-
عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس میں مشروع اعمال رضوان اللہ عبد الروف سراجی(مدرس:مر کز الامام البخاری تلولی)
تحریر : سماحۃ الشیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جبرین رحمہ اللہ
ترجمانی : رضوان اللہ عبد الروف سراجی ؔاس سے پہلے کہ ان دس دنوں میں انجام دیئے جانے والے اعمال کا تذکرہ کیا جائے آئیے ہم یہ دیکھ لیں کہ ان ایام کی کیا فضیلت ہے ؟اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ان ایام کی فضیلت کے حوالے سے بے شمار دلائل پائیں گے جن میں سے چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل تحریر میں کیا جار ہا ہے ۔
ان دس دنوں کا عمل اللہ تعالیٰ کو کا فی محبوب ہے ،جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ما العمل فى ايّام افضل فى هذه العشرة، قالوا:ولاالجهاد، قال:ولا الجهاد إلّا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع بشيء‘‘۔
’’ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں، لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)‘‘۔
[صحیح بخاری: ۹۶۹]
اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کی بڑی عظمت ہے ،جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’مامن ايّام اعظم عند اللّٰه سبحانه ولا احب إليه العمل فيهن من هذه الايام العشر، فاكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد‘‘۔
’’ ان دس دنوں سے بڑھ کر اور کوئی دن نہیں جو اللہ کے ہاں زیادہ عظمت والے ہوں اور جن میں عمل اس کے ہاں زیادہ محبوب ہوں لہٰذا ان دنوں میں لا الہ الا اللہ اللہ اکبراور الحمدللہ کثرت سے پڑھا کرو ‘‘۔
[مسند احمد:۵۴۴۶]
انجام دیئے جانے والے اعمال:
۱۔حج : حج و عمرہ کی ادائیگی کرنا، ان ایام میں یہی سب سے افضل عمل ہے کیوں کہ اس کی افضلیت پر بے شمار احادیث وارد ہیں، بطور ثبوت ایک روایت ملاحظہ ہو ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ، قَال:’’الْعُمْرَةُ إِلَي الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاء ٌ إِلَّا الْجَنَّةُ ‘‘۔
’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے‘‘۔
[صحیح بخاری:۱۷۷۳،صحیح مسلم :۱۳۴۹]
۲۔ روزہ رکھنا: تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پورے عشرے کاروزہ رکھیں اگر پورا نہ رکھ سکیں تو جتنا ہو سکے اتنے دنوں کا روزہ رکھیںاور اگر کچھ بھی نہ ہو سکے تو یوم عرفہ کا روزہ ضرور رکھیں کیوں کہ روزہ ان اعمال صالحہ میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے منتخب کیا ہے ،جیسا کہ حدیث قدسی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلﷺ نے فرمایاکہ:
يَقُولُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلّ:’’الصَّوْمُ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ، وَاَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ اَجْلِي، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ، وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَي رَبَّهُ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ‘‘۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ : ’’ روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ بندہ اپنی شہوت، کھانا پینا میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے اور روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی اس وقت جب وہ اپنے رب سے ملتا ہے اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک عنبر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے‘‘۔
[صحیح بخاری:۷۴۹۲،صحیح مسلم : ۱۱۵۱]
روزے کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ روزہ روزے دار کو جہنم سے ستر سال کی مسافت کی دوری پرکردیتا ہے ،جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا:
’’مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بَعَّدَ اللّٰهُ، وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا ‘‘۔
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال کی مسافت کی دوری تک دور کر دے گا‘‘۔
[صحیح بخاری:۲۸۴۰،صحیح مسلم :۱۱۵۳]
روزے کاایک تیسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ،لیکن یہ عرفہ کے روزے کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
’’ صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، اَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ اَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ ‘‘۔
’’اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے‘‘۔
[صحیح مسلم :۱۱۶۲]
۳۔ تکبیر و ذکر و اذکار: ان ایام میں تکبیر کی ادائیگی اوراللہ تعالیٰ کا ذکرو اذکار کرنابھی نیک عمل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْ اَيَّامٍ مَّعْلُوْ مَا تٍ}
’’اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں‘‘ ۔
[الحج:۲۸]
مذکورہ آیت کریمہ میں’’ اَيَّامٍ مَّعْلُو مَا تٍ‘‘ کی تفسیر’’الایام العشر‘‘ یعنی دس دنوں سے کی گئی ہے اسی لیے علماء نے ان دنوں میں کثرت سے ذکر و اذکار کرنے کو مستحب گردانا ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
’’ما من ايامٍ اعظم عند اللّٰه ولا احَبُّ إليه العمل فيهنَّ منْ هذه الايام العَشْر، فاكثروا فيهنَّ من التهليل والتكبير والتحميد‘‘۔
’’ان دس دنوں سے بڑھ کر اور کوئی دن نہیں جو اللہ کے ہاں زیادہ عظمت والے ہوں اور جن میں عمل اس کے ہاں زیادہ محبوب ہوں لہٰذا ان دنوں میں لا الہ الا اللہ اللہ اکبراور الحمدللہ کثرت سے پڑھا کرو‘‘ ۔
[مسند احمد:۶۱۵۴]
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَاَبُو هُرَيْرَة يَخْرُجَانِ إِلَي السُّوقِ فِي اَيَّامِ العَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَاوَكَبَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ خَلْفَ النَّافِلَةِ‘‘۔
’’عبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہماان دس دنوں میں تکبیر کہتے ہوئے بازارکی طرف نکل جاتے تھے اور ان دونوں کی تکبیر سن کر دوسرے لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور محمد بن باقر نفل نماز وں کے بعد بھی تکبیر کہتے‘‘۔
[صحیح بخاری: ۹۶۹سے پہلے]
اور فرمایا:
’’وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ يُكَبِّرُ فِي قُبَّتِهِ بِمِنًي فَيَسْمَعُهُ اَهْلُ المَسْجِدِ، فَيُكَبِّرُونَ وَيُكَبِّرُ اَهْلُ الاَسْوَاقِ حَتّٰي تَرْتَجَّ مِنًي تَكْبِيرًا‘‘۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمے میں تکبیر کہتے تو مسجد والے اسے سنتے اور وہ لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار والے بھی تکبیر کہنے لگتے حتیٰ کہ منی تکبیروں سے گونج اٹھتا‘‘۔
[صحیح بخاری :۹۶۹کے بعد]
اور فرمایا:
’’وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنًي تِلْكَ الاَيَّامَ، وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ وَعَلٰي فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ وَمَجْلِسِهِ، وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الاَيَّامَ جَمِيعًا‘‘۔
’’حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میںان دنوں میں نماز وںکے بعد اپنے بستر پر اپنے خیمے میں اپنی مجلس میںراتوں میںاور دن کے تمام حصوں میں تکبیر کہتے ‘‘۔
[صحیح بخاری:۹۶۹کے بعد]
اور فرمایا:
’’وَكَانَتْ مَيْمُونَةُ: تُكَبِّرُ يَوْمَ النَّحْرِوَكَانَ النِّسَائُ يُكَبِّرْنَ خَلْفَ اَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ لَيَالِيَ التَّشْرِيقِ مَعَ الرِّجَالِ فِي المَسْجِدِ‘‘۔
’’ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا قربانی کے دن تکبیر کہتی تھیں اور دیگر عورتیں ابان بن عثمان اورعمر بن عبد العزیزکے پیچھے ایام تشریق کی رات آدمیوں کے ساتھ مسجد میںتکبیر کہتیں‘‘۔
[صحیح بخاری:۹۶۹،کے بعد]
اسحاق نے فقہاء تابعین رحمہم اللہ سے روایت کیا ہے کہ :’’وہ لوگ عشرئہ ذی الحجہ میں کہتے تھے :اللّٰه اكبر، اللّٰه اكبر، لا إله إلا اللّٰه، واللّٰه اكبر، واللّٰه اكبر، وللّٰه الحمد‘‘۔
بازار وں میں، گھروںمیں،راستے میں، مسجدوں میں یا ان کے علاوہ کہیں بھی تکبیروں کا بلند آواز سے ادا کرنا مستحب اور بہتر ہے کیوںکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :{ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ }
’’اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو‘‘ ۔ [البقرۃ :۱۸۵]
اجتماعی تکبیر ناجائز ہے یعنی سب کاجمع ہو کر ایک آواز میں تکبیر کہنا جائز نہیں ہے ،کیوں کہ سلف سے اس طرح منقول نہیں ہے بلکہ سنت یہ ہے کہ ہر ایک فردالگ الگ تکبیر کہے اور یہ طریقہ تمام اذکار و تمام دعاؤں میں ہے ہا ں وہ شخص جو نہیں جانتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علاوہ جاننے والے سے ملے اور اس سے سیکھے اسی طرح ذکر و اذکار کا حسب استطاعت ادا کرنا جائز ہے چاہے تکبیر ہو،تہلیل ہو ،تحمید ہو، تسبیح ہو یا کو ئی اور دعا ہو۔
۴۔توبہ : معاصی اور تمام گناہوں سے اس طرح رجوع کرلینا کہ وہ اعمال ِصالحہ یعنی مغفرت اور رحمت اس پرحاوی ہو جائے اور وہ نیکی میں بدل جائے کیوں کہ معاصی بُعد اور دوری کا سبب ہے اور طاعات قربت اور محبت کا سبب ہے ، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’إن اللّٰه يغار وغيرة اللّٰه ان ياتي المومن ما حرم اللّٰه ‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو غیرت اس وقت آتی ہے جب بندۂ مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ‘‘۔
[صحیح بخاری:۵۲۲۳،صحیح مسلم :۲۷۶۱]
۵۔ نیک اعمال : کثرت سے نفل عبادتوں کا اہتمام کرنا یعنی نماز، صدقہ، جہاد ،تلاوت قرآن اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ جیسے اعمال انجام دینا ،یہ وہ اعمال ہیں جن کا ثواب ان دس دنوں میں دو گنا ہو جاتاہے ،ان ایام میں عمل کرنا گر چہ وہ عمل مفضول ہوپردیگر مہینوں کے مقابلے ان ایام میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور افضل عمل ہوا کرتا ہے اور اگر وہ فاضل عمل ہے حتیٰ کہ جہاد جو کہ سب سے افضل اعمال میںاس وقت شمار کیا جائے گا جب مجاہد کی رگ کٹ جائے اور اس کا خون بہہ جائے۔
۶۔تکبیر کہنا : ان ایام میں ایک مشروع عمل تکبیر کا کہنا بھی ہے۔
۷۔قربانی کرنا: قربانی کے دن اور ایام تشریق میں قربانی کرنا مشروع ہے اور یہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ذبح عظیم کے بدلے ان کے لڑکے کو بچا یا تھا اور یہ بھی ثابت ہے کہ نبی ﷺنے قربانی کی ہے، جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
’’ضَحَّي النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ اَمْلَحَيْنِ، فَرَاَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰي صِفَاحِهِمَا، يُسَمِّي وَيُكَبِّرُ، فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ ‘‘۔
’’نبی کریمﷺ نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی میں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ اپنے پاؤں جانور کے اوپر رکھے ہوئے ہیں اور بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ رہے ہیں اس طرح آپ نے دونوں مینڈھوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا‘‘۔
[صحیح بخاری:۵۵۵۸،صحیح مسلم :۱۹۶۶]
۸۔ناخن اور بال کاٹنا: ایک اور عمل بال اور نا خن کے کاٹنے سے رک جانا ہے ،کیوں کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’إِذَا رَاَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَاَرَادَ اَحَدُكُمْ اَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَاَظْفَارِهِ ‘‘۔
’’جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کو ئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور اپنے نا خن روک لے ‘‘۔
[صحیح مسلم :۱۹۷۷]
اور ایک دوسری روایت میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا اُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَا يَاْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ اَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّي يُضَحِّيَ ‘‘۔
’’جس کے پاس ذبح کرنے کے لیے جانور ہو اور ذی الحجہ کا چاند نظر آ جائے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، جب تک قربانی نہ کر لے ‘‘۔
[صحیح مسلم:۱۹۷۷]
یہ بات کیوں کہی گئی؟ان لوگوں سے تشبہ کی بنا پر کہی گئی ہے ،جو ہدی ہانکتے ہیں انہیں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ:
{وَلَا تَحْلِقُوا رُء ُوسَكُمْ حَتَّي يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ}
’’اور سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے‘‘۔
[البقرۃ:۱۹۶]
بظاہر اس حدیث میں صرف صاحب قربانی کو خاص کیا گیا ہے، بیوی اولاد وغیرہ کی شمولیت اس میں نہیں ہے، چونکہ جب وہ قربانی ان میں سے صرف ایک ہی کے طرف سے ہو گی تو اسی کا خاص کرنا مناسب بھی ہے، یہیں یہ بھی جان لیجئے کہ یہاں بال کی تحلیق سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر آپ نہا ئیں یا سر دھلیں یا کسی وجہ سے سر کو رگڑیں اور سر کا کوئی بال گر جائے تو کو ئی حرج نہیں ۔
۹۔عید کی نماز ادا کرنا : تمام مسلمان وقت پرعید کی نماز ادا کریںنیزخطبے سے استفادہ کریں تاکہ اس بات سے آگاہی حاصل ہو کہ اس عید کی مشروعیت کیوں ہے؟ انہیں یہ پتہ چلے کہ وہ شکر گزاری اور نیک عمل کا دن ہے، لہٰذا اسے برائیوں میں تبدیل نہ کیا جائے، اسے معصیت کا دن نہ بنایا جا ئے، حرام کام کا ارتکاب نہ کیا جائے جیسے گانا سننا ،نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنا وغیرہ کیوں کہ یہ سب اعمال بدہیں جو نیک اعمال کی بربادی کا ذریعہ ہیں، اگر آپ نے عشرئہ ذی الحجہ میں خوب نیکی کیا لیکن دسویں دن یعنی دس ذی الحجہ کو معاصیات کا ارتکاب کر لیا تو عشرئہ ذی الحجہ میں انجام دیئے گئے تمام اعمال صالحہ بر باد ہو جائیں گے ۔
ہر مسلمان مرد اور عورت کو چاہئے کہ اب تک جو باتیں گزری ہیں ان تمام باتوں سے فائدہ اٹھائے یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کا ذکر و اذکار کریں، اس کی دی ہو ئی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں، واجبات کی ادائیگی کریں اور منہیات سے بچیں ،ان موسموں کا فائدہ اٹھائیںاور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی بخشش کے حصول میں سر گرداں رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی آپ کو حاصل ہو ۔
واللّٰه الموفق والهادي الي سواء السبيل وصلي اللّٰه وسلم علٰي محمد وعلٰي آله وصحبه وسلم۔
٭٭٭