Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دعوتی خطاب کی خصوصیات

    دعوتی خطاب سے مراد ہر وہ تقریر وخطاب ہے جو دین وشریعت کے حوالے سے پیش کیا جائے، اس میں جمعہ کے خطبے، مساجد کے دروس، اجلاسوں اور کانفرنسوں میں کی جانے والی تقریریں اور اس نوعیت کے دیگر خطابات مثلاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ سے کیے جانے والی تقاریر وخطابات سب داخل ہیں۔ اس طرح کے مواقع ومقامات پر خطاب کرنے والا خطیب ومقرر دین کا نمائندہ اور شریعت کا پیغام رساں مانا جاتا ہے اس لیے اس کے خطاب کا مضمون، اسلوب اور زبان وبیان ہر ایک میں شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اہل علم نے اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور دعوتی خطاب کو زیادہ بہتر ،موثر اور مفید بنانے کے لیے متعدد اصول وقواعد ذکر کیے ہیں۔ سطور ذیل میں اسی سلسلے کے بعض نقاط بالاختصار ذکر کیے جارہے ہیں:
    ۱۔ تمہید اور اس کا حجم: کسی بھی موضوع پر خطاب کرتے وقت یا مضمون لکھتے وقت ابتدا میں موضوع کی مناسبت سے کچھ تمہیدی باتیں عرض کرنے کے بعد اصل موضوع پر گفتگو کی جاتی ہے۔ تمہید کا یہ حصہ خطاب یا مضمون کے اختصار یا طوالت کے تابع ہونا چاہیے۔ پانچ سات منٹ کے درس یا خطاب کے لیے ایک منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں تمہید سمیٹ لینا چاہیے۔ ہاں اگر گھنٹہ پون گھنٹہ کا خطاب ہو تو چار پانچ منٹ تمہید میں لگایا جاسکتا ہے تاکہ موضوعِ خطاب کا منظر وپس منظر حاضرین کے ذہن میں اتار دیا جائے اور اصل خطاب سننے کے لیے ان کا اشتیاق بڑھایا جائے۔
    بسا اوقات ایسا دیکھا اور سنا جاتا ہے کہ خطاب تو پانچ یا سات منٹ کا ہے، مگر اس کی تمہید ہی میں مقرر نے ۳-۴ ؍ منٹ صرف کردیا۔ اس کے بعد اصل گفتگو کے لیے محض دو تین منٹ رہ جاتے ہیں ۔ اسی کو کہتے ہیں : ع
    قصہ مختصرہے تمہید طولانی۔
    اس کے بعد بعض حضرات تو وقت کی پابندی کرتے ہوئے خطاب تشنہ ہی سہی بند کردیتے ہیں۔ جب کہ بعض وقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے موضوع کو مکمل کرکے ہٹتے ہیں۔
    تمہید ہی میں یا خطاب کے شروع میں کبھی کبھی متعلقہ موضوع یا الفاظ کی لغوی واصطلاحی تعریف بھی کی جاتی ہے۔ اس تعلق سے واضح رہے کہ جن الفاظ یا موضوعات میں ابہام ہو صرف ان ہی کی وضاحت ہونی چاہیے۔ ہر موضوع اور موضوع کے ہرہر لفظ کی ہمیشہ وضاحت کی ضرورت نہیںہوا کرتی۔ بعض حضرات اس سلسلے میں بڑا تکلف کرتے ہیں۔
    ۲۔ معلومات درست ہوں: داعی یا مقرر جو کچھ بھی بیان کرے اس کی اساس علم شرعی یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺپر ہونی چاہیے۔ اس کا خطاب شرعی دلائل اور آیات واحادیث کی روشنی میں ہو، وہ جو کچھ کہے ناپ تول کر کہے، کہنے سے پہلے اس کی معتبریت کو جانچ لے۔ کیوں کہ اس کو شریعت کا ترجمان مانا جاتا ہے، اس کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو شرعی فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔ قرآنی آیات کی صحیح تفسیر، احادیث کے ذخیرے سے مقبول ومعتبر احادیث کا انتخاب، متکلم فیہ اور موضوعات سے اجتناب، غیر مستند حکایات وواقعات سے پرہیز، ان تمام باتوں کو اسے ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ بعض کتابوں اور مضامین میں ناقابل استدلال حدیثیں اور غیر معتبر قسم کے واقعات اور قصے مندرج ہوتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی تحریروں پر اعتماد سے احتیاط برتنا چاہیے۔
    ۳۔ بات بالکل واضح ہو: گفتگو بہت ہی واضح اور عام فہم زبان میں ہونی چاہیے، کیوں کہ مقصد عوام کو سمجھانا اور اپنی بات سے انہیں آگاہ کرنا ہے اور اس مقصد کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب لوگ اس کی ہر بات کو سمجھ لیں اور کسی غموض یا الجھن کا شکار نہ ہوں۔ طول طویل جملے، مقفی مسجع عبارتیں اور عربی وفارسی الفاظ کا بکثرت استعمال ،یہ ساری چیزیں بہت سارے لوگوں کے سروں سے گزر جاتی ہیں اور وہ حیرت سے خطیب ومقرر کا منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ افسوس کہ بعض خطباء عربی وفارسی کے بہت سارے ایسے الفاظ اپنی تقریروں میں بے جھجھک استعمال کرتے ہیں جنہیں عامۃ الناس سمجھنے سے قطعاً قاصر ہوتے ہیں۔ علمی مجلسوں اور پڑھے لکھے لوگوں کے بیچ تو اس کی گنجائش ہے مگر عوام اس کے قطعاً متحمل نہیں ہوتے۔ ہمیشہ اپنے مخاطب کے فہم وادراک کو ملحوظ رکھنا چاہیے نہ کہ اپنی صلاحیت اور زبان دانی کو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ}
    ’’ ہم نے قرآن کو ذکر کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا‘‘۔
    [القمر:۱۷]
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی قوم سے ایسی بات بیان کرو گے جو ان کی عقل سے اونچی ہوگی تو ان میں سے بعض لوگوں کے لیے وہ بات فتنہ بن جائے گی۔
    ’’مَا أنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْماً حَدِيْثاً لَاتَبْلُغُهٗ عُقُوْلُهُمْ إلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةٌ‘‘۔
    [مقدمہ صحیح مسلم]
    اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ:
    ’’حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُوْنَ، أتُحِبُّوْنَ أنْ يُّكَذَّبَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ‘‘۔
    ’’لوگوں سے ان کی فہم ومعرفت کے مطابق ہی کلام کیا کرو، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کر دی جائے‘‘۔
    [صحیح بخاری:۱۲۷]
    گفتگو میں تیز رفتاری اور سرعت بھی کلام میں غموض اور اس کو سمجھنے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ اپنی بات رکھنی چاہیے۔ کیوں کہ کم وقت میں زیادہ بات کہہ لے جانے کی خواہش بسا اوقات ’’طلب الکل فوت الکل‘‘۔ جیسے نتیجے پر پہنچا دیتی ہے۔ اس لیے افہام وتفہیم پر توجہ ہونی چاہیے نہ کہ کلام کی قلت وکثرت پر۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
    ’’مَا كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ يَسْرُدُ الْحَدِيْثَ كَسَرْدِ كُمْ هٰذَا ،يُحَدِّثُ حَدِيْثاً لَوْعَدَّهُ الْعَادُّ لَاَحْصَاهُ‘‘۔
    ’’رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح سے جلدی جلدی بات نہیںبولتے تھے، آپ تو اس وضاحت سے بات فرماتے کہ اگر گننے والا چاہے تو اسے گن لے‘‘۔
    [متفق علیہ]
    ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
    ’’كَانَ كَلَامُ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ فَصْلاً يَفْهَمُهٗ كُلُّ مَنْ سَمِعَهٗ‘‘۔
    ’’یعنی اللہ کے رسولﷺ کی باتیں بڑی واضح اورمفصل ہوتی تھیں ہر سننے والا انہیں بآسانی سمجھ لیتا تھا‘‘۔
    [ابوداؤد:۴۸۳۹ صحیح الجامع]
    یہی نہیں بلکہ بوقت ضرورت آپ بعض باتوں کو تین تین مرتبہ کہنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے تھے کیوں کہ موقع محل اسی کا متقاضی ہوا کرتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:
    ’’كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أعَادَهَا ثَلَاثاً حَتّٰي تُفْهَمَ عَنْهُ۔۔۔۔۔‘‘۔
    ’’یعنی اللہ کے رسول ﷺ جب کوئی اہم بات کہتے تو اسے تین بار دہرا دیا کرتے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح سمجھ میں آجائے‘‘۔
    [متفق علیہ]
    ۴۔ موضوع کے انتخاب میں حاضرین کی رعایت ہو: داعی اپنے خطاب میںاس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کے سامعین مختلف عمر، مختلف جنس اور مختلف طبیعت اور صلاحیت کے مالک ہیں۔ ان میں چھوٹے بھی ہیں بڑے بھی ہیں، مرد بھی ہیں عورتیں بھی ہیں، بچے بھی ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں، ان پڑھ بھی ہیں، علما ء بھی ہیں عوام بھی ہیں،دینی علم والے بھی ہیں عصری علم والے بھی الخ۔ اس لیے موضوعات کے اعتبار سے بھی اور لب ولہجہ کے اعتبار سے بھی ان تمام کی حتی الامکان رعایت ضروری ہے۔ مردوں اور عام لوگوں سے متعلق مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں، بچوں اور نوجوانوں سے متعلق مسائل وموضوعات کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بنانا چاہیے۔ اور حاضرین کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے ان کے حسب حال کلام کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ عیدین کے موقع پر جب کہ مجمع بڑا ہوتا تھا اور عورتوں تک آواز پہنچنے کا امکان کم ہوتا تو آپ حضرت بلال کو ساتھ لے کر عورتوں کے قریب جاکر انہیں الگ سے خطاب کرتے تھے۔
    ۵۔ موضوع کے انتخاب میں جگہ اور وقت کی رعایت ہو: موقع محل اور مقام ومناسبت کو اپنے خطاب اور موضوع میں ملحوظ رکھنا بھی ہر خطیب ومقرر کے لیے ضروری ہے۔ کس محلے ، علاقے یا شہر میں وہ خطاب کر رہا ہے وہاں کی ضروریات اور مسائل کیا ہیں۔ وہاں کے لوگوں میں کس چیز کی ضرورت، کس چیز کی کمی اور کس موضوع کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ان سب چیزوں کو خطاب میں مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایسے ہی کن ایام اور مناسبات میں وہ کلام کرر ہا ہے ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اوائل محرم میں تعزیہ داری اور عاشوراء وغیرہ کے مسائل، ربیع الاول میں میلاد اور محبت رسول وغیرہ کا معاملہ، کسی ناگہانی آفت مثلاً زلزلہ، سیلاب، قحط سالی وغیرہ کے موقع پر شریعت کا موقف اور اس کی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
    اسی طرح بہت سارے سماجی اور عوامی مسائل ہوتے ہیں جن کو خطبوں اور تقریروں کا موضوع بنانا ضروری ہوتا ہے، مگر بہت سارے مقررین انہیں نظر انداز کرکے اپنے مخصوص موضوعات ہی پر ہمیشہ بولتے رہتے ہیں۔ گویا موضوع کی تعیین میں وہ اپنی رعایت کرتے ہیں نہ کہ مخاطبین اور ان کے مسائل ومعاملات کی۔ یہ روش کسی بھی طرح درست اور مناسب نہیں۔
    ۶۔ طوالت اور اختصار سے اجتناب ہو: خطاب میں اس قدر طوالت جس سے سننے والے اکتا جائیں اور ان کی دلچسپی ختم ہوجائے یا اتنا اختصار کہ بات ہی سمجھ میں نہ آئے دونوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ طویل خطابات میں کئی خرابیاں ہوتی ہیں، مقرر عموماً موضوع سے ہٹ کر ادھر ادھر جاتا رہتا ہے جس سے سننے والے بالخصوص نا خواندہ یا کم پڑھے لکھے لوگ بات پر ترکیز نہیں کرپاتے، طویل تقریروں میں بسا اوقات اتنے موضوعات ومسائل زیر بحث آتے ہیں کہ انہیں ہضم کرنا دشوار ہوتا ہے۔ رات کے اجلاس میں جب کہ سامعین پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے جسم تھکا ماندہ ہوتا ہے زیادہ دیر تک نشاط باقی نہیں رہتی اس کے باوجود اگر طول طویل تقریروں کا سلسلہ جاری رہے تو اس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں رہ جاتا۔ میانہ روی ہی اچھی ہے۔ اختصار وتطویل دونوں افراط وتفریط کی علامتیں ہیں، یعنی اختصار مُخِلّ اور تطویل مُمِلّ۔ داعیٔ اعظم نبی اکرم ﷺ کے خطبات وتقاریر اختصار وجامعیت کے نمونے اور افراط وتفریط سے محفوظ درمیانہ انداز کے ہوتے تھے۔
    صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا۔ آپ کی نماز میں بھی اعتدال ومیانہ روی ہوتی اور آپ کا خطبہ بھی معتدل ہوتا۔
    ’’كَانَتْ صَلَاتُهٗ قَصْداً وَخُطْبَتُهٗ قَصْداً‘‘۔
    صحیح مسلم ہی کے اندر نبی اکرم ﷺ کی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ:
    ’’إنَّ طُوْلَ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهٖ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهٖ، فَاَطِيْلُوْا الصَّلَاةَ، وَاَقْصِرُوْا الْخُطْبَةَ، وَإنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْراً‘‘۔
    ’’لمبی نماز اور مختصر خطبہ آدمی کی سمجھ داری کی دلیل اور علامت ہے، لہٰذا تم نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر، اور بعض بیان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے‘‘۔
    جمعہ کا خطبہ خاص طور سے بہت تطویل کی گنجائش نہیں رکھتا، ہر جگہ اس کا وقت متعین ہوا کرتا ہے۔ اس کے خطیب کو پابند ہونا چاہیے اور بجز استثنائی حالات کے اس سے تجاوز سے پرہیز کرنا چاہیے۔
    اسی ضمن میں اس امر کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وعظ ونصیحت کا عمل بھی وقفے وقفے ہی سے ہونا چاہیے۔ بلا ناغہ یا بہت کم وقفے سے وعظ وتقریر کی مجلسیں منعقد کرنے سے بھی اکتاہٹ اور بیزاری آتی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی مشغولیت کے اوقات یا کھانے پینے کے اوقات میں خطاب شروع کردینے سے بھی اچھا اثر نہیں پڑتا۔
    صحیحین میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے، ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ میری خواہش ہے کہ روزانہ ہمیں وعظ کہیں، آپ نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں بیزاری اور اکتاہٹ میں مبتلا کروں، اور میں وعظ ونصیحت کے تعلق سے ویسے ہی تمہاری رعایت کرتا ہوں جیسے اللہ کے رسول ﷺ ہماری رعایت کیا کرتے تھے، اس ڈر سے کہ ہم میں بے زاری نہ آجائے۔
    ۷۔ اشتعال انگیز اسلوب نہ ہو: داعی کو ہمیشہ اپنے خطاب میں مثبت انداز اختیار کرنا چاہیے۔ کتاب وسنت کے حوالے سے حق بات واضح الفاظ میں بیان کرے۔ کسی غلطی یا برائی یا کج روی کی قباحت بیان کرتے ہوئے طعن وتشنیع، تجریح وتفسیق اور اشتعال انگیزی سے اجتناب کرے۔ علمائے اسلام اور ائمہ عظام کا تذکرہ احترام اور ضروری القاب وآداب کے ساتھ کرے، مخالف نظریے اور اس کے حاملین کا تذکرہ کرتے وقت یا تردید کرتے وقت ادب ووقار اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑے، بات بات پر کفر، فسق، بدعت، گمراہی وغیرہ کا فتویٰ صادر کرتا نہ پھرے۔ معاصی اور بدعات وغیرہ پر گرفت کرتے وقت اپنے لب و لہجے میں تلخی اور زیادہ حدت نہ آنے دے، ہمیشہ اس مقصد کو سامنے رکھے کہ اصلاح کے لیے بات کہی جارہی ہے، لہٰذا متعلقہ فردیا افراد کو اصلاح پر آمادہ کرنے والا اسلوب اور لب و لہجہ استعمال کیا جائے نہ کہ بھڑکانے والا اور نفرت دلانے والا۔
    قرآن کریم میں اس سلسلے میں واضح اشارے موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بت پرست باپ کو ہدایت کی دعوت دیتے ہیں تو بار بار انہیں’’ یَا اَبَتِ۔۔ یَا اَبَتِ‘‘(ابا جان، اباجان) کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں درج ذیل آیتیں:
    {وَاذْكُرْ فِيْ الْكِتَابِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيْقاً نَّبِيّاًo إِذْ قَالَ لِأَبِيْهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنكَ شَيْْئاًo يَا أَبَتِ إِنِّيْ قَدْ جَائَ نِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْ أَهْدِكَ صِرَاطاً سَوِيّاًo يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْْطَانَ إِنَّ الشَّيْْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيّاًo يَا أَبَتِ إِنِّيْ أَخَافُ أَن يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْْطَانِ وَلِيّاًo قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِيْ يَا إِبْراهِيْمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِيْ مَلِيّاً}
    ’’اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔ جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کررہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں۔ میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں، میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔ میرے ابا! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں ،شیطان تو رحم وکرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ اباجی! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کررہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مارڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ‘‘۔
    [مریم:۴۱۔۴۶]
    غور کرنے کا مقام ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس شخص کو ’’ ابا جان۔۔۔ابا جان‘‘ کے محبت بھرے الفاظ سے خطاب کررہے ہیںجو صرف بت پرست اور منکر توحید ہی نہیں بلکہ بت گر بھی تھا۔
    اسی طرح متعدد انبیاء کے تذکرے میں قرآن میںصاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو ’’یا قومِ۔۔یا قومِ‘‘ کہہ کر اپنی بات پیش کرتے تھے۔ اس سے مدعو میں داعی کے تعلق سے انسیت کا احساس ہوتا ہے اور اس کے اندر اس کی بات کو سننے اور سمجھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔
    حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے کسی صحابی کو کسی (دعوتی) مہم پر بھیجتے تو فرماتے:
    ’’بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا، وَيَسِّرُوْا وَلَاتُعَسِّرُوْا‘‘۔
    ’’لوگو! بشارت والا انداز اختیار کرو نہ کہ نفرت پیدا کرو، اور آسانی کرو، دشواری نہ پیدا کرو‘‘۔
    [صحیح مسلم: ۱۷۳۲]
    ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ فرعون جیسے سرکش اور بگڑے ہوئے شخص کے پاس جب موسیٰ وہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے تو ساتھ ہی ہدایت دیتا ہے: ’’فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلاً لَيِّنًا‘‘ ’’اس سے نرم بات کرنا‘‘۔
    نرمی اور شفقت سے سخت دل انسان بھی متاثر ہوجاتا ہے، جب کہ سختی اور ترش روئی سے لوگ متنفر ہوجاتے ہیں، اور داعی اور اس کی دعوت کو کوئی سننے اور اس پر غور کرنے والا نہیں رہ جاتا۔
    اسی مقام پر قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جس میں بڑے واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ:
    {وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ فَيَسُبُّواْ اللّٰهَ عَدْواً بِغَيْْرِ عِلْمٍ}
    ’’جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر (غیروں کو) پکارتے اور عبادت کرتے ہیںانہیں برا بھلا مت کہو کیوں کہ پھر وہ حد سے گزر کر نادانی کے ساتھ اللہ کو بھی برا بھلا کہیں گے‘‘۔
    [الانعام:۱۰۸]
    اسی اصول کو حدیث نبوی میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، ایک شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دیتا ہے (اسی طرح) وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘
    (بخاری ومسلم)
    سب وشتم اور سخت باتیں کہنے سے مخاطب اشتعال میں آجاتا ہے اور بسا اوقات اس سے بھی سخت اور دل آزار الفاظ وعبارات کے ذریعہ جواب دیتا ہے، یہی نہیں اس سے فتنہ وفساد تک پھیل جاتا ہے، کبھی کبھی دعوت کا کام اس کی وجہ سے بالکل رک جاتا ہے، کدورتیں اور نفرتیں بڑھتی ہیں۔ اس کے برعکس مثبت انداز اور نرم لب ولہجہ کا اچھا اثر پڑتا ہے اور مخاطب اس پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کی نرمی اور رحم ومروت کی تعریف کی گئی ہے اور سختی اور شدت کو نفرت اور دوری پیدا کرنے والا عمل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
    {فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظّاً غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ}
    ’’ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کی وجہ سے آپ ان پر نرم دل ہیں، اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے‘‘۔
    [آل عمران:۱۵۹]
    اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:
    ’’اِنَّ الرِّفْقَ لَايَكُوْنُ فِيْ شَيْئٍ اِلَّا زَانَهٗ، وَلَايُنْزَعُ مِنْ شَيْئٍ اِلَّا شَانَهٗ‘‘۔
    ’’جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے زینت دار بنا دیتی ہے اور جس چیزسے یہ نرمی نکال لی جاتی ہے اسے عیب دار کردیتی ہے‘‘۔
    [صحیح مسلم:۲۵۹۴]
    ۸۔ آواز پر توجہ کی ضرورت: تقریر و خطابت میں آواز پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ مقرر یا خطیب کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی آواز لوگوں تک پہنچ رہی ہے اور بالکل واضح ہے۔ اس سلسلے میں ایک معیوب شکل تو یہ ہوتی ہے کہ بہت زیادہ تیز رفتاری سے بولا جائے، اس کی وجہ سے بہت سی باتیں اور جملے سامعین پر واضح نہیں ہوپاتے۔ اسی طرح بعض خطبا ومقررین کا انداز گفتگو ایسا ہوتا ہے کہ وہ اکثر الفاظ اور حروف اس انداز سے بول جاتے ہیں کہ پتہ نہیں چل پاتا کہ انہوں نے کیا کہا۔ اس طرح ان کی پوری تقریر کا اچھا خاصا حصہ سامعین کے پلّے نہیں پڑتا۔ یوں گفتگو کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا اس جانب توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔
    اسی طرح داعی کے خطاب کے وقت اس کی آواز نہ تو مسلسل پست رہے اور نہ مسلسل اونچی رہے، آواز میں نشیب وفراز اور زیروبم سے خطیب اور سامعین دونوں کے اندر نشاط اور تازگی آتی ہے۔ یہ نشیب وفراز اعتدال کے ساتھ ہی ہو، ایسا نہ کہ کبھی آواز اتنی پست کر لی جائے کہ کچھ لوگوں کو سنائی ہی نہ دے، اور کبھی اس قدر اونچی کردی جائے کہ چیخنے اور چلانے والا انداز ہوجائے۔ یہ دونوں صورتیں برابر مشاہدے میں آتی ہیں، اور اس کی شکایتیں بھی سننے میں آتی ہیں۔
    یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض مقررین اپنے پورے خطاب میں نہ صرف اپنی آواز اونچی رکھتے ہیں بلکہ چیخ وچلاہٹ اور گرج برس کا انداز اپنائے رہتے ہیں، دور سے سننے میں کسی جلسے کے بجائے کلامی معرکے یا حرب وضرب کا گمان ہوتا ہے۔ ایسے اسلوب وانداز پر دوام بہر حال ناپسندیدہ امر ہے۔ یہ عام اسلامی آداب کے بھی منافی ہے اور دعوت وتبلیغ اور حکمت وموعظت حسنہ کے بھی۔ ہاں گفتگو کے موضوع اور موقع محل کے لحاظ سے کبھی کبھی کچھ وقت تک یہ اسلوب اپنایا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔
    اس سلسلے میں وارد ایک حدیث کو صحیح مفہوم کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صحیح مسلم کے اندر حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’اللہ کے رسول ﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوتی، اور آپ کا غصہ دوچند ہوجاتا، ایسا لگتا کہ گویا آپ کسی فوج سے ڈرا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ فوج صبح سویرے یا شام کو حملہ آور ہونے والی ہے اور آپ فرماتے کہ میں ایسے وقت میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں، اور آپ اپنی بیچ والی اور شہادت والی انگلی ملا کر بتلاتے۔۔۔۔‘‘
    اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ہمیشہ کا یہی معمول تھا، لیکن دوسری احادیث اور قرائن کو سامنے رکھتے ہوئے علماء وشارحین نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ایسا کبھی کبھی اور موقع ومحل کے اعتبار سے ہوتا تھا نہ کہ ہمیشہ۔ صحیح مسلم کے سب سے معروف ومشہور شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
    ’’اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ خطیب کے لیے مستحب ہے کہ خطبہ کے عمل کی عظمت کو سمجھے، اپنی آواز بلند کرے، بھاری بھرکم الفاظ استعمال کرے، اور یہ کہ اس کا انداز اس موضوع کے مطابق ہو جس پر وہ کلام کررہا ہے جیسے ترغیب یا ترہیب۔‘‘ پھر آگے تحدید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وَلَعَلَّ اشْتِدَادَ غَضَبِهٖ ﷺ كَانَ عِنْدَ إنْذَارِهٖ أمْراً عَظِيْماً وَتَحْذِيْرِهٖ خَطْباً جَسِيْماً ‘‘۔ شاید آپ کا غصہ اس وقت زیاہ ہوجاتا تھا جب آپ کسی بڑے معاملے پر تنبیہ کرتے اور کسی خطرناک حالت سے ڈراتے۔‘‘ [شرح نووی]
    امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ایسا مختلف حالات میں آپ کی طرف سے ہوتا تھا، اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ مقرر کو چاہیے کہ اپنے خطاب میں اسی موضوع کے اعتبار سے انداز اختیار کرے جس پر وہ گفتگو کررہا ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی موضوع پر بول رہا ہے مگر اس کی ظاہری حالت اس موضوع کے برعکس نظر آرہی ہے۔‘‘ (المفہم، بحوالہ أنیس الخطباء ، ص:۲۰۸)
    چونکہ یہاں اللہ کے رسول ﷺ قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا تذکرہ کررہے تھے (جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ: ’’ بُعِثْتُ أنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ‘‘) لہٰذا اس موضوع ہی کے اعتبار سے آپ کا لب ولہجہ ایسا تھا، ایسا آپ کا ہمیشہ کا معمول نہیں تھا۔
    اس کی تائید اسی روایت کے سنن نسائی کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔نسائی کے الفاظ اس طرح ہیں:
    ’’وَكَانَ اِذَا ذَكَرَ السَّاعَةَ احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ وَعَلَا صَوْتُهٗ وَاشْتَدَّ غَضَبُهٗ كَاَنَّهٗ نَذِيْرُ جَيْشٍ۔۔۔“[نسائی:۱۵۷۸، صحیح]
    ۹ ۔ ہاتھوں کی حرکت: مقرر کے لیے بہتر ہے کہ خطاب کے وقت گاہے گاہے اپنے ہاتھ کا استعمال کرکے اپنی بات کی وضاحت کرے۔ کلام اور موضوع کی مناسبت سے کبھی کم کبھی کچھ زیادہ ہاتھ کو بلند کرے۔ اور اس دوران سبابہ انگلی (تشہد والی انگلی) سے اشارہ کرے۔ لیکن مسلسل یا بہت زیادہ ہاتھوں کو حرکت میں رکھنا، یا بہت اونچا اٹھانا، ادھر سے ادھر لے جانا یہ سب غیر مناسب عمل ہے اور اس سے خطاب کی متانت اور سنجیدگی جاتی رہتی ہے۔ ساتھ ہی سب سے اہم بات یہ کہ یہ خلاف ِسنت عمل ہے۔
    صحیح مسلم میں حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ انہوں نے بشر بن مروان کو دیکھا کہ منبر پر ہاتھ اٹھا اٹھا کر خطاب کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کا برا کرے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس سے زیادہ نہیں کرتے تھے۔ اور انہوں نے اپنی تشہد والی انگلی سے اشارہ کیا۔
    [صحیح مسلم:۸۷۴]
    علامہ ابن قیم زاد المعاد میں نبی ﷺ کے خطبہ کا انداز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’۔۔۔۔۔۔۔۔نبی ﷺ منبر پر چڑھتے تھے اور لوگوں کی طرف اپنا رخ کرتے، پھر اللہ کی حمد وثنا سے خطبہ شروع فرماتے اور اپنی سبابہ شریفہ سے اشارہ کرتے اور اما بعد کہتے۔۔۔۔۔‘‘
    [زاد المعاد:۱؍۱۸۶]
    اللہ کے رسول ﷺ اپنے خطاب میں ہاتھ کے اشارے سے بعض امور کی وضاحت بھی فرمایا کرتے تھے۔ جیسے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
    ’’بعثت أنا والساعة كهذه من هذه أو كهاتين‘‘ وقرن بين السبابة والوسطي‘‘۔
    ’’یعنی میری بعثت اور قیامت باہم اس طرح قریب ہیں، آپ نے تشہد والی انگلی اور درمیانی انگلی ملا کردکھایا‘‘۔
    [صحیح بخاری:۴۸۸۹]
    ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
    ’’أنا وكافل اليتيم فى الجنة هكذا‘‘ وأشار بالسبابة والوسطي، وفرج بينهما شيئا۔
    ’’یعنی میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے تشہد والی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان معمولی سا فاصلہ رکھا‘‘۔
    [صحیح بخاری:۴۸۹۲]
    ۱۰۔ تکلف اور تصنع سے اجتناب: داعی کے خطاب میں سادگی، تواضع اور بے تکلفی ہونی چاہیے۔ بناوٹ، تصنع، تکلف اور رعب جمانے والا اسلوب وانداز کسی طرح مناسب نہیں اور عام اسلامی اخلاق کے بھی منافی ہے۔
    صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ کے کلام کی خصوصیات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ: ’’ ۔۔۔وَكَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ فَصْلٍ لَا هَزْرَ وَلَا نَزْرَ۔ وَيَكْرَهُ الثَّرْثَرَةَ فِيْ الْكَلَامِ وَالتَّشَدُّقَ بِهٖ ‘‘ ’’یعنی آپ صاف اور واضح بات بولتے تھے جو نہ بہت زیادہ ہوتی نہ بہت کم، اور آپ تکلف سے بار بار گفتگو کرنے اور فصاحت وبلاغت چھانٹنے کے لیے باچھیں کھول کھول کر بات کرنے کو ناپسند فرماتے تھے‘‘۔
    حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
    ’’۔۔۔۔۔وَاِن اَبْغَضَكُمْ اِلَيَّ وَاَبْعَدَكُمْ مِنِّيْ مَجْلِساً يَوْمَ الْقِيَامَةِ: الثَّرْثَارُوْنَ وَالْمُتَشَدِّقُوْنَ وَالْمُتَفَيْهِقُوْنَ۔۔۔‘‘
    ’’یعنی تم میں مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو بہت باتونی، تصنع سے باتیں کرنے والے اور تکبر سے باچھیں کھول کھول کر گفتگو کرنے والے ہوں گے‘‘۔
    [سنن الترمذی:۲۰۱۸]
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ‘‘ آپ نے یہ جملہ تین بار دہرایا۔ یعنی مبالغے اور تکلف سے کام لینے والے ہلاک ہوگئے۔
    ’’مُتَنَطِّعُوْنَ‘‘سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بال کی کھال نکالتے، لایعنی بحثیں کرتے، ماورائے عقل باتوں میں دخل دیتے، مبالغہ کرتے اور گفتگو میں تصنع اور بناوٹ کا اظہار کرتے اور فصاحت وبلاغت چھانٹتے ہیں۔ [دلیل الطالبین: ۲؍ ۴۴۹]
    ۱۱۔اختتام: کسی بھی خطاب یا تحریر کو ختم کرنے سے قبل بہتر یہ ہے کہ پورے خطاب یا مضمون کا سرسری طور پر اعادہ ہوجائے، بالخصوص نسبتاً طویل خطاب میں، تاکہ سامعین وقارئین طویل خطاب یا تحریر کو سننے یا پڑھنے کے بعد پورے مضمون کو دوبارہ نقاط کی شکل میں اپنے ذہن میں محفوظ کرلیں اور ذہنی پراگندگی کا شکار نہ ہوں۔ کیوں کہ دیر تک کچھ سننے یا پڑھنے کے بعد لوگوں کو اس کا استیعاب ہوجائے اور پوری بات ایک سلیقہ اور ترتیب کے ساتھ ذہن میں محفوظ رہے ضروری نہیں۔ عام طور سے وہی باتیں ذہن میں باقی رہتی ہیں جنہیں آخر میں سنایاپڑھا جاتا ہے۔ تمہید ہی کی طرح اختتام کا حجم بھی موضوع یا مضمون کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہوگا۔ اس کے بعد دعا اور حمد وصلاۃ کے الفاظ ادا کیے جائیں گے۔
    ایک شکل یہ بھی ہے کہ خطبے یا تقریر کے اہم نقاط کے اعادہ کے بجائے خاتمہ میں پرزور انداز میں موضوع کی اہمیت وحساسیت کا احساس دلایا جائے اور اس تعلق سے ان کے جذبات واحساسات کو برانگیختہ کیا جائے۔ تقریر کے حسن اختتام کا ایک انداز یہ بھی ہے۔ اور اگر دونوں طریقوں کو خاتمہ میں جمع کردیا جائے تو بھی بہتر ہے۔
    یہ چند اہم نقاط ہیں جن پر ہر خطیب ومقرر کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی دعوتی جد وجہد ثمر آور ہو اور اس کے اثرات دور تک پھیلیں۔ واللّٰہ ولي التوفیق۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings