Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دور حاضر میں فتنوں کی معرفت اور ان کے تدارک میں علماء اور طلباء کی ذمے داریاں

    الحمد للّٰہ رب العالمین و الصلوۃ والسلام علٰی أشرف الأنبیاء و المرسلین، وعلٰی آلہ و أصحابہ و أتباعہ إلی یوم الدین۔
    اہل علم کے لیے انتہائی ناگزیر ہے کہ معاشرے میں دعوت دین کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں کو پہچانیں اور عوامی ودینی حلقوں میں جو خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں ان کی اصلاح کے لیے اہم کردار ادا کریں۔
    آج جن لوگوں کے پاس اقتدار اور اختیار ہے اگر وہ دعوت دین کی ذمے داریوں سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو آج دینی جماعتوں اور تعلیمی اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس خلا کو پر کریں اور ان ذمے داریوں کو پورا کیا جائے جو اسلام کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی ہیں۔
    مندرجہ بالا موضوع کی تفہیم کے لیے ہم اس کو مختلف حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں، تاکہ اچھی طرح سے اس موضوع کا احاطہ ہو سکے اور بہ آسانی بات سمجھ میں بھی آ جائے۔
    ٭(۱)دور حاضر:
    اس عنوان سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے؟ اس فریضے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں حالات کا پورا ادراک ہو، ہم عوام سے تعلق رکھیں، معاشرے کے اندر رہن سہن سیکھیں اور ان خرابیوں پر نظر رکھیں جو معاشرے میں پیدا ہو کر عوام کو دین سے دور کر رہی ہیں۔
    آج اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دین بس یہی ہے کہ خود اپنا عمل کرو اور اپنے آپ کو گھر تک محدود رکھو تو پھر اسے علم اور دین سے اپنی وابستگی کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ اور اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم انبیاء کے وارث ہیں اور ہم اس بات کے بھی دعوے دار ہیں کہ علم کو عبادت پر اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ عبادت کا نفع ایک فرد تک محدود رہتا ہے اور علم کا نفع افراد اور عوام تک متعدی ہوتا ہے تو پھر ہم عوام اور معاشرے سے الگ تھلگ رہ کر کسی طور اپنی ذمے داریوں کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
    ٭(۲) فتنوں کی معرفت:
    اس حوالے سے ہمیں وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جو فتنوں کی معرفت اور علم کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
    ’’کان الناس یسألون رسول اللّٰہ ﷺعن الخیر وکنت اسالہ عن الشر مخافۃ ان یدرکنی‘‘
    ’’دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہﷺسے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں‘‘
    [صحیح البخاری:۳۶۰۶]
    اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ فتنوں سے بچاؤ کے لیے ان کی معرفت اور حقیقت کا علم ہونا ضروری ہے۔ اور صحابہ کے ہاں تو یہ موضوع عام طور پر زیر بحث رہتا تھا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں:
    قالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عنْه:’’أيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّمَ عَنِ الفِتْنَةِ؟ قالَ:قُلتُ:أنا أحْفَظُهُ كما قالَ، قالَ:إنَّكَ عليه لَجَرِيء ٌ‘‘
    عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’تم میں سے کس شخص کو رسول کریمﷺکی وہ حدیث یاد ہے جو آپﷺنے فتنے کے سلسلے میں ارشاد فرمائی تھی؟ میں نے کہا کہ مجھے یاد ہے اور بالکل اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ ﷺنے ارشاد فرمائی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:تم اس(فتنوں کی معرفت)میں بہت دلیر ہو‘‘
    [صحیح البخاری:۳۵۸۶]
    ان نصوص سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان فتنوں کی معرفت کس قدر ضروری ہے کہ ان کی پہچان کے بغیر ہم اپنے بچاؤ کا سامان نہیں کر سکتے۔ ایسا ہی کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
    أَتاني هَواها قَبلَ أَن أَعرِفِ الهَوي فَصادَفَ قَلباً خالِياً فَتَمَكَّنا
    ’’ دل اس کی معرفت سے خالی تھا، وہ خیال دل میں آیا اور جاگزیں ہو گیا اور میں اس کو روک بھی نہ سکا‘‘
    ٭فتنوں کا تذکرہ:
    ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ آج کون سے فتنے ہیں جو عوام اور خواص کی دنیا و آخرت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اور معاشرے میں دینی لہر کو کمزور سے کمزور تر کرتے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بنیادی بات یاد رکھنی چاہیے کہ فکری اعتبار سے دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے:
    (۱) خدا کا انکار، آسمانی شریعتوں کا انکار، انبیاء ،کتابوں اور آخرت کا انکار، الغرض یہ لوگ کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
    (۲) پہلے گروہ کے برعکس دوسرا فریق اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا اور اسلام کے عقائد کی دعوت دینے والا ہے۔
    ان دونوں گروہوں میں پہلے گروہ کا مقصد اسلامی عقائد میں تشکیک اور لوگوں میں شبہات پیدا کرنا ہے اور یہی جڑ ہے جو باقی تمام فتنوں کو پروان چڑھا رہی ہے۔
    ٭فتنوں کی معرفت کے لیے مصادر و مراجع:
    فتنوں کی تاریخ اور ابتدا ء و ارتقا انتہائی تفصیل طلب موضوع ہے، لیکن اس حوالے سے چند بنیادی امور اورکتب کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ جن کے ذریعے سے ان فتنوں کی معرفت اور ان کے سد باب کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
    ٭الحاد کا فتنہ:
    اسلامی عقائد پر تشکیک کا فتنہ دن بہ دن بڑھتا چلا جا رہا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں بنیادی عہدوں پر براجمان لوگ اور معاشرے میں ذرائع ابلاغ کے سارے وسائل پر آج اکثریت ان لوگوں کی قابض ہے جو اس فتنے کا شکار ہیں۔
    الحاد اور تشکیک کے فتنے کی معرفت کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے:
    (۱) اساسیات اسلام، مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ (اس کتاب میں اسلام کے بنیادی عقائد کا تعارف،اور اس پر وارد ہونے والے اشکالات کا علمی،عقلی،نقلی اور سائنسی اعتبار سے جواب دیا گیا ہے)
    (۲)مذہب اور جدید چیلنج، مولانا وحید الدین خان(لیکن یاد رہے کہ اس مؤلف کے عقائد وافکار میں کئی غلطیاں موجود ہیں،جن پر علماء نے مختلف رسائل و جرائد میں نقد کر رکھا ہے)۔
    (۳) تنقیحات، مولانا مودودی(ان کی فکری غلطیوں سے بھی آگاہ رہنا چاہیے)
    (۴) الوحی المحمدی ، علامہ رشید رضا (یہ مصر کے عالم دین تھے)
    ان کتب میں الحاد اور تشکیک کے فتنے کا تعارف اور ملحدین کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔
    ٭معاشرے میں موجود فتنے اور ان کا سدباب:
    الحاد کا فتنہ آج ہمارے عوامی حتیٰ کہ دینی حلقوں میں بھی چار قسم کے گروہوں کے کندھوں پر سوار ہو کر لوگوں کو دین سے دور کر رہا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ چار کندھے بھی الحاد کو ان گروہوں نے مہیا کیے ہیں جو اپنی نسبت اسلام کی طرف رکھنے والے ہیں۔وہ چار گروہ مندرجہ ذیل ہیں:
    (۱) قادیانیت:
    ایک تو یہ فتنہ اپنی خامیاں اور برائیاں بھی معاشرے میں پھیلا رہا ہے اور ساتھ ہی الحاد کا بھی دست وبازو بن کر عوام کو دین و آخرت سے دور کر رہا ہے۔
    آپ اس بات پر حیران ہوں گے کہ قادیانیت کے بنیادی عقائد میں خدا کا انکار شامل نہیں ہے لیکن یہ فتنہ ہر اس قوت کو اپنا کندھا مہیا کرتا ہے جو ایک مسلمان کا خدا، رسول،آخرت اور قرآن و حدیث پر ایمان کو کمزور کرنے والا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلمان براہ راست قادیانیت کو قبول کرنے سے انکار کر چکے تو اب یہ لوگ الحاد کا سہارا لے رہے ہیں تا کہ عوام کا اسلام سے تعلق کمزور ہو تو یہ لوگ عوام میں اپنا مذہب پیش کریں اور اس کی ترویج کریں۔
    قادیانیت کے فتنے کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اس کی تاریخ سے واقف ہوں، اس کی نشوونما کے اسباب اور ابتدائی حالات کے متعلق جانکاری رکھتے ہوں اور اس کے بعد اس مذہب کے دلائل اور علمی بنیادوں پر ہم ان کے شبہات سے اچھی طرح سے واقفیت رکھتے ہوں۔
    ان معلومات کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے:
    (۱) قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ، پروفیسر الیاس برنی(اگر کوئی عالم یا طالب علم حتیٰ کہ عام شخص بھی اس کو سمجھ کر پڑھ لے تو قادیانی فتنے کو نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ اچھی طرح سے اس کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے)
    (۲) محمدیہ پاکٹ بک، مولانا عبداللہ معمار رحمہ اللہ (اس میں قادیانیت کے تمام دلائل کا قرآن و حدیث اور قادیانی مذہب کی بنیادی کتابوں سے رد کیا گیا ہے)
    (۳) احتساب قادیانیت (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی طرف سے ساٹھ جلدوں میں تمام علمائے اسلام کا لٹریچر جمع کیا گیا ہے جو انہوں نے قادیانیت کے رد پر لکھا تھا)
    (۴) محاسبۂ قادیانیت (۱۴)جلدوں میں علمائے کرام کی کتب کو جمع کیا گیا ہے)
    (۵) تحریک ختم نبوت، ڈاکٹر بہاؤالدین (یہ ساٹھ جلدوں سے بھی زائد ہے جس میں رد قادیانیت پر تمام علماء کے علمی ذخیرے کو جمع کیا گیا ہے)
    فتنہ ٔقادیانیت کے حوالے سے دو علماء کے علمی ذخیرہ کو اچھی طرح پڑھنا چاہیے اور ان کو حرز جاں بنانا چاہیے:
    (۱) مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ، یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مرزا قادیانی کا براہِ راست مقابلہ کیا، اس کے ساتھ مناظرہ کیا اور انہوں نے ’’اشاعۃ السنۃ‘‘کے نام سے ایک مستقل رسالہ نکالا تھا جس کا موضوع ہی ’’مرزا قادیانی کی تردید‘‘ہوا کرتا تھا، مولانا صاحب نے قادیانیت کے رد میں جتنا بھی مواد لکھا تھا وہ’’محاسبۂ قادیانیت‘‘ کی جلد نمبر ۹،۱۰،۱۱میں شائع ہو چکا ہے۔
    (۲) شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ، یہ دوسری شخصیت ہیں جنہوں نے قادیانیت کی تردید میں بے مثال علمی ذخیرہ رقم کیا، ان کی’’تینتیس(۳۳)‘‘کتابوں کو’’احتسابِ قادیانیت والے مجموعہ کی جلد نمبر۸،۹میں شائع کیا گیا ہے۔
    ان علماء کی کتابیں پڑھنے سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں:
    ۱۔ ان کی کتب سے علمی دلائل ملتے ہیں۔
    ۲۔ دوسرا یہ وہ علماء ہیں کہ جنہوں نے براہِ راست قادیانی مذہب کے بانی اور اس کے ابتدائی لوگوں کا مقابلہ کیا اور اسی دور میں ان کو ناکام کیا۔
    تو یہ قادیانی فتنہ وہ پہلا عنصر ہے جس کے کندھے پر سوار ہو کر الحاد اور تشکیک کا مرض اسلامی معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے۔
    (۲)رافضیت:
    یہ لوگ بھی خدا، رسول اور آخرت کے انکاری نہیں ہیں لیکن اسی مقصد سے یہ الحاد کے یمین و یسار بنے ہوئے ہیں، تاکہ اسی بہانے یہ لوگ عوام میں اپنے فاسد عقائد پھیلا سکیں۔
    رافضیت کے حوالے سے دو باتوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے:
    پہلی یہ کہ اصل رافضیت کیا ہے…؟
    اور دوسری بات یہ کہ موجودہ دور میں اس کی جدید صورت کون سی ہے…؟
    (۱)اصل رافضیت: وہی ہے کہ یہ لوگ قرآن میں بھی تشکیک اور صحابہ کی بھی تکفیر کرتے ہیں۔ اس پر علماء نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن اگر ہر عالم دین اور طالب علم اس رافضیت کو سمجھنے کے لیے صرف ایک کتاب کو صحیح سمجھ کر پڑھ لے تو نہ صرف اس کی حقیقت سے آگاہی حاصل کر لے گا بلکہ اس کا مقابلہ بھی کر سکے گا، اور وہ کتاب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ’’منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ‘‘ہے، اس کتاب میں فتنۂ رافضیت کی علمی دلائل کے ساتھ الزامی،عقلی اورنقلی ہر لحاظ سے تردید کی گئی ہے۔ یہ کتاب ہر طالب علم کے زیر مطالعہ ہونی چاہیے تاکہ وہ باطل سوچ و فکر کا رد کر سکے۔
    (۲) جدید رافضیت: اس کو پھیلانے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا گیا ہے کہ اہل سنت کی طرف منسوب ایسے افراد پیدا ہوئے جو قرآن میں تشکیک یا اس کا انکار نہیں کرتے ہیں،نہ ہی صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں بلکہ عوام کے سامنے صحابہ کا احترام بجا لاتے ہیں، لیکن صحابہ کے درمیان ہونے والے مشاجرات اور اختلافات کی آڑ لے کر کچھ صحابہ کا احترام بیان کرتے ہیں اور کئی صحابہ پر طعن،تشنیع،تنقید اور تبراء کرتے ہیں،اس سے مقصود یہ ہے کہ رافضیت کے لیے وہ سہولت کاری کی جا سکے کہ جن کی بنیاد پر مسلمانوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
    اس دور میں اس فتنے کا بانی ’’فیصل آباد‘‘ کا ’’اسحاق جہالوی‘‘تھا اور آج اس کا پیروکار ’’مرزا علی محمد جہلمی‘‘ہے، اس فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے دو کتابیں لازمی پڑھنی چاہئے:
    ۱۔ مقام صحابہ، مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (اگر ایک مسلمان یہ کتاب پڑھ لے اور عوام میں اس کی اشاعت کرے یا اس سے حاصل شدہ مباحث کو پھیلانے میں محنت کرے تو یہ جدید رافضیت کا فتنہ اپنی موت آپ مر سکتا ہے)۔
    ۲۔ فضائلِ صحابہ و اہل بیت اور مسائل محرم الحرام، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ (اس جدید رافضیت نے واقعۂ کربلا کی آڑ لے کر صحابۂ کرام کی توہین پر مبنی جو افکار معاشرے میں پھیلائے ہیں،اس کتاب میں اچھی طرح سے ان کا سدباب کیا گیا ہے۔ اور اس کتاب کی سب بڑی خوبی یہ ہے کہ’’ ۱۴،اکابر علمائے اہلحدیث‘‘نے اس کتاب کی تصدیق کی ہے کہ یہ سلفی منہج پر لکھی گئی ہے۔
    (۳)انکار حدیث:
    یہ تیسرا گروہ ہے جو عصر حاضر میں الحاد کو اپنا کندھا فراہم کر رہا ہے۔ پہلے پہل تو یہ فتنہ یوں تھا کہ’’صرف قرآن ہی دین ہے، حدیث کا دین سے کئی تعلق نہیں‘‘اور یہ نظریہ سر سید ،عبداللہ چکڑالوی اور غلام احمد پرویز نے شروع کیا تھا۔ لیکن جب اہل علم نے ان لوگوں کی تردید کی اور ان کے افکار و نظریات کا علمی رد کیا تو اب یہ لوگ جدید صورت میں اپنے افکار کے داعی بنے بیٹھے ہیں، اور وہ یوں کہ اب یہ لوگ حدیث کو بہ ظاہر تسلیم تو کرتے ہیں لیکن احادیث کو قبول کرنے کے جو تقاضے ہیں ان کا انکار کرتے ہیں، اور اس کے لیے وہ احادیث پر طرح طرح کے اعتراضات و شبہات وارد کرتے ہیں۔
    موجودہ دور میں ’’جاوید احمد غامدی‘‘اس فتنے کا عَلَم لہرائے ہوئے ہے، اور اس کے پیروکار بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ وہ اس بات کا دعوے دار بھی ہے کہ وہ حدیث کو حجت مانتا ہے، لیکن اپنی کتاب’’میزان‘‘میں صاف لکھتا ہے کہ حدیث سے کوئی عقیدہ وعمل ثابت نہیں ہوتا۔ (میزان:۵۸)۔
    اب ذرا خود ہی اندازہ کریں کہ یہ حدیث کی حجیت کا اقرار ہے یا انکار ۔۔۔؟
    حجیت حدیث کے حوالے سے چند کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے:
    (۱) حجیت حدیث ، مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ (اس کتاب میں اس فتنے کی قدیم اور جدید دونوں صورتوں کا رد کیا گیا ہے۔ اب یہ کتاب مزید اضافوں کے ساتھ ’’مقالات حدیث‘‘کے نام سے شائع ہو چکی ہے)۔ (۲)دوام حدیث، امام محمد گوندلوی رحمہ اللہ (۳) آئینہ پرویزیت، مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ
    (۴) بدعتی گروہ:
    یہ چوتھا عنصر ہے جو الحاد کو اپنا کندھا مہیا کیے ہوئے ہے، کیونکہ اہل بدعت جب دین کا مسخ شدہ تصور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ایک عقل مند انسان دین ہی سے منحرف ہو جاتا ہے کہ یہ کیسا دین ہے جو اس طرح کی غیر فطری رسومات کی دعوت دیتا ہے، اس کی ایک مثال برصغیر کے عالم کی ہے جس کا نام ’’غلام جیلانی برق‘‘تھا، اس نے ’’دو اسلام‘‘کے نام سے انکار حدیث پر ایک کتاب لکھی اور اس کے مقدمے میں لکھتا ہے:’’میں بدعتی رسم و رواج کے سبب اسلام سے منحرف ہوا ہوں‘‘۔
    اسی طرح ’’غازی محمود دھرم پال‘‘( یہ مسلمان تھا پھر ہندو ہوا پھر بعد میں مسلمان ہو گیا)اپنی کتاب ’’داستان غم‘‘ میں لکھتا ہے:’’میں اسلام سے اس لیے منحرف ہوا تھا کہ جب مجھے بدعتی رسم ورواج کی دعوت دی گئی تو اسلام سے میرا اعتبار ہی جاتا رہا‘‘۔
    یہ چار فتنے ہیں جو الحاد کو اپنے کندھے مہیا کر رہے ہیں اور لوگوں کو قرآن و سنت سے دور کر رہے ہیں،ان کی پہچان کے لیے مندرجہ بالا مصادر کو لازمی پڑھنا چاہیے تاکہ ان فتنوں کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد ان کا رد کیا جا سکے اور معاشرے میں اسلامی عقائد و افکار کی ترویج کی جا سکے۔
    ٭فتنوں کے تدارک میں علماء و طلباء کا کردار:
    یہ ہمارے موضوع کا دوسرا حصہ ہے، اس کی مختلف اقسام بنا کر اس کو بھی بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
    (۱)علمی رسوخ: ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے علمی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ اور اپنے اندر علمی رسوخ پیدا کرنے کے لیے ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی’’کہ صرف قرآن و حدیث کا ترجمہ پڑھ لینا کافی ہے‘‘ کیونکہ اس سوچ کی وجہ سے طالب علم اصول فقہ کے علم سے متنفر ہو جاتا ہے، اصول حدیث کو بھی غیر ضروری سمجھتا ہے اور بقیہ معاون علوم و فنون سے بھی غفلت برتتا ہے۔
    اگر صرف قرآن اور حدیث کا ترجمہ پڑھنا ہی علمی رسوخ کا ذریعہ مان لیا جائے تو پھر ہم میں اور اس جاہل انسان میں کوئی فرق نہیں جو ساری زندگی علماء کے دروس اور خطبات سنتا رہتا ہے لیکن اس میں کبھی علمی رسوخ پیدا نہیں ہوتا، حتی کہ عامی شخص اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کے متعلق بھی مکمل جانکاری حاصل نہیں کر پاتا، لہٰذا فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علمی رسوخ اولین شرط ہے۔
    (۲) عملی اقدامات: علمی رسوخ پیدا کرنے کے بعد ہمیں اپنے مقام کا تعین کرنا چاہیے کہ جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم انبیاء کے وارث ہیں، تو پھر ہم پر یہ حق بنتا ہے کہ اب اس پیغام کو آگے پہنچانے کے لیے لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور اسلامی عقائد و افکار کی نشر واشاعت میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔
    (۳) ضروریات دین کی تبلیغ: جب عوام سے ربط پیدا ہو جائے تو سب سے قبل انہیں ضروریات دین کی تبلیغ کریں، اسلام کے عقائد اور بنیادی مسائل کی تعلیم دیں،اور ان کے شبہات کا ازالہ کریں، کیونکہ اگر انسان کا عقیدہ مضبوط ہو جائے تو پھر وہ بڑی آسانی سے ان فتنوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اسی ضمن میں ’’سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ‘‘کا ایک واقعہ سنیے کہ وہ کہتے ہیں:
    ’’ میں نے اپنی زندگی میں علمی و کلامی فتنوں کو پڑھا ہے، جدید اور قدیم فتنوں کو ان کے اصل مصادر سے مطالعہ کیا، لیکن کبھی بھی کوئی فتنہ میرے دل میں اپنی جگہ نہ بنا سکا اور نہ کوئی شبہ مجھے متاثر کر سکا‘‘۔پھر اس کی وجہ بیان کرتے ہیں:
    جب میں چھوٹا تھا تو میرے بڑے بھائی حکیم سید ابو صہیب صاحب محلے میں عورتوں کو ’’تقویۃ الایمان، شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ‘‘کی کتاب پڑھایا کرتے تھے۔ میں اس وقت چونکہ چھوٹا تھا تو مجھے حکم دیتے تو میں پردے کے پاس کھڑے ہو کر اس کی قرأت کیا کرتا تھا،اور بڑے بھائی پردے کے پیچھے سے ایک ایک بات کی تشریح و تفسیر کرتے رہتے تھے، اور میں نے کئی دفعہ اسی طرح اس کی قرأ ت کی تھی۔ اس دوران اسلامی عقائد اور اس کے جو دلائل میرے دل و دماغ میں راسخ ہو چکے تھے،اس کے بعد ساری زندگی کوئی بھی فتنہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا۔(مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں:۸)
    اس دنیا میں جتنے بھی ذرائع ابلاغ ہیں ان کے ذریعے اسلام کی دعوت کو اور ان فتنوں کی حقیقت کو سر عام نشر کرنا چاہیے اور یہ جو بیمار سوچ آج لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو چکی ہے کہ کسی پہ تنقید نہ کرو، اصل میں یہ اسلامی دعوت کے منہج سے ناواقف سوچ ہے۔آپ دیکھیں کہ قرآن مجید کے اندر حق کی تائید بھی ہے اور باطل پر جگہ بھی تنقید ملتی ہے۔ اسلام توحید سکھاتا ہے تو شرک کی مذمّت کرتا ہے، سنت سکھاتا ہے تو بدعت کا رد بھی کرتا ہے، لہٰذا اس بیمار سوچ کے سبب اپنے فرائض کو نہیں چھوڑنا چاہیے، خواہ جو مرضی کوئی پروپیگنڈا کرتا رہے۔
    آج دیکھ لیں کہ دنیا انہی علماء کا ذکر کرتی ہے کہ جنہوں نے اسلام کی مثبت دعوت بھی دی اور اپنے وقت کے فتنوں کا پوری طرح سے مقابلہ کیا، لہٰذا فتنوں کی تردید کرنے اوران پر تنقید کرنے میں اسلامی اسلوب کو اختیار کر کے ہم اپنی ذمے داریاں ادا کر سکتے ہیں۔
    ٭آخری نصیحت:
    صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں جب فتنہ پھیل گیا تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:’’ما المخرج؟‘‘’’کہ ان فتنوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے‘‘؟ تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’كتابُ اللّٰه ما استبان لك فاعمل به،وما اشتبه عليك فكله إلى عالمه‘‘ ’’اللہ کی کتاب سے جتنا بھی تم کو علم اور فہم حاصل ہے اس پر مضبوطی سے ڈٹے رہو، اور جس چیز کا علم نہیں اسے کسی عالم دین سے سیکھو‘‘ [ مختصر قیام اللیل لمحمد بن نصر المروزی :ص :۱۷۴]
    آج اگر ہم بھی فتنوں کے دور میں عوام کو علماء اور دینی مراکز سے جوڑ دیں تو آدھے فتنے ویسے ہی ختم ہو جائیں گے، مثلاً ہم اپنے علاقے کے سلفی منہج اور اہل حدیث علماء کے قول و فعل کو مدنظر رکھیں تو اس سے بھی ہم سیکھ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں ایک عالم اور طالب علم کا کردار کیا ہونا چاہیے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب کا فہم نصیب کرے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings