-
فتنۂ ارتداد: اسباب اور اس کا انجام رضوان اللہ عبد الروف سراجی(مدرس:مر کز الامام البخاری تلولی)
محترم قارئین! اللہ کے رسولﷺنے ہمیں بہت پہلے اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ: ’’إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي اَثَرَةً وَاُمُورًا تُنْكِرُوْنَهَاقَالُوْا: فَمَا تَاْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَال: اَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللّٰهَ حَقَّكُمْ ‘‘
’’عنقریب تم میرے بعد ایسی نشانیاں اور ایسے امور دیکھو گے جسے تم منکر سمجھو گے لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !پھرآپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟فرمایا :تم لوگوں کو ان کا حق دے دواور اپنا حق اللہ سے ما نگو‘‘۔
[صحیح بخاری:۷۰۵۲]
نبی ﷺکی یہ بات صحیح ثابت ہو ئی ،آج امت بے شمار فتنوں کا سامنا کر رہی ہے ، بر وقت امت محمدیہ جس بڑے فتنے کا سامنا کررہی ہے وہ ’’فتنہ ٔ ارتداد‘‘ ہے، آج امت مسلمہ کے افراد فتنۂ ارتداد کا شکار ہیں ،ابھی کچھ دنوں پہلے روزنامہ ممبئی اردو نیوز میں یہ خبر شائع ہو ئی کہ مدھیہ پردیش میں ۳۰مسلمانوں نے ہندو دھرم اپنایا ۔
پھر اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد ۱۰؍ جولائی ۲۰۲۴ء کو یہ خبر بھی آئی کہ پونہ میں ایک شادی شدہ عورت ایک غیر مسلم کے جھانسے میں آگئی اور اس سے جب وہ حاملہ ہو گئی تو اسقاط حمل کا ارادہ بنایا اور اسقاط حمل کے دوران اس کی موت ہو گئی ، ملز م نے وہ لاش لا کر دریا میں پھینک دیا، چونکہ اس عورت کے دو بچے تھے ، یہ حالت دیکھ بچوں سے نہ رہا گیا ،بنا بریں وہ رونے لگے تو ملزم نے انہیںبھی دریا میں پھینک دیا۔
اور ابھی مئوناتھ بھنجن میں ۱۹؍جولا ئی ۲۰۲۴ء کو ایک مسلم عورت نے ایک غیر مسلم سے کورٹ میرج کیاجیسا کہ واٹس اپ اور اخباروں کے ذریعہ یہ خبر موصول ہو ئی ۔
اب سوال یہ ہے کہ آخرمسلم اقوام اس فتنے کا شکار کیوں ہورہی ہیں ؟کیوں مسلم لڑکیاں ساری حقیقتیں جانتے ہو ئے غیر مسلموں کا شکار ہو جاتی ہیں ؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اسلام دھرم ہی سب سے پیارا اور محبوب دھرم ہے ؟ کیا یہ نہیں جانتی ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر جھکانا اور دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنا شرک ہے ؟ کیا انہیں یہ بات نہیں معلوم ہے کہ اگر اسی حالت میں ان کی موت ہو گئی تو اللہ کے یہاں معافی نہیں ہے ؟ انہیں سب کچھ معلوم ہے لیکن اس کے باوجود یہ کیسے ان درندوں کا نشانہ بن جاتی ہیں ؟
غور و خوض کے بعد پتہ چلا کہ اس کے کئی اسبا ب ہیں ، مندرجہ ذیل سطور میں چنداسباب پیش خدمت ہیں:
٭صحیح تربیت کا فقدان: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تئیں کچھ ذمہ داریاں بھی دی ہیں ، اگر ہم نے ان ذمہ داریوں کا حق ادا نہ کیا تو ہم سے پوچھ تاچھ ہوگی ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ يَااَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَا اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُوْمَرُوْنَ}
ترجمہ: ’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر اس پر بڑے تند خو بہت سخت دل فرشتے مامور ہیں ،اللہ ان کو جو حکم دے گا وہ فرشتے اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا انہیں حکم دیا جائے گا‘‘۔
[التحریم:۶]
اور نبی ﷺنے فرمایا:
’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالاَمِيْرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰي اَهْلِ بَيْتِهِ، وَالمَرْاَةُ رَاعِيَةٌ عَلٰي بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘۔
ترجمہ : ’’تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ امیر (حاکم) ہے، مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا‘‘۔
[صحیح بخاری:۵۲۰۰،صحیح مسلم :۱۸۲۹]
مذکورہ آیت و حدیث میں اللہ اور اس کے رسولﷺنے اہل و عیال کے تعلق سے گارجین کو چوکنا رہنے کی تاکید کی ہے،بحیثیت باپ اپنی اولاد کو دین کے راستے پر ڈالنا ہماری ذمہ داری ہے،یہ مت سمجھو کہ ان کے حوالے سے ہماری ذمہ داری صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی حد تک ہے بلکہ ایک مومن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالے سے ہماراپہلا فرض یہ ہے کہ ہم انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کریں،اس کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کریں جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ ،اللہ کا تقویٰ اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ ہمارے ساتھ ساتھ وہ بھی جہنم کی آگ سے بچ جائیں اور اس کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا چاہیے،ڈرا کر،سمجھا کر، پیار سے، دھمکی سے، مار سے جس طرح بھی بن پڑے انہیں اس راہ پر لانے کی کوشش کریں،ہاں مار کے سلسلے میں انسانیت کا خیال رہے ،ایسی مار نہ ماری جائے کہ بچہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے یا شدید چوٹ آجا ئے جو اس کے لیے کسی صدمہ کا سبب بن جا ئے ۔
مذکورہ آیت کی تفسیر میں شیخ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’ ووقاية الانفس بإلزامها امر اللّٰه، والقيام بامره امتثالا ونهيه اجتنابًا، والتوبة عما يسخط اللّٰه ويوجب العذاب، ووقاية الاهل (والاولاد)بتاديبهم وتعليمهم، وإجبارهم على امر اللّٰه، فلا يسلم العبد إلا إذا قام بما امر اللّٰه به فى نفسه، وفيما يدخل تحت ولايته من الزوجات والاولاد وغيرهم ممن هو تحت ولايته وتصرفه‘‘۔
ترجمہ : ’’نفس کو بچانا یہ ہے کہ اس سے اطاعت کا، اللہ تعالیٰ کے اوامر کا، اس کے نواہی سے اجتناب کا اور ایسے امور سے توبہ کا التزام کر ایا جائے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور جو عذاب کے موجب ہیں،اہل و عیال کو بچانا یہ ہے کہ ان کوعلم و ادب سکھایا جائے اور ان کواللہ کے احکام کی تعمیل پر مجبور کیا جائے، پس بندہ صرف اسی وقت محفوظ ہوتا ہے جب وہ اپنے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں جو اس کی سرپرستی میں اور اس کے تصرف میں ہوں اللہ کے اوامر کی تعمیل کرتا ہے‘‘۔
[تیسیر الکریم الرحمٰن]
اس لیے ما ں باپ بچوں کی تربیت میں سستی نہ کریں بلکہ ان کی صحیح تربیت کریں ،دین کا کو ئی شوشہ نہ چھوٹنے پائے،انہیں وہی کام بتائیں جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں مفید ہوتاکہ ان کا فرض پورا ہو اور بچہ راہ راست پر آجا ئے حتیٰ کہ خود ان کے سامنے وہی کام کریں جو ان کی تربیت میں معاون و ممد ثابت ہو ۔
٭دین سے دوری : نا دانی کا عالم یہ ہے کہ اگر کو ئی مسئلہ ہو جا ئے تو عوام سب سے پہلے علماء کو قصور وار ٹھہراتی ہے جب کہ یہ بالکل غلط ہے ،صحیح بات یہ ہے کہ اکثرگھروں میں دین داری نہیں ہوتی ،ماں باپ دین سے نا بلد اور دورہوتے ہیں ،گھر میں ٹی وی ہے ،بچوں کے ساتھ ماں باپ بھی فلم دیکھتے ہیں ،پردے کا جنازہ نکل چکا ہے ،پر کشش لباس پہن کر لڑکیاں بے پردہ باہر جاتی ہیں لیکن ماں باپ کی زبان پر ذرہ برابر افہام و تفہیم کا جملہ نہیں آتا ہے،ماں باپ ہر کام کے تئیں بچوں کو ڈانٹتے ہیں لیکن نماز یا دین کے کسی مسئلے پربو لنا تک گوارہ نہیں ،امام صاحب نے کیا غلطی کیا ؟ انہیں معلوم ہے ،علماء سے کہاں کہاں چوک ہوتی ہے ؟اس پر ان کی نظریں ہوتی ہیں لیکن اپنے بچے کیا کر رہے ہیںاورکیا کرنا چاہئے ؟ اس پر ان کی نظریں نہیں ہوا کرتیں ۔
کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ اس میں ماں باپ کا کوئی قصور نہیں ،یہ بچوں کی غلطیاں ہیں ،ماں باپ نے یہ کہا ںکہا کہ تم اپنا دین بدل لو ؟ کسی غیر مسلم سے شادی کر لو؟کیا ماں باپ نے بچوں کو اس کی تعلیم دیا یاانہیں اس پر مجبور کیا؟نہیں،اس لیے ماں باپ کو قصور وار ٹھہرانا صحیح نہیں ہے ۔
یہ بات بھی غلط ہے کیوں کہ آپ نے بچوں کا جو حق تھاوہ نہیں دیاجس کی وجہ سے بچے بے راہ روی کا شکار ہوگئے، ہاں! اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بچے بڑے تھے،سمجھ دار تھے ، انہیںیہ نا دانی نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن آپ نے انہیں کہاں اس سوچ کا حامل بنایا کہ وہ ایسا سوچتے ،مدرسے جہاں سے دینی تعلیم کی صدا بلند ہوتی ہے ،جہاں پہ بچوں کے دل و دماغ کو جلا ملتی ہے ،جہاں پہ بچو ںکوانسانیت کا درس دیا جاتا ہے، وہاں داخلہ دینے کے بجا ئے آپ نے کا لج اوراسکولوںمیں داخلہ دلا دیا ،جہاں بچے بچیاں سب مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ،جہاں انسانیت نہیں بلکہ بے حیا ئی و فحاشی عام ہو تی ہے ، جہاں بچوں کا مستقبل برباد ہوتا ہے ،بچوں کو جہاں چاہا اکیلا بھیج دیا،جبکہ اسلام کہتا ہے کہ کہیں بھیجنا ہو توبچی کو اکیلا نہ بھیجیں بلکہ کو ئی محرم یا خود ساتھ میں ہوں کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَاَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْاَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ‘‘۔
ترجمہ : ’’کو ئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ ہوالا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو اور کو ئی عورت بلا محرم سفر نہ کرے‘‘۔
[صحیح مسلم :۱۳۴۱]
اور بچی جب ہوس پرستوں کا شکار ہو گئی تو اپنا دامن جھاڑلیاکہ ہم بے قصور ہیں ،ساری غلطی بچوں کی ہے حالانکہ اس میں ماں باپ برابر کے مجرم ہیں ۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے دین دار بنیں ،اس طرح کے چکر میں پھنس کر اپنی عاقبت تباہ نہ کریں تو پہلے اپنے آپ کو دین دار بنا ئیں ،ان مقامات سے خود کو دور رکھیں جہاں پہ جانا عذاب الہٰی کو دعوت دینا ہے ،بچو ںکے سامنے صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم اور سلف رحمہم اللہ کے سبق آموز واقعات بیان کریں تاکہ ان کے اندر شوق پیدا ہو اور سلف کی تاریخ سے وہ استفادہ کریں ۔
٭بے جا آزادی : اسی تربیت ہی کا ایک حصہ بے جا آزادی ہے ،بچوں کو گھومنے کا موقع دیا جا ئے ،انہیں بچپن ہی سے ذمہ داریوں کا احساس دلایا جا ئے ،ان سے کام لیا جا ئے ،پر ایسا نہ ہو کہ انہیں بے لگام چھوڑ دیا جا ئے کہ اب تم جو چاہو کرو اور جہاں چاہو جا ؤ کیوں کہ اگر بچہ اتنی کھلی آزادی پا ئے گا تو در اصل یہی اس کے بگاڑ کا راستہ بنے گا ،وہ یہ سمجھ لے گا کہ اب ہمارے ماں باپ کو میرے او پر پورا بھرو سہ ہے ،میںجو چاہوں کروں کو ئی پوچھنے والا نہیں ۔
اب ذرا غور کرو کہ ماں باپ نے موبائل دے دیا ہے کہ کہیں کو ئی مسئلہ در پیش ہو تو کم از کم بچہ ہمیں آگاہ کر دے گا اور ہم وہاں پہنچ کر اس کی پریشانی کا حل نکا ل لیں گے لیکن اکثر والدین کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ کبھی کبھار بچے کا مو بائل چیک کر لیں کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟وہ کس سے بات کرتے ہیں ؟یا کہیں اپنے آپ سے جاتے ہیںتو لا ؤ تفتیش کرلیا جائے کہ وہ کہاں جاتے ہیں ؟کس کے پاس جاتے ہیں ؟کیا کرتے ہیں؟ماں باپ کے توجہ نہ دینے کی وجہ سے بچہ اس آزادی کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے، نتیجہ الگ الگ فتنوں کی شکل میں سامنے آتا ہے جس کی ایک مثال یہ ارتداد کا فتنہ بھی ہے ۔
٭دینی تعلیم سے دوری: چونکہ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا لڑکا یا لڑکی ڈاکٹر بن جا ئے ،انجینئر بن جائے ، کوئی بڑا تاجر بن جا ئے جس سے نہ صرف یہ کہ ان کا نام روشن ہو بلکہ ان کا بیٹا بھی نام کما ئے اور دور دور تک اس کا شہرہ ہو ،اسی لیے گارجین اپنے بچوں کو کالجوں ،یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں ۔
جہاں تک بات ہے لوگوں کے اس سوچ کی تو کو ئی غلط نہیں ہے ،ہر انسان کی سوچ اونچی ہو نی چاہئے ،اسلام نے علم کے حصول سے روکا نہیں ہے لیکن اس سے پہلے کہ آپ کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر یا کچھ اور بنے کم از کم دین کا اتنا علم ضرور حاصل کرلے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکو پہچان سکے ،نماز ، روزہ ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی کر سکے ،قرابت داروں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرسکے ،صحیح وغلط میں تمیز کر سکے ،انہیں اس بات کا علم ہو جا ئے کہ اللہ کس قول یا فعل پر ناراض اور کس پر راضی ہوا کرتا ہے،اگر وقت کی قلت ہو رہی ہو تو الگ سے دینی تعلیم کے لیے کو ئی راستہ اپنایا جا ئے تاکہ شیطانی ہتھکنڈوں سے بچ سکیں اورجب دشمنان اسلام کا گروپ انہیں اپنے دام فریب میں لے کر گمراہی کی طرف لے جانے کی کوشش کرے تو وہ اپنا بچاؤ کر سکیں،اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلٰي كُلِّ مُسْلِمٍ‘‘۔ ترجمہ :’’علم (دین )کاحاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ‘‘۔ [سنن ابن ماجۃ :۲۲۴]
یہاں مسلم کہہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تعلیم صرف مردوں کے لیے ہے بلکہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیںیعنی علم کا حاصل کرنا مردو عورت سب پرضروری ہے اور اسی طرح فرض ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسلمان مرد و عورت کا عالم بن جانا ضروری ہے بلکہ یہاں اللہ کے رسول ﷺکا کہنایہ ہے کہ کم از کم دین کے بنیادی اصول سے بچہ آگاہ ہو جا ئے ،کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکے تاکہ گمراہی سے بچ جا ئے ۔
کیوں کہ ایک انسان جب دینی تعلیم سے آشنا ہوتا ہے تو اس کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے ،وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور جب اللہ کا خوف کسی کے دل میں آجاتا ہے تو وہ گناہوں سے دور رہتا ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے علماء کی تعریف کرتے ہو ئے فرمایا:{ إِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء}
ترجمہ : ’’اللہ سے تو اس کے بندوں میں صرف وہی ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں‘‘۔
[فاطر:۲۸]
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اَلْعَالِمُ مَن خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ، وَرَغِبَ فِيمَا رَغِبَ اللّٰهُ فِيهِ، وَزَهِدَ فِيمَا سَخِطَ اللّٰهُ فِيهِ، ثُمَّ تَلَا الْحَسَنُ: {إِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللّٰهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
ترجمہ : ’’ عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرتا ہو ،اس چیزکی رغبت رکھے جس کی اللہ نے ترغیب دلائی ہے اور اس چیزسے دوری اختیار کرے جس سے اللہ ناراض ہو تا ہے، پھر حسن بصری رحمہ اللہ نے اسی آیت کی تلاوت کیا‘‘۔
[تفسیر ابن کثیر:۵؍۸۲]
گویا دین کا اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کو جان لے ،دین کی بنیادی باتوں سے آگاہ ہو جا ئے لیکن آج مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ اپنے بچوں کو دین کی تعلیم نہ دے کر دنیوی تعلیم سے آشنا کرنے میں لگا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ ڈا کٹر بن جاتا ہے ،انجینئر بن جا تاہے لیکن اگر اس سے دین کا ایک مسئلہ پوچھ لیا جائے تو جواب دینے سے معذور ہوتا ہے،فلمی ادا کاروں کا نام ،کرکٹر کا نام یا کسی بڑے تاجر وغیرہ کانام اگر بچے سے پوچھ لو تو فوراً جواب دیتا ہے لیکن خلفاء راشدین کا نام ،عشرئہ مبشرہ کا نام پوچھ لو تو بچہ بغلیں جھانکنا شروع کردیتا ہے کیوں کہ ماں باپ نے اسے وہ نہیں سکھایا جب کہ پہلے وہی سکھانا ضروری تھا ،ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ عصر ی تعلیم حاصل نہ کرو بلکہ جو بھی بن سکو بنو پر دین کااتنا علم ضرور حاصل کر لو کہ تمہارے دشمنوں کا حربہ تمہارے او پر نہ چل سکے ۔
٭مخلوط تعلیم : اسلام نے مخلوط نظام تعلیم سے منع کیا ہے،اب یہاںایسا کو ئی ہرگز نہ سوچے کہ اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کیا ہے بلکہ حصول علم پر اسلام نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ،خود اللہ کے رسول ﷺنے عورتوں کی تعلیم کے لیے جمعرات کا دن مقرر کیا تھا ،اس کے علاوہ اماں عائشہ ،ام سلمہ اور حفصہ رضی اللہ عنہن سے بڑے بڑے صحابہ اور خود خلفاء راشدین حسب ضرورت آکر علم حاصل کیا کرتے ،مسئلے معلوم کرتے تھے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے لیکن ہر ایک کا اپنا ایک دائرہ ہوتا ہے ،صحابیات رضی اللہ عنہن سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آمنے سامنے آکر نہیںبلکہ پردے کی آڑ سے علم حاصل کرتے تھے اور مخلوط تعلیم میں سب آمنے سامنے ہوا کرتے ہیںجو بے حیائی کا شاخسانہ ہے اور اسلام نے نہ صرف یہ کہ بے حیائی سے منع کیا ہے بلکہ بے حیائی کے مقامات سے بھی روکا ہے اورمخلوط نظام تعلیم بے حیائی کا ایک مقام ہے ا س لیے یہ ناجائز ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ اللہ کے رسول ﷺپر وحی کا نزول ہورہا ہے اور اس وقت پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی ،اس وقت عورتوں کو تعلیم دینا بہت ضروری تھا لیکن آپ ﷺنے کبھی بھی صحابیات رضی اللہ عنہن کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغرض تعلیم ضم نہیں کیا حتیٰ کہ جب عورتوں نے مطالبہ کیا تو آپ ﷺنے ان کے لیے ایک دن الگ مقرر کردیاحا لانکہ آپﷺکہہ سکتے تھے کہ تم بھی ان کے ساتھ آکر علم حاصل کر لو اور وہ وقت دعوتی کام میں صرف ہو جا ئے گا۔
نبیﷺکے عہد میں خواتین کے پاس صرف نابالغ بچوں کو جانے کی اجازت ہوتی تھی ، جومردو عورت سے بالکل نا واقف ہوتے تھے ،جب وہ بچے بلوغت کو پہنچ جاتے تو انہیں عورتوں کے پاس جانے سے منع کر دیا جاتا تھا،ان دلیلوں سے پتہ چلا کہ مخلوط نظام تعلیم درست نہیں ہے ۔
یہ جو فتنۂ ارتداد سامنے آیا ہے در اصل اسی مخلوط تعلیم کا نتیجہ ہے ،مخلوط تعلیم کے نظام نے لڑکوں اور لڑکیوں میں بے حیا ئی کا وہ طوفان برپا کیا کہ سب فتنۂ ارتداد کا شکار ہو گئے ،عشق و معاشقہ کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے کہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی اپنے معشوق کو پانے کے لیے خود کو تباہ و برباد کرلیتے ہیں ،ماں باپ چھوٹ جا ئیں،بھا ئی بہن کا ناطہ ٹوٹ جا ئے چلے گا ، گھر بک جا ئے چلے گا حتیٰ کہ لڑکا جیل چلا جا ئے ،مارا جا ئے سب چلے گا پر شادی اسے اسی لڑکی سے کرنی ہے اور یہی معاملہ لڑکی کا بھی ہے جب کہ مسلمانوں کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :{ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّٰي يُوْمِنَّ وَلَاَمَةٌ مُوْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰي يُوْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُوْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ اَعْجَبَكُمْ اُولٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَي النَّارِ وَاللّٰهُ يَدْعُو إِلَي الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ }
ترجمہ : ’’اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرمارہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘۔
[البقرۃ:۲۲۱]
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر صحابیا ت رضی اللہ عنہن نے عمل کرکے دکھایا بھی ،ذرا ام سلیم رضی اللہ عنہا کے واقعے کا جائزہ لو کہ جب انہوں نے اپنے شوہر کو اسلام کی خاطر الگ کردیا ،انہوں نے اپنے شوہر کو اسلام لانے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تووہ اپنے بچے انس کو لے کر الگ ہو گئیں لیکن اسلام سے الگ نہ ہوئیں اور انہیں جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے خِطبہ (نکاح کا پیغام) دیا تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اسلام کی شرط لگادی حتیٰ کہ یہ کہا کہ میرا مہر یہی اسلام ہوگا ۔
٭وقت پر شادی نہ کرنا: شادی ایک فطری چیز ہے کیوں کہ یہ نسل کی افزائش کا سبب ہے ،شادی انبیاء کی سنت ہے ، خود نبیﷺنے شادی کی اور شادی کے تئیں اپنی امت کو ترغیب دلایا، چونکہ مردو عورت کے اندر فطری طور سے اللہ نے ایک دوسرے کے تئیں میلان کا جذبہ رکھا ہے اور اس جذبے کو پورا کرنے کے لیے اسلام نے شادی کی ترغیب دی ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :’’يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاء َةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاء ٌ‘‘۔
ترجمہ : ’’اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لے اور جو اس کی استطاعت نہیں رکھتا ہے اس پر روزہ ہے کیوں کہ وہ اس کے لیے ڈھال ہے ‘‘۔
[صحیح بخاری:۵۰۶۵،صحیح مسلم:۱۴۰۰]
اور جہاں اسلام نے شادی کی ترغیب دلائی وہیں شادی کے حوالے سے عمر کی تعیین بھی کردیا کہ بلوغت کو پہنچتے ہی ماں باپ بچے کی شادی کر دیا کریں کیوں کہ اگر نہیں کیا اور بچہ یا بچی نے کو ئی غلطی کر دی تو اس کے ذمہ دار ماں باپ بھی مانے جا ئیں گے ۔
لیکن بے جا اسباب و وجوہات کی بنا پر آج ماں باپ شادیاں کرنے میں کافی تاخیر کر جا تے ہیں خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ، حالانکہ عمر کے ہوتے ہی ان کی جنسی خواہش انہیں ابھارنے لگتی ہے اور ایسی صورت میں انہیں ایک ساتھی کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور شادی نہ ہونے کی بنا پروہ غیروں کو (چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم )ساتھی بنا لیتے ہیں اور اس سے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ،اس طرح سے معاشرہ بے حیا ئی کی آماجگاہ بن جاتا ہے حتیٰ کہ پیار میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ اپنا دین و دھرم تک بدل لیتے ہیں، اگر وقت پر شادی ہو جا تی تو انہیں کسی یار دوست کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور نہ ایسا کرتے ۔
٭پردے کا اہتمام نہ کرنا : فتنۂ ارتداد کا ایک اہم سبب بے پردگی ہے اور پردے میں بہت ساری چیزیں داخل ہیں ، ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچی کو بچپن ہی سے گھر میں رہنے کی تاکید کریں ،انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے قرآن کا حوالہ دے کر سمجھا ئیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گھر میں رہنے کی تاکید کی ہے، جیسا کہ فرمایا : { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُولٰي }
ترجمہ :’’اپنے گھروں کو لازم پکڑواور دور جا ہلیت کی طرح بنا ؤ سنگار کا اظہار نہ کرو ‘‘۔
[الاحزاب:۳۳]
ہاں حسب ضرورت گھر سے باہر جا سکتی ہو لیکن بناؤ سنگھار کر کے یا ایسے انداز سے جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو مت نکلو ،جیسے بے پردہ ہو کر جس سے تمہارا سر ،چہرہ ،بازو اور سینہ وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے، بلکہ بغیر خوشبو لگائے، سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو، تبرج بے پردگی اور زیب وزینت کے اظہار کو کہتے ہیں، قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج دور جاہلیت کا عمل ہے جو اسلام سے پہلے تھا اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گاتو یہ جاہلیت ہی ہوگی ،اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ،چاہے اس کا نام کتناہی خوش نما دل فریب رکھ لیا جائے۔(تیسیر القرآن )
ان تمام کی رعایت ہمارے معاشرے میں نہیں پا ئی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکیاں غیروں کا شکار ہو جایا کرتی ہیں ،غیروں کے جھانسے میں آکر خود اپنا منہ کا لا کرلیتی ہیں اور اپنے ساتھ اپنے ماں باپ بھا ئی بہن اور دیگر قرابت داروں کا سر بھی نیچا کردیا کرتی ہیں ۔
٭غلط صحبت : اسلام نے دوستی سے نہیں روکا ہے پر دوستی کے حوالے سے رہنما ئی کیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺنے فر مایا:’’ اَلرَّجُلُ عَلٰي دِيْنِ خَلِيْلِهِ، فَلْيَنْظُرْ اَحَدُكُمْ مَنْ يُّخَالِلُ‘‘۔
ترجمہ:’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے‘‘۔
[جامع الترمذی :۲۳۷۸]
مذکورہ روایت میں اللہ کے رسولﷺنے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ دوستی سے پہلے سامنے والے کو جانچ لو جس سے تم دوستی کر رہے ہو ،وہ کیسا ہے ؟اس کا اخلاق کیسا ہے ؟وہ تمہارے ہی دین پر عمل کرنے والا ہے یا کسی اور دین کا رسیا ہے؟اس سے دوستی کر کے تمہارا فائدہ ہے یا نقصان؟ کیوں کہ ممکن ہے تمہاری دوستی تمہارے لیے سم قاتل ثابت ہو اور اس کا اثر تمہارے دل و دماغ پر اس قدر ہو جا ئے کہ تم اپنا دین ہی بدلنے پر آجا ؤ اور اس طرف ماں باپ کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچہ کسی غلط بچے کی صحبت میں نہ پڑے،کتنی مثالیں ہیں کہ ایک انسان دوستی کرتا ہے اور دوستی میں اس قدر پاگل ہوجاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکو بھول جاتا ہے ،اس کا دوست گناہ کے کام کی طرف لے جاتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس میں گناہ ہے ،اس کام سے اللہ نا راض ہوتا ہے لیکن دوستی میں وہ گناہ کر بیٹھتا ہے اورپونہ کا واقعہ اسی کی ایک مثال د ہے ،دھرم تبدیل کرنے کا ایک اہم سبب دوستی ہے۔
٭مغربی تہذیب سے متاثر ہونا : ایک اہم سبب مغربی تہذیب سے متاثر ہونا ہے ،یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ دنیا اسلام اور اہل اسلام کے پیچھے پڑی ہے کہ انہیں سرے سے نیست و نا بود کردیا جا ئے ،مٹا دیاجا ئے ،ان کا خاتمہ کردیا جائے،اور اس کے لیے انہوں نے طاقت و قوت کا بھی استعمال کیا لیکن انہیں شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا،اور انہیں پتہ چل گیا کہ ہم اہل اسلام سے طاقت و قوت کے بل بوتے نہیں جیت سکتے ہیں تو فکری یلغار کیا ،ہر غلط کو صحیح بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہو ئے ،لڑکیوں کو چست لباس اور جنس پہنایا ،خوبصورت اور پر کشش کپڑوں سے مزین کیا ،اسلام نے نا خن کاٹنے کا حکم دیاہے لیکن انہوں نے نا خن بڑا رکھنے کو خوبصورتی کا نام دیا ، اسلام نے انہیں بن سنور کر نکلنے سے منع کیا اور کہا کہ اگر حسب ضرورت نکلو تو پردے میں نکلو لیکن مغربی تہذیب نے پردے کو بودہ اور بکواس قرار دے کرآزادی نسواں کا نعرہ لگایا اور انہیں میک اپ کرکے ،بن سنور کر نکلنے پر ابھارا ،نتیجہ یہ نکلا کہ بے حیائیوں نے انہیں غیروںکے دامن میں لا کھڑا کیا ،یہ اعلان کیا کہ دین دھرم کیا ہو تا ہے سب انسان ہیں ؟جس سے چاہو اس سے شادی کرو ،کو ئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ،اتنا سننا تھا کہ کتنے مسلمان لڑکے غیر مسلم لڑکیوںسے شادی کرکے زندگی گزارتے ہیں اور کتنی مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکو ں سے شادی رچا لی ہے،گرل فرینڈاور بوائے فرینڈ کا ہوا کھڑا کردیاتو لڑکے اور لڑکیاں ان سے دوستی کرنے لگے جن سے ان کا دور دور تک کا کو ئی واسطہ نہیں تھا۔
ارتداد کا نقصان: ارتداد کا نقصان کیا ہے ؟اگر ایک انسان دین اسلام سے بر گشتہ ہو گیا تو اس کی بابت اسلام نے کیا کہا ہے ؟ویسے اسلام کا حکم تو قتل کا ہے لیکن ملک ہندوستان میں ہو نہیں سکتا کیوں کہ اسلامی حکومت نہیں ہے تو انسان کیا کرے ؟حسب استطاعت اقدام کرے ،کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}
ترجمہ:’’حسب استطاعت اللہ سے ڈرو‘‘۔
[التغابن :۱۶]
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نقائص ہیں ،اگربحالت مجبوری یہاں سزا نہ مل سکی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہم بچ گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اور بھی وعیدیں سنایا ہے جن کا تذکرہ مندرجہ ذیل سطور میں ملاحظہ کریں ۔
٭مرتدین کی ساری نیکیاں تباہ و برباد ہوجا ئیں گی اور ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہو جا ئے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاُولٰئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ }
ترجمہ: ’’اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں پھر اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیاوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے، یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے‘‘ ۔
[البقرۃ:۲۱۷]
مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ فَيَمُتْ وَهُوَ كافِرٌ يُفِيدُ اَنَّ عَمَلَ مَنِ ارْتَدَّ إِنَّمَا يَبْطُلُ إِذَا مَاتَ عَلَي الْكُفْرِ‘‘
’’فَيَمُتْ وَهُوَ كافِرٌ‘‘‘ کا مطلب ہے کہ اگر وہ کفر پر انتقال کر جا ئے جو مرتد ہوا ہے تو اس کا عمل باطل ہو جا ئے گا۔
[فتح القدیر بتفسیر سورۃ البقرۃ:۲۱۷]
اورایک دوسرے مقام پر فرمایا : { وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
ترجمہ : ’’منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہیں‘‘۔
[المائدۃ:۵]
٭مرتد کو نہ تو ہدایت ملے گی اور نہ اس کی مغفرت ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ آمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا }
ترجمہ : ’’جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور پھرگئے پھر ایمان لا کر پھر کفر کیاپھر اپنے کفر میں بڑھ گئے اللہ یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا‘‘۔
[ النساء:۱۳۷]
یہ بات در اصل یہودیوں کی بابت کہی گئی ہے لیکن مرتدین پر بھی پوری طرح سے فٹ آتی ہے کیوں کہ وہ بھی در حقیقت مرتد ہی ہو ئے تھے ۔
٭اللہ تعالیٰ انہیں مٹا دے گا اور ان کے مقام پر دوسروں کو لے آئے گا۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے : { يَااَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهُ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُوْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكَافِرِيْنَ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُوْتِيْهِ مَنْ يَّشَائُ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ }
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرجائے تو اللہ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے‘‘۔
[المائدۃ :۵۴]
٭ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی بلکہ ان کے کفر میں اضافہ ہوگا اور ان کا شمار گمراہو ںمیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَاُولٰئِكَ هُمُ الضَّالُّوْنَ }
ترجمہ : ’’بیشک جو لوگ اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی یہی گمراہ لوگ ہیں‘‘۔
[آل عمران:۹۰]
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو فتنۂ ارتداد سے بچا ئے اور تا حیات اسلام پہ قائم رکھے نیز خاتمہ بھی اسی اسلام ہی پر کرے ۔آمین
٭٭٭