Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • حیا: صنف نازک کو دیا گیا فطرتی ایک حسین تحفہ

    حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔
    شریعت کی اصطلاح میں :’’حیا‘‘اس خصلت کو کہتے ہیں جو انسان کو قبائح (برائیوں)سے روکنے کا باعث بنے اور کسی حق دار کے حق میں کوتاہی کرنے سے اسے روکے۔
    امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
    ’’حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے‘‘۔
    جبکہ علامہ ابن حجر کے نزدیک حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔
    بلاشبہ حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے اور ارتکاب معاصی میں حائل ہو کر آدمی کو گناہ سے بچاتا ہے۔
    اگر حیا قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی اور اگر حیا کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آجاتی ہے کیونکہ حیا ایمان سے جڑ کر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرتی ہے۔
    قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے
    { فَجَآء َتْهُ اِحْدٰهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْتِحْيَآئٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَـنَا فَلَمَّا جَآئَهٗ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ }
    ’’ اتنے میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی، کہنے لگی:کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں ،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے اب نہ ڈرو تم نے ظالم قوم سے نجات پائی‘‘۔
    [ القصص:۲۵]
    حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ :
    ’’لڑکی کی شرم وحیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیا وحجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لیے شرعاً ناپسندیدہ ہے‘‘۔
    نیز شیخ عبد السلام بھٹوی صاحب کہتے ہیں کہ:
    ’’فَجَآء َتْهُ اِحْدٰ هُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْتِحْيَآء‘‘ٍ: ’’عَلٰي حَيَاء‘‘
    کا معنی ہے حیا کے ساتھ، عَلَی اسْتِحْیَآء میں حروف زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، یعنی بہت حیا کے ساتھ۔
    تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی۔ سبحان اللہ ! وہ خاتون کس قدر باحیا ہو گی جس کے بہت حیا کی شہادت رب العالمین نے دی ہے۔ تَمْشِيْ بِاسْتِحْيَاء کے بجائے تَمْشِيْ عَلَي اسْتِحْيَآء اس لیے فرمایا گویا وہ حیا کی سواری پر سوار ہو کر چلی آ رہی تھی، حیا کی ہر صورت اس کی دسترس میں تھی۔
    ابن ابی حاتم نے عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
    ’’فَجَآء َتْهُ اِحْدٰيهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْتِحْيَآئٍ قَائِلَةٌ بِثَوْبِهَا عَلٰي وَجْهِهَا لَيْسَتْ بِسَلْفَعِ مِنَ النِّسَائِ وَلَّاجَةً، خَرَّاجَةً ‘‘۔
    (طبری ،ابن ابی حاتم )
    ’’وہ نہایت حیا کے ساتھ اپنا کپڑا چہرے پر ڈالے ہوئے آئی، بے باک عورتوں کی طرح نہیں جو بے دھڑک اور بے خوف چلی آتی ہوں، ہر جگہ جا گھستی ہوںہر طرف نکل جاتی ہوں‘‘۔
    ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:’’هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ‘‘اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا :’’ وَ سَنَدُهُ صَحِيْحٌ ‘‘۔ ظاہر یہی ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے، مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں حیا کا مطلب کیا تھا۔ جو لوگ چہرے کے پردے کے قائل نہیں انہیں غور کرنا چاہیے کہ امیر المومنین چہرہ ڈھانکنے کو حیا قرار دے رہے ہیں ۔
    عورتوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ آنے والی لڑکی اس چال ڈھال کے ساتھ چلی کہ قرآن مجید نے قیامت تک اس کی حیا دار چال کا نقشہ محفوظ فرما دیا۔
    اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا:’’اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ ہو پھر جو جی چاہے کر‘‘۔
    [صحیح بخاری :۳۴۸۴]
    حیا کا شرعی مفہوم :
    عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیا کرنے کا حق ہے ، ہم نے عرض کیا:اللہ کے رسول!ہم اللہ سے شرم و حیا کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:حیاکا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیا کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیاکرنے کا حق ہے‘‘۔
    [سنن ترمذی:۲۴۵۸]
    حیا کے فوائد :
    ۱۔ حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا:’’ایمان کے ستر سے اوپر (یا ساٹھ سے اوپر) شعبے (اجزاء ) ہیں۔ سب سے افضل جزء لا الہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز)کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے‘‘۔[مسلم :۳۵]
    ۲۔ حیا نبوت کی میراث میں سے ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیانہ ہو پھر جو جی چاہے کر‘‘۔
    [صحیح بخاری:۳۴۸۴]
    ۳۔ حیا بے حیائی اور بری چیزوں سے روکتی ہے، لہٰذا حیا دار آدمی سب سے پہلے اللہ سے حیا کرتا ہے اس کے بعد لوگوں سے کہ وہ بے حیائی کا ارتکاب کرے اور اللہ تعالیٰ کے محارم کی خلاف ورزی کرے، اور جس شخص میں حیا کم ہوتی ہے وہ گناہوں کے ارتکاب کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔
    ۴۔ حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے، عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
    [متفق علیہ]
    ۵۔ حیا اخلاق کی روح ہے، بلکہ اصل اخلاق ہی حیا ہے، کیونکہ اس کے بعد اخلاق کی کوئی صفت قابلِ عمل نہیں رہتی۔
    ۶۔ حیا رسول اللہ ﷺ کے صفات میں سے ہے، اللہ کا فرمان ہے:
    {يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّآ اَنْ يُّؤْذَنَ لَـكُمْ اِلٰي طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰهُ وَلٰـكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَـدِيْثٍ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَـقِّ}
    ’’اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم بنی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان)حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا‘‘۔
    [الأحزاب:۵۳]

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings