-
عصر حاضر میں سیرت النبیﷺکے دراسہ کی بڑھتی اہمیت اور بعض انفرادی و اجتماعی تقاضے (ہندوستان میں اہانت رسولﷺکے تناظر میں)
رسول اللہ ﷺکی سیرت مبارکہ تمام انسانیت کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص اسوہ ونمونہ ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:{ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ }
’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود)ہے‘‘۔
[الاحزاب :۲۱]
اور بحیثیت مسلمان نبی کریم ﷺکی سیرت مبارکہ کو جاننا ہمارے لیے واجب وضروری ہے، کیونکہ اسلامی شریعت کے تمام احکام نبی کریم ﷺسے جڑے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ کلمۂ شہادت میں توحید کے بعد جس چیز کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہے رسالت، جس کے اقرار و تصدیق کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، لہٰذا اسی رسالت کا اقرار کرنا، اس کے حقوق ادا کرنا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، یعنی آپ ﷺنے جن باتوں کا حکم دیا ہے اس میں آپ ﷺکی اطاعت کی جائے، جن باتوں کی خبر دی ہے اس کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے روکا یا تنبیہ کیا ہے اس سے اجتناب کیا جائے، جیسا کہ قرآن میں ہے:
{ وَمَآ اٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا }
’’اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ‘‘۔
[الحشر:۷]
اور اللہ کی عبادت آپ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہی کی جائے، آپ سے محبت کی جائے اور آپ کی محبت کو اللہ کے بعد تمام لوگوں کی محبت پر مقدم کیا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔
[سنن ابن ماجۃ:۶۷،صحیح]
یعنی تمام لوگوں بلکہ خود سے بڑھ کر آپ سے محبت کی جائے اور جمیع امور میں آپ ﷺکی اتباع و پیروی کی جائے اور حقیقی معنوں میں محب بھی وہی ہوتا ہے جو اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا ہے۔
بقول شاعر:
لَوكانَ حبُّكَ صادقًا لأطعته إنَّ المُحبَّ لمنْ يحبُّ مُطيعُ
لہٰذا حقیقی محبت، اعتقاداً قولاً وعملاً اطاعت رسول کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور اطاعت رسول درحقیقت اطاعت الہٰی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : { مَن يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ }
’’کہ جس نے نبی کریم ﷺکی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی‘‘۔
[النساء:۸۰]
چنانچہ جس نبی کریم ﷺکی ہمیں اتباع و اطاعت کا حکم دیا گیا، اور جس نبی کریم ﷺکو ہمارے لیے اسوہ قرار دیا گیا، ہم اس وقت تک ان کی حقیقی اطاعت نہیں کرسکتے اور نہ اسوہ کو اپنا سکتے ہیں جب تک کہ ان کی سیرت طیبہ کا دراسہ نہ کرلیں، اور نبی کریم ﷺکی سیرت چار مراتب پر مشتمل ہے، جس کا دراسہ ہر ایک مسلمان کو کرنا چاہیے :
(۱) پہلا نبی کریم ﷺکی ذاتی سیرت طیبہ ہے، جس میں بطور سوانح و عِبر آپ کی ولادت سے موت تک کی ساری زندگی کا دراسہ شامل ہے۔
(۲) دوسرا شمائل نبی ہے، جس میں نبی کریم ﷺکی خَلقی وخُلقی احوال کا دراسہ ہے۔
(۳) تیسرا خصائص نبی ہے، جس میں ان امور پر دراسہ ہے جو نبی کریم ﷺکی ذات مبارکہ کے لیے خاص ہیں۔
(۴) اور چوتھا مرتبہ دلائل ومعجزات نبی ہے، جس میں نبی کریم ﷺسے متعلق وارد قولی وعملی معجزات کا دراسہ ہے جس کو سن پڑھ کر ایک مسلمان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور ایک غیر مسلم سچے دل سے قبول اسلام کی طرف مائل ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺکی سیرت کے چاروں مراتب ہمارے لیے اسوہ و بابرکت ہیں، ان کے طور طریقوں کو اپنا کر ہم دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
شیخنا المربی و طبیب القلوب دکتور عبد الرزاق البدر حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’آپﷺکی سیرت مبارکہ کے دراسہ میں بے شمار فوائد ہیں جن سے اس کے دراسہ کی اہمیت درج ذیل صورتوں سے واضح ہوتی ہے :
(۱) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکو پوری امت کے لیے اسوہ وقدوہ بنایا ہے، خواہ وہ عقیدہ میں ہو، یا عبادت میں یا اخلاق میں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:{ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا }
’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ(ﷺ) میں عمدہ نمونہ (موجود)ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے‘‘۔
[الاحزاب:۲۱]
(۲) نبی کریم ﷺکی سیرت اور ان کا منہج ایک ایسا پیمانہ ہے جس کے ذریعے اعمال کو پرکھا جاتا ہے، جو اعمال ان کے طریقے اور سیرت کے مطابق ہوں وہ قبول کئے جائیں گے، اور جو ان کے طریقے اور سیرت کے مطابق نہ ہوں وہ رد کردیئے جائیں گے۔
(۳) نبی کریمﷺ کی سیرت نبویہ کے دراسہ سے قرآن کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ آپﷺکی زندگی قرآن کی عملی تفسیر ہے، جیسا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺکے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:’’ نبی کریم ﷺکا اخلاق قرآن کریم تھا‘‘۔
[صحیح الجامع:۴۸۱۱،صحیح]
(۴) ایک مسلمان کے لیے نبی کریم ﷺکی محبت سب سے زیادہ اہم ہونی چاہیے، سیرت نبوی کے دراسہ سے آپ ﷺکے لیے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
(۵) سیرت نبوی کے دراسہ سے ایمان میں زیادتی و مضبوطی پیدا ہوتی ہے :
{اَمْ لَمْ يَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَه مُنْكِرُوْنَ}
’’یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں‘‘۔
[المومنون:۶۹]
(۶) سیرت کا دراسہ دین کو مکمل طور پر سمجھنے میں مددگار ہے، جس میں عقیدہ، عبادت اور اخلاق سب شامل ہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺکی پوری زندگی دین کے لیے کام کرنے، اس کی طرف دعوت دینے، دین کے لیے قربانی دینے اور کلمہ حق کی دعوت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے میں گزری۔
آپ ﷺنے اپنی دعوت کا آغاز عقیدہ اور توحید کی دعوت سے کیا اور کئی سال تک صرف اسی کی دعوت دیتے رہے، اس کے بعد فرائض اور احکام آہستہ آہستہ نازل ہوئے۔
(۷) سیرت میں اللہ کی طرف دعوت دینے کے صحیح طریقے کی تعلیم ہے، جو لوگ حقیقی معنوں میں اللہ کی طرف بلاتے ہیں، وہی نبی کریمﷺکی زندگی، ان کے طریقے اور ان کی سیرت کو حقیقی معنوں میں سمجھتے ہیں، جیسا کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے : {قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَي اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ }
’’آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے، میں اور پیروکار اللہ کی طرف بلارہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ‘‘۔
[یوسف:۱۰۸]
(۸) نبی ﷺکی سیرت ان کی نبوت کی اور ان کے سچائی کی بذات خود ایک نشانی ہے، ان کا زندگی جینے کا طریقہ، ان کی دعوت، ان کا لوگوں سے برتاؤ، ان کی ہدایات اور ان کے اخلاق سب ان کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں، ان کی سیرت میں خیر، عطا، اخلاق، ادب، اور سخاوت کی بھرپور مثالیں ملتی ہیں۔
(۹) نبی کریم ﷺکی سیرت کا مطالعہ سعادت و کامیابی کے دروازوں میں سے ایک عظیم اور بابرکت دروازہ ہے، بلکہ یہ سعادت نبی ﷺکے طریقے کو جاننے پر منحصر ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہاں سے تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کو رسول کی معرفت اور جو کچھ وہ لائے ہیں، ان کی تصدیق اور ان کے احکام کی اطاعت کی کتنی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی اور فلاح کا کوئی راستہ و طریقہ نہیں سوائے رسولوں کے ذریعے، اور بندے کی دونوں جہانوں کی سعادت نبی ﷺکی پیروی پر منحصر ہے‘‘۔
[زاد المعاد فی ھدی خیر العباد:۱؍۶۹]
شیخ عبد الرزاق حفظہ اللہ کی بات یہاں پر ختم ہوتی ہے۔[شرح کتاب الفصول فی سیرۃ الرسول: ص: ۲]
ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’بے شک محمد ﷺکی سیرت پر جو بھی غور کرے گا، تو وہ پائے گا کہ ان کی سیرت ان کے سچے ہونے کی گواہی دیتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں، اگر ان کی سیرت کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور معجزہ نہ ہوتا تو بھی یہ کافی ہوتا‘‘۔
[الفصل فی الملل والأہواء والنحل :۲؍۹۰]
آپ ﷺکی سیرت مبارکہ اور اس کے مطالعہ کی طرف رہنمائی کا مقصد یہ ہے کہ جیسا کہ حالیہ ایام میں ہی ایک گستاخ رسول نے نبی کریمﷺکی شان میں گستاخی کی، اور خبروں کے مطابق اس کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ان حالات میں ایک مسلمان اور مربیان نونہالان امت پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسے بتانا بے حد ضروری ہے، اور انبیاء و رسل کے ساتھ گستاخی واہانت واستہزاء کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ پہلے سے بھی چلتے آرہا ہے، جس کی تفصیل قرآن میں پڑھی جاسکتی ہے آپ ﷺکو کیا کیا نہیں کہا گیا، بلکہ آپﷺسے قبل دیگر انبیاء کو بھی یہ باتیں کہی گئیں۔
نبی کریم ﷺکی اہانت اور گستاخی دور نبوی ہی سے صدی در صدی ہوتی آرہی ہے لیکن اللہ رب العالمین نے ہر اس شخص سے بدلہ لیا جس نے بھی نبی کریم ﷺکی اہانت وگستاخی کی۔
مشرکین مکہ میں سے ابو جہل، ابو لہب، نضر بن حارث، عقبہ بن ابی معیط، عبد اللہ بن خطل، حویرث بن نقید، مقیس بن صبابہ وغیرہم، وہ لوگ ہیں جو اہانت رسول ﷺکی پاداش میں واصل جہنم ہوئے۔
اور یہودیوں میں کعب بن اشرف، ابو رافع، ابو عفک، وغیرہم نے جب نبی کریم ﷺکی اہانت کی تو وہ بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں عقاب الہٰی کے مستحق ٹھہرے۔
اور جب خسرو پرویز نے نبی کریم ﷺکی گستاخی کی تو اللہ تعالیٰ نے اسی کے بیٹے سے اس کو انجام تک پہنچادیا۔
پھر گستاخی کا سلسلہ دور بنو امیہ میں ایک عیسائی پادری کی جانب سے ابھرا تو اموی گورنر نے اس فتنہ کا سر کچلا۔
پھر دور عباسی میں اندلس میں یہ فتنہ اٹھا تو وہاں بھی اس کی سرکوبی کی گئی۔
پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے دور میں ایک عیسائی کمانڈر نے اہانت کی جسارت کی تو وہ بھی جنہم واصل ہوا۔
اسی طرح ہندوستان میں خبیث راج پال نے بدنام زمانہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ لکھا تو فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے اس کا جواب’’مقدس رسول‘‘کے نام سے دیا، اور پھر کچھ ایام بعد وہ خبیث گستاخ رسول اپنے انجام کو پہنچا۔
اسی دور میں ہندوستان میں نتھورام نامی شخص نے ’’تاریخ اسلام‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں اس نے نبی کریم ﷺپر گھناؤنے اتہامات لگائے اور علانیہ نبی کریم ﷺکی اہانت کرنے لگا تو اس کو بھی اس کے حقیقی انجام تک پہنچا دیا گیا۔
چنانچہ یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں اتنا طول پکڑا کہ اب آئے دن گستاخیٔ رسول کی خبریں ملتی رہتی ہیں، ۲۰۰۲ء میں جرمنی میں، پھر ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک ڈنمارک میں، اسی طرح امریکہ نے ۲۰۰۷ء میں، پھر ۲۰۲۰ء میں فرانسیسی صدر یہ کوششیں کرچکے ہیں، اور ۲۰۰۷ء ہی میں سویڈن کے لارس ویلکس جب اہانت رسول کا مرتکب ہوا تو اس کو اسی وقت سے دو پولیس اہلکار اس کی حفاظت کے لیے حکومتی طور پر متعین کئے گئے، اور پھر تین سال قبل ۲۰۲۱ء میںاس گستاخ رسول کی روڈ ایکسیڈنٹ میں بھیانک موت ہوئی۔
پھر یہ فتنہ حالیہ بیتے سالوں میں ہندوستان میں روہت سردھانا، نوپر شرما اور نرسمہا راؤ جیسے لوگوں نے بھڑکایا جو آج سوشل میڈیا پر آگ کی شکل میں پھیل کر ہر مسلمان کے دل کو جلارہا ہے۔
الغرض کہ تاریخ گواہ ہے کہ گستاخان رسول اس دنیا ہی میں عبرت کا نشان بن جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺسے وعدہ کر رکھا ہے کہ:{ إِنَّا كَفَيْنَـٰكَ الْمُسْتَهْزِئِيْنَ }
’’آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔
[الحجر:۹۵]
اور گستاخان رسول کو اپنے اس قول سے خبردار کیا ہے کہ:{ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَا لْأَبْتَرُ }
’’یقیناً آپ کا دشمن ہی لا وارث اور بینام و نشان ہے‘‘۔
[الکوثر:۳]
ان گستاخیوں کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکی شان رسالت کی بلندی کا بھی وعدہ کر رکھا ہے: { وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ } ’’ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا‘‘۔[الشرح:۴]
نیز اللہ نے آپ ﷺکی نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے:{ إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ }
’’اگر تم ان (نبی کریم ﷺ)کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے ان کی مدد کی ہے‘‘۔
[التوبۃ:۴۰]
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ومتبعین اپنے نبی ﷺکے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہمیں خالص کتاب وسنت (فہم سلف کے مطابق) پر عمل کرنا ہوگا، کیونکہ مسلمانوں کی موجودگی میں گستاخیٔ رسول کے عام ہونے کا بنیادی سبب ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کو کمزور سمجھا جارہا ہے، اور مسلمانوں کی اصل قوت تو ایمانی قوت ہے جس کے صرف مظاہر سے ہی باطل دم توڑنے لگتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ:
{ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ }
’’تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایماندار ہو‘‘۔
[آل عمران:۱۳۹]
ان حالات میں ہم مسلمانوں کے لیے کرنے کے اہم کام:
(۱) ہم تمام کو اپنے نفس سے آغاز کرنا ہوگا کہ ہم نے جس نبی کریم ﷺکا کلمہ رسالت پڑھا ہے ان کی اتباع واطاعت کریں گے، شرک وبدعات اور تقلید ومعصیت سے دور رہیں گے۔
(۲) ہر گھر میں نمازوں کی پابندی، تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺکی سیرت کا دراسہ ہو، اور تطبیقاً یومیہ سنتوں کو زندہ کرنے کی کوشش کریں، جیسے کہ نوافل وتہجد کا اہتمام، پیر و جمعرات کے روزے، ایام بیض کے روزے، گھریلو کاموں کی سنتیں وغیرہ۔
(۳) نبی کریم ﷺکی سیرت پر ہر مسجد میں دروس و خطابات رکھے جائیں، جس میں نبی کریم ﷺکی عظمت، محاسن، اور حقوق بیان کئے جائیں اور سنت وبدعت کی پہچان کروائی جائے، تاکہ ہر مسلمان سنت وبدعت میں تمیز کرسکے، نیز نبی کریم ﷺکے اخلاق بالتفصیل بیان کئے جائیں اور نبی کریم ﷺکا تعامل کس کے ساتھ کیسا رہا وہ بھی بتایا جائے۔
(۴) نبی کریم ﷺکے محاسن وفضائل (بالخصوص نبی کریم ﷺکا تعامل غیر مسلموں کے ساتھ)کو ہندوستانی زبانوں میں اور بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کرکے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر حتی المقدور نشر کئے جائیں، جس میں آخر میں ان تمام غیر مسلم دانشوروں کے معتمد اقوال بھی مذکور ہوں جنہوں نے نبی ﷺکی تعریف کی ہے۔
(۵) شرعی مدارس وجامعات میں نبی کریم ﷺکی سیرت تو پڑھائی جاتی ہے لیکن شبہات حول الرسولﷺکا دراسہ شاید کروایا جاتا ہو، چنانچہ نبی کریم ﷺکی سیرت پر یہود ونصاریٰ، کفار ومشرکین اور مستشرقین وملحدین کی جانب سے ہونے والے تمام اعتراضات وشبہات کے علمی وعقلی جوابات ان طلبہ کو بتائے جائیں تاکہ وہ معاشرہ میں (بوقت اعتراض) غیر مسلموں کو احسن طریقے سے جواب دے سکیں۔
(۶) ان تمام عربی مواد کا ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے جو دفاع نبی کریم ﷺ پر لکھی یا بولی گئی ہیں، اور ان کو مسلمانوں میں تقسیم ونشر کیا جائے تاکہ ہر مسلمان علمی طور پر اتنا پختہ ہو کہ دفاع نبی کا حق ادا کرسکے۔
(۷) ملک میں کسی بھی وقت گستاخیٔ رسول ہونے کی صورت میں ہنگامہ کے بجائے مسلمانوں کو گستاخ رسول پر قانونی کاروائی کی رہنمائی کی جائے، کیونکہ مصالح و مفاسد کے اعتبار سے ملکی صورت حال کا یہی تقاضہ ہے، اور اس سلسلہ میں میڈیا کا صحیح طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے ایسے ہیش ٹیگ چلائے جائیں کہ اس گستاخ رسول کو سزا دینے پر نہ صرف ملک کے معتدل مزاج کبار لوگوں کا بلکہ بین الاقوامی سطح سے بھی دباؤ رہے اور اس گستاخ پر قانونی کاروائی ہو۔
(۸) کسی بھی وقت عموماً اور گستاخیٔ رسول کے فتنہ کے وقت خصوصاً مسلمانوں کو بھی سمجھایا جائے کہ وہ سوشل میڈیا ہو یا عوام کے سامنے غیر مسلموں کے دینی ومذہبی شعائر کو برا بھلا نہ کہیں، کیونکہ اس سے مزید فتنے رونما ہو سکتے ہیں اور وہ بھی رد عمل میں دین اسلام کے شعائر مقدسہ کو برا بھلا کہیں گے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس سے سختی سے منع کیا ہے۔
(۹) مسلمان سیاسی رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں بار بار اس مقدمے کو بیان کریں تاکہ حکومت نبیﷺکی عدم اہانت پر بالخصوص ایک قانون بنائے اور سب گستاخان رسول حدِّ ادب میں رہ سکیں۔
(۱۰) اور اخیر میں نصیحت ہے کہ ہم تمام علم نافع کے ساتھ عمل صالح کرتے ہوئے لوگوں میں دعوت دین اور اصلاح کا کام بھی انجام دیتے رہیں، اور اس موڑ میں آنے والے جمیع مصائب وآلام پر صبر کریں، اور زیادہ سے زیادہ دعا کریں کہ :
{ عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَة لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ، وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ }
’’ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا، اے ہمارے رب !ہم کو ان ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافر لوگوں سے نجات دے‘‘۔
[یونس:۸۵۔۸۶]
کیونکہ انہی امور سے امت کی بقاہے، یہی اصل منہج ہے اور یہی نبی کریم ﷺکی حقیقی تابعداری ہے۔وما علینا الا البلاغ المبین
٭٭٭