Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اہل حدیث مدارس میں عربی زبان و ادب کی تعلیم اور طلبہ پر اس کے اثرات (برائے اصلاح)

    عربی زبان و ادب اور لغت عرب سے شناسائی اور واقفیت قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ عربی زبان پر درک و کمال فہم قرآن کے لیے زینہ اور معرفت حدیث نبوی کے لیے وسیلہ ہے ،اس کے بغیر ان دونوں سے استفادہ بہت مشکل ہے ، یہی وجہ ہے کہ بالغ نظر علمائے کرام نے قرآن کی تفسیر و تشریح اور احادیث کی توضیح اور اس کی چھان بین ، اس کی صحت و ضعف کی معرفت کے ساتھ ساتھ اس فن یعنی(عربی زبان و لغت ) پر بھی خصوصی عنایت کیا ہے ، اس فن میں مہارت حاصل کی ہے ، اس فن کو سمجھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کے لیے عربی ، اردو اور فارسی زبانوں میں بے شمار کتابیں بھی لکھیں تاکہ آئندہ نسل کے لیے کسی قسم کی کوئی دقت و پریشانی نہ آئے ، قدیم دور میں اہل علم عربی لکھنے ، پڑھنے اور بولنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے ، عرب تو عرب ہی تھے عجم بھی عربی زبان کو اپنے لیے مادری زبان تصور کرتے تھے اور ایک دو گھنٹے میں بیٹھے بیٹھے عربی میں کتابیں اور رسالے تحریر کر دیا کرتے تھے، حجۃ اللہ البالغہ سے کون واقف نہیں، یہ کتاب ایک عجمی جلیل القدر عالم، مجدد ملت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی مایہ ناز عربی تصنیف ہے ، عرب اس کتاب کو پڑھ کر انگشت بدنداں رہ گئے اور عش عش کر رہے تھے کہ عجمی بھی اس قدر فصیح و بلیغ عربی لکھ لیتے ہیں کیا ؟
    پہلے کے علماء گھر بیٹھے بیٹھے عربی زبان میں کتابچہ وغیرہ لکھ کر شائع کر دیا کر دیتے تھے اور یہ ان کے لیے ایک عام سی بات تھی ، مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ نے جب پہلی مرتبہ ندوۃ العلماء سے عربی زبان میں ایک رسالہ شائع کیا اور عرب ممالک میں اس رسالے کو بھیجا تو اہل عرب مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ کی عربی دانی اور اس زبان پر ان کے مہارت تامہ کے قائل ہو گئے اور ان کی عربی تحریروں سے بہت متاثر ہوئے ، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے عربی زبان میں کئی شاہکار کتابیں لکھیں، ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ بریلویت کی تردید میں عربی زبان میں ایک کتاب محض پندرہ دنوں میں لکھ ڈالی ، دور جدید کے نامور ادیب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ سے عربی زبان سے دلچسپی رکھنے والا ہر طالب علم واقف ہوگا ، ان کی عربیت کا چرچہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عرب ممالک میں بھی تھا ، عربی زبان میں ان کا اپنا ایک الگ اسلوب ، انداز اور طرز تھا ، ان علمائے کرام کے لیے عربی زبان ایک عام سی بات تھی مگر افسوس صد افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں پوری دنیا بلندی کے منازل طے کر رہی ہے وہیں پر عربی زبان و ادب سے واقف کار عجمی اہل علم کی صفوں میں بہت تیزی سے تنزلی وانحطاط بھی آیا ہے ، آج کے طلباء اور فارغین عربی زبان میں بے حد کمزور ہوتے ہیں ، سات آٹھ سال مدرسے میں گزارنے کے باوجود بھی آج کے طلباء کے اندر انشاء پردازی کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ، پہلی جماعت سے لے کر فضیلت تک ہر طالب علم کو انشاء پڑھایا جاتا ہے مگر پھر بھی ہم طلباء کے لیے سب سے زیادہ بھاری یہ انشاء ہی ہوتا ہے ، فن صرف میں تعلیل کی بحث اور صرف صغیر کا یاد کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ، لفظ کی اصل نکالنے میں پسینے چھوٹنے لگتے ہیں ، نحو کی تو بات ہی نہ کرو یہ فن تو ہمارے لیے ایک مصیبت بن ہی گیا ہے، عربی ادب کی کتابوں میں نثر والی کتابیں تو قدرے غنیمت ہیں مگر اشعار والی کتابوں سے ہم روزانہ پناہ مانگتے ہیں ، اب تو کلیلہ و دمنہ ، ازہار العرب ، مختارات اور دیوان الحماسہ پڑھنے سے پہلے ان کے بارے میں سن کر ہارٹ اٹیک آنے لگتا ہے ، منہاج العربیہ بھی اب ہماری پریشانی کا باعث دھیرے دھیرے بنی جارہی ہے ، بلاغت کی کتابیں تو اب مدارس میں برائے نام داخل نصاب ہیں۔
    ہندوستانی مدارس بالخصوص اہل حدیثوں کے اداروں میں عربی زبان و ادب پر پڑھائی جانے والی کتابوں کا مختصر تذکرہ مناسب ہے۔
    تمرین النحو ، امین النحو ، الآجرومیۃ، تسہیل النحو ،شرح مائۃ عامل ، ہدایۃ النحو ،شرح قطر الندی ، شرح شذور الذہب ، تمرین الصرف ، امین الصرف ، تسہیل الصرف ، امین الصیغۃ ، التطبیق الصرفی ، شذ العرف ، علم التصریف ،معلم الإنشاء مکمل ، آزاد إنشاء ، القراء ۃ الرشیدۃ مکمل ، القراء ۃ الراشدۃ مکمل ، قصص النبیین ، کلیلۃ دمنۃ ، ازہار العرب ، مختارات ، دیوان الحماسۃ ، المعلقات السبع ، مجموعۃ من النظم و النثر،البلاغۃ الواضحۃ ، دروس البلاغۃ (یہ میری ناقص علم کے اعتبار سے ہے ) ان کے علاوہ دیگر داخل نصاب عربی کتابیں ہم تقریباً دس سال پڑھتے ہیں اور نتیجہ صفر کا نکلتا ہے کہ نہ تو عربی بولنا آتا ہے اور نہ ہی لکھنا بلکہ ۹۵فیصد طلباء ایسے ہوتے ہیں جو معمولی معمولی جملے کے لیے پریشان رہتے ہیں ، اوپر ذکر کی گئی کتابیں بہت اہم اور مفید ہیں اگر ہم محنت سے انہیں حرفا ًحرفاً سمجھ کر پڑھ لیں تو……
    آخر اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں ؟ کیوں ہم طلباء اس قدر اہم کتابیں پڑھنے کے باوجود بھی فن ادب و لغت میں بالکل کچے رہتے ہیں ، آئیے چند اہم اسباب ذکر کرکے ان کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں:
    ۱۔ عدم دلچسپی :یہ بہت ہی اہم اور بنیادی سبب ہے کسی بھی فن کو پڑھنے ،سمجھنے اور اس میں مہارت پیدا کرنے کے لیے اس فن کے اندر دلچسپی پیدا کرنا بہت اہم اور مفید ہوا کرتا ہے مگر افسوس کہ آج ہمارے اہل حدیث اداروں میں طلباء و اساتذہ کو اس فن کے ساتھ کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ، ایسا لگتا ہے کہ جیسے عربی زبان و ادب کا پڑھنا حرام ہے یا پھر کراہتاً و رسماً پڑھ لیا جاتا ہے تاکہ سلف کی اقتدا ہو جائے ، اگر کہا جائے کہ اس فن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو غلط نہیں ہو گا، یہی وجہ ہے کہ آج مدارس کے ذمہ داران و کارکنان کو اپنے اپنے مدرسے میں عربی ادب پڑھانے والے جلدی اساتذہ نہیں ملتے ، تلاش بسیار کے بعداکا دُکا مل جاتے ہیں جو بے چارے اکیلے پورے ادارہ میں عربی ادب کی تعلیم کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں اور جیسے تیسے کرکے کسی طرح نصاب مکمل کرادیتے ہیں ۔
    لہٰذا اس جانب سخت محنت ، لگن ،شوق و ذوق اور دلچسپی کی ضرورت ہے تاکہ اس فن میں مہارت حاصل کی جا سکے۔
    ۲۔ اس فن کی تعلیم میں کوتاہی : آئیے مختصرا ًجاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اہل حدیث اداروں میں اس فن کی کتابیں کس طرح پڑھائی جاتی ہیں۔
    ابتدائیہ یعنی ادنیٰ میں نحو کی کتابیں رٹا دی جاتی ہیں (بہت سارے اساتذہ ابتدا میں نحو کے ر ٹانے کے قائل ہیں میں انہیں غلط نہیں کہتا بلکہ رٹانا چاہئے، لیکن رٹانے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن کے اعتبار سے قدرے تشریح بہت ضروری ہے اور ایسا کرنا نفع بخش بھی ہے ) طلباء جب دوسری جماعت میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں امین النحو رٹا دیا جاتا ہے کچھ ہونہار طلبہ اگر سمجھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو انہیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ اگلے سال یعنی تیسری جماعت میں پڑھو گے اور وہاں سمجھ لینا (یہاں پر اساتذہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ رٹانے کے ساتھ ساتھ تشریح بھی کرنی چاہئے، ابتدائی طلباء کے لئے امین النحو اردو میں فن نحو کی بہت جامع کتاب ہے اور بہت سہل ہے مگر اب کے طلباء کے لیے آسان نہیں ہے ، اس لیے اساتذہ کو یہ کتاب رٹانے کے ساتھ ساتھ کثرت امثال دے کر سمجھانا بھی چاہئے ، چلئے یہاں تو کسی طرح نحو رٹا دیتے ہیں مگر جب وہی طلباء ثانیہ ، ثالثہ میں داخل ہوتے ہیں اور سامنے ’’ہدایۃ النحو‘‘ ہوتی ہے تو اس وقت اساتذہ کہتے ہیں کہ ساری باتیں ’’امین النحو‘‘ میں گزر چکی ہیں اور آپ لوگ سمجھ چکے ہیں اس لیے ترجمہ کرکے جلدی سے نصاب پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اب ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نیچے کلاس میں کہا گیا تھا کہ رٹ لو اگلے سال سمجھنا اور یہاں کہا جا رہا ہے کہ پچھلے سال سمجھ لیے ہوں گے اس لیے بلا تفہیم کتاب ختم کرا دی جاتی ہے ، وہی طلباء جب رابعہ میں پہنچتے ہیں تو ان کے سامنے خطرناک’’ شرح قطر الندیٰ‘‘ یا’’ شرح شذور الذھب‘‘ رکھی ہوتی ہے ان کتابوں کو دیکھ کر بہت سارے طلباء اس فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ اس سال کیسے پاس ہوں گے ،ویسے بھی ایسی صورت حال میں یہ کتابیں طلباء کے ذہنی مستوی سے بلند ہوتی ہیں اور طلباء کو یہی نہیں معلوم رہتا ہے کہ سبق کہاں سے ہے ،اختلافات وغیرہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں ،ایسا ہی کچھ سلوک علم صرف کے ساتھ بھی ہوتا ہے،عربی نثر کی کتابوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ۔
    بہت سارے مدارس میں تو اساتذہ کلاس میں آکر خود ہی اعراب پڑھیں گے اور خود ہی ترجمہ کر کے چلے جائیں گے، انہیں کچھ احساس نہیں کہ طلباء سو رہے ہیں کہ جاگ رہے ہیں ، بات ان کی سمجھ میں آئی کہ نہیں ، بعض مدارس میں تھوڑا سختی کرتے ہیں تو صرف اعراب پڑھوا لیتے ہیں باقی کا کام خود یہ رحم دل اساتذہ کر دیتے ہیں ، کچھ مدارس میں تھوڑا اور سختی سے کام لیا جاتا ہے تو طلباء کو اعراب کے ساتھ ساتھ معنی بھی تلاش کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے ، جبکہ معدودے چند مدارس ایسے بھی ہیں جہاں سارا کام طلباء ہی کو کرنا رہتا ہے ، لغت سے معنی تلاش کرنا ، پھر اعراب پڑھنا ، ترجمہ کرنا اور ترکیب بھی کرنا بہت کام رہتا ہے، اساتذہ صرف غلطیوں پر تنبیہ کرتے ہیں بس اور کچھ نہیں ، لیکن در حقیقت یہی لوگ کامیاب بھی رہتے ہیں ۔
    انشاء کی تعلیم بھی اسی ظلم کا شکار ہے ، اساتذہ کلاس میں داخل ہوتے ہی چاک ہاتھ میں لے کر اردو کا عربی اور عربی کا اردو بورڈ پر لکھ دیں گے اور طلباء ان جملوں کو اپنی کاپیوں میں نوٹ کر لیں گے۔سال بھر اسی طرح چلتا رہتا ہے جوکہ بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے ۔
    ۳۔ شروحات کا استعمال : جس طرح کھانے میں زہر انسان کے لیے موت کا باعث ہے بالکل اسی طرح شروحات کا استعمال بھی طلباء و اساتذہ کی علمی صلاحیت کو مکمل طور سے ختم کرنے کے لیے بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اگر کہا جائے کہ داخل نصاب کتابوں کی شروحات طلباء و اساتذہ کی زندگی کو کھوکھلا کر دیتی ہیں تو غلط نہ ہو گا،افسوس ہوتا ہے جب شروحات لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ چونکہ عربی کتابیں طلباء پر گراں گزر رہی ہیں چنانچہ ان کی مشکلات کو آسان کرنے اور ان کی علمی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے طلباء کے بار بار اصرار پر یہ شرحیں لکھی گئی ہیں اور اہل علم کے درمیان ان کی خوب خوب پذیرائی بھی ہوتی ہے اور مزید یہ کہ شارح کو تعریفی کلمات سے بھی نوازا جاتا ہے ۔
    نصابی کتابوں کی شروحات لکھنے والے اہل علم حضرات سے ادباً گزارش ہے کہ خدارا آپ نصابی کتابوں کی شرح لکھ کر طلباء کے لیے زہر تیار نہ کریں ، ان کی فطری صلاحیتوں کو قتل نہ کریں ، ان کی فکری وسعتوں کو محدود نہ کریں ، ان کی فہم و فراست کو کمزور نہ کریں ، ان کی سوچ بوجھ کی صلاحیت کو نہ ماریں ، اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کا ہنر نہ سکھائیں ، اگر آپ کو شروحات ہی لکھنا ہے تو بہت ساری کتابیں موجود ہیں آپ ان کی شرح کریں اور خوب کریں تاکہ عوام کو بھی فائدہ ہو ، آپ عقائد و عبادات پر لکھی گئی کتابوں کی شرح کریں ، معاملات و دیگر مسائل پر لکھی گئی کتابوں کی شرح لکھیں ، خود بھی مستفید ہوں اور دوسروں کو بھی اپنے علم سے فائدہ پہنچائیں ، مگر خدارا نصابی کتابوں کی شرح لکھ کر طلباء کی زندگی برباد نہ کریں ،بلکہ عربی شروحات کی طرف طلباء کو ابھاریں تو فائدہ ہوگا۔
    ۴۔ اس فن میں ماہر اساتذہ کی قلت : گلاس کے اندر جتنا پانی ہوگا اتنا ہی نکلے گا ،ظاہر سی بات ہے جب مدارس میں رسمی طور پر اس فن کو پڑھایا جائے گا تو اسی اعتبار سے طلباء بھی باصلاحیت ہو کر نکلیں گے اور آگے چل کر پھر وہی طلباء اپنے شاگردوں کو جوں کا توں پڑھائیں گے، ایک دیہاتی مقولہ ہے ’’جیسے کرنی ویسے بھرنی ‘‘۔ بعض اساتذہ سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ جب ہمارے اساتذہ نے ہمیں نہیں سمجھایا تو ہم آپ کو کیا سمجھائیں گے ، اگر تعلیم و تعلم کا یہی سلسلہ جاری رہا تو بعید نہیں کہ جماعت اہل حدیث میں عربی زبان و ادب کے ماہرین کی قلت ہو جائے گی اور ہم اپنے کئے کرائے پر ماتم کناں ہوں گے، لہٰذا اس جانب سخت محنت کی ضرورت ہے اور ایسے طلباء کو تیار کرنا ہوگا جو آگے چل کر عربی زبان و ادب میں مہارت پیدا کرکے امت کی خدمت کر سکیں ۔
    یہ چند اسباب ہیں جو میں نے اپنے اعتبار سے لکھ دیا ہے ، اس فن کے ماہرین سے اس جانب خصوصی توجہ دینے کی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنا کچھ وقت اس عظیم کام میں بھی صرف کریں اور اس فن کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، نظماء مدارس بھی اپنے اپنے ادارے میں ماہرین فن کو ہی ترجیح دیں اور اس فن کے لیے محنت کریں ، طلباء اور اساتذہ سے بھی محنت کروائیں، مہینے میں ایک دو بار عربی زبان و ادب کا مسابقہ کرائیں یا پھر اس کی نشر و اشاعت کے لیے انجمن ندوۃ الطلبۃکی جانب سے اس کے لیے پروگرام کا اہتمام کرائیں ، تو ان شاء اللہ خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔
    اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم طلباء ،اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کو اس فن کو پڑھنے پڑھانے اور اس کی نشر و اشاعت کی توفیق عطا فرما ئے اور ہمارے کاموں میں اخلاص پیدا فرمائے۔ آمین
    نوٹ : طلباء ، اساتذہ اور ارباب مدارس سے ادبا ًگزارش ہے کہ کوئی اس مضمون کو اپنے لیے تنقید نہ سمجھے ، بلکہ ایک مشورہ سمجھتے ہوئے اصلاحی نظر سے اس کا مطالعہ کرے۔جزاکم اللہ خیر الجزاء
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings