Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سجدۂ تلاوت کے احکام ومسائل (قسط اول)

    سجدہ ٔتلاوت سے مراد ووہ سجدہ ہے جو سجدہ والی آیتوںکی تلاوت کے سبب مشروع ہے ۔بتغیر یسیر[التعریفات الفقہیۃ :ص:۱۱۲]
    سجدہ تلاوت کی مشروعیت:
    قرآن : {إِنَّ الَّذِينَ اُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَي عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا }
    ترجمہ: ’’جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں‘‘۔
    [الإسراء:۱۰۷]
    حديث : عَنِ ابْنِ عُمرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهما، قال:’’ربَّما قرا رسولُ اللّٰهِ صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم القرآنَ، فيمرُّ بالسَّجدةِ فيَسجُدُ بنا، حتي ازدحَمْنا عنده، حتي ما يجِدُ احدُنا مكانًا ليسجُدَ فيه، فى غيرِ صلاةٍ ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں :’’کہ نبی کریم ﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آپ اس سورت کی تلاوت فرماتے جس میں سجدہ ہوتا اور سجدہ کرتے تو ہم (سب)بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے، حتیٰ کہ ہم میں سے بعض کو پیشانی رکھنے کے لیے بھی جگہ نہ ملتی تھی‘‘۔
    [صحیح مسلم:۵۷۵]
    اس حدیث سے جہاں سجدے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے وہیںپر یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سننے والے کوبھی سجدہ کرنا چاہئے۔
    اجماع: سجدۂ تلاوت کی مشروعیت پرکئی علماء نے اجماع بھی نقل کیاہے۔
    قرطبي : قال القرطبيُّ: وعوَّل علماوُنا على حديث ِقَالَ اَبُو بَكْرٍ:’’ وَكَانَ رَبِيعَةُ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، عَمَّا حَضَرَ رَبِيعَةُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَرَاَ يَوْمَ الجُمُعَةِ عَلَي المِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتّٰي إِذَا جَاء َ السَّجْدَةَ نَزَلَ، فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ حَتَّي إِذَا كَانَتِ الجُمُعَةُ القَابِلَةُ قَرَاَ بِهَا، حَتَّي إِذَا جَائَ السَّجْدَةَ، قَالَ: يَا اَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ، فَمَنْ سَجَدَ، فَقَدْ اَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ وَزَادَ نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، إِنَّ اللّٰهَ لَمْ يَفْرِضِ السُّجُودَ إِلَّا اَنْ نَشَائَ‘‘۔
    ابوبکر بن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ:’’ ربیعہ بہت اچھے لوگوں میں سے تھے ربیعہ نے وہ حال بیان کیا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہوں نے دیکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی جب سجدہ کی آیت (وللہ یسجد ما فی السمٰوٰت)آخر تک پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا ہماری چاہت پر چھوڑدیا ہے‘‘۔
    [تفسیر القرطبی:۷؍۳۵۸]
    قال النوويُّ:’’فيه إثباتُ سجود التلاوة، وقد اجمَع العلماء ُ عليه وهو عندناو عند الجمهور سنة ليس بواجب‘‘۔
    اما م نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’اس میںسجدۂ تلاوت کا اثبات ہے اور علماء نے اس پر اجماع بھی نقل کیاہے اور یہ ہمارے نزدیک اور جمہور کے نزدیک سنت ہے نا کہ واجب‘‘۔
    [شرح النووی علی مسلم:۵؍۷۴]
    قال ابنُ تيميَّة:’’وسجودُ التلاوة فى وجوبِه نزاعٌ، وإنْ كان مشروعًا بالإجماع‘‘۔
    ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’سجدۂ تلاوت کے وجوب میں اختلاف ہے لیکن مشروعیت پر اجماع ہے‘‘۔
    [مجموع الفتاوی:۲۱؍۲۹۳]
    قال ابنُ حَجر:’’وقدْ اجمَع العلمائُ علٰي انَّه يسجُد‘‘۔
    ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’تمام علماء کا اجماع ہے کہ سجدہ کیاجائے گا ‘‘۔
    [فتح الباری:۲؍۵۵۱]
    قال ابن حجر الهيتمي:’’باب فى سجود التِّلاوة والشُّكر‘‘(تُسَنُّ سَجَدات) بفتح الجيم (التِّلاوة)؛ للإجماع على طَلبِها ولم تجب عندنا ۔
    امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’سجدۂ شکر اور سجدہ تلاوت کا بیان،یہ تما م سجدات مسنون ہیں۔کیونکہ ان کے مطلوب ہونے پر اجماع ہے اور یہ ہمارے نزدیک واجب نہیں ہے‘‘۔
    [تحفۃ المحتاج:۲؍۲۰۴]
    قال الصَّنعاني:’’والحديثُ دليلٌ على مشروعيَّة سُجود التِّلاوة، وقد اجمع على ذلك العلماء‘‘۔
    امام صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’اورحدیث رسول سجدہ ٔتلاوت کی مشروعیت پر دلیل ہے،اورعلماء کا اس پر اجماع بھی ہے‘‘ ۔ [سبل السلام:۱؍۳۱۱]
    قال النَّفْراويّ: ’’واجمَعوا علٰي مشروعيَّته سُجود التِّلاوة عند قِراء ة القرآن، ولو فى حالة الصَّلاة‘‘۔
    امام نفراوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’تمام علماء کا سجدۂ تلاوت کی مشروعیت پر اجماع ہے گرچہ آدمی نمازکی حالت ہی میں کیوں نہ ہو‘‘۔
    [الفواکہ الدوانی:۲؍۶۰۷]
    سجدۂ تلاوت کا حکم:
    اس مسئلہ میںدو طرح کے اقوال پائے جاتے ہیں۔
    پہلا قول : سجدہ ٔتلاوت واجب ہے۔
    اس رائے کے قائلین امام سفیان ثوری ،امام ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف ،امام محمد ، ایک قول کے مطابق امام احمد اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہم ہیں۔دیکھیں:[فتح القدیر:۱؍۳۸۲، ابن عابدین:۲؍۱۰۳،مجموع الفتاوی: ۲۳؍۱۳۹۔۱۵۵،الإنصاف:۲؍۱۹۳،سنن ابی داؤد ت الارنوؤط:۲؍۵۴۸]
    دوسرا قول: سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔جمہورعلماء ،امام مالک ،شافعی ،اوزاعی،لیث ،احمد ،اسحاق ،ابو ثو ر، داؤد، ابن حزم اور صحابہ میںسے ،عمر بن الخطاب ،سلمان ،ابن عباس اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم وغیرہم ہیں۔ دیکھیں: [المجموع:۴؍۶۱،کشاف القناع:۱؍۴۴۵، المواہب:۲؍۶۰،التمہید: ۱۹؍۱۳۳،المحلی:۵؍۱۰۵]
    وجوب کے قائلین کے دلائل درج ذیل ہیں:
    ۱۔ قوله تعالٰي : {فَمَا لَهُمْ لا يُوْمِنُونَ ۔وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لا يَسْجُدُونَ}قالوا: والذم لا يتعلق إلا بترك واجب۔
    ’’انہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے۔اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے‘‘۔
    [سورۃ الانشقاق:۲۱]
    لوگوںکا کہنا ہے کہ مذمت واجب کے چھوڑنے پر ہی کی جاتی ہے ،لہٰذا سجدہ ٔتلاوت واجب ہے۔
    ۲۔ قوله تعالٰي : {فَاسْجُدُوا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوا}
    ’’اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو‘‘۔
    [سورۃ النجم:۶۲]
    ۳۔ قوله تعالٰي : {وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ}
    ’’خبردار! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجدہ کر اور قریب ہوجا‘‘۔
    [سورۃ العلق:۱۹]
    ۴۔ ما فى حديث ابي هريرة:’’اُمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة‘‘۔
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے :’’ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیاگیا تو اس نے سجدہ کیا ،جس کے سبب اس کے لیے جنت ہے‘‘۔
    [صحیح مسلم:۸۱]
    ۵۔ قول عثمان:’’إنما السجود على من استمع‘‘۔
    عثمان رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے:’’سجدہ ان تمام لوگوںکے لیے ہے جو قرآن بغورسن رہے ہیں‘‘۔
    [شعیب الارنوؤط، تخریج شرح السنۃ :۳؍۳۱۱،من طریق صحیح]
    جمہور نے ان کے دلائل کا یہ جواب دیا ہے۔
    ۱۔ ’’ان الذم فى آية الانشقاق متعلق بترك السجود إباء ً واستكبارًا فيتناوله مَن تركه غير معتقد فضله ولا مشروعيته‘‘۔
    ’’اس آیت میںمذمت کا تعلق سجدۂ تلاوت کو انکا را اور تکبرا چھوڑنے پر ہے ایسے ہی جو اس کی مشروعیت اور اس کے فضل کا معتقدنہ ہو‘‘۔
    ۲۔ ’’ان الاستدلال بالآيتين الاخريين موقوف على ان يكون الامر فيهما للوجوب، وعلٰي ان يكون المراد بالسجود سجدة التلاوة وهما ممنوعان‘‘۔
    [تحفۃ الاحوذی:۳؍۱۷۲]
    ان دونوں آیتوں میںامر وجوب کے لیے اگر مان لیتے ہیںتو پھر ایسی شکل میںسجدہ سے مراد سجدہ ٔتلاوت مراد لینا درست نہیں ہے۔
    عن زيد بن ثابت رضي اللّٰه عنه قال:’’قرأت على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وَالنَّجْمِ فلم يسجد فيها‘‘۔
    زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’میںنے رسول اللہ ﷺکے پاس سورہ نجم کی تلاوت کی تو نبی کریم ﷺ نے اس میں سجدہ نہیں کیا ‘‘۔
    [صحیح البخاری:۱۰۷۳]
    ۳۔ عن عمر بن الخطاب انه قرا يوم الجمعة على المنبر سورة النحل حتي إذا جاء السجدة فنزل فسجد، فسجد الناس، حتي إذا كانت الجمعة القابلة، قرا بها حتي إذا جاء السجدة، قال: يا ايها الناس، إنما نمرُّ بالسجود، فمن سجد فقد اصاب، ومن لم يسجد فلا إثم عليه، ولم يسجد عمر رضي اللّٰه عنه صحيح: صحيح البخاري:(۱۰۷۷) وقال هذا بمحضر من الصحابة ولم ينكر عليه احد منهم فكان إجماعًا منهم.
    زاد نافع عن ابن عمر رضي اللّٰه عنه :’’ان اللّٰه لم يفرض السجود الا ان نشاء‘‘۔
    عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر سورہ نحل کی تلاوت کی اور سجدہ والی آیت پر پہنچ کر سجدہ کیا اور لوگوںنے بھی سجدہ کیا ،آنے والے جمعہ کو انہوں نے پھر اسی سورت کی تلاوت کی اور سجدہ والی آیت پر پہنچ کر سجدہ نہیںکئے ،ساتھ میںکہا بھی کہ ہم آیت سجدہ سے گزرتے ہیں،لہٰذا جس نے سجدہ کیا اس نے بہتر کیا اور جس نے سجدہ نہیںکیا تو اس پر کوئی گناہ نہیںہے اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی سجدہ نہیںکیا۔اوریہ بات عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی موجودگی میںکہی تھی اور کسی نے انکا ربھی نہیںکیاتھا ،گویا کہ یہ ان کی جانب سے اجماع سکوتی ہے۔
    مستفاد : [صحیح فقہ السنۃ وادلتہ وتوضیح مذاہب الائمۃ :۱؍۴۴۸]
    نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کیا ہے :’’کہ اللہ نے ہم پر سجدۂ تلاوت فرض نہیں کیا ہے مگر یہ کہ ہم چاہیں‘‘۔
    قال ابنُ قُدامة:’’ومَن سجَد فحَسَنٌ، ومَن ترَك فلا شيء َ عليه‘‘۔
    امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جس نے سجدہ کیا تو اس نے اچھا کیا اور جس نے ترک کردیا تو اس پرکوئی مؤاخذہ نہیں ہے‘‘۔
    [المغنی:۱؍۴۴۶]
    وحُكِي الإجماع علٰي ذلك:قال النوويّ:’’امَّا حُكم المسالة، فسُجودُ التلاوة سُنَّةٌ للقارء والمستمِع، بلا خلاف‘‘۔
    اور اس کے سنت ہونے پر اجماع بھی نقل کیا گیاہے،امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’سجدہ تلاوت قاری اور مستمع دونوںکے لیے سنت ہے‘‘۔
    [المجموع:۴؍۵۸]
    مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : [الموسوعۃ الفقھیۃ المسیرۃ فی فقہ الکتاب والسنۃ المطھرۃ للشیخ حسین بن عددۃ الحواشیۃ:ج:۲، ص:۱۸۱۔۱۸۲]
    راجح : سجدہ تلاوت سنت ہے ۔
    سجدۂ تلاوت کی فضیلت:
    عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: ’’إِذَا قَرَاَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ، فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ وَفِي رِوَايَةِ اَبِي كُرَيْبٍ: يَا وَيْلِي اُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ، فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَاُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَاَبَيْتُ فَلِيَ النَّارُ‘‘۔
    ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کر کے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے، وہ کہتا ہے:ہائے اس کی ہلاکت!(اور ابوکریب کی روایت میں ہے، ہائے میری ہلاکت!) ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا، سو میرے لیے آگ ہے‘‘۔
    [صحیح مسلم :۸۱]
    کیا سجدۂ تلاوت کے لیے وضو ضروری ہے؟
    ’’ذهب جماهير العلماء إلى ان سجود التلاوة يشترط فيه ما يشترط للصلاة، فاشترطوا له الطهارة، واستقبال القبلة وسائر الشروط‘‘۔
    ’’جمہور علماء کا کہنا ہے نماز کے جو شرائط ہیںوہی شرائط سجدہ ٔتلاوت کے بھی ہیں،یعنی کہ جمہور علماء سجدہ ٔتلاوت کے لیے طہارت اور استقبال قبلہ اور دیگر شروط کے قائل ہیں‘‘۔
    [ابن عابدین:۲؍۱۰۶،الشرح الکبیر للشیخ الدردیر وحاشیۃ الدسوقی:۱؍۳۰۷،المجموع:۴؍۶۳،المغنی:۱؍۴۴۴]
    وقال القرطبي:’’وَلَا خِلَافَ فِيْ اَنَّ سُجُوْدَ الْقُرْآنِ يَحْتَاجُ إِلَي مَا تَحْتَاجُ إِلَيْهِ الصَّلَاةُ مِنْ طَهَارَةِ حَدَثٍ وَنَجَسٍ وَنِيَّةٍ وَاسْتِقْبَالِ قِبْلَةٍ وَوَقْتٍ‘‘۔
    امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’اس میں اختلاف نہیںہے کہ تلاوت قرآن کے سبب کئے جانے والے سجدے میں وہی بات کہی جائے گی جو نماز کے حوالہ سے کہی جاتی ہے یعنی کہ سجدہ کرنے والانیت کرے ،قبلہ کی طرف رخ کرے اور وقت میںسجدہ کرے ساتھ ہی وہ نجس نہ ہو اور بغیر وضوکے بھی نہ ہو‘‘۔
    [تفسیر القرطبی ،الجامع لاحکام القرآن:۷؍۳۵۸]
    ’’ذهب ابن حزم وشيخ الإسلام ابن تيمية إلى عدم اشتراط شيء من ذٰلك لان السجود ليس بصلاة، بل هو عبادة، ومعلوم ان جنس العبادة لا تشترط له الطهارة، وهو مذهب ابن عمر والشعبي والبخاري، وهو الصحيح.ومما يدل علٰي ذٰلك حديث ابن عباس: ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم سجد بالنجم وسجد معه المسلمون والمشركون والجن والإنس۔وقال البخاري: والمشرك نجس ليس له وضوء۔اهـ
    جبکہ علامہ ابن حزم اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس میںنماز کی شرائط میںسے کوئی شرط نہیں لگاتے ہیں،کیونکہ سجدہ یہ نمازنہیں ہے بلکہ عبادت ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ جنس عبادت میں طہارت کی شرط نہیں لگائیں گے ۔یہی مذہب ابن عمر ،شعبی اور امام بخاری وغیرہ کا بھی ہے۔اس بات پر جو چیزیںدلالت کرتی ہیں ان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بھی ہے جس میںہے نبی ﷺ نے سورہ نجم میں آیت سجدہ پر پہنچ کر سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمان، مشرک جن و انس سبھوںنے سجدہ کیا۔سب کوچھوڑکرکے مشرک کو ہی دیکھ لیں،وہ تو باوضو نہیں رہتا ہے‘‘۔
    [المحلی بالآثار:۳؍۳۳۱،سجود التلاوۃ معانیہ واحکامہ لابن تیمیۃ:ص:۱۰۰،صحیح البخاری:۱۰۷۱]
    وقال الشوكاني:’’ليس فى احاديث سجود التلاوة ما يدلُّ على اعتبار ان يكون الساجد متوضئًا، وقد كان يسجد معه صلى اللّٰه عليه وسلم من حضر تلاوته، ولم ينقل انه امر احدًا منهم بالوضوء ، ويبعد ان يكونوا جميعًا متوضئين، وايضًا قد كان يسجد معه المشركون كما تقدم وهم انجاس لا يصح وضووهم …واما ستر العورة والاستقبال مع الإمكان، فقيل:إنه معتبر اتفاقًا‘‘۔
    علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’سجدۂ تلاوت سے متعلق وارد کسی بھی حدیث میںیہ مذکو ر نہیںہے کہ سجدہ کرنے والا باوضوہو ،اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ میںموجود تمام لوگ آپ کے ساتھ سجدہ کیا کرتے تھے ،اور کہیں بھی یہ منقول نہیںہے کہ آپ نے کسی کو بھی وضوکا حکم دیا ہو،اور ایسا بھی ممکن نہیںہے کہ وہاںپر موجود سارے لوگ باوضو ہی ہوں،اور یہ بھی تو بات ہے کہ آپ کے ساتھ مشرکین بھی سجدہ کیا کرتے تھے ،اور وہ نجس ہیں،اگر وہ وضو بھی کرلیں تو وضو انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتاہے ‘‘۔
    [نیل الاوطار:۳؍۱۲۵ط۔الحدیث]
    راحج: بغیر وضوکے بھی سجدۂ تلاوت جائز ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔دیکھیں: [الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ فی فقہ الکتاب والسنۃ المطھرۃ:ج:۲، ص:۱۸۵۔۱۸۶]
    سجدۂ تلاوت کے متفق علیہ اور مختلف فیہ مقامات:
    پورے قرآن میں مقامات سجدہ پندرہ ہیں ، بعض لوگوں نے سولہ کی بھی بات کہی ہے اور بعض لوگوں نے چودہ کی بھی بات کہی ہے ۔ دیکھیں:[المحلی:۵؍۱۵۶]
    سورہ حجر کی آیت  {فسبح بحمد ربك وكن من الساجدين} کو شامل کرکے جوکہ جمہور کے مسلک کے خلاف ہے۔
    سجدۂ تلاوت کے مقامات۔
    ۱۔ سورہ اعراف کی آخری آیت : (ويسبحونه وله يسجدون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت نمبر:۲۰۶)
    ۲۔ سورہ رعد: (وظلالهم بالغدو والآصال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت نمبر:۱۵)
    ۳۔ سورہ نحل: (ويفعلون ما يومرون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت نمبر:۵۰)
    ۴۔ سورہ اسراء: (ويزيدهم خشوعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر:۱۰۹)
    ۵۔ سورہ مریم: (خروا سجدا وبكيا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر:۵۸)
    ۶۔ سورہ حج: (إن اللّٰه يفعل ما يشاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر:۱۸)
    ۷۔ سورہ نمل: (رب العرش العظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر:۲۷)
    ۸۔ سورہ سجدہ(الم تنزیل)عند قول اللہ تعالیٰ:(وهم لا يستكبرون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر:۱۵)
    ۹۔ سورہ فرقان: (وزادهم نفورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت نمبر:۶۰)
    ۱۰۔ سورہ حم سجدہ’’فصلت ‘‘: (وهم لا يسامون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت نمبر:۳۸)
    [الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ :۲۴؍۲۱۶]
    سجدۂ تلاوت کے وہ پانچ مقامات جو مختلف فیہ ہیں۔
    ۱۱۔ سورہ حج میں دوسرا سجدہ اس آیت پر(يا ايها الذين آمنوا اركعوا واسجدوا)
    ۱۲۔ سورہ ص میں سجدہ
    ۱۳۔ سورہ نجم کے اخیر میں سجدہ
    ۱۴۔ سورہ انشقاق میں سجدہ ۔آیت نمبر :۲۱
    ۵ ۱۔ سورہ علق کے اخیر میں سجدہ
    [الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:۲۴؍۲۱۶۔۲۲۱]
    نوٹ: متفق علیہ اور مختلف فیہ مقامات اور تعداد امیں ختلاف ہے ۔اس لیے میں نے کسی چیز کی تعیین نہیں کی ہے دیکھیں:[الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ فی فقہ الکتاب والسنۃ المطھرۃ :ج:۲، ص:۱۸۳۔۱۸۴]
    جاری……
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings