Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دینی خدمات پر اجرت

    اجرت کا معنی ہے مزدوری، معاوضہ۔اور اس کا استحقاق تین چیزوں سے ہوتا ہے۔ایک ہے حرکت وعمل، دوسری چیز ہے وقت اورتیسری چیز ہے اس کا نفع دوسرے تک پہنچنا۔چاہے دینی کام ہو یا دنیاوی اگر اس کا نفع متعدی ہے تو اجرت لی جا سکتی ہے۔
    اگر کوئی شخص آپ کے لیے اپنا وقت دیتا ہے اور اس میں مطلوبہ حرکت و عمل کرتا ہے،محنت کرتا ہے،جس سے آپ کو نفع پہنچتا ہے تو وہ اجرت کا مستحق ہے۔لیکن اگر اس نے جو وقت دیا محنت کی وہ آپ کے آرڈر کی تکمیل کے لیے تھا تو معاوضے کا استحقاق کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
    اس معنی میں دیکھیں تو بچوں کو پڑھانے والے مدرسین، نماز پڑھانے والے ائمہ، وعظ کہنے والے خطباء اور نکاح پڑھانے والے قاضی، دعا کرنے والے راقی اور جنازہ پڑھانے والے مولوی معاوضے کے مستحق ہیں۔کیونکہ وہ وقت خرچ کرتے ہیں اور محنت بھی کرتے ہیں نیز ان کا فائدہ متعدی ہوتا ہے۔مزید یہ خود سے نہیں کرتے بلکہ آپ کے مطالبے پر کرتے ہیں۔
    دینی خدمات میں کساد بازاری کی اصل وجہ:
    ابن خلدون مقدمہ کے اندر فرماتے ہیں:’’لوگوں کا وقت صرف کرنا اور مخصوص حرکات و سکنات انجام دے کر آرڈر کی تکمیل کرنا ہی مال کا سرچشمہ ہے۔اگر اس کا معاوضہ نہیں دیا گیا تو لوگ وقت اور محنت صرف کرنا بند کردیں گے۔پھر ملک کساد بازاری کا شکار ہوجائے گا۔
    گویا اگر کسی مخصوص کام پر معاوضہ نہیں ادا کیا جاتا تو اس کا مطلب ہے مارکیٹ میں اس کام کی ویلیو نہیں چنانچہ ہنر مند اس کام اور پیشے سے دھیرے دھیرے کنارہ کرلیتے ہیںاور یہ فن اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔
    قرآن پر اجرت:
    نبی کریم ﷺ دعوت دین میں وقت بھی صرف کرتے تھے اور محنت بھی کرتے تھے یعنی وقت اور عمل دونوں صرف کیا جارہا ہے اور جو ایسا کرے وہ اجرت کا مستحق ہے،آپ اجرت کے مستحق تھے،اسی لیے دعوت کے مقابلے میں قرآن میں اجرت کا ذکر آیا۔قل لا اسئلکم علیہ من اجر۔اگر دعوت دین میں وقت و محنت اجرت کا استحقاق نہ رکھتی تو اس کا ذکر ہی نہیں آنا چاہیے تھااور اجرت نہ لے کر جو احسان کیا جا رہا تھا وہ کبھی احسان ہی تصور نہ ہوتا۔
    تب پھر اجرت کیوں نہیں لی گئی؟
    آپ صلی اللہ علیہ و سلم نبی تھے اور اسلامی دعوت کے اولین سرپرست،دعوت کو کامیاب کرانے کے لیے آپ نے اس حق سے تنازل فرما لیا تھا،صورت حال یوں تھی کہ لوگ مفت میں نہیں سنتے تھے،اگر معاوضہ دینا پڑتا تب کیا حال ہوتا۔ آپ کسی دعوہ سینٹر، ناظم اور متولی کے حکم پر یہ کام انجام نہیں دے رہے تھے،یعنی وقت خرچ کرنا بھی تھا اور حرکت و عمل بھی تھالیکن کسی انسان کا آرڈر نہیں تھا۔اگر کوئی مبلغ، داعی یا امام خود سے یہ کام کرنا چاہے اور دعوت کی کامیابی کے لیے وہ یہ کام فری میں کرے تو یہ بہت اچھی بات ہے لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کو ان خدمات کی ضرورت ہو،داعی وقت بھی صرف کرے، محنت بھی کرے لیکن اس کا معاوضہ نہ دیا جائے یا کم سے کم دیا جائے ۔یہ تو ظلم ہے اوریہ آج کے دور کی ایجاد ہے۔
    اجرت نہ ملنے کے نتائج:
    آج ہر فن ترقی کرکے تناور درخت بن گیا ہے ،یہاں تک کہ کھیل بھی، کھیل کود کی تعلیم ہوتی ہے اور اس کے لیے پیشہ ور لوگ ہیںتو بھلا دین کے لیے کچھ رجال مخصوص کیسے نہ ہوں گے؟آپ ان کو دیکھ لیں جو دین کا کام فری میں کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں،ان کا کام جز وقتی ہوتا ہے وہ کسی اور پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں اور پورا ٹائم نہیں دے پاتے ،آپ کودین کے کام کے لیے ایسے رجال کی ضرورت ہے جو چوبیس گھنٹوں کے لیے وقف ہو،مسجد میں بیٹھا رہے ،مدرسے میں حاضری دے،دعوت کے لیے سفر کرتا رہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ فری میں یہ کام کرے؟ ہاں ٹھیک ہے!آپ دراصل چاہتے ہیں کہ یہ میدان کساد بازاری کا شکار ہوجائے اور اس کو انجام دینے والا کوئی نہ ملے اور اگر یہی نیت ہے تو دینی کاموں میں مندی اور کساد بازاری کے اولین ذمہ دار آپ ہیں۔
    اللہ ہمیں علماء و مدرسین ودعاۃ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
    کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ رقیہ پر اجرت کا استحقاق کیسے ہوا؟ نیز جن حالات میں نبی کریم ﷺ استحقاق کے باوجود اجرت نہیں لیتے تھے آج ویسے ہی بلکہ اس سے سخت ترین حالات ہیں لہٰذا علماء آج کیوں اجرت لے رہے ہیں؟
    رقیہ پر اجرت لینے کی واضح دلیل وہ حدیث ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے حدیث نمبر:۵۴۰۴ لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔
    رہی یہ بات کہ لوگ ویسے بھی دین کی باتیں نہیں سنتے،اجرت رکھ دینے کے بعد مزید نہیں سنیں گے،بات تو ٹھیک ہے لہٰذا آئیے اس کا حل سوچتے ہیں۔یعنی بنا اجرت لیے دعوت دین کا فریضہ کیسے انجام دیا جا سکتا ہے؟
    حل نمبر(۱) بنا اجرت دعوت دین کو فروغ دینے کے لیے پہلا حل یہ ہے کہ:
    طبقہ اشرافیہ جن کے یہاں روپے پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیں۔چونکہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے،اس لیے وقف شدہ بیٹے کو بھی شادی کرنی ہے،بچے پالنے ہیں،لہٰذا فیکٹری یا جائداد وغیرہ کا ایک حصہ اس بیٹے کے نام کردیں،تاکہ منافع یا کرایہ آتا رہے اور یہ بیٹا فکر معاش سے آزاد ہوکر دین کا کام کرتا رہے،باپ کے علاوہ بھائی یا دیگر رشتے دار بھی اسی طرح وقف کرسکتے ہیں یا اس وقف میں حصہ لے سکتے ہیں۔
    حل نمبر(۲) فری میں دعوت الی اللہ کے لیے دوسرا حل یہ ہے کہ :
    جہاں مسجد واقع ہے وہاں پر بہت سے علماء موجود ہوں جو اپنا کاروبار کرتے ہوں وہ سب باری باری امامت و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہیںاور جو عالم نہیں وہ صاف صفائی و مینٹنینس وغیرہ کا خیال رکھے اس طرح فری میں یہ کام ہوسکتا ہے۔
    حل نمبر (۳) تیسرا حل یہ ہے کہ جو متوسط یا غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور عالم دین ہیں وہ بنا اجرت لیے یا آدھی اجرت لے کر دین کا کام کرتے رہیں۔
    اوپر جو حل پہلے نمبر پر تجویز کیا گیا ہے اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔کم از کم مجھے اس طرح کا کوئی شخص نہیں نظر آرہا اگر کسی کو ملے تو آگاہ فرمائیں۔
    حل نمبر۲ میں قباحت یہ ہے کہ اس میں بد نظمی ہوتی ہے۔کوئی بھی یہ کام خود پر واجب نہیں سمجھے گابلکہ سب نفل سمجھ کر کریں گے ۔بھلا ناغہ کے ساتھ تدریس یا امامت وغیرہ ممکن ہے؟ کیا بنا تسلسل کے مسجد و مدرسے میں صفائی باقی رہ سکتی ہے؟
    جہاں تک حل نمبر ۳کی بات ہے تو لوگ یہی چاہتے ہیں کہ کوئی غریب پس منظر کا عالم آئے اور فری میں دعوت و تبلیغ کرے یا آدھی تنخواہ لے کر دعوت کا کام کرے۔
    لیکن آپ غور کریں گے تو لگے گا یہ ظلم ہے اور اللہ و رسول نے ظلم سے منع کیا ہے۔
    یہ سماج کا ظلم ہی ہے کہ دین کا نام لے کر اجرت آدھی دیتے ہیں لیکن اسے پوری سمجھتے ہیں۔تنخواہ کام کے عوض دیتے ہیں لیکن اسے ہدیہ یا امداد و صدقہ گردانتے ہیں اور یہ بات لاک ڈاؤن نے ثابت کردی ہے۔
    اگر اس تنخواہ کو آدھی سمجھتے تو لاک ڈاؤن میں اس کا آدھا نہیں کاٹتے اور اگر یہ ہدیہ و امداد ہوتی تو لاک ڈاؤن میں تدریس و امامت کا کام بند ہونے پر تنخواہ نہ بند کرتے۔
    کیا یہی انصاف ہے کہ مستطیع حضرات تو اس کام سے اس لیے الگ رہیں کہ اس میں خاطر خواہ کمائی نہیں اور غریب سے فری میں یا آدھی اجرت لے کر کام کرنے کا مطالبہ کریں۔ساتھ ہی ساتھ خیال آرائی کریں کہ جن اسباب کے تحت رسول اکرم ﷺ مفت میں تبلیغ کرتے تھے۔وہی اسباب آج بھی موجود ہیں لہٰذا آپ مفت میں یہ کام کیوں نہیں کرتے؟
    بعض نے تو اجرت لینے کو دین کی تجارت کا نام دے دیا ہے۔حد ہے!کیا اجرت لینا خلوص کے منافی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کو مال غنیمت میں حصہ ملنے سے جہاد جیسا عظیم عمل رائیگاں چلا جاتا،خلافت راشدہ کے دور میں اسلام میں اسبقیت کی بنیاد پر وظیفہ زیادہ ملنے سے صحابہ آخرت میں کوئی اجر نہ پاسکتے۔
    اور اگر اس پیشے کو فری آف کاسٹ رکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو متمول حضرات اپنے بچوں کو آگے کیوں نہیں لاتے؟ اہل خیر حضرات ائمہ و مدرسین کے لیے کوئی وقف کیوں نہیں کرتے؟
    ہر کام مکمل فراغ چاہتا ہے، جز وقتی تدریس و امامت سے خدمات کی تکمیل ممکن نہیں۔آپ غریب علماء سے فری کام کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں اور امامت کے ساتھ تجارت وغیرہ کرنے کا مشورہ کیسے دے سکتے ہیں جب کہ کام کی طبیعت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دوسری مشغولیت ممکن نہیں۔
    ضرورت ہے کہ ہم اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھیں:
    ورنہ نوجوان اس کیرئر سے ہاتھ اٹھا لیں گے اور کسی دوسرے پیشے سے منسلک ہوجائیں گے۔
    پھر انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
    اللہ ہمیں اس معاملے کی سمجھ عطا فرمائے ۔آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings