-
ر مضا ن کے بعد ہماری سر گرمیاں رمضان کی آمد اور روزوں کی فرضیت کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} [۲؍بقرہ :۱۸۳] ۔یعنی فرضیت صوم کا مقصد یہی ہے کہ ہم تقویٰ شعار اور پرہیزگار بن جائیں ، اور اس مقصد کے حصول کو آسان بنانے کی خاطر اللہ تعالیٰ رمضان کے شروع ہوتے ہی شیطانوں اور سرکش جنوں کو قید کر دیتا ہے اور جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔
[بخاری:۔ کتاب الصوم :باب ہل یقال رمضان او شہر رمضان ، حدیث نمبر ۱۸۹۹]۔
رمضان کی اس برکت و فضیلت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم مسلمان واقعی معنوں میں اس ماہ میں تقویٰ و پرہیز گاری کی طرف مائل ہوتے ہیں اور روزوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نمازوں کا اہتمام بھی بڑھ جاتا ہے ، با جماعت نماز تراویح کی ادائیگی اور قرآ ن مجید کی تلاوت ہوتی ہے ، صدقات وخیرات اور سخاوت وفیاضی کی فضا قائم ہوتی ہے، فسق و فجور بے ہودہ باتوں سے اجتناب اور پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارگی کا ماحول ہوتا ہے ، علاوہ ازیں ذکر واذکار ،دعا و استغفار ، تسبیح و تحلیل ، تکبیر و تحمید ، صلاۃ و سلام ،احسان وہمدردی ،اطاعت و فرمانبرداری ، دعوت و تذکیر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکررمضان بعد ہماری ذمہ داریاں:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:’’جَائَ عُثْمَانُ إِلَي النَّبِيِّ ﷺَ بِأَلْفِ دِينَارٍ، فِي كُمِّهِ، حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَنَثَرَهَا فِي حِجْرِه۔ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺَ يُقَلِّبُهَا فِي حِجْرِهِ وَيَقُولُ: مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ اليَوْمِ مَرَّتَيْنِ‘‘.
[سنن الترمذی ت بشار:۶؍۶۷،۳۷۰۱]
لہٰذا صرف ایک ماہ میں عبادت کر لینے سے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ہماری تمام عبادتوں کا سلسلہ مرتے دم تک جاری رہنا چاہیے ، ہمارے پروردگار کا یہی حکم و فرمان ہے ،قدرے تفصیل ملاحظہ ہو :(الف) موت تک عبادت:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں تب تک عبادت وبندگی کرنے کا حکم دے رکھا ہے جب تک کہ ہماری موت نہ آ جائے ، ارشاد باری ہے :
{وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّي يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ}
[۱۵؍حجر:۹۹]
اور رسول اکرم ﷺ نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’وَأَمَّا الْعُرْوَةُ فَهِيَ عُرْوَةُ الْإِسْلَامِ وَلَنْ تَزَالَ مُتَمَسِّكًا بِهَا حَتَّي تَمُوتَ‘‘۔
’’ اور تم نے جو حلقہ پکڑا تھا وہ اسلام کا حلقہ ہے اسے موت تک مضبوتی سے پکڑے رہنا ‘‘۔
[ حدیث نمبر ۲۴۸۴]۔(ب) تقویٰ پر مداومت:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزوں کی غرض وغایت بتلاتے ہوئے فرمایا :
{لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
’’تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔
[۲؍بقرہ :۱۸۳]
{تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا}
[۱۹؍مریم:۶۳]۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
[۳؍آ ل عمران:۱۰۲]۔(ج) دین پر استقامت:
{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ }
’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارارب اللہ ہے پھراسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے )آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ)اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ‘‘۔
[۴۱؍فصلت :۳۰]۔
’’قُلْ:آمَنْتُ بِاللّٰهِ، فَاسْتَقِمْ‘‘۔
[مسلم :۔ کتاب الایمان :باب جامع اوصاف الا یمان، حدیث نمبر ۳۸]۔(د) اعمال صالحہ پر ہمیشگی :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺأَيُّ الأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَي اللّٰهِ؟ قَالَ: ’’أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ‘‘۔
[صحیح البخاری۸؍۹۸،۶۵۶۴]
مَسْرُوقًا، قَالَ:سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا:أَيُّ العَمَلِ كَانَ أَحَبَّ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:الدَّائِمُ۔
[صحیح البخاری۸؍۹۸،۶۴۶۱]
مثلاً رمضان کے درج ذیل اور دیگر اعمال ہمیں ہمیشہ انجام دیتے رہنا چاہئے ۔( ۱) شرعی تعلیم وتعلم :
اللہ کے رسول ﷺ نے فرما یا :
’’طلب العلم فريضة علٰي كل مسلم‘‘
علم کا حاصل کرنا ہر شخص پر فرض ہے ۔
[ابن ماجہ :۔ مقدمۃ باب فضل العلماء والحث علیٰ طلب العلم ، حدیث نمبر ۲۲۴ ،والحدیث صحیح انظر صحیح التر غیب رقم ۷۲]۔
اور بعض سلف کا قول ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر میں جانے تک علم حاصل کرو ، لہٰذا ہمیں علم سیکھنے کا سلسلہ رمضان بعد بھی رکھنا چاہیے ۔(۲) پنج وقتہ نمازیں :
{فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ }
[۱۰۷؍ماعون: ۴،۵]
{إِلَّا الْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَلَي صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ}
[۷۰؍معارج: ۲۲،۲۳](۳) تراویح (تہجد):
عن عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاص، قَالَ:قَالَ لِي رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ يَا عَبْدَ اللّٰهِ:’’ لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلاَنٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ‘‘
[البخاری:۱۱۵۲](۴) توبۃ النصوح:
(۵) امر باالمعروف اور نھی عن المنکر:
… صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر رحم کرے انہوں نے آخری وقت میں بھی امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ نہیں چھوڑا ۔ لہٰذا ہمیں بھی رمضان کے علاوہ دیگر دنوں میں بھی امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرتے رہنا چاہئے ۔
’’ارْفَعْ ثَوْبَكَ فَإِنَّهُ أَنْقَي لِثَوْبِكَ وَأَتْقَي لِرَبِّكَ‘‘۔
[فتح الباری لابن حجر:۱۰؍۲۶۴]
مذکورہ امور کے علاوہ جو کچھ بھی ہم رمضان میں بطورعبادت انجام دیتے ہیں ان سب کا سلسلہ رمضان کے بعد بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہنا چاہئے ۔
رمضان بعد بد عملی کے نقصانات :
(الف) ایمان کی مٹھاس سے محرومی :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الإِيمَانِ:مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ، بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ، مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَي فِي النَّارِ‘‘۔
[بخاری: ۔کتاب الایمان :باب من یکرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یلقیٰ فی النار من الایمان ، حدیث نمبر ۲۱]۔
(ب) ہدایت سے محرومی:
{إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّي يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ}
[الرعد: ۱۱]۔(ج) اللہ تعالیٰ سے بد عہدی:
{طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ}
’’ لوگ اگر اطاعت کریں ، اچھی بات کہیں اور جب کام ہو جائے تو اللہ کے ساتھ (کئے ہوئے عہد میں ) سچے رہیں ، تو ان کے لیے بہتری ہے‘‘۔
[۴۷؍محمد:۲۱]۔(د) اپنے ہاتھوں اپنی بربادی:
{وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا}
’’اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے توڑ ڈالا‘‘۔
[۱۶؍ نحل:۹۲ ]۔
غرض یہ کہ رمضان بعد بد عملی کاشکار ہو جانے میں بہت سارے گھاٹے اور نقصانات ہیں ،لہٰذا ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ جس طرح رمضان کا مہینہ ہم نے عبادت و ریاضت میں گزارا ہے اسی طرح سال کا ہر مہینہ ہم عبادت ہی میں گزاریں ،کیونکہ ہماری پیدائش کا مقصد صرف یہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ}
’’اور میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے خاطر پیدا فرمایا ہے‘‘۔
[۵۱؍ذاریات:۵۶]۔
لہٰذا ہمیں اپنی ساری زندگی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت و بندگی کو لازم پکڑ لینا چاہئے ۔ رب العالمین ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین٭٭٭