-
نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا حکم وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰه عنه: أَنَّ النَّبِيَّﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةِ بِـ (الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔ زَادَ مُسْلِمٌ: لَا يَذْكُرُونَ: (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) فِي أَوَّلِ قِرَاء َةٍ وَلَا فِي آخِرِهَا. وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ، وَالنَّسَائِيِّ وَابْنِ خُزَيْمَةَ: لَا يَجْهَرُونَ بِبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔ وَفِي أُخْرَي لِابْنِ خُزَيْمَةَ: كَانُوا يُسِرُّونَ. وَعَلٰي هٰذَا يُحْمَلُ النَّفْيُ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ، خِلَافًا لِمَنْ أَعَلَّهَا ۔
وَعَنْ نُعَيْمٍ الْمُجَمِّرِ رضي اللّٰه عنه قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَاء َ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَرَأَ: (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، حَتَّي إِذَا بَلَغَ: (وَلَا الضَّالِّينَ) ، قَالَ: (آمِينَ)وَيَقُولُ كُلَّمَا سَجَدَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الْجُلُوس: اللّٰهُ أَكْبَرُ۔ ثُمَّ يَقُولُ إِذَا سَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللّٰه ﷺ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ،ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کی ابتداء (الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) سے کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) مسلم نے یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے: قرأ ت کے شروع اور آخر دونوں موقعوں پر(بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) نہیں پڑھتے تھے۔ مسند احمد، نسائی اور ابن خزیمہ کی ایک روایت میں ہے: (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) کو جہری طور پر (اونچی آواز سے) نہیں پڑھتے تھے۔ ابن خزیمہ کی ایک دوسری روایت میں ہے: وہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔ اور اسی پر صحیح مسلم کی روایت کی نفی کو محمول کیا جائے گا بخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اسے معلول کہاہے۔
[صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب ما یقول بعد الکتبیر، حدیث:۷۴۳، و صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ، باب حجۃ من قال:لایجہر بالبسملۃ، حدیث:۳۹۹، وسنن النسائی، الافتتاح، حدیث:۹۰۸، وصحیح ابن خزیمۃ:۱؍۲۵۰، حدیث:۴۹۷،۴۹۸، وہو حدیث صحیح]
اور حضرت نعیم مجمر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی تو انہوں نے پہلے بسم اللہ تلاوت فرمائی، پھر اس کے بعد ام القرآن (سورئہ فاتحہ) پڑھی حتیٰ کہ جب آپ (وَلَاالضَّآلِّیْن)پر پہنچ گئے تو آمین کہی۔ اور جب بھی سجدہ کرتے اور جب بھی بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر سلام پھیر کر فرمایا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں نماز کی ادائیگی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تم سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ (میری نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بہت مشابہ ہے) [سنن النسائی، الافتتاح، باب قراء ۃ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، حدیث: ۹۰۶، وصحیح ابن خزیمۃ:۱؍۲۵۱، حدیث:۴۹۹]
راوۃ حدیث: دوسری حدیث کے راوی حضرت نعیم بن عبداللہ مجمر رحمہ اللہ ہیں ،ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ نُعَیْم نَعِیم کی تصغیر ہے۔ مجمر میں میم پر ضمہ جیم ساکن اور دوسرے میم کے نیچے کسرہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آل کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جمعہ کو دوپہر کے بعد مسجد نبوی میں خوشبو کی دھونی دیا کرتے تھے، اسی وجہ سے ان کا نام مجمر(خوشبو کی دھونی دینے والا) مشہور ہوگیا۔ مشہور تابعی تھے۔ ابوحاتم ابن معین ابن سعد اور نسائی رحمہم اللہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔تقریباً۱۲۰سال تک زندہ رہے۔[تہذیب التہذیب:۱۰؍۴۶۵،دار صادر بیروت ،سیر اعلام النبلاء:۵؍۲۲۷]
فوائد ومسائل: ۱۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قرآن کا حصہ ہے ۔ ۲۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا جائے گا ۔ ۳۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ سورہ فاتحہ سے قرأ ت کا آغاز کرتے اور بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔ ۴۔ نعیم بن عبداللہ مجمر رحمہ اللہ سے مروی حدیث بسم اللہ اور آمین بالجہر کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ جو آدمی (امام سے متصل صف سے) پچھلی صف میں ہوگا اسے امام کی قرأ ت اور آمین اسی صورت میں سنائی دے گی جب کہ امام بلند آواز سے پڑھے (ورنہ اسے سنائی نہیں دے گی)۔امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی رجحان ہے ۔ ۵۔ بسم اللہ کو آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، تاہم اکثر اور زیادہ صحیح روایات کی رو سے آہستہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔ اسی کے قائل جمہور اہل علم ہیں جن میں امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل بھی شامل ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کا نظریہ یہ ہے کہ اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھنے کی کوئی بھی صریح صحیح حدیث موجود نہیں (تمام المنۃ ص:۱۶۹)
شیخ الامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’عام اوقات میں آہستہ پڑھنا ہی سنت ہے ،جبکہ بعض اوقات اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ومباح ہے ‘‘(مجموع الفتاویٰ:۲۲؍۴۱۰) امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺاونچی آواز سے بسم اللہ پڑھتے تھے لیکن اونچی آواز کی بہ نسبت ہلکی آواز سے زیادہ پڑھتے تھے۔(زاد المعاد:۲؍۲۳)
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے کہا: ’’کہ میرے نزدیک پوشیدہ پڑھنا اونچا پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے‘‘ (تحفۃ الاحوذی:۲؍۶۱) ۶۔ پوری نماز کو اللہ أکبر کہہ کرکے ادا کریں گے ،سوائے رکوع سے اٹھتے وقت۔
مستفاد از: ۱۔ فقہ الاسلام عبدالقادر شیبۃ الحمد، ۲۔ سبل السلام للصنعانی ، ۳۔ نحۃالعلام شرح بلوغ المرام عبداللہ بن صالح الفوزان، ۴۔ تحفۃ الکرام شرح بلوغ المرام للدکتور محمد لقمان السلفی، ۵۔ توضیح الاحکام شرح بلوغ المرام عبداللہ بسام ، ۶۔ فتح ذی الجلال والاکرام شرح بلوغ المرام لابن عثیمین رحمہ اللہ ۷۔ فتح العلام فی دراسۃ احادیث بلوغ المرام:ابو عبداللہ محمد بن علی بن حزم الفضلی البعدانی