Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عفیف وپاکدامن بزرگوں کے چند قصص وواقعات

    عفت وپاکدامنی ،طہارت و نظافت ایک مومن ومتقی مسلمان کا جمال وکمال ہے ، یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ، چاروں طرف فتنوں کا سیلاب ہے ، نگر نگر ،ڈگر ڈگر ،قریہ قریہ، قدم قدم بے حیائی ،فحش کاری ،زنا وبدکاری کا اڈہ بنا ہوا ہے ، شیطانی ٹولا زنا وبدکاری کے محرکات ودواعی کو سجا سجا کر پیش کررہا ہے ، مغریات وجنسی ہیجان کا ایک اتھاہ سمندر ہے ۔ غرض یہ ہے کہ وہ زنا کاری میں پھنسانے کے لیے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا ہے اور ادھر عنفوان شباب اور نوجوانی کا مرحلہ ہے یہاں پھسلنے اور بہکنے کا امکان زیادہ ہے ، اس لیے کہ رگ وریشے میں نیا خون دوڑتا ہے ، نفس مچلتا ہے ، خواہشات ابھرتے ہیں ،جذبات بھڑکتے ہیں ، تمنائیں اور امنگیں سراٹھاتی ہیں ، نظریں دوشیزاؤں پر پڑتی ہیں تو سارے پردے چاک کرنے کا دل کرتا ہے اور جوان بے قابو ہوجاتا ہے ۔ مگر ایسے موقع پر ایک عفیف وپاکدامن مسلمان نور بصیرت سے دیکھتا ہے ،اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو سامنے رکھ کر قدم پیچھے کرلیتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
    وَعَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺ:’’سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إلَّا ظِلُّهٗ:إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَاَ فِيْ عِبَادَةِ اللّٰهِ تَعَالٰي، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللّٰهِ: اجْتَمَعَا عَلَيْهِ، وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَاَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ، وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّيْ اَخَافُ اللّٰهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فاَخْفَاهَا، حَتّٰي لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ‘‘۔
    ’’جس دن اللہ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا، سات طرح کے لوگوں کو اللہ اپنے سایہ میں جگہ دے گا (۱) عادل امام(۲)وہ نوجوان جس کی نشو نما اپنے رب کی عبادت میں ہو۔ (۳) وہ آدمی جس کا دل مسجدوں میں لگا رہا۔ (۴) وہ دو لوگ جو آپس میں اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے لیے جدا ہوتے ہیں۔ (۵) وہ شخص جسے کسی بلند مرتبہ اور خوبصورت عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہہ دیامیں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (۶) وہ آدمی جس نے صدقہ کیا، اسے اس طرح چھپایا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔(۷) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں تر ہو گئیں ‘‘۔
    [متفق علیہ]
    محترم قارئین! عفت وپاکدامنی کے بہت سارے دنیوی واخروی فوائد ہیں ،جیساکہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
    ’’عفت وپاکدامنی ، طہارت وپاکیزگی کی لذت گناہ کی لذت سے بہتر ہے اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جب نفس اپنی خواہش کے برعکس ہوتی ہے تو اس کے بعد فرحت ومسرت اور مکمل لذت محسوس ہوتی ہے ، بلکہ ہوائے نفس کی پیروی کے بعد بھی اتنی لذت نہیں ملتی ہے ،جتناکہ پاکیزگی وپاکدامنی میں لذت ونشاط اورخوشی محسوس ہوتی ہے ‘‘۔
    [روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین :۱۴۲]
    مرتکبِ فواحش کے لیے ربانی عقوبات وسزائیں ہیں ،جیسے اللہ کی غضبناکی اور اس کی رحمت سے دورکردیا جانا ، آخرت میں تمام مخلوقات کے سامنے رسوائی کے بعد مختلف طرح کا مرتکب کو سزا دیا جانا ، اور شرعی حد کا نافذ کیا جانا اور اس کے علاوہ بھی سماجی، نفسیاتی، جسمانی، واخلاقی نقصانات جس سے بچنے کا راستہ صرف پاکدامنی ہے۔
    [ العفۃ ومنہج الاستعفاف لیحیی بن سلیمان العقیلی:ص:۹۸۔ دارالدعوۃ :۱۴۔ الکویت ]
    مزید یحییٰ بن سلیمان عقیلی لکھتے ہیں :
    پاکدامن شخص دنیا میں رب تعالیٰ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤں کے سائے میں اور حوروں کو پانے کے شوق میں جیتا ہے ، جیسا کہ وہ ایک سماجی ومعاشرتی زندگی میں نیک نامی،اچھی شہرت اور امن وسکون ،خوشگوار شادی شدہ زندگی گزارتا ہے ، اوروہ ایسے مضبوط و مستحکم پاکیزہ سماج میں جیتا ہے جہاں وہ نفسیاتی طور پر مطمئن و خوش حال ہوتا ہے ، جہاں اسے رب کی طاعت وبندگی میں انسیت ومحبت ہوتی ہے،قربت الہٰی سے وہ خوش ہوتا ہے ، عبادت کی لذت اور ایمان کی حلاوت سے وہ شادکام ہوتا ہے ، ہر طرح کے خبیث وناپاک بیماریوں سے بچتا ہے ، اور وہ اپنے اچھے اخلاق وکردار ،حیاء وعفت ،تقویٰ وصالحیت، صبر وستر سے سماج و معاشرہ کے ماحول کو بہتر رکھتا ہے ‘‘۔
    [ العفۃ ومنہج الاستعفاف لیحیی بن سلیمان العقیلی:ص:۹۸]
    عفیف وپاکدامن مسلمان ہر طرح کے شر وفتن ،فواحش اور اس کے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے ، دلی سرور اور حقیقی خوشی پاکدامنی ہی میں ہے ، فرد ومجتمع افراد واشخاص سماج وسوسائٹی کی طہارت وپاکیزگی عفت و پاکدامنی اور زنا وبدکاری سے دوری ہی میں ہے ، عفت وپاکدامنی سے ایک مثالی شادی کا انعقاد ہوتا ہے ، عفت وپاکدامنی ہی سے خاندان اور رشتے دار معزز ومکرم ہوتے ہیں ،عفت وپاکدامنی صبروتحمل پر دلالت کرتی ہے ،عفت وپاکدامنی ہی دنیا وآخرت کی فوز وفلاح کا ذریعہ ہے ، اللہ کے فضل واحسان اور رحم وکرم کو حاصل کرنے کا ذریعہ پاکدامنی اور عفت وطہارت ہے ،مومن ہونے یا کسی کے دل میں ایمان کے راسخ ہونے کی عظیم نشانی عفت وپاکدامنی ہی ہے ۔
    تفصیل کے لیے دیکھئے :[الاسالیب التربویۃ لتنمیۃ خلق العفۃ لدی الشباب وتطبیقاتہا فی ضوء التربیۃ الإسلامیۃ :ص: ۵۲]
    چند طاہروعفیف بزرگانِ دین کے مثالی واقعات ۔
    ۱ ۔ سیّدنا یوسف علیہ السلام:
    اللہ کے نبی سیّدنا یوسف علیہ السلام ایسی آزمائش میں ڈالے گئے شاید کہ عورت اور مرد کی تاریخ میں کوئی فتنہ اس سے بڑھ کر ہو۔ عزیز مصر کی بیوی آپ کو فحاشی کی دعوت دے رہی ہے اور اس گناہ عظیم کے لیے ہر قسم کی راہیں آسان کردیتی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    {وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ إِنَّهُ رَبِّيْ اَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ}
    ’’اور اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے ،اور دروازہ بندکرکے کہنے لگی لو آجاؤ،یوسف نے کہا اللہ کی پناہ!بے شک وہ میرا رب ہے، اس نے مجھے بہت اچھی طرح رکھا ہے ،بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا‘‘۔
    [یوسف:۲۳]
    معاملہ یہاں تک پہنچ کر ہی ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ بہکانے کی یہ کوششیں مسلسل جاری رہتی ہیں اور اس کی طلب وجستجو اور جوعِ ہوس مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سیدنا یوسف علیہ السلام اس عورت سے بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ، اور وہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے دوڑتی ہے، پیچھے سے آپ کی قمیص پھاڑ دیتی ہے۔ جب اس کا خاوند( عزیز مصر )سامنے نظر آتا ہے تو الٹے آپ پر ہی بہتان باندھتی ہے اور پھر کوشش کرتی ہے کہ آپ فحاشی کا ارتکاب کرلیں اور اس کے بدلے میں آپ کو جیل جانے سے نجات مل جائے۔
    مگر آپ اس بے حیائی اور فحاشی کے ارتکاب سے انکار کرتے ہیں اور جیل میں چلے جاتے ہیں او روہاں کے دکھ اور تکالیف برداشت کرتے ہیںیہ سب کچھ آپ حرام شہوت ،زناوبدکاری سے بھاگتے ہوئے کرتے ہیں۔
    اس قصہ میں تدبروتفکر کرنے والا دیکھے گا کہ اللہ کے نبی سیّدنا یوسف علیہ السلام کے لیے فحاشی کے کام کے تمام اسباب ووسائل میسر تھے، آپ بالکل نوجوان بانکا و کنوارے تھے، کنوارے کے لیے اپنی شہوت پوری کرنے کا کوئی اور وسیلہ نہیں ہوتا، آپ دیارِغیرمیں اجنبی بھی تھے اور اجنبی کو اس چیز کی حیا نہیں ہوتی جیسے شہر کا رہنے والا حیا کرتا ہے، اور نہ ہی غریب الدیار ہونے کی وجہ سے آپ کو کسی رسوائی کا خوف تھا۔
    عزیزِ مصر کی عورت کو دیکھیں وہ عہدہ ومنصب والی بھی تھی اور حسن و جمال والی بھی اور آپ اس کے خادم تھے، آپ پر اس کا حکم چلتا تھااور اس کے گھر میں داخل ہونے سے کوئی شک و شبہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا بلکہ آپ جس وقت چاہتے اس کے گھر میں داخل ہوسکتے تھے، جب کہ نگراں (اس عورت کا شوہر) غائب تھااور کم غیرت والا بھی تھا اس لیے کہ جب اس نے یہ خبر سنی تو متوقع طور پر کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اس سے رو گردانی کرنے کا حکم دینے پر اکتفا کرلیااور اپنی بیوی کوتوبہ واستغفار کرنے کا حکم دیا۔
    اس عورت کی طرف سے فحش کاری کی دعوت بھی اس طرح تھی کہ جس نے تمام متوقع نفسیاتی پردوں کو گرادیا تھااور آپ کے لیے اس کام کونہایت سہل وآسان کردیا تھا اور اس بہکاوے کے ساتھ ساتھ (اس کی خواہش نہ پوری کرنے کی صورت ) آپ کو جیل بھجوانے کی دھمکی بھی دے دی تھی اور اس کے ساتھ ہی عورتوں کے مکرسے بھی مدد لی تھی۔ مگر ان تمام کارروائیوں کے باوجود آپ علیہ السلام نے ان کی ایک بھی نہ سنی اس کے سارے چلتر کو نیست ونابود کردیا ، محسن کے احسان کو یاد رکھا،احسان فراموشی نہیں کیا ، اپنے مالک کی ملکیت پر ہاتھ صاف نہیں کیا بلکہ تقویٰ کا دامن تھامے رکھا ، نفس پر کنٹرول کیا ،اور صبر وعزیمت سے کام لیا ۔
    آپ دیکھیں ،عقل کے دریچے کھولیں ، غور کریں،آپ (یوسف علیہ السلام )نے کیسے اپنے نفس کا مقابلہ کیا۔ اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ بلند وبالا مقام ومرتبہ عطا کیا کہ آپ کو اپنے لیے خاص کرلیا اور اپنی نبوت ورسالت کے لیے چن لیا اور آپ کو مخلصین و محسنین میں سے بنادیا۔
    صبر یوسف علیہ السلام کے اسباب:
    سیّدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر آپ نے صبر کیا:
    ۱ ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کاخوف وخشیت ۔
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی جانب سے توفیق۔
    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    {وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ إِنَّهُ رَبِّيْ اَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ}
    ’’اور بلاشبہ یقینا وہ اس کے ساتھ ارادہ کر چکی تھی اور وہ بھی اس عورت کے ساتھ ارادہ کر لیتا اگر یہ نہ ہوتا کہ اس نے اپنے رب کی دلیل دیکھ لی۔ اسی طرح ہوا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں۔ بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میںسے تھا‘‘۔
    [یوسف:۲۴]
    ذرا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں:’’لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْء وَالْفَحْشَاء‘ ’’تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کر دیں۔ یہ اس جملہ سے زیادہ بلیغ ہے کہ اگر کہا جاتا:’’لِنَصْرِفَه عَنْ السُّوْء وَالْفَحْشَاء‘‘’’ تاکہ ہم اسے برائی اور بے حیائی سے دور کر دیں۔ اس لیے کہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برائی اور فحاشی کو آپ سے دور کردیا گیاتھا۔ فرض کیجیے اگر آپ ان چیزوں کا ارادہ بھی کرتے تو انہیں اپنے سامنے نہ پاتے اور نہ ہی ایسا کرنے کی طاقت رکھتے۔
    ۳۔ آپ کا گناہ کے اسباب اور برائی کے مکان سے بھی بھاگنا۔ ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کہا ہو کہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اورپھر ادھرہی گھرمیں بیٹھ گئے ہوں۔نہیں بلکہ آپ تو اس عورت کے پاس سے بھاگ پڑے اور گھر کے دروازے سے نکلنے کی بھر پور کوشش کی۔
    بلاشبہ گناہ کی جگہ کو چھوڑ کر چلے جانا حرام شہوت سے نجات پانے کے لیے مدد گار ثابت ہوتا ہے اور گناہ کے درمیان میں پڑے رہنا اسے گناہ کا کام کرنے پر جرأت دلاتا ہے اور اس سے دھوکا میں مبتلا کرتا ہے۔ پس جتنا بھی جلدی ہو سکے حرام کام کے ٹھکانوں سے بھاگ جائیے۔
    ۴ ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ نصرت ومدد طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    { قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ اَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ}
    ’’(یوسف نے دعا کی) اے میرے پروردگار!جس بات کی طرف یہ عورت مجھے بلا رہی ہے اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا‘‘۔

    [یوسف:۳۳]
    ۵۔ آپ کا نیک اورمخلص وصالح ہونا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    {إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ}
    ’’بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا‘‘۔
    [یوسف:۲۴]
    ۶۔ آپ کا فحاشی کے کام پر تکلیف و مصیبت برداشت کرنے کو ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    { قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْ إِلَيْهِ }
    ’’(یوسف نے دعا کی) اے میرے پروردگار!جس بات کی طرف یہ عورت مجھے بلا رہی ہے اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے‘‘۔
    [یوسف:۳۳]
    بلاشبہ اس قصہ سے آج کے نوجوانوں کو عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیے نا کہ صرف انہیں پڑھ کر یا سن کر گزر جانا چاہیے۔
    ۲۔ مرثد بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ کی عفت وطہارت کا قصہ ۔
    عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال:’’كان رجل يقال له:مرثد بن ابي مرثد، وكان رجلًا يحمل الاسري من مكة حتي ياتي بهم المدينة، قال:وكانت امراة بغي بمكة يقال لها: عناق وكانت صديقة له، وإنه كان وعد رجلا من اساري مكة يحمله، قال:فجئت حتي انتهيت إلى ظل حائط من حوائط مكة فى ليلة مقمرة، قال:فجاء ت عناق فابصرت سواد ظلي بجنب الحائط، فلما انتهت إليَّ عرَفَتْ، فقالت:مرثد؟ فقلت:مرثد۔فقالت:مرحبًا واهلًا، هلمَّ فبت عندنا الليلة۔قال:قلت:يا عناق، حرم اللّٰه الزنا۔قالت:يا اهل الخيام، هذا الرجل يحمل اُسراء َكم، قال:فتبعني ثمانية وسلكت الخندمة، فانتهيت إلى كهف او غار فدخلت، فجاء وا حتي قاموا على راسي فبالوا، فظل بولهم على راسي وعمَّاهم اللّٰه عني، قال:ثم رجعوا ورجعت إلى صاحبي فحملته، وكان رجلًا ثقيلًا حتي انتهيت إلى الإذخر، ففككت عنه اكبله، فجعلت احمله ويعييني حتي قدمت المدينة، فاتيت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقلت:يا رسول اللّٰه، انكح عناقًا؟ فامسك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فلم يردَّ على شيئًا حتي نزلت الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ (النور:۳)، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:يا مرثد، الزاني لا ينكح إلا زانية او مشركة والزانية لا ينكحها إلا زان او مشرك، فلا تنكحها ‘‘۔
    عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
    ’’مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار وبہادر)شخص تھے جو (مسلمان)قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کررکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے )آگیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جاکر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آگئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کرپوچھا :مرثد ہونا؟ میں نے کہا:ہاں، مرثد ہوں، اس نے خوش آمدید کہا ، (اورکہا:)آؤ ، رات ہمارے پاس گزارو ، میں نے کہا:عناق!اللہ نے زنا کو حرام قراردیا ہے، اس نے شور کردیا، اے خیمہ والو(دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھا ئے لیے جارہاہے، پھرمیرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑپڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ)کی طرف بھاگا اور ایک غار یاکھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں چھپ گیا وہ لوگ بھی اُوپر چڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہوکر انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سرپر ٹپکیں،لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنادیا وہ ہمیں نہ د یکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کرمجھے لے جانا تھا)آگیا، وہ بھاری بھرکم آدمی تھے، میں نے انہیں اٹھاکر (پیٹھ پر )لاد لیا، اذخر (کی جھاڑیوں میں)پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اورپھراٹھاکر چل پڑا ،کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا )اس طرح میں مدینہ آگیا۔ رسول اللہ ﷺکے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول!میں عناق سے شادی کرلوں؟ (یہ سن کر)رسول اللہ ﷺخاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھریہ آیت :
    {اَلزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلاَّ زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لاَ يَنْكِحُهَا إِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُوْمِنِيْنَ}
    نازل ہوئی‘‘۔
    [رواہ الترمذی:۳۱۷۷، والنسائی:۳۲۲۸،قال الترمذی:حسن غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔وقال ابن العربی فی عارضۃ الاحوذی:۶؍۲۶۰،حسن صحیح جدًّا۔وحسن إسنادہ الالبانی فی صحیح النسائی:۳۲۲۸]
    ۳۔ جریج عابد رحمہ اللہ کا قصہ :
    سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ایک عورت نے کہا کہ میں جریج کو پھنسا لوں گی، وہ اس کے سامنے آئی اور اس سے بات چیت کی لیکن اس نے انکار کر دیا، تو وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر دیا۔ چنانچہ ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ تو کہنے لگی:یہ جریج کا ہے۔ لوگ جریج کے پاس آئے اوراس کے عبادت خانے کو توڑ دئے، پھر لوگوں نے جریج کو عبادت خانے سے نیچے اتارا اور اس کو گالی دی، جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھی، پھر اس لڑکے پاس آ کر کہا:اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ اس بچہ نے جواب دیا:چرواہا‘‘۔
    صحیح البخاری کے کتاب المظالم میں یہ حدیث موجود ہے، دیکھیں! اللہ تعالیٰ نے کیسے ایک بچے کو قوت گویائی دے دی ، اس لیے کہ اس نے اس فاحشہ عورت کے ساتھ برائی کرنے کو پوری پوری قدرت ہونے کے باوجود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کے خوف سے ترک کردیا تھا۔
    ۴۔ ربیع بن خیثم رحمہ اللہ کی عفت وپاکدامنی کا واقعہ ۔
    عن سعدان قال:’’امر قوم امراة ذات جمال بارع ان تتعرض للربيع بن خُثيم فلعلها تفتنه، وجعلوا لها إن فعلت ذلك الف درهم، فلبست احسن ما قدرت عليه من الثياب، وتطيَّبت باطيب ما قدرت عليه، ثم تعرضت له حين خرج من مسجده، فنظر إليها فراعه امرها، فاقبلت عليه وهى سافرة، فقال لها الربيع:كيف بك لو قد نزلت الحمي بجسمك فغيَّرت ما اري من لونك وبهجتك؟ ام كيف بك لو قد نزل بك ملك الموت فقطع منك حبل الوتين؟ ام كيف بك لو قد ساء لك منكر ونكير؟ فصرخت صرخة فسقطت مغشيًّا عليها۔فواللّٰه لقد افاقت، وبلغت من عبادة ربها انها كانت يوم ماتت كانها جذع محترق‘‘۔
    ربیع بن خیثم رحمہ اللہ کی قوم کے کچھ شریر لوگوں نے ایک بہت ہی حسن و جمال والی عورت سے مطالبہ کیا کہ وہ ربیع بن خثیم کے سامنے جائے شاید کہ وہ انہیں فتنہ میں ڈال سکے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر اس نے ایسا کر لیا تو اسے ایک ہزار درہم انعام دیا جائے گا۔
    اس قصہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ انسانوں میں بھی ایسے شیطان ہیں جو کہ اہل صلاح (نیکوکار) لوگوں کو خراب کرنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ دعوت اسلام کے خلاف سازشیں کر سکیں اور دین کے خلاف جنگ کی راہیں ہموار کر سکیں۔
    تو اس عورت نے جس قدر اس سے ہو سکتا تھا ، بہترین اورخوبصورت لباس پہنااور اپنی وسعت کے مطابق بہترین خوشبو لگائی، پھر اس وقت ان کی راہ میں آڑے آئی جب وہ نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے، آپ نے اس عورت کی طرف دیکھاتو اس کی اس حالت سے خوف محسوس ہوا وہ تو بالکل بے پردہ ہوکر ان کے سامنے آگئی۔
    سیّدنا ربیع اس سے کہنے لگے:وہ وقت کیسا ہوگا جب تمہارا جسم بخار میں مبتلا ہو جائے اور تیری یہ رنگت اور چمک جو میں دیکھ رہا ہوں ، اس کو بدل دے؟
    پھر وہ وقت کیسا ہوگا جب ملک الموت تیرے پاس آئے گا اور تیری شہ رگ کو کاٹ کر رکھ دے گا؟ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب منکرونکیر تجھ سے سوال کریں گے؟
    اس عورت نے ایک چیخ ماری اور غش کھا کر گر گئی۔
    پھر اپنے رب کی عبادت میں اس عورت کی یہ حالت ہوگئی کہ جس دن اس کی موت واقع ہوئی تو وہ گویا کہ کوئی جلا ہوا تنا تھی۔[صفۃ الصفوۃ، جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد الجوزی:۲؍۱۱۲، ت ، احمد بن علی ، دارالحدیث القاہرۃ مصر ]
    ۵۔ سَّری بن دینا ررحمہ اللہ کا قصہ:
    ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی کہتے ہیں کہ سری بن دینار رحمہ اللہ کا گزر دیارمصر کی کسی ایک گلی سے ہوا۔ جہاں ایک نہایت ہی خوبصورت عورت رہتی تھی جس نے اپنے حسن و جمال سے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کر رکھا تھا ان کے بارے میں بھی اس عورت کو خبر ہوئی وہ کہنے لگی میں ضرور بالضرور ان کو فتنہ میں مبتلا کروں گی جب وہ آپ کے گھر میں دروازے کی طرف سے داخل ہوئی تو اس نے تمام حجاب الٹ دیے اور اپنے آپ کو ننگا کرلیا اور اپنے حسن و جمال کو ظاہر کردیا۔ آپ فرمانے لگے تمہیں کیا ہوگیا ہے؟
    وہ عورت کہنے لگی: ’’فراش وطیء وعیش رخی ،فاقبل علیہا وہو یقول‘‘۔
    کیا آپ کو نرم بستر اور عیش کی زندگی کی چاہت ہے؟
    آپ نے اس کے جواب میں یہ شعر کہے:
    وَكَمْ ذِيْ مَعَاصٍ نَالَ مِنْهُنَّ لَذَّةً وَمَاتَ فَخَلَّاها وَذَاقَ الدَّوَاهيا
    تَصَرَّمُ لَذَّاتُ الْمَعَاصِيْ وَتَنْقَصِيْ وَتَبْقٰي تِبَاعَاتُ الْمَعَاصِيْ كَمَا هيا
    فَيَا سَواَتَا وَاللّٰه رائٍ وَسَامِعٌ لِعَبْدٍ بِعَيْنِ اللّٰه يَغْشَي الْمَعَاصِيَا
    ’’ اور کتنے ہی گناہ کرنے والے ایسے ہیں جو ان عورتوں کی لذت کو پاتے ہیں۔ پھر وہ مر گئے تو انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور اس کی تلخی کو چکھ لیا۔ گناہوں کی لذتیں کٹ جاتی ہیں ، اور گزر جاتی ہیں۔ مگر گناہ کی تباہیاں ویسے ہی باقی رہتی ہیں۔ ہائے افسوس!اللہ تعالیٰ بندے کو دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ اللہ کی نظر ہر برائی اور گناہ کو ڈھانپے ہوئے ہے‘‘۔
    [ ذم الہوی لابن الجوزی :ص:۲۳۵]
    ۶۔ ایک دیہاتی عورت کا قصہ :
    علامہ ابنِ رجب رحمہ اللہ نے جامع العلوم والحکم میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے کسی خالی جگہ(جہاں کوئی بھی نہیں تھا ) غیر آباد مکان میں ایک دیہاتی عورت کو تنہائی میں پایا تو انہوں نے اس عورت کو زناکاری پر آمادہ کرنا چاہا،بہلایا پھسلایا اس امید سے کہ عورت اس کے دام فریب میں پھنس جائیگی اورفوراً زنا کرلے گی لیکن اسے کیا معلوم کہ یہ عورت عفت وپاکدامنی کی مجسم ہے ،چنانچہ اس شخص نے اس دیہاتی عورت سے کہاکہ:
    ’’ما يرانا إلا الكواكب۔فقالت له اين مكوكبها ؟ ‘‘۔
    ’’ہم دونوں بالکل ساری دنیا کی نظر سے دور ہیں صرف ستارے ہی ہمیں دیکھ رہے ہیں( لہٰذا آو ہم دونوں شہوات کی آگ بجھاتے ہیں!)‘‘
    عورت نے کہاں اچھا ان ستاروں کو پیدا کرنے والا کہا ں ہے؟وہ تو دیکھ رہا ہے نا ؟ اللہ تعالیٰ کا علم تو ہر جگہ موجود ہے نا ؟ کیا اللہ ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے ؟ بالکل ضرور بالضرور اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے ،
    قَالَ تَعَالٰي:{اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ}
    [اَلْمُلْک:۱۴]
    اور کسی شاعر نے بھی خوب کہا ہے ۔
    يا مدمن الذنب اما تستحي واللّٰه فى الخلوة ثانيكا
    غرك من ربك امهاله وستره طول مساويكا
    [جامع العلوم والحکم لابن رجب :ص:۳۸۸]
    محترم قارئین ! جوان ہوتے ہی انسانی جسم میں متعدد تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ،جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جسم ،دل ودماغ میں ایک ہلچل پیدا ہوجاتی ہے ،جذبات ایک طوفان کی صورت اختیار کرنے پر زور آزمائی کرتے ہیں ،عمر کا یہ حصہ بہت نازک واہمیت کا حامل ہوتا ہے ،اگر اسے خیر ومثبت کے کاموں میں مشغول ومصروف نہ رکھا جائے تو بچوں کے بے راہ روی کا شکار ہوجانے کا قوی امکان ہوتا ہے ۔ لہٰذا سرپرست ووالدین حضرات کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھنا چاہیے ۔اگر بچوں کی تربیت صحیح خطوط اور اسلامی ماحول وفضاء میں کی جائے ،انہیں زنا وبدکاری کی سنگینی وخطورت اور شادی کے فوائد سمجھا دئیے جائیں ،اسلاف کے واقعات ،صحابہ وتابعین کی پاکیزگی وطہارت کے قصے سنائے جائیں تو ان کے بگڑنے کی امید بہت کم ہے ۔وہ بإذن اللہ صالح ونیک بنیں گے اور پاکیزہ زندگی گزاریں گے اور اپنے نفس کو ہر طرح کی گندگی وتلوث سے پاک وصاف رکھیں گے ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings