائے استقامت میں سرمو انحراف نہیں آیا، ایک بار جمعہ کے خطبے میں کچھ باتیں کہیں، بعض لوگوں کو بات دل پر لگ گئی کہ شیخ ہمارے خلاف بول گئے، انہوں نے بھی شیخ کے خلاف مختلف حربے آزمانے کی کوشش کی لیکن شیخ کو حق گوئی سے نہیں روک سکے۔
    آدمی اپنے کاز کے لیے مخلص ہو اور خوف اور لالچ سے آزاد ہوتو اللہ تعالیٰ بطور انعام زبان کو تاثیر اور لہجے کو درمندی کی دولت سے سرفراز فرما دیتا ہے، شیخ کے خطابات مستقل سننے و الے اس تاثیر اور دردمندی کو بہت واضح انداز میں محسوس کرسکتے تھے بلکہ یہ دردمندی شیخ کی خطابت کی امتیازی خصوصیت ہے ۔
    ایک اچھے خطیب کی تقریباً ہر خصوصیت شیخ میں پائی جاتی تھی،اگر خطیبوں کی رینکنگ کا کوئی سسٹم ہمارے یہاں ہوتا تو شیخ مقیم ٹاپ ٹین میں جگہ تو ضرور پاتے ، شیخ تقریر بہت دردمندی سے کرتے تھے، آپ کا مطالعہ ویسے بھی بہت وسیع تھا اور آپ کی تقریر سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ آپ تقریر محنت سے تیار کرتے ہیں ۔
    خطابت شیخ کا شوق تھا، آپ کا لہجہ اور آواز جلال سے پر تھا، شخصیت پر رعب تھی، مردانہ وجاہت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے، سرخی مائل گورا رنگ تھا، ، وجیہ وحسین تھے، لباس کا ذوق بھی بہت نفیس تھا، جب کہیں بڑے پروگرام میں شرکت کرنی ہوتی تو صدری اور اونچی قراقلی ٹوپی پہن کر آفس تشریف لاتے، خوش لباسی آپ کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتی اور آپ کی شخصیت کے رعب میں اضافے کا باعث بنتی ۔
    منہجی حمیت شیخ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،عام طور پر علماء صرف مسلکی معاملات کو منہج کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن شیخ مقیم زندگی کے ہر شعبے کو منہجی زاویے سے دیکھنے کے قائل تھے، ان کی صحبت میں رہ کر یہ سبق ملا کہ منہج حقیقت میں کتابوں سے پڑھ کر سیکھے جانی والی چیز نہیں ، اس کو سیکھنے کے لیے اپنے شب ورز علماء کی صحبت میں لگانا ضروری ہے ۔
    ایک بار شیخ کے بغل میںنماز پڑھی ،میری نماز کے بعد اذکار پڑھتے ہوئے جھومنے کی عادت ہے، شیخ نے دیکھا تو مسکراتے ہوئے پوچھا کہ ’’جھومتے کیوں ہیں اذکار پڑھتے ہوئے؟‘‘، میں نے کہا کہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے ، سن کر شیخ اپنے انداز میں مسکرائے، مسکراہٹ میں اس عمل کے تئیں ایک طرح کے اندیشے کا اظہار تھا جس کو میں سمجھ گیا۔
    جمعیت کے ابتدائی دور میں میرے موبائل کی رنگ ٹون پر بنا موسیقی والی نشید سیٹ تھی، ایک مرتبہ شیخ کی موجودگی میں فون کی رنگ بجی تو شیخ نے رنگ ٹون چینج کرنے کے لیے کہا، میں نے ارادہ کیا کرلوں گا لیکن بات ذہن سے نکل گئی، اتفاق سے کسی اور موقع پر بھی شیخ کے سامنے فون آگیا، شیخ رنگ ٹون سن کر سخت ناراض ہوئے اور قدرے سختی سے رنگ ٹون تبدیل کرنے کی تاکید فرمائی۔
    ایک بار کسی مسجدمیں خطاب کے لیے گئے ، دیکھا کہ مسجد کے محراب پر ایک طرف اللہ اور دوسری طرح محمد نقش ہے ، شیخ نے تقریر میں اس پر نکیر کی اور اس کو مٹانے کا حکم دیا۔
    اپنی جنریشن کے علماء کے برخلاف شیخ بہت ٹیکنوسیوی تھے، جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے تھے، میرے پاس زیومی کا میکس ٹو تھا، جس کی اسکرین سات انچ کی تھی مطالعے کے لیے بہت مناسب تھی، شیخ کو موبائل پسند آیا تو مجھ سے تفصیلات پوچھ کر اپنے لیے بھی میکس ٹومنگوایا ،اس عمر کے علماء بالعموم پی ڈی ایف سے مطالعہ کے عادی نہیں ہوتے ، بلکہ موقع بموقع ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن شیخ کے موبائل اور کمپیوٹر میں تو پی ڈی ایف کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود تھا جس سے آپ استفادہ کرتے تھے، بلکہ مختلف موقعوں پر مجھے بھی کسی کتاب کی پی ڈی ایف ڈھونڈنے کا کام دیتے رہتے تھے۔
    پی ڈی ایف کے علاوہ مکتبہ شاملہ، دیگر ڈیجیٹل لائبریریز اور انٹرنیٹ سے بھی بہت استفادہ کرتے ، گوگل سرچ میں شیخ کو اچھی مہارت تھی ،اردو کی مشہور ویب سائٹ ریختہ سے آپ مستقل استفادہ کرتے تھے،عربی ویب سائٹس پر آپ کی مستقل نظر رہتی تھی ، داعش پر جو رسالہ آپ نے لکھا ہے اس کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شیخ انٹرنیٹ سے بھی خوب استفادہ کرتے تھے۔
    لکھنے اور پڑھنے میں شیخ کی زبان پر گرفت بہت مضبوط تھی، آپ کی گفتگو میں الفاظ اور تعبیروں کا تنوع خوب تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر طرح کی اور ہر فن کی کتابیں آپ کے مطالعہ میں رہتیں ، ادبی کتابوں اور شاعری سے بھی آپ کو خاص شغف تھا، کسی علمی کام کی تکمیل سے فارغ ہوتے تو ہلکے پھلکے مطالعے کے لیے ادبی کتابوں کا رخ کرتے ، ایک بار مجھ سے اقبال اور غالب کی بعض شروحات طلب فرمائی، اسی درمیان فیض کی کلیات پی ڈی ایف میں تلاش کرنے کا حکم دیا، مجھے ذرا خوشگوارحیرت ہوئی ، کیونکہ ہمارے یہاں علماء بالعموم فیض یا کسی دوسرے ترقی پسند شاعر کو پڑھنا پسند نہیں کرتے۔
    شیخ مقیم بہت صابر شاکر انسان تھے، اتنی مصیبتوں سے گزرے لیکن ان کی زبان سے کبھی شکایت کا ایک حرف نہیں سنا۔ وفات سے پہلے جب کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے تو ایک مجلس میں مسکراتے ہوئے کہا’’کینسر ہوا ہے‘‘بلندی ہمتی دیکھ کر دل درد سے بھر گیا، زندگی کے آخری وقت میں جب تکلیف بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اس وقت بھی جس سے ملتے مسکرا کر ملتے، اللہ کے فیصلے کے سامنے خودسپردگی کا مزاج بہت شاندار تھا اور زبان سے اس خود سپردگی اور اللہ کے فیصلے سے راضی ہونے کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔
    اس کا افسوس زندگی بھر رہے گا کہ شیخ کی وفات کے وقت ممبئی میں موجود نہیں تھا اور جنازے میں شرکت سے محروم رہا، لیکن شیخ کی یاد ہمیشہ دل میں تازہ رہے گی، اب بھی یہ معمول ہے کہ سفر میں شیخ کا کوئی ویڈیو دیکھتا ہوں تو شیخ کو سامنے بیٹھ کر گفتگو کرتا محسوس کرتا ہوں۔
    اللہ شیخ کی قبرکو نور سے بھر دے ، آخرت کا سفر ان کے لیے آسان فرمادے، جو علمی سرمایہ انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور اس کا اجر شیخ کو بڑھا چڑھا کر دے ۔آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings