Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سجدۂ تلاوت کے احکام و مسائل قسط (ثانی)

    ممنوعہ اوقات میں سجدۂ تلاوت کا حکم:
    ممنوعہ اوقات میں سجدۂ تلاوت کے متعلق دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔
    پہلی رائے: کسی بھی وقت سجدۂ تلاوت جائز ہے ،گرچہ وہ وقت ان اوقات میںسے ہوجن میں نمازکی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے۔
    یہی شافعیہ کا مذہب ہے ، ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی ہے ۔دیکھیں۔
    [المجموع شرح المہذب – ط المنیریۃ: للنووی:۴؍۱۷۰،وروایۃ عن احمد:الکافی فی فقہ الإمام احمد لابن قدامۃ:۱؍۲۴۰]
    واختاره ابنُ تَيميَّة:قال ابنُ تيميَّة:
    ’’الرِّواية الثانية:جوازُ جميع ذوات الاسباب، وهي اختيار ابي الخطاب، وهذا مذهبُ الشافعي، وهو الرَّاجح‘‘۔
    وقال ايضًا:’’وامَّا إذا حدث سبَبٌ تُشْرَع الصلاة لاجله:مثل تحيَّة المسجد، وصلاةِ الكسوف، وسجود التلاوة، وركعتي الطَّواف ِ ونحو ذلك،فهذه فيها نزاع مشهورٌ بين العلماء ، والاظهَرُ جوازُ ذلك واستحبابُه فإنَّه خير لا شَرَّ فيه‘‘۔
    ابن تیمیہ کی بھی یہی رائے ہے۔چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’تمام سببی نمازیں  منوعہ اوقات میں جائز ہیں اور اسی رائے پر ابو الخطاب بھی ہیں اور یہی شافعیہ کا بھی مذہب ہے ،راجح بھی یہی ہے۔
    [مجموع الفتاوی: ۲۳؍ ۱۹۱]
    مزید کہتے ہیں اگر کوئی سبب ہے جس کی وجہ سے نمازادا کرنی ہو اور اس سبب کی بنیاد پر نمازمشروع بھی ہے ،جیسے تحیۃ المسجد ،صلاۃ کسوف ،سجدہ ٔتلاوت اورطواف کی دو رکعتیں وغیرہ ۔چنانچہ ان تمام مسائل میں اختلاف اہل علم کے مابین مشہو ر ہے،لیکن جوازکا پہلو راجح معلوم ہوتا ہے ،اور اس کے مستحب ہونے میں خیر ہی ہے نہ کہ شر۔ دیکھیں : [مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۵۰۲]
    قال الصنعاني:’’ادلةُ وجوبِ الطَّهارة وردت للصلاة، والسَّجدة لا تسمي صلاةً، فالدليلُ علٰي من شَرَطَ ذلك، وكذٰلك اوقاتُ الكراهة ورد النهيُ عن الصلاة فيها، فلا تشمَلُ السجدة الفردة‘‘۔
    علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’طہارت سے متعلق وارد دلائل نماز کے لیے ہیں اور سجدۂ تلاوت کو نماز نہیں کہا جاسکتاہے۔لہٰذا سجدۂ تلاوت کے لیے نماز کی شرط لگانے والوںکے لیے دلیل پیش کرنا ضروری ہے۔اسی طرح ممنوعہ اوقات سے متعلق وارد دلائل نماز کے لیے ہیں نہ کہ سجدۂ تلاوت کے لیے‘‘۔
    دیکھیں:[سبل السلام،الناشر:دار الحدیث:۳۱۱]
    قال الشوكاني:’’روي عن بعض الصحابة انَّه يُكْرَه سجود التلاوة الاوقاتَ المكروهة۔والظاهر عدم الكراهة، لانَّ المذكور ليس بصلاة، والاحاديث الواردة في النهي مختصَّة بالصلاة‘‘۔
    علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’بعض صحابہ کے بارے میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ مکروہ اوقات میں سجدۂ تلاوت کو مکروہ سمجھتے تھے ،حالانکہ بظاہر سجدۂ تلاوت تو مکروہ نہیں معلوم ہوتاہے ،کیونکہ سجدہ ٔتلاوت نماز نہیں ہے ،ممانعت والی احادیث نمازکے ساتھ مختص ہیں‘‘۔
    دیکھیں:[نیل الاوطار ،الناشر:دار الحدیث، مصر۔۳؍۱۲۶،وابن باز:قال ابن باز: وامَّا ذواتُ الاسبابِ، مثل:صلاة الكسوف، وسجود التلاوة، وصلاة الركعتين إذا دخل الإنسان،المسجد وكان يريد الجلوس، وهي المعروفة بتحية المسجد- فتجوز في وقت النهي علي الرَّاجِحِ من اقوال اهل العلم]
    جہاں تک سببی نمازوں کا مسئلہ ہے جیسے صلاۃکسوف،سجدۂ تلاوت اورتحیۃ المسجد تو ان تمام نمازوں کو ممنوعہ اوقات میں بھی اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ادا کرنا جائز ہے اوریہی راجح بھی ہے ۔
    دیکھیں:[مجموع فتاوی ابن باز: ۱۱؍۲۹۱]
    قال ابن عثيمين:’’كلُّ صلاةٍ لها سببٌ، فإنَّها تُفْعَل ولو في وقتِ النَّهيِ، كسجود التلاوة، وتحيَّةِ المسجد، وما اشبه ذلك‘‘۔
    ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’سببی نمازیں ممنوعہ اوقات میں بھی ادا کی جائیں گی ،جیسے سجدۂ تلاوت ،تحیہ المسجد وغیرہ‘‘
    دیکھیں:[مجموع فتاوی ورسائل العثیمین ،الناشر :دار الوطن ۔دار الثریا:۱۴؍۳۰۹]
    نوٹ: یہاں پر ابن عثیمین رحمہ اللہ نے سجدہ ٔتلاوت کو نمازقرار دیا ہے ،ان شاء اللہ آگے اس مسئلہ پر بھی بات ہوگی۔
    سجدۂ تلاوت کے لیے استقبال قبلہ کا حکم:
    هل يشترط له ما يشترط للصلاة؟
    لا يشترط لسجود التلاوة ما يشترط للصلاة.
    ففي’’صحيح البخاري‘‘مُعلّقاً مجزوماً به ’’وكان ابن عمر رضي اللّٰه عنهما يسجد علٰي غير وضوء ‘‘۔
    وإِلي هذا ذهب ابن حزم -رحمه اللّٰه تعالٰي- في ’’المحلّي’’فقد قال فيه:’’ويسجد لها في الصلاة الفريضة والتطوّع، وفي غير الصلاة في كلّ وقت، وعند طلوع الشمس وغروبها واستوائها؛ إِلي القبلة، وإِلي غير القبلة وعلي طهارة وعلي غير طهارة‘‘۔
    وقال (ص :١٦٥) وامّا سجودها علي غير وضوء ، وإِلي غير القبلة كيف ما يمكن؟ فلانّها ليست صلاة، وقد قال عليه السلام:’’صلاة الليل والنهار مثني مثني‘‘فما كان اقلّ من ركعتين فليس صلاة، إلَاّ ان ياتيَ نصٌّ بانَّه صلاة، كركعة الخوف، والوتر، وصلاة الجنازة، ولا نصّ في انّ سجدة التلاوة صلاة۔
    ذهب جماهير العلماء إلي ان سجود التلاوة يشترط فيه ما يشترط للصلاة، فاشترطوا له الطهارة، واستقبال القبلة وسائر الشروط۔(ابن عابدين:٢؍١٠٦)، و الدسوقي:١؍٣٠٧)، و المجموع:٤؍٦٣) النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و المغني(١؍٦٥٠)
    سجدۂ تلاوت میں وہ شرائط نہیں لگائے جائیں گے جو نمازکے لیے لگائے جاتے ہیں۔
    صحیح بخاری میں تعلیق بالجزم یہ روایت ہے ،ابن عمر رضی اللہ عنہ بغیر وضو کے بھی سجدہ کرلیا کرتے تھے۔
    (صحیح البخاری : ۲؍۴۱)
    علامہ ابن حزم محلی:۵؍۱۵۷) میں لکھتے ہیں:’’انسان چاہے فرض نمازمیں ہو یا نفلی نمازمیں،یا یوںہی تلاوت کررہا ہو،وضو سے ہویا بغیر وضو سے ،سورج نکلتے وقت، ڈوبنے کے وقت ،زوال کے وقت ،رخ قبلہ کی طرف ہویا غیر قبلہ کی طرف ہوسجدہ تلاوت انسان کرسکتاہے‘‘۔
    جہاں تک سجدۂ تلاوت کا مسئلہ ہے تو بغیر وضو اور بغیر طہارت کے بھی ممکن ہے ،کیونکہ یہ نمازنہیں ہے ۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :’’رات اور دن کی نمازیں دو دو رکعتیں کرکے ادا کرنی ہیں،لہٰذا دورکعت سے کم ہو تو وہ نمازنہیں ہے ‘‘۔ (صحیح سنن ابی داؤد:۱۱۵۱)کیونکہ اس نمازہونے کے تعلق سے کوئی دلیل نہیں ہے۔علاوہ چند نمازوں کے جن کے تعلق سے دلیل وارد ہے کہ وہ نمازہیں ،جیسے صلاۃ الخوف ،صلاۃ وتر ،صلاۃ جنازہ۔
    سجدۂ تلاوت کے تعلق سے کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ نمازہے۔
    [الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ فی فقہ الکتاب والسنۃ المطہرۃللشیخ حسین بن عودۃ العوایشۃ:۲؍۱۸۵]
    راجح: سجدہ ٔتلاوت کے لیے نہ تو طہارت شرط ہے اور نہ ہی استقبال قبلہ ۔ہاں اختلاف سے بچتے ہوئے اور افضلیت پر عمل کرتے ہوئے وضواور قبلہ کے رخ کا اہمتام کرنا چاہئے۔
    بغورسننے والے کے لیے سجدۂ تلاوت کا حکم:
    عنِ ابنِ عمرَ قال:’’ كانَ رسولُ اللّٰهِ صلّي اللّٰهُ عليْهِ وسلَّمَ يقراُ علينا السُّورةَ قال ابن نمير في غيرِ الصَّلاةِ،ثم اتفقا فيسجدُ ونسجدُ معَهُ حتّي لا يجِدَ احدنا مَكانًا لموضعِ جبْهتِهِ‘‘۔
    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ ﷺ ہمیں سورہ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) نماز کے علاوہ میں (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں)، پھر آپ ﷺ (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی۔
    [صحیح ابی داؤد:۱۴۱۲]
    سجدۂ تلاوت قاری اور سننے والے دونوںکے لیے مشروع ہے۔جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ ہمارے سامنے قرآن پڑھتے ،پھر جب سجدہ والی آیت سے گزرتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے ‘‘۔
    قال ابن قُدامة: ’’ويُسَنُّ السجُّود للتالي والمستمِع، لا نعلم في هذا خِلافًا‘‘۔
    ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’تلاوت کرنے والے اوربغور سننے والے دونوں کے لیے سجدہ مشروع ہے اور مجھے نہیں معلوم کسی کا اس میں اختلاف ہے‘‘ ۔
    [المغنی:۱؍۴۴۶]
    دوران صلا ۃ سجدہ ٔتلاوت سے اٹھنے کے فوراً بعد رکوع میں جائیں گے یا کچھ آیتیں پڑھ کرجائیں گے۔
    ’’وَإِذَا رَفَعَ رَاْسَهُ مِنَ السُّجُودِ (سجود التلاوة ) قَامَ وَلاَ يَجْلِسُ لِلاِسْتِرَاحَةِ ، فَإِذَا قَامَ اسْتُحِبَّ اَنْ يَقْرَاَ شَيْئًا ثُمَّ يَرْكَعَ ، فَإِنِ انْتَصَبَ قَائِمًا ثُمَّ رَكَعَ بِلَا قِرَائَ ةٍ :جَازَ إِذَا كَانَ قَدْ قَرَاَ الْفَاتِحَةَ قَبْل سُجُودِهِ ، وَلَا خِلَافَ فِي وُجُوبِ الاِنْتِصَابِ قَائِمًا ، لاَِنَّ الْهُوِيَّ إِلَي الرُّكُوعِ مِنَ الْقِيَامِ وَاجِبٌ‘‘۔ انتهي۔[الموسوعة الفقهية:٢٤؍٢٢٣]
    ’’سجدۂ تلاوت سے آدمی سیدھے اٹھ جائے گا اور جلسہ استراحت کے لیے نہیں بیٹھے گا،ہاں سجدہ ٔتلاوت سے کھڑا ہونے کے بعد مستحب ہے کہ رکوع میں جانے سے پہلے چند آیتیں پڑھ لے ،لیکن اگر وہ بغیر تلاوت کے سیدھے رکوع میں چلے جاتا ہے اور اس نے پہلے سورہ فاتحہ پڑھ رکھاہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ سجدۂ تلاوت سے اٹھنے کے بعد قیام کی بنسبت رکوع واجب ہے‘‘۔
    وقال علماء اللجنة الدائمة:’’ليس علي من سجد لتلاوة آية سجدة في آخر سورة كـ:(الاعراف) و (النجم) و (اقرا) وهو في الصلاة ان يقرا قرآنا بعدها وقبل الركوع ، وإن قرا فلا باس ’’اللجنة الدائمة‘‘۔
    سعودی افتاء کمیٹی کا فتویٰ ہے :’’اگرکوئی سورہ اعراف ،نجم اور اقرء کی آخری آیتیں نماز میں رکوع میں جانے سے پہلے پڑھ کرسجدے میں جاتاہے تو پھر سجدسے اٹھنے کے بعد سیدھے رکوع میں جاسکتاہے اور اگر کچھ آیتیں پڑھ لیتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔
    [اللجنۃ الدائمۃ:۷؍۲۶۲]
    سجدۂ تلاوت کی دعا :
    عن عائشةَ رضيَ اللّٰهُ عنْها قالَت:’’ كانَ رسولُ اللّٰهِ صلّي اللّٰهُ عليْهِ وسلَّمَ يقولُ في سجودِ القرآنِ باللَّيلِ يقولُ في السَّجدةِ مرارًا سجدَ وجْهي للَّذي خلقَهُ وشقَّ سمعَهُ وبصرَهُ بحولِهِ وقوَّتِه‘ِ۔
    [صحیح :صحیح ابی داؤد:۱۲۷۳]
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں قرآن کے سجدوں میں کئی بار’’سجدَ وجْهي للَّذي خلقَهُ وشقَّ سمعَهُ وبصرَهُ بحولِهِ وقوَّتِه‘‘یعنی’’ میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی قوت و طاقت سے اسے پیدا کیا اور اس نے کان اور آنکھ بنائے پڑھاکرتے تھے‘‘۔
    البتہ ابو داؤد کی روایت میں’’فتبارك اللّٰه احسن الخالقين‘‘کا لفظ نہیں ہے۔
    دوسری دعا:
    ’’اللهم اكتُبْ لِي بها عندَك اَجْرًا، وضَعْ عني بها وِزْرًا، واجعلْها لي عندك ذُخْرًا، وتَقَبَّلْها مِنِّي كما تَقَبَّلْتَها من عبدِكَ داوُد‘‘۔
    ’’اے اللہ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹا دے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنا لے، اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرما جیسے تو نے اپنے بندے داؤد سے قبول کیا تھا‘‘ [حسن:صحیح وضعیف سنن الترمذی:۵۷۹]
    جاری………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings