-
’’تقویٰ ‘‘جنت کے لیے زادِ راہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:{وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَيٰ }
’’اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو سب سے بہتر زاد راہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے‘‘۔
[البقرۃ:۱۹۷]
تقویٰ کا لغوی معنیٰ: لغت میں تقویٰ ’’الوقایۃ‘‘یعنی ’’بچنے ‘‘کو کہتے ہیں۔
تقویٰ کی اصطلاحی تعریف: طلق بن حبیب رحمہ اللہ سے جب تقویٰ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:’’تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اجر و ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے اللہ کے نور (ہدایت) کے ساتھ عمل کیا جائے، اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اللہ کے نور (ہدایت) کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کو ترک دیا جائے‘‘۔
[الزہد والرقائق لابن مبارک: ص: ۴۷۳]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴ھ) اپنی تفسیر کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ تو کعب رضی اللہ عنہ نے کہا:کہ کیا آپ کبھی کانٹے دار جھاڑیوں والے راستے سے گزرے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :کہ کیوں نہیں، ابی بن کعب کہنے لگے :تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے :میں کپڑے سمیٹ کر اور کانٹوں سے بچتے ہوئے اس راستہ سے گزرتا ہوں، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا:کہ یہی ’’تقویٰ ‘‘ہے۔
[تفسیر ابن کثیر:۱؍۱۶۴]
اس روایت سے تقویٰ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے، تقویٰ دراصل یہ ہے کہ آدمی اس دنیا میں ہر قسم کے فتنوں سے بچتا ہوا گزر جائے۔
تقویٰ کس چیز کا نام ہے؟ تقویٰ کسی ظاہری وضع قطع کا نام نہیں بلکہ تقویٰ حقیقت میں ایک داخلی کیفیت کا نام ہے اور تقویٰ کا تعلق دل سے ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
’’التقويٰ هاهنا، ويشير إلى صدره ثلاث مرات ‘‘۔
’’تقویٰ یہاں ہے اور آپ ﷺنے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا‘‘۔
[صحیح مسلم :۶۵۴۱]
تقویٰ کی اہمیت : اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی معزز کتاب قرآن مجید میں ایک سے بڑھ کر کئی مقامات پر تقویٰ کا حکم دیا نیز اس کی وصیت فرمائی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ }
’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اللہ سے ڈرو‘‘۔
[النساء:۱۳۱]
امام قرطبی رحمہ اللہ( ۶۷۱ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :’’تقویٰ کا حکم تمام اُمتوں کے لیے عام ہے‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے بھی مختلف مقامات پر تقویٰ اختیار کرنے پر ابھارا نیز اس کی وصیت بھی کی، ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اتق اللّٰه حيثما كنت۔۔۔۔۔‘‘
’’تم جہاں کہیں بھی رہو اللہ سے ڈرو‘‘۔
[رواہ الترمذی وحسنہ الألبانی رحمہ اللّٰہ]
اور اپنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:’’أوصيكم بتقوي اللّٰه ‘‘
’’میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں‘‘۔
[رواہ أبو داؤد والترمزی، وصححہ الألبانی رحمہ اللّٰہ]
” تقویٰ اللہ تعالیٰ کی ولایت (قربت و محبت) حاصل کرنے کا اہم ذریعہ :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ، الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ}
’’سن لو! جو اللہ کے دوست ہیں انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے‘‘۔
[ یونس :۶۲۔۶۳]
نیز ایک دوسرے مقام میں ارشاد فرمایا:
{إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ}
’’اس کے متولی تو وہی ہوسکتے ہیں جو متقی (پرہیزگار) ہوں‘‘۔
[سورۃ الأنفال:۳۴]
متقین کی بعض صفات : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں متقین کی کئی صفات بیان کی ہیں، ہم ان صفات کو پہچان کر اور انہیں اپنا کر متقین کے زمرے میں شامل ہوسکتے ہیں۔
(۱) اقوال و افعال میں سچائی کو لازم پکڑنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ وَالَّذِي جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ }
’’اور جو کوئی سچ بات لایا اور جس نے سچ کی تصدیق کی وہی متقی ہیں‘‘۔
[ الزمر:۳۳]
(۲) اللہ تعالیٰ کے شعائر و مناسک کی تعظیم کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَي الْقُلُوبِ }
’’حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے پرہیزگار ہونے کا ثبوت ہے‘‘۔
[ الحج:۳۲]
(۳) حکم و معاملات میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلّٰهِ شُهَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَيٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَيٰ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ}
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔
[ المائدہ:۸]
(۴) انبیاء ، صادقین و مصلحین کی اتباع کرنا اور انہی کے نقشِ قدم پر چلنا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ }
’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘۔
[التوبہ :۱۱۹]
تقویٰ اختیار کرنے میں معاون امور:
(۱) اللہ تعالیٰ سے تقویٰ طلب کرنا۔
نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے کثرت سے تقویٰ طلب کیا کرتے تھے۔
آپ ﷺ کی دعاؤں میں سے ہے :
’’اللهم آت نفسي تقواها، وزكها انت خير من زكاها، انت وليها ومولاها ‘‘۔
’’اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا کر، اسے (برائیوں سے) پاک کر دے، تو ہی بہترین پاک کرنے والا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم :۲۷۲۲]
اور نبی کریم ﷺ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے:
’’اللهم إني اسالك الهديٰ والتقيٰ والعفاف والغنيٰ ‘‘۔
’’اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اور (دل کی) غنیٰ مانگتا ہوں‘‘۔
[صحیح مسلم :۶۹۰۴]
(۲) دل کی اصلاح کرنے والے اعمال کو اختیار کرنا۔
عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’تقویٰ کی شروعات نیک نیتی سے ہوتی ہے‘‘۔
[حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :۴؍۲۵۰]
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :’’تقویٰ یہ ہے کہ خود کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھا جائے‘‘۔
[تفسیر البغوی:۱؍ ۶۰]
(۳) ظاہری اعمال کی اصلاح۔
اور یہ نبی کریم ﷺ کی سنت کی موافقت سے ممکن ہے۔
اسی طرح صبر، نفس کا محاسبہ، حیا، بردباری، نفل روزے کا اہتمام، اور حلال رزق وغیرہ تقویٰ کے حصول میں معاون و مددگار ہیں۔
تقویٰ کے بعض فوائد و ثمرات:
(۱) جنت میں دخول اور جہنم سے نجات۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا}
’’یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے بناتے ہیں جو متقی ہو‘‘۔
[ مریم :۶۳]
. (۲) اللہ تعالیٰ کی نظر میں عزت و تکریم۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللّٰهِ أَتْقَاكُم}
’’یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔
[الحجرات:۱۳]
(۳) دنیا و آخرت میں سعادت کا حصول۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ،الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ، لَهُمُ الْبُشْرَيٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّٰهِ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}
’’سن لو! جو اللہ کے دوست ہیں انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے، ان کے لیے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔
[یونس :۶۲-۶۴]
(۴) حق بات کی طرف ہدایت ورہنمائی، گناہوں کا کفارہ اور اللہ تعالی کا فضل حاصل ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{يٰأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ}
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہارے لیے (حق و باطل میں) فرق کرنے کی بڑی قوت بنادے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے‘‘۔
[ الأنفال: ۲۹]
(۵) رزق میں فراخی و کشادگی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَن يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا‘‘۔
[ الطلاق:۲۔۳]
(۶) معاملات میں آسانی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَن يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا }
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا‘‘۔
[الطلاق:۴]
(۷) برکت کا حصول۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَيٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ}
’’اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور بچ کر چلتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے بہت سی برکتیں کھول دیتے‘‘۔
[الأعراف:۹۶]
(۸) حفظ وامان، اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد، اور بہترین انجام۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{إِنَّ الْأَرْضَ لِلّٰهِ يُورِثُهَا مَن يَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ }
[الأعراف:۱۲۸]
’’بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے‘‘۔
(۹) بہترین عوض و بدلہ۔
ابوقتادہ اور ابودھماء رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم ایک دیہاتی آدمی کے پاس پہنچے اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے وہ باتیں سکھانا شروع کردیں جو اللہ نے انہیں سکھائی تھیں اور فرمایاَ:
’’إنك لن تدع شيئا للّٰه عز وجل، إلا بدلك اللّٰه به ما هو خير لك منه‘‘۔
[مسند احمد:۲۳۰۷۴، اسنادہ صحیح]
’’تم جس چیز کو بھی اللہ کے خوف سے چھوڑ دو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا‘‘۔
(مستفاد : التربیۃ الإسلامیۃ (أعمال القلوب)
خلاصہ: تقویٰ ہی دنیا و آخرت میں راہ نجات ہے، اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، تقویٰ گناہوں اور فتنوں سے بچنے کا ڈھال ہے۔ الغرض ’’تقویٰ‘‘اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا اس فرمان کے مصداق ہے
{وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَيٰ }
[البقرۃ :۱۹۷]