-
حج یا عمرہ میں لوگوں سے ہونے والی غلطیاں الدکتور صالح بن علی ابو عرَّاد
ترجمہ:ابویوسف آفاق احمد السنابلی المدنیاحرام میں ہونے والی غطیاں:
۱۔ میقات سے گزر جانے کے بعد احرام باندھنا جبکہ احرام میقات پر ہی باندھنا ہے،اگر کسی سے ایسی غلطی ہوجاتی ہے تو اسے واپس آکر میقات پر احرام باندھنا ضروری ہے اور اگر واپس آکر میقات سے احرام نہیں باندھتا ہے تو پھر اسے فدیہ کے طور پر جانور ذبح کرکے حرم کے فقراء میںتقسیم کرنا ہوگا ۔
۲۔ احرام سے پہلے کوئی مخصوص نمازنہ تو واجب ہے اور نہ ہی سنت۔
۳۔ حج یا عمرے کے لیے خواتین کا مردوں کے مشابہ لباس پہننا ،جبکہ شریعت میں حج یا عمرے کی ادائیگی کے وقت الگ سے لباس پہننے کی کوئی دلیل نہیں موجود ہے ۔ بلکہ عورت اپنے عام لباس میں ہی حج یا عمرے کی ادائیگی کرے گی۔
۴۔ آٹھویں ذی الحجہ کو حجاج کرام کا مسجد حرام کے علاوہ کسی اور جگہ سے احرام باندھنے کو غلط سمجھنا ۔ درست یہ ہے کہ انسان کہیںسے بھی احرام باندھ سکتاہے۔
۵۔ بعض حجاج کرام جب تک احرام میں ہوتے ہیں،تب تک اضطباع ہی میں ہوتے ہیں ۔(اضطباع کا مطلب ہوتا ہے داہنا کندھا دوران طواف کھول کر رکھنا )۔اضطباع صرف طواف قدوم میں ہی مطلوب ہے ۔ بعض حجاج اس میں دوسری غلطی یہ کرتے ہیںکہ اضطباع ہی میں طواف کے بعد دورکعت نفل نماز بھی ادا کرلیتے ہیں ۔ جبکہ اضطباع میں ادا کی گئی نمازدرست ہی نہیں ہوگی۔
۶۔ احرام باندھنے کے بعد تلبیہ نہ پڑھنا ،جبکہ احرام پہننے کے بعد ۱۰؍ذی الحجہ قربانی کے دن جمرۂ عقبہ کو کنکری مارنے تک تلبیہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
۷۔ طواف کے ساتوں چکروں میں رمل کرناجیسا کہ بعض حجاج کرتے ہیں ۔(رمل کا مطلب ہوتا ہے طواف کے شروع کے تین چکروں میںسینہ نکال کر کم کم فاصلہ پر قدم رکھ کر چلنا)۔
۸۔ بعض حجاج کا یہ سوچنا کہ احرام پہننے کے بعد اب اسے نہ تو بدل سکتے ہیںاور نہ ہی دھل سکتے ہیں ۔جبکہ ضرورت پڑنے پر اسے دھلا بھی جاسکتاہے اوربدلا بھی جاسکتاہے۔
۹۔ دوران احرام خواتین کا ہتھیلی کا دستانہ اور نقاب پہننا غلط ہے ،کیونکہ یہ دونوں محظورات احرام میںسے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے:
’’اَلْمُحْرِمَةُ لَا تَنْتَقِبُ، وَلَا تَلْبَسُ القُفّازَينِ‘‘۔
’’دوران حج یا عمرہ عورت نا تو نقاب پہنے گی اور نہ ہی دستانہ پہنے گی‘‘۔
[صحیح اخرجہ ابو داؤد: ۱۸۲۶ ]
۱۰۔ خواتین کا بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا۔جبکہ خواتین صرف اسی قدر آواز بلند کرکے تلبیہ پڑھ سکتی ہیں جسے وہ خود ہی سن سکیں۔(اس میں تفصیل ہے جس کے لیے اسی شمارہ میںالگ سے ایک مضمون موجود ہے )۔
طواف میں ہونے والی غلطیاں :
۱۔ تبرک کی نیت سے خانۂ کعبہ کی دیواروں،رکن شامی اور رکن عراقی وغیرہ کو چھونا یاچومنا ۔اسی طرح حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونا اور چومنا صرف طواف میںہوگا ،طواف کے علاوہ انہیںبھی چھوایا چوما نہیںجائے گا ، اسی طرح ملتزم سے چمٹنا صحابۂ کرام سے ثابت ہے۔
۲۔ پورے خانۂ کعبہ کا طواف نہ کرنا ،وہ اس طریقہ سے کہ صرف کعبہ کا طواف کرنا اور حجر اسماعیل کو ترک کر دینا ۔ درست یہ ہے کہ حجر اسماعیل کو شامل کرکے طواف کیاجائے ۔
۳۔ رکن یمانی کو بوسہ دینا ، سنت یہ ہے کہ اسے داہنے ہاتھ سے اگر ممکن ہوتو چھو لیا جائے ،اور اگر ممکن نہ ہو تو اس کے سامنے سے بغیر رکے گزر جائیں ۔
۴۔ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے بھیڑ میں گھس کر لوگوں کو دھکا دینا اورآواز بلند کرنا ۔یہ عمل سنت اور دین حنیف کے بالکل خلاف ہے۔
۵۔ طواف میں ہر راؤنڈ کے لیے دعائیں خاص کرلینا۔ایسے ہی لوگوں کے درمیان دعاؤں پر مشتمل بعض غیر معتبر کتابوں سے طواف اورسعی کے وقت دعائیں پڑھنا۔ درست طریقہ یہ ہے کہ حجاج او معتمرین کوذکر الہٰی ، تلاوت قرآن اورسنت صحیحہ سے ثابت ان دعاؤں کو پڑ ھنا چاہئے جن کے اندر دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کی گئی ہو ۔ البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے
{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}
[البقرۃ:۲۰۱]
بعض حجاج دعا کا معنی نہ سمجھنے کے سبب وہ دعائیں بھی پڑھ جاتے ہیں جن کا وہ مقام و محل نہیں ہوتا ہے۔
۶۔ طواف میںاجتماعی دعا کرنا سنت کے خلاف عمل ہے ،نبوی ہدایت یہ ہے کہ آدمی خود ہی دعا مانگے۔اس سے طواف کرنے والے بھی تشویش میں مبتلا نہیں ہوںگے۔
۷۔ حجر اسود کے مدمقابل رک کر تین بار تکبیر کہنا ، صحیح یہ ہے کہ طواف کرنے والے کو وہاںپر رکے بغیر ایک بار تکبیر کہہ کر گزر جانا ہے۔
۸۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے بغل ہی میں دورکعت نماز(جس میں قرأت ،رکوع اور سجدہ خوب لمبا کرتے ہیں،جبکہ یہ دونوں رکعتیں نبی اکرم ﷺ مختصر پڑھاکرتے تھے )کی ادائیگی کو لاز م پکڑنا ۔جبکہ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ شدید بھیڑ کے وقت پورے مسجد حرام میں کہیں بھی یہ دونوں رکعتیں ادا کی جاسکتی ہیں۔
سعی کے وقت ہونے والی غلطیاں:
۱۔ بعض لوگ اقامت کے بعد بھی سعی نہیںبند کرتے ہیں ۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ سعی کے دوران جہاں بھی اقامت کی آواز سنائی دے وہیں جماعت میں شامل ہوجائے۔
۲۔ ہر سعی میں یہ آیت پڑھنا
{ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ }
[البقرہ:۱۵۸]
صحیح یہ ہے کہ آغاز سعی میں صفا کے قریب پہنچ کر ایک مرتبہ اس آیت کو پڑھناہے۔اسی طرح طواف مکمل ہوجانے کے بعد پڑھنا ہے۔
۳۔ سعی کے لیے وضولاز م سمجھنا ، درست یہ ہے کہ بغیر وضو کے بھی سعی جائز ہے۔
۴۔ طواف کے فوراًبعد سعی کو لازم جاننا ،جبکہ طواف اور سعی کے بیچ آرام کے لیے کچھ وقفہ کیاجاسکتاہے ، یہاں تک کہ سعی کے بیچ میں بھی آرام کرسکتے ہیں۔
۵۔ اجتماعی دعا کرنا یا بلند آواز سے دعاکرنا جو دوسروں کے لیے تشویش کا باعث ہوتا ہے۔
۶۔ صفا ومروہ کے درمیان تیزی سے چلنا ،جبکہ صحیح یہ ہے کہ عام رفتار سے ذرا تیزصرف وہیںچلنا ہے جہاں تک گرین لائٹ لگی ہوئی ہے۔ اس حکم سے عورتیں مستثنیٰ ہیں۔
۷۔ صفا سے صفا تک ایک سعی شمار کرنا ، درست یہ ہے کہ صفا سے مروہ ایک سعی ہوتی ہے اور مروہ سے صفا دوسری سعی شمار کی جاتی ہے۔
۸۔ سعی کرتے وقت کسی سعی کے لیے کوئی دعا خاص کرلینا۔جبکہ سعی کے ساتوںچکروںمیںکسی بھی چکر کے لیے کوئی دعا خاص نہیںہے۔بلکہ سعی کے تمام چکروں میں مختلف دعاؤں اور ذکر واذکا رکا اہتمام کرنا چاہیے ۔
۹۔ سعی میں اضطباع کرنا ۔(یعنی دا ہنی طرف کا کندھا کھول کررکھنا ) درست نہیں ہے۔
۱۰۔ صفا یا مروہ پہاڑی کی بلندی پر چڑھنے کی کوشش کرنا جو خود کو مشقت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ہاں کچھ بلندی تک جاسکتے ہیں۔پر یہ بھی ضروری نہیںہے۔
حلق یا تقصیر میں سرزد ہونے والی غلطیاں:
۱۔ سر کے بیچ یا اطراف سے صرف چند بال کے کاٹنے پر اکتفا کرنا۔صحیح یہ ہے کہ پورے سرکے بال کاٹنا یا منڈانا ہے۔ اگر انسان منڈالیتا ہے تو یہ افضل ہے ۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺنے کٹانے والوں کے لیے ایک مرتبہ دعائے مغفرت کی ہے اور منڈا نے والوں کے لیے تین مرتبہ مغفرت کی دعا کی ہے۔
جہاں تک عورت کا مسئلہ ہے تووہ اپنے بال سے انگلی کے پور کے بقدر کا ٹے گی۔
عرفہ کے دن ہونے والی غلطیاں:
۱۔ حدود عرفہ کے باہر ہی ٹھہرجانا ،جبکہ عرفہ میں ٹھہرنا حج کا رکن اعظم ہے ۔اگر کوئی حدود عرفہ کے باہر ہی ٹھہر تا ہے تو اس کا حج نہیںماناجائے گا۔
۲۔ عرفہ میں جبل رحمہ نامی پہاڑ ی کی طرف رخ کرکے دعا کرنا ،صحیح طریقہ یہ ہے کہ قبلہ کی طرف رخ کر کے دعا کرنا ہے۔
۳۔ جبل رحمہ پر چڑھنے کو ضروری سمجھنا اور اس پر نماز ادا کرنا ،جبکہ یہ دونوں اعمال سنت سے ثابت نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ان سے دوررہنا ضروری ہے۔
۴۔ میدان عرفات پہنچ کرغیر مناسب چیزوں میں مشغول ہوجانا بھی خلاف سنت ہے۔جیسے بہت سارے لوگ کھانے، پینے، سونے اور گفتگومیں لگ جا تے ہیں ۔
۵۔ میدان عرفا ت سے سورج ڈوبنے سے پہلے نکل جانا بھی سنت کے خلاف ہے،لہٰذا اگر کوئی عرفہ کے حدود سے سورج غروب ہونے سے پہلے نکل جاتا ہے اور واپس نہیں آتا ہے تو وہ واجبات حج میں سے ایک واجب کو ترک کررہا ہے جس کے سبب اس پر فدیہ واجب ہوگا۔
۶۔ عرفہ سے مزدلفہ کی طرف لوگوں کو دھکا دیتے ہوئے تیزی کے ساتھ نکلنا ،جس میں سکون واطمینان نہ ہو اور آپسی ٹکراؤ بھی ہو ۔یہ سب ایک مومن کی شان کے خلاف ہے۔
۷۔ مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کرنا یہاں تک کہ وقت ختم ہونے والاہو۔صحیح یہ ہے کہ مغرب اور عشاء کی نماز جمع کرکے مزدلفہ پہنچتے ہی ادا کرلینا چاہیے ۔
مزدلفہ (عرفہ سے واپسی کے بعد جہاں را ت گزارتے ہیں)میں ہونے والی غلطیاں :
۱۔ مزدلفہ پہنچنے کے بعد نماز کی ادائیگی سے پہلے کنکری اکٹھا کرنا درست نہیں ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ پہلے نماز اداکریں پھر کنکری اکٹھا کریں۔ ہاں اگرکسی نے نماز راستہ میں ہی ادا کرلی ہے تو پھر وہ مزدلفہ پہنچتے ہی کنکری اکٹھا کرسکتا ہے۔اسی طرح منیٰ اور مزدلفہ سے بھی کنکری لے سکتے ہیں۔جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ کے لیے منیٰـ سے کنکری لی تھی۔
۲۔ کچھ لوگ مزدلفہ میں رات گزارنے کو واجب نہیںسمجھتے ہیں ۔جبکہ مزدلفہ میں رات گزارنا واجب ہے ، اگر کوئی جان بوجھ کر ترک کرتا ہے تو اس پر فدیہ واجب ہوگا اور اسے ایک جانورذبح کرکے مکہ کے فقراء میں تقسیم کرنا ہوگا۔
۳۔ مزدلفہ کی پوری رات عبادتوں میں گزاردینا ،یہ سنت کے مخالف عمل ہے ،سنت یہ ہے کہ وہاں پہنچ کر آرام کریں تاکہ اگلے دن (یوم النحر ) میں انجام دی جانے والی عبادتوں کو صحیح طریقہ سے انجام دے سکیں ۔
۴۔ مزدلفہ کی رات میں یہ تصورکرنا کہ کنکری صرف یہیںسے جمع کرسکتے ہیں اور کہیں سے نہیں جمع کرسکتے ہیں ۔ صحیح یہ کہ کہیں سے بھی کنکری جمع کرسکتے ہیں۔
۵۔ مزدلفہ سے نکلنے کے بعد منیٰ پہنچنے تک تلبیہ ترک کردینا۔صحیح بات اس میں یہ ہے کہ تلبیہ جمرۂ عقبہ سے پہلے مستقل جاری رکھنا چاہئے۔
رمی الجمرات میں ہونے والی غلطیاں:
۱۔ بعض حجاج کا یہ تصورکرناکہ ۱۱۔۱۲۔۱۳کو رمی زوال کے بعد اول وقت پر ہی کرنا ضروری ہے اس کے بعد نہیں کرسکتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے اوراسی غلطی کے سبب بیک وقت شدید بھیڑ ہوجاتی ہے۔بسااوقات آپسی تصادم کا بھی سبب بنتا ہے۔صحیح یہ ہے کہ اس میں زوال کے بعد بھی مار سکتے ہیں۔
۲۔ کنکری پوری طاقت کے ساتھ مارنا ،بعض لوگ تو کنکری مارتے وقت گالی اور غلط الفاظ بھی اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں ۔ اور بعض لوگ تو بڑا سا پتھر ،جوتا ،بوتل اور لکڑی وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں سنت کے خلاف ہیں ۔ اللہ کے رسولﷺکنکری چنے کی سائزکا لیا کرتے تھے۔
۳۔ ہر با رکنکری مارتے وقت بسم اللہ کہنا جو کہ سنت سے ثابت نہیں ہے ،سنت یہ کہ انسان تکبیر کہے ۔
۴۔ ایک ہی بار میں ساتوں کنکری پھینک دینا صحیح نہیںہے، اگرکوئی ایسا کرتا ہے تواسے ایک ہی شمار کریںگے ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک کنکری مارنا ہے۔
۵۔ وقت سے پہلے کنکری مارنا ،اگرکسی نے ایسا کیا تو اسے وقت ہوجانے پر اعادہ کرنا ہوگا۔
۶۔ یوم النحر کو کبھی بھی کنکری مار سکتے ہیں ، جبکہ منیٰ میں ٹھہرنے کے ایام میں زوال شمس کے بعد ہی کنکری ماریں گے ۔
۷۔ جمرۂ صغریٰ اور وسطیٰ کو کنکری مارنے کے بعد دعا نہ کرنا ، جبکہ سنت یہ ہے کہ کنکری مارنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺقبلہ کی طرف رخ کرکے دعا بھی کیا کرتے تھے ۔
۸۔ کنکری مارنے سے پہلے کنکری کو دھونابھی سنت سے ثابت نہیںہے ۔
۹۔ بغیر کسی مجبوری کے کنکری مارنے کے لیے کسی کو وکیل بنانا بھی درست نہیںہے۔
ہدی سے متعلق بعض غلطیاں :
۱۔ ایسا جانور ہدی کے لیے دینا جس میںوہ عیوب ہوںجن سے منع کیا گیا ہویا مطلوبہ عمر کا وہ ہدی نہ ہو۔
۲۔ وقت سے پہلے جانورذبح کردینا ۔
بعض متفرق غلطیاں:
۱۔ عبادت سمجھ کران مقامات کی زیارت کرنا جو سنت سے ثابت نہیں ہیں ۔جیسے غار حرا ،جبل ثوروغیرہ۔
۲۔ طواف وداع کے بعد لمبے فترہ تک مکہ میں ٹھہرنا ۔
۳۔ خواتین کا اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنا ۔
۴۔ بعض حجاج کا یہ سوچنا کہ چھتری یا گاڑی کے چھت کے ذریعہ سر پر سایہ نہیںکرسکتے ہیں۔
٭٭٭