-
ایام بیض کے روزوں کے حقائق ومسائل (احادیث صحیحہ اور آثار سلف کی روشنی میں) روزہ روحانی قوت کا اہم مظہر ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں روزہ کو تقویٰ کا بنیادی سبب قرار دیا ہے، روزہ زبان و دل، ہاتھ وپیر، آنکھ وکان اور جسم و روح کو پاکیزہ بناتا ہے اور اعضائے بدن کو روزے کی حالت میں رب کی رضا کا طالب بناتا ہے، رمضان کا فرض روزہ اپنی جگہ سال میں ایک بار آتا ہی ہے، اس کے علاوہ ایک مسلمان جس قدر ہوسکے اپنی سہولت کے حساب سے نفلی روزے کا اہتمام کرتا رہے، رسول اللہ ﷺنے متعدد قسم کے نفلی روزے رکھے ہیں، ان میں ایک قسم ایام بیض کے روزوں کی ہے جن کی بڑی فضیلت آئی ہے، روزہ کے عمومی فضائل اپنی جگہ لیکن خصوصیت کے ساتھ بھی ایام بیض کے روزوں کے فضائل وارد ہیں، نبی ﷺنے ان پر ہمیشگی برتی ہے اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے اور ابھارا ہے۔
انہی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر ایام بیض کے روزوں کے متعلق کچھ اہم معلومات پیش خدمت ہیں:
(۱) ایام بیض سے مراد اور اس کی وجہ تسمیہ:
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ:
’’ایام بیض یہ وہ دن ہیں جن کی راتیں چاندنی ہوتی ہیں اور ان میں اندھیرا نہیں ہوتا اور وہ تین ہیں جن کا تذکرہ ہے:پورے چاند کی رات، اس سے پہلے کی رات اور اس کے بعد کی رات، حرف ’’بِیض‘‘باء کے کسرہ کے ساتھ اس کی واحد ابیض آتی ہے اس سے مراد وہ راتیں ہیں جن میں رات کے آغاز سے اخیر تک چاند واضح اور روشن رہتا ہے‘‘۔(۱)
نیز امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’جہاں تک ان راتوں کو سفید کہنے کی وجہ ابن قتیبہ اور جمہور نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ چاند کے طلوع ہونے سے لے کر غروب ہونے تک سفید رہتی ہیں اور اس کے برعکس بھی کہا گیا ہے‘‘۔(۲)
(۲) ایام بیض کے روزوں کے سلسلے میں وارد صحیح احادیث وآثار:
آپ ﷺسے بہت سی ایسی صحیح وصریح حدیثیں وارد ہیں جن میں آپ ﷺنے ایام بیض کے روزوں کے فضائل بیان کئے ہیں، ان کو رکھنے کی وصیت کی ہے اور ان پر ابھارا ہے، ان میں سے بعض احادیث ملاحظہ فرمائیں :
۱ ۔ عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه، قَال:’’أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ، بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَي، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَرْقُدَ‘‘۔
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین چیزوں کی تلقین فرمائی، ہر ماہ تین روزے رکھنے کی، چاشت کی دورکعتوں کی اور اس بات کی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کروں‘‘۔(۳)
۲۔ عن مُعَاذَةُ الْعَدَوِيَّةُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’أَكَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ؟ قَالَتْ:نَعَمْ، فَقُلْتُ لَهَا:مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ كَانَ يَصُومُ؟قَالَتْ:لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ يَصُومُ‘‘۔
ترجمہ :’’سیدہ معاذہ العدویہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :’’کہ کیا رسول اللہ ﷺہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر پوچھا کہ کن دنوں میں (روزے رکھتے تھے؟) انہوں نے کہا کہ کچھ پرواہ نہ کرتے، کسی بھی دن روزہ رکھ لیتے تھے‘‘۔(۴)
۳۔ عَنْ أَبِي قَتَادَة: رَجُلٌ أَتَي النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال: كَيْفَ تَصُومُ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَي عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، غَضَبَهُ، قَال:رَضِينَا بِاللّٰهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ غَضَبِ اللّٰهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هٰذَا الْكَلَامَ حَتَّي سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟ قَال: لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ- أَوْ قَالَ- لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ قَالَ:كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ:وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ؟ قَال:كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ:ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ:كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ:وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَي رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاء َ، أَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ‘‘۔
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: ’’آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ اس کی بات سے رسول اللہ ﷺ غصے میں آگئے، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺکا غصہ دیکھا تو کہنے لگے:ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺکے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اوراس کے رسول ﷺکے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺکا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول ﷺاس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر(مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا:’’نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا‘‘، یا فرمایا:’’اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔‘‘کہا:اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتاہے، آپ ﷺنے فرمایا:’’کیا کوئی اس کی طاقت رکھتاہے؟ پوچھا:اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا:‘’یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے‘‘، پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور دو دن افطار کرتاہے۔آپ ﷺنے فرمایا:’’مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی، پھر رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان(کے روزوں) سے(لے کردوسرے )رمضان(کے روزے)یہ (عمل)سارے سال کے روزوں(کے برابر)ہے، اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی، اور یوم عاشورہ کاروزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا‘‘۔ (۵)
۴۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’مَنْ صَامَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ‘‘۔فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ:{مَنْ جَاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا} الْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ‘‘۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو یہی صیام الدھر ہے، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ارشاد باری ہے:’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر أمثالہا ‘‘ ’’جس نے ایک نیکی کی تو اسے (کم سے کم) اس کا دس گنا اجر ملے گا‘‘، گویا ایک دن (کم سے کم) دس دن کے برابر ہے‘‘۔ (۶)
۵۔ عن عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص قال: أُخْبِرَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ يَقُولُ: لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ مَا عِشْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’آنْتَ الَّذِي تَقُولُ ذَلِكَ؟‘‘، فَقُلْتُ لَه: قَدْ قُلْتُهُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَنَمْ وَقُمْ وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْر‘‘، قَالَ قُلْتُ:فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَال:’’صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ‘‘، قَالَ:قُلْتُ:فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَالَ:’’صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا وَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ‘‘، قَال:قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ‘‘، قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَمْرٍ وَرَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا:لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْأَيَّامَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي‘‘۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اللہ ﷺکو اطلاع دی گئی کہ وہ (عبداللہ)کہتا ہے:میں جب تک زندہ ہوں (مسلسل) رات کا قیام کروں گا اور دن کا روزہ رکھوں گا، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم ہی ہو جو یہ باتیں کرتے ہو؟‘‘میں نے آپ ﷺسے عرض کی:اللہ کے رسول!واقعی میں نے ہی یہ کہا ہے، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم یہ کام نہیں کرسکو گے، لہٰذا روزہ رکھو اور روزہ ترک بھی کرو، نیند بھی کرو اور قیام بھی کرو، مہینے میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی (کا اجر) دس گنا ہے، اس طرح یہ سارے وقت کے روزوں کی طرح ہے‘‘۔میں نے عرض کیا:میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺنے فرمایا:’’ایک دن روزہ رکھو اور دو دن نہ رکھو، ‘‘کہا:’’میں نے عرض کیا:میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں، آپﷺنے فرمایا:’’ایک دن روزہ رکھو اورایک دن نہ رکھو‘‘۔یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے، اور یہ روزوں کا سب سے منصفانہ(طریقہ) ہے۔کہا:میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺنے فرمایا:’’اس سے افضل کوئی صورت نہیں‘‘۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات مجھے اپنے اہل وعیال سے بھی زیاد عزیز ہے کہ میں (مہینے میں) تین دنوں کی بات تسلیم کرلیتا جو رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمائی تھی۔(۷)
۶۔ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ وَأَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ‘‘۔
ترجمہ : حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’ہر مہینے تین روزے رکھنا (ثواب کے لحاظ سے) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہے، اور ایام بیض (چمکتی راتوں والے دن) تیرہ، چودہ اور پندرہ ہیں۔(۸)
۷۔ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :’’کان لا یدع صوم أیام البیض فی سفر ولا حضر‘‘۔
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ:’’نبی کریم ﷺایام بیض کے روزے سفر میں ہوں یا حضر میں ہر حال میں رکھا کرتے‘‘۔(۹)
۸ ۔ عن موسٰی بن سلمۃ قال:سألت ابن عباس عن صیام ثلاثۃ أیام البیض، فقال:’’کان عمر یصومہن‘‘۔
موسیٰ بن سلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایام بیض کے تین روزوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ:’’عمر رضی اللہ ان روزوں کو رکھتے تھے‘‘۔(۱۰)
۹۔ عن زر رحمہ اللّٰہ قال:’’کان عبد اللّٰہ یصوم الأیام البیض‘‘۔
زر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایام بیض کے روزے رکھتے تھے‘‘۔ (۱۱)
۱۰۔ عن قتادۃ عن الحسن :’’انہ کان یصوم الأیام البیض‘‘۔
ترجمہ: قتادہ بن دعامہ السدوسی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:’’ کہ حسن بصری رحمہ اللہ ایام بیض کے روزے رکھا کرتے تھے‘‘۔(۱۲)
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سلف صالحین (صحابہ کرام) میں سے عمر بن الخطاب، ابن مسعود اور ابو ذر رضی اللہ عنہم، اور تابعین میں سے حسن بصری اور امام نخعی رحمہم اللہ سے ایام بیض کے روزے رکھنا مروی ہے۔(۱۳)
(۳) ایام بیض کی تحدید اور اس سلسلہ میں راجح مذہب:
اس سلسلہ میں علماء کے کئی اقوال مروی ہیں، حتیٰ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے استاذ عراقی سے ان کی شرح ترمذی سے نقل کرتے ہوئے اس سلسلے میں نو اقوال ذکر کرکے مزید دسواں قول تک ذکر کیا ہے، جس کی تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے اور ذیل میں ان اقوال کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
۱۔ دن کی تحدید کئے بغیر مہینہ میں کبھی بھی تین روزہ رکھنا مستحب اور دن متعین کرنا مکروہ ہے، یہ امام مالک کا مذہب ہے، اسے امام قرطبی نے نقل کیا ہے۔
۲۔ تیرہ، چودہ اور پندرہویں تاریخ کو مستحب ہے، یہ قول اکثر اہل علم (جمہور) کا ہے، یہ قول عمر بن الخطاب، عبد اللہ بن مسعود، ابو ذر رضی اللہ عنہم، اسی طرح ائمہ کرام میں سے امام شافعی، ابن حبیب، اورابو حنیفہ وغیرہ کا ہے رحمہم اللہ جمیعا۔
۳۔ بعض علماء کے نزدیک بارہ، تیرہ اور چودہ کو مستحب ہے۔
۴۔ ہر ماہ کے شروع کے تین دنوں میں مستحب ہے، یہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے۔
۵۔ ہر ماہ کے ابتدائی سنیچر، اتوار اور پیر کو رکھنا ہے پھر دوسرے مہینے کے ابتدائی منگل، بدھ اور جمعرات کا رکھنا مستحب ہے، یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
۶۔ ہر ماہ کے پہلے جمعرات، پھر اگلے پیر اور پھر اگلے جمعرات کو مستحب ہے۔
۷۔ ہر ماہ کے پہلے پیر، پھر اگلے جمعرات اور پھر اگلے پیر کو مستحب ہے۔
۸۔ ہر ماہ کے پہلے دن پھر دسویں دن اور پھر بیسویں دن رکھنا مستحب ہے، یہ قول ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
۹۔ ہر ماہ کے پہلے دن، پھر گیارہویں دن اور پھر بیسویں دن مستحب ہے، یہ ابو اسحاق ابن شعبان مالکی سے مروی ہے۔(۱۴)
امام نووی مجموع شرح المہذب میں بیان کرتے ہیں کہ :
’’ایام بیض ہر ماہ کے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ ہی ہوتی ہے، اور یہی صحیح و مشہور مذہب ہے جس پر علماء قائم ہیں‘‘۔ (۱۵)
اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں ایام بیض کی تحدید کرتے ہوئے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے۔(۱۶)
(۴) ایام بیض کے روزوں کی فضیلت:
۱۔ ایام بیض کا روزہ زندگی بھر کے روزوں کے برابر ہے، ایام بیض کے روزوں کے سلسلے میں نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’صومُ ثلاثةِ أيامٍ مِن كلّ شهرٍ صومُ الدهرِ كلِّه‘‘۔
’’ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لینا اس سے زمانے بھر کے روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے‘‘۔(۱۷)
۲۔ اس سے دل کا وسوسہ، بغض و کینہ اور عداوت و دشمنی ختم ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’أَلا أُخْبِرُكُمْ بما يُذْهِبُ وَحَرَ الصدرِ؟ صومُ ثلاثةِ أيامٍ مِنْ كلِّ شهرٍ‘‘۔
’’کیا میں تمہیں سینہ کے دھوکہ اور وسوسہ کو ختم کر دینے والی چیز کے متعلق نہ بتاؤں ؟ ہر ماہ کے تین روزے رکھنا‘‘۔ (۱۸)
(۵) ایام بیض کے روزوں کا حکم :
ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے مغنی میں ایام بیض کے ان تین روزوں کو مستحب قرار دیا ہے۔(۱۹)
نیز امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے مجموع میں فرمایا کہ ہر مہینے ایام بیض کے تین روزے رکھنا مستحب ہے اور ایام بیض کے روزوں کے مستحب ہونے کے سلسلے میں علماء کا اتفاق ہے۔(۲۰)
اسی طرح امام سمرقندی حنفی اپنی کتاب تحفۃ الفقہاء میں رقمطراز ہیں کہ:
’’ایام بیض کے روزوں کے سلسلہ میں وارد کثرت احادیث اس کے مستحب وسنت ہونے پر دال ہیں‘‘۔(۲۱)
البتہ مالکیہ میں امام مالک رحمہ اللہ سے مروی کراہت کے قول کی بنیاد پر ایام بیض کے روزے مکروہ ہیں ، لیکن بعض علماء مالکیہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے سلسلہ میں عذر پیش کرتے ہوئے ان ایام کے روزوں کو مسنون ومستحب قرار دیا ہے۔ (۲۲)
لہٰذا جمہور فقہاء وعلماء نے ان ایام کے روزوں کو مستحب ومسنون قرار دیا ہے۔
(۶) ایام بیض میں روزے رکھنے کی حکمت :
۱۔ کیونکہ یہ ایام مہینے کے وسط (درمیانی ایام) میں ہیں، اور مہینے کا وسط سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح‘‘میں اور دیگر شراح نے ذکر کیا ہے۔
۲۔ کیونکہ اس دوران اکثر چاند گرہن ہوتا ہے، اور اگر اتفاق سے چاند گرہن ایسے وقت میں ہوجائے جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہو تو ایسے شخص کے لیے خوشی کی بات ہے کہ وہ نماز، روزہ اور صدقہ جیسی عبادات ایک ساتھ ادا کرسکتا ہے، برخلاف اس شخص کے جس نے اس کا روزہ نہیں رکھا ہو تو اسے یہ فرصت نہیں ملتی۔
۳۔ ان میں سے بعض نے ذکر کیا ہے کہ اس کے روزے کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ جب اس کی راتوں میں روشنی پھیل جائے تو اس کے دنوں میں عبادت مناسب ہے۔(۲۳)
۴۔ ان روزوں کی ایک اور حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ ان دنوں میں چڑچڑاپن اور نفسیاتی تناؤ انتہائی حد تک بڑھ جاتا ہے، لہٰذا ان روزوں کو رکھ کر نفس کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔
اللہ رب العزت ہم سبھی کو ان روزوں کو رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)
_________
(۱) فتح الباری شرح صحیح البخاری:۴؍۲۲۶
(۲) المجموع : ۶؍۴۰۹
(۳) متفق علیہ:(البخاری : ۱۹۸۱ ،ومسلم :۱۶۷۲)
(۴) صحیح مسلم :کتاب الصیام، رقم الحدیث ۲۷۴۴
(۵) صحیح مسلم: رقم الحدیث : ۲۷۴۶
(۶)سنن ترمذی: ۷۶۲،صحیح
(۷) متفق علیہ : (البخاری:۱۹۷۶ ،مسلم : ۲۷۲۹)
(۸) سنن النسائی : ۲۴۲۲،وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب :(۱؍۲۵۱)
(۹) رواہ الطبرانی فی الکبیر وحسنہ السیوطی وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع، رقم :۴۸۴۸
(۱۰) أخرجہ الحارث بن أبی أسامۃ فی مسندہ (بغیۃ الباحث :۱؍۲۱۹)۔رواتہ ثقات:’’صحیح‘‘
(۱۱) أخرجہ الطبری فی تہذیب الآثار مسند علی :(۲؍۷۵۷ :ح ۱۲۱۳)’’اسنادہ حسن‘‘
(۱۲) أخرجہ الطبری فی تہذیب الآثار:۱۲۱۷،’’صحیح‘‘
(۱۳) شرح ابن بطال:۴؍۱۲۵
(۱۴) فتح الباری :۴؍۲۲۷،عمدۃ القاری:۹؍۱۶۷
(۱۵) المجموع شرح المہذب: ۶؍۳۸۵
(۱۶) شرح صحیح مسلم للإمام النووی: ۸؍۴۹
(۱۷) أخرجہ:البخاری ۳؍۵۲ (۱۹۷۹)، ومسلم ۳؍۱۶۴ (۱۱۵۹)(۱۸۷)
(۱۸) صحیح الجامع: ۲۶۰۸ وصحیح الترغیب والترہیب: ۱۰۳۶
(۱۹) المغنی لابن قدامۃ:۳؍۵۹
(۲۰) المجموع: ۶؍۳۸۵، وشرح مسلم :۸؍۴۹
(۲۱) تحفۃ الفقہاء للسمرقندی :۱؍۳۴۴
(۲۲) الشرح الکبیر للدردیر :۱؍۵۱۷،والکافی لابن عبد البر :۱؍۱۲۹
(۲۳) حاشیۃ السیوطی علی النسائی : ۳؍۴۵۵
٭٭٭